اخلاق منتظرین
موضوع: شکر اور ناشکری
استاد مہدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب
قرآن مجید میں سورہ یونس کی آیت نمبر21 اور بعد کی آیات میں پروردگار عالم نے انسان کی ناشکری کی جانب واضح انداز میں اشارہ فرمایا۔
رب العزت فرما رہا ہے۔
” اور جب تکلیف پہنچنے کے بعد ہم نے لوگوں کو ذرا رحمت کا مزہ چکھا دیا تو فوراً ہماری آیتوں میں مکاری کرنے لگے۔ تو آپ کہہ دیجئے کہ خدا تم سے تیز تر تدبیریں کرنے والا ہے اور ہمارے نمائندے تمھارے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں۔”
اور پھر آیت نمبر 22 میں فرماتا ہے کہ
“وہ خدا وہ ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں سیر کراتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں تھے اور پاکیزہ ہوائیں چلیں اور سارے مسافر خوش ہو گئے تو اچانک ایک تیز ہوا چل گئی اور موجوں نے ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا اور یہ خیال پیدا ہو گیا کہ چاروں طرف سے گھر گئے ہیں تو دین خالص کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے لگے کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو ہم یقیناً شکر گزاروں میں ہو جائیں گے۔ ”
پھر آیت نمبر 23 میں ارشاد فرمایا:
” اس کے بعد جب اس نے نجات دے دی تو زمین میں ناحق ظلم کرنے لگے ” انسانوں ! یاد رکھو تمہارا ظلم تمہارے ہی خلاف ہو گا یہ صرف چند روزہ زندگی کا مزہ ہے اس کے بعد تم سب کی بازگشت ہماری ہی طرف ہو گی اور پھر ہم تمھیں بتائیں گے کہ تم دنیا میں کیا کر رہے تھے۔ ”
انسان کی فطرت میں ایک خصلت ہلاکت کی جانب لے جانے والی ہے۔ وہ یہی انسان کی ناشکری ہے۔
اس حوالے سے بہت سی روایات ہیں۔
پیغمبرؐ فرماتے ہیں : انسان کی یہ عادت ہے کہ جو اس کو نعمتیں ملیں ہوئی ہیں (یاد نہیں)اور جو نہیں ملی انہیں کا شکوہ کرتا ہے۔
ہمارے پاس اتنی نعمتیں ہیں کہ شمار نہیں کر سکتے اور جو ایک چیز ہمارے پاس نہیں ہم اسی کو لے کر بیٹھے رہتے ہیں یہاں تک کہ خودکشی تک پہنچ جاتے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ پروردگار عالم نے ہمیں کتنی نعمات عطافرمائیں۔ یہ صحیح ہے کہ دنیا فقط دارالقرار نہیں بلکہ دار البلاء بھی ہے۔ یہ حقیقیت دنیا ہے اس میں کبھی آسائش ہے کبھی مشکل کبھی خوشی ہے کبھی غم ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ مومن کے لیے دنیا قید خانہ ہے۔ اور یہاں ہمیں صبر کا حکم دیا گیا۔ اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو جائز طریقے سے احتجاج کرنا چاہیے اور اسے دور کرنا چاہیے۔
لیکن اگر دور نہیں ہو رہی تو پھر صبر کریں کیونکہ اس کا اجر ہے۔ لیکن خدا کی بارگاہ میں ناراضگی اور ناشکری کرنا اور ایک دوسرے کے حق میں بددعا اور نفرین نہ کریں اور ہلاکت کی منزل تک نہیں پہنچنا چاہیے۔
انسان اگر اپنے پاس دیگر نعمتوں کا مشاہدہ کرے تو پھر اسے یہ مشکل ھیچ نظر آئے۔
یعنی اپنے سے کم کو دیکھے۔ ایک شخص کو اگر مالی مجبوری ہے لیکن اس کا جسم سالم ہے۔
ایسے مریض ہیں جن کے پاس بے پناہ دولت ہے لیکن وہ صحت کو ترس رہے ہیں۔
اگر ہم معذور افراد کو دیکھیں تو معلوم ہو کہ ہم پر کتنا کرم ہے۔ اور اگر کوئی معذور ہو تو اپنے اردگرد دیکھے کہ کتنے اچھے رشتے ہیں جو اس کا خیال رکھتے ہیں۔
وہ اپنے سے نیچے والے افراد کو دیکھے کہ جن کا کوئی خیال رکھنے والا نہیں۔
بعض مرتبہ پروردگار عالم اپنے مخلص لوگوں کو آزماتا بھی ہے۔ ایسے بھی لوگ دیکھے گئے ہیں کہ جو معذور تھے اور ان کا خیال کرنے والا بھی نہ ہوتا تھا پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے تھے کہ پروردگار عالم نے ان کو زندگی سے نوازا تاکہ نیکی کر سکیں اور اس کا شکر ادا کر سکیں۔
اسی حالت میں اللہ کی عبادت کریں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوگی کہ سانس آرہی ہے اور ہم اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔اور آخرت سنوار رہےہیں۔
