عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

عقائد توحید – درس8

درس عقائد توحید
مہدی مضامین و مقالات

عقائد توحید – درس8

توحید کا معنی اور تعریف ، گزشتہ ادیان میں توحید ، توحید کی اقسام ، قرآن و سنت میں توحید
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:
توحید :
توحید کا فقط اسلام سے تعلق نہیں بلکہ اسلام سے قبل جتنے بھی ادیان آئے انہوں نے درس توحید دیا۔ اور لوگوں کو توحید کی دعوت دی ہے۔

سورہ انبیاء کی آیت نمبر 25 میں پروردگار عالم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُـوْحِىٓ اِلَيْهِ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ

اور ہم نے آپؐ سے پہلے ایسا کوئی رسوؑل نہیں بھیجا جس کی طرف یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔

حضرت آدمؑ سے لیکرآخری پیغمبرؐ تک سب انبیاء نے توحید کو بیان کیا۔

توحید کیا ہے؟
لفظ توحید عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا بنیادی مادہ و، ح، د ۔۔۔۔ وحد ہے۔ یعنی ایک جاننا ، ایک شمار کرنا۔

قرآن مجید کے اندر پروردگار عالم نے بہت سے مقامات پر توحید کو بیان کیا لیکن لفظ توحید بیان نہیں کیا۔ اس کی جگہ ایسی تعبیریں اور مضامین بیان ہوئے جو ہمیں عقیدہ توحید تک پہنچاتے ہیں۔

علمی اصطلاح میں توحید دو قسموں پر مشتمل ہے۔

1۔ توحید نظری : ( عقیدہ ، تھیوری اور فکر کے اعتبار سے)
2۔ توحید عملی : (ہماری رفتار، کردار اور ہمارے روز مرہ کے عمل سے)

توحید نظری:
ہمارا عقیدہ توحید کہ ہم مختلف عقلی، قرآنی، احادیث کی رو سے اور دلائل اور دیگر علوم سے یہ عقیدہ پیدا کریں کہ پروردگار یکتا ہے۔ وہ اپنی ذات افعال اور صفات میں تنہا ہے، احد ہے ، واحد ہے۔
اگر یہ عقیدہ ہمارے وجود میں جڑ پکڑ لے تو ایک خاص توحیدی رنگ ہمارے وجود میں پیدا ہو گا کہ جس کا اثر ہمارے کردار پر ہوگا اور جس سے توحید عملی پیدا ہوگی۔ اور ہم اپنے کردار میں بھی پروردگار احد و واحد کے تابع نظر آئیں گے ۔ اس کے فرمابردار ہونگے ۔ یعنی ہماری رفتار موحدانا ہوگی۔

توحید عملی:

ہماری زندگی کے تمام امور میں رنگ الہیٰ ہو۔ معلوم ہو کہ یہ پروردگار عالم کا عبد ہے۔ ہماری عبادت قربتاً الی اللہ ہو۔

توحید کی تعریف:
توحید کی تعریف جو ہمارے ماہرین کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر یقینی طور پر یہ عقیدہ پیدا کرنا کہ وہ اپنی ذات، صفات ، عمل میں واحد و احد ہے۔ ایسا عقیدہ کہ جس پر ہم مقام یقین پر پہنچ جائیں۔

قرآن مجید و احادیث میں* *توحید کا بیان:
قرآن مجید و احادیث میں توحید بہت وسعت سے بیان ہوئ ہے۔

قرآن مجید میں کئی مقامات پر واضح کیا کہ اس سے پہلے جتنے انبیاؑء آئے انہوں نے توحید کا پیغام دیا۔

(حوالہ سورہ انبیاء 25 نمبر آیت)

سورہ نحل میں آیت نمبر 36میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۖ
اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو۔

انبیاؑ کی بعثت کا فلسفہ:
نہج البلاغہ: خطہ 1 سے اقتباس
امیرالمومنینؑ مولا علیؑ بھی انبیاؑ کی بعثت کا فلسفہ نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

