اخلاق منتظرین
دوسروں کا مذاق اڑانا اور اسکے برے نتائج
استاد مہدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ
قرآن مجید میں پروردگار سورہ مومنون آیت نمبر 109 اور 110 میں اپنے دو قسم کے بندوں کا ذکر کر رہا ہے
اِنَّهٝ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِىْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَـمْنَا وَاَنْتَ خَيْـرُ الرَّاحِـمِيْنَ (109
میرے بندوں میں سے ایک گروہ تھا جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اور ان کے مد مقابل کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ پروردگار عالم فرماتا ہے کہ :
فَاتَّخَذْتُمُوْهُـمْ سِخْرِيًّا حَتّــٰٓى اَنْسَوْكُمْ ذِكْرِىْ وَكُنْتُـمْ مِّنْـهُـمْ تَضْحَكُـوْنَ (110
سو تم نے ان کی ہنسی اڑائی یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں میری یاد بھی بھلا دی اور تم ان سے ہنسی ہی کرتے رہے۔
ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے عیب کو موضوع بنا کر مذاق بناتے ہیں دوسروں کی توہین کرتے ہیں اور ہمیشہ اسی درپے رہتے ہیں کہ کسی شخص کا عیب ڈھونڈ کر مذاق بنایا جائے ۔
ایک ہنسنا تو یہ ہے کہ کسی محفل میں کوئی لطیفہ سنایا جائے اور سب ہنس پڑیں۔ *یہ شرعاً جائز ہے* ۔ لیکن اگر رشتہ داروں ہمسایوں یا جاننے والوں میں سے کسی ایک شخص کو ٹارگٹ بنایا جائے اور اس کا کوئی عیب ڈھونڈ کر موضوع بنا کر ہنسا جائے تو یہ اہل ایمان اور اہل انتظار کی صفات میں سے نہیں بلکہ یہ دشمنان اہل ایمان کی خصلت ہے۔
رسولؐ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ نے مومن کو اپنی عظمت جلال اور قدرت سے خلق کیا ہے تو اگر کوئی کسی مومن کو طعنہ مارے تو اس نے گویا خدا کو رد کیا۔
جیسے کسی مومن کا قد چھوٹا ہے یا بہت بڑا ہے یا کسی کا رنگ سیاہ ہے یا اس کے والد اور والدہ نے فلاں کام کیا تھا۔ یعنی اس کے بارے میں اسے طعنہ مارنا جو کام اس نے نہیں کیا تھا۔ گویا ایسا ہے جیسے خدا کو رد کیا گیا۔
استغفراللہ
رسولؐ خدا کی زوجہ ام المونین بی بی صفیہ کو عائشہ اور حفظہ ہمیں طعنہ دیتی تھی اے یہودی کی بیٹی یعنی ان کا مذاق اڑاتی تھی۔ اے یہودیہ لڑکی۔ بی بی صفیہ کا بہت بڑے خاندان سے تعلق تھا۔ انہوں نے نبی ؐ اکرم کی بارگاہ میں شکایت کی تو رسول ؐ خدا نے فرمایا۔ آپ ان کو کیوں نہیں جواب دیتی تو انہوں نے کہا یا نبی ؐ اللہ میں ان کو کیا جواب دوں ۔
فرمایا تم کہو کہ میرے والد ہارون پیغمبر خدا کی نسل سے ہیں۔ اور میرے چچا موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور میرے شوہر رسوؐل اللہ ہیں۔
پس کیوں میرا مذاق اڑاتی ہو۔
یہاں ایک سبق ہے کہ اگر کوئی کسی کا مذاق اڑائے تو اس کے مد مقابل ایک بہترین منتطقی انداز سے جواب دو۔ تاکہ اگر مدمقابل میں کوئی عقل یا بصیرت ہے تو وہ آپ کے جواب سے عقل اور عبرت لے اور سمجھ جائے اور سکوت اختیار کرے۔
لیکن اگر مدمقابل حیوان بن چکا ہے تو پھر مومن کو چاہیے کہ صبر کرے۔
یعنی جب انسان صبر کرتا ہے تو پروردگارفرماتا ہے کہ:
اِنِّـىْ جَزَيْتُهُـمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَـرُوٓا اَنَّـهُـمْ هُـمُ الْفَآئِزُوْنَ (111
آج میں نے انہیں ان کے صبر کا بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہوئے۔
یعنی جو صبر کرتے ہیں وہ روز محشر کامیاب ہیں اور ان کے مد مقابل سزا پائیں گے۔
رسولؐ خدا فرماتے تھے کہ
اگر کسی کا قد چھوٹا ہے تو اسے خاص نام سے نہ پکارو یہ خلق خدا کی تخلیق کا مذاق اڑاناہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں
کہ وہ گناہ جو دنیا اور آخرت میں انسان پر عذاب کا باعث ہیں ان میں سے ایک یہی ہیں۔
یعنی خدا کی جان بوجھ کر نافرمانی اور دوسرا لوگوں پر غرور اور تکبر اور لوگوں کا مذاق بنانا۔
استغفر اللہ
امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں۔
جو لوگوں کے سامنے کسی کا مذاق اڑائے تو وہ بدترین موت پائے گا۔
مذاق میں لوگوں کے مختلف نام اور بیہودہ لقب رکھنے سے ان کا دل ٹوٹتا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا میں بھی دعائیں ، اعمال خیر اور مجالس ، نیاز وغیرہ قبول نہیں ہوتیں اور زندگیوں میں سے سکون ختم ہوجاتا ہے۔ اور آخرت میں بھی باعث عذاب ہے۔
روایت
پیغمبرؐ اسلام کے زمانے میں حضرت ابوذرؒ رضی اللہ عنہہ نے ایک شخص کو اس طرح کہا “اے سیاہ کنیز کے بیٹے”۔
تو رسولؐ اللہ نے فرمایا : تو نے اس شخص کو اس کی ماں کے سیاہ ہونے کا طعنہ مارا اس میں اس کا قصور تو نہیں تھا۔ پھر یہ سیاہی کیا اس کی ماں کے بس کی بات تھی۔کہ تو نے طعنہ مارا۔
نبیؐ اکرم ناراض ہوئے ۔
جب ابوذرؒ متوجہ ہوئے کہ میں نے کیا کیا تو ابوذر نے اپنے چہرے اور سر میں خاک ملنا شروع کر دی اور اللہ کی بارگاہ میں اتنی توبہ کی کہ پیغمبرؐ اس سے راضی ہوگئے۔
اللہ اکبر
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ
اپنے سے بڑے کے ساتھ لڑو نہیں اور چھوٹے کے ساتھ مذاق نہ اڑاؤ۔
ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ بڑوں نے ایک انداز بنا لیا ہے کہ اپنے سے رشتے اور منزلت میں چھوٹے کا مذاق اڑاتے ہیں۔
روایت
امام موسیٰ کاظمؑ فرماتے ہیں کہ:
*شہر قم آل محمدؐ کا آشیانہ ہے اور شیعوں کی پناہ گاہ ہے۔ یہی قمؔ جو کہ آل محمدؐ اور شیعوں کا آشیانہ ہے عنقریب قم کے جوانوں کے ایک گروہ کو جو* *اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں اور علماء کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسے جوانوں کو پروردگار ہلاک (عذاب) کرے گا۔*
حالانکہ قمؔ کے لوگ وہ ہیں کہ جن کو اللہ نے ہر شر اور بدی سے بچایا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اسی قم کے نافرمان اور گستاخ جوانوں اللہ عذاب دے گا اور وہ جلد مر جائیں گے۔
پروردگار عالم ہم سب کو توفیق دے کہ محمدؐ و آل محمدؐ کے مزاج کے مطابق اپنی اور اپنی اولاد کی تربیت کریں اور ویسے بنیں جیسے خدا چاہتا ہے ۔
آمین۔
آج امام زمانہؑ عج الشریف اپنے با اخلاق منتظرین کا انتظار کر رہےہیں
ترتیب و پیشکش: سعدیہ شہباز