_پروردگار عالم نے یہ شکوہ کیا کہ تم میری نعمتوں کو چھپاتے ہو اور اس کا ذکر نہیں کرتے لیکن مصیبتوں کو ظاہر کرتے ہو اور ناشکری کرتے ہو۔_
_ایک جگہ پر اللہ نے واضح طور پر فرمایا کہ یابن آدم ؑ تم میرے ساتھ انصاف کے ساتھ کیوں نہیں چلتے”_
_میں تو تمھارے ساتھ نعمتیں دے کر محبت کرتا ہوں ۔ لیکن تم اپنے گناہوں کے ساتھ سرکشی کرتے ہو۔_
اگر ہم روز اپنے گناہ گنیں تو شمار نہیں کر سکتے۔ ایسے کتنے ہی گناہ ہیں جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں چل رہا ہوتا۔ مثلاً غیبت ، عیب جوئی، حقوق الوالدین، حقوق العباد، عبادات میں کوتاہی۔
پروردگار عالم فرماتا ہے کہ میں نے تو تیرے لیے خیر عطا کی لیکن تو ہے, جو شر لے کر میری جانب پلٹنا ہے۔
اور بعض لوگ تو بدتر ہیں جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں استعمال کر رہے ہیں۔
نعمات پروردگار جو اللہ نے سعادت کے لیے عطا کی اپنی فرمابرداری کے لیے عطا کی ہم اسے نافرمانی میں استعمال کرتے ہیں
مثلاً رزق، حسن ، جسم، اور معصوم لوگوں کو گناہ سے آلودہ کر دینا۔
پروردگار عالم فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کفر کرتے ہیں۔
امام حسینؑ کا ایک بہت ہی خوبصورت فرمان ہے:
“بعض مرتبہ جو لوگ آپ کے محتاج ہوتے ہیں اور آپ سے مدد طلب کرتے ہیں تو یہ بھی نعمات پروردگار سے ہے۔ اب وہ مدد مالی ہے گفتار میں ہے یا کردار میں ہے۔”
ہر مشکل کا حل پیسہ نہیں بلکہ بعض مشکلات کا حل رویوں سے بھی ہے۔
فرماتے ہیں کہ: ان نعمتوں سے کبھی بھی رنجیدہ نہ ہوں ورنہ یہ نعمتیں سزاؤں میں بدل جاتی ہیں۔
ایک روایت ہے کہ ایران کے ایک مشہور عالم جو اول انقلاب میں ہی انتقال کر گئے۔ ان کا نام جناب کافی تھا۔ وہ مختلف جگہوں پر تقریر کرنے جاتے تھےتو لوگ انہیں خمس و زکوۃکے پیسے دیتے تھے کہ جب بھی آپ کو کوئی مستحق نظر آئے تو اسے دے دیں ۔ تو وہ اپنی خاص جیب میں ڈال لیتے تھے اور جب بھی کوئی مستحق ان کو نظر آتا تھا تو اس کو دے دیتے تھے۔ حتی کہ ان کے گھر لوگوں کا شب و روز آنا جانا ہو گیا۔ اور ضرورت مند اپنی حاجت طلب کرتے تھے۔
جب لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ کسی کے پاس کچھ ہے اور وہ دیتا ہے تو لوگ اس کی جانب توجہ کر لیتے ہیں۔
اب یہ تھوڑا تھوڑا تنگ پڑنے لگے ۔ ایک روز یہ مجلس پڑھ کر آئے تو کسی نے رات دو بجے ان کے دروازے پر دستک دی۔ جب باہر آئے تو برا حال تھا نیند و تھکاوٹ تھی۔ تو اس نے اپنی حاجت طلب کی۔ میں فلاں مقام سے آیا ہوں میرے گھر میں مصیبت ہے۔ اگر کوئی خمس و زکوۃ ہے تو دے دیں۔ انہوں نے کہا ٹھہرو میں دیتا ہوں ۔ اب اپنے کمرے کی طرف گئے جب پیسے نکالے تو دل ہی دل میں کڑھنے لگے کہ کیا مصیبت ہے نہ دن کو آرام ہے نہ رات کو۔ جب دے چکے لیکن عالم یہ تھا کہ بیزار تھے۔ لیکن جب دوبارہ سوئے تو خواب میں امام زمانہؑ کی زیارت کی۔
مولا ؑ نے فرمایا اے کافی اگر تو تھک گیا ہے تو پریشان نہ ہو ۔ یہ جو میرا مال ہے تیرے پاس اس کی ذمہ داری کسی اور کو دے دیتا ہوں ۔جیسے ہی یہ بیدار ہوئے رونے لگے کہ میں کتنا ناشکری کر رہا تھا کہ امام کی جانب سے ذمہ داری تھی کتنی بڑی نعمت تھی حجت وقت کی جانب سے ڈیوٹی تھی پھر انہوں نے گریہ وزاری اور توسل کیا کہ مولاؑ اس ذمہ داری سے مجھے محروم نہ کیجئے۔
اس نعمت کے بہت بڑے فوائد ہیں ایک تو پروردگار اپنے سلسلہ مدد میں آپ کو شامل فرما لیتا ہے۔ اور الہیٰ کاموں میں ڈیوٹی دیتا ہے۔
اور دوسر ا فائدہ یہ کہ ہمارے کتنے ہی گناہ جھڑ جاتے ہیں اور تیسرا یہ ہے کہ خدا نے ہمیں دینے والا بنایا ہے مانگنے والا نہیں۔
یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
قرآن میں رب العزت فرماتا ہے کہ تم میری نعمتوں کا شمار نہیں کرسکتے۔ تو ہم کب شب و روز نعمات الہیٰ کا شکر ادا کریں گے ؟؟؟
کہ پروردگارا تیرا شکر ہے۔
ترتیب و پیشکش: سعدیہ شہباز