جب اللہ کی مخلوقات سے اکثر لوگوں نے خدا کے ساتھ کیا گیا عہد و پیمان تبدیل کر دیا اور اللہ کے حق کو نہ پہنچانا اور اس کے لیے شریک قرار دیا تو اللہ نے ان کے درمیان اپنے سفیر بھیجے کہ وہ لوگوں کو ابھاریں کہ وہ فطرت کے اندر جو میثاق تھا اس کو ادا کریں ۔

مولاؑ بیان فرما رہے ہیں کہ جب انسان کی تاریخ شروع ہوئی ہے تو اس سے قبل انسانوں نے عہد و پیمان باندھا تھا کہ دنیا میں جا کر پروردگار عالم کے موحد بنیں گے۔ لیکن دنیا میں آکر انہوں نے یہ پیمان بھلا دیا ۔ لیکن جن کا ضمیر وجدان ان کو اللہ واحد کی طرف ابھارتا تھا لیکن یہ اللہ کو بھول کر شیطان کی سازشوں اور دنیا کی رنگینوں کی جانب آگئے تو پھر اللہ نے نبیؐ بھیجے جو ان کو خدائے واحد کی جانب دعوت دیتے ہیں اور ان کو وہ فطری پیمان یاد دلاتے ہیں تاکہ شرک کے جال سے ان کی جان چھوٹے۔ اور وہ خدائے واحد کی جانب لوٹیں۔

قرآن مجید نے بہت سارے مقامات پر توحید کو بہت سی تعبیروں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
مثلاً کہیں قرآن کہہ رہا ہے:
لا الہ الا اللہ
لا الہ الا ھو
۔۔۔
نبیؐ کریم بھی اپنی رسالت کے آغاز میں سورہ رعد کی 36 آیت کو

ۚ قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّـٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۚ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ
اے نبیؐ کہیے مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ اللہ کی بندگی کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں، اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے۔

سورہ انبیاؑ آیت نمبر 108

قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَـىَّ اَنَّمَآ اِلٰـهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ ۖ فَهَلْ اَنْتُـمْ مُّسْلِمُوْنَ (108)
کہہ دو مجھے تو یہی حکم آیا ہے کہ تمہارا معبود ایک معبود ہے، پھر کیا اس کے آگے سر جھکاتے ہو۔

اس سے پہلے بھی انبیاؑ نے یہی بیان کیا

سورہ ھود آیت نمبر 25 اور 26
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا اِلٰى قَوْمِهٓ ٖ اِنِّـىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ (25)
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا بے شک میں تمہیں صاف ڈرانے والا ہوں۔

اَنْ لَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّا اللّـٰهَ ۖ اِنِّـىٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ اَلِيْـمٍ(26)
کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بے شک میں تم پر دردناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

بہت ساری قرآن مجید کی آیات اور احادیث اور نہج البلاغہ میں مولا علی ؑ کے بے پناہ دروس توحید ہیں۔

منتظر امامؑ کی صفات:
۔ منتظر سچا مسلمان ہے
۔ منتظر سچا موحد ہے
۔ منتظر سچا مومن ہے۔
۔ منتظر کی شناخت توحید ہے۔

روایات میں منتظرین امام زمانہ عج کی شناخت موحد ہونا ہے۔

امیر المومنینؑ فرماتے ہیں : 
اللہ کی ایسے معرفت رکھیں جیسے معرفت رکھنے کا حق ہے۔

منتظر دروس نہج البلاغہ سے استفادہ کرتا ہے۔
۔ منتظر سب سے پہلے موحد ہے۔
۔ ہمارے آئمہؑ سب سے پہلے اللہ کے عبد ہیں۔ ہم پانچوں نمازوں میں رسولؐ اللہ کی عبودیت کی گواہی دیتے ہیں۔
تو اسی طرح ہم اہل انتظار کی بھی یہی علامت ہے کہ ہم اللہ کے عبد بنیں۔ ہماری سوچ اور رفتار سے یہ پتہ چلے کہ یہ خدائے واحد و احد کے ماننے والے ہیں۔ اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی جانب لوٹیں گے۔ ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی امانت ہے۔ اور یہ پروردگار عالم کی راہ میں جان و مال کسی چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور خود بھی اس کی بارگاہ میں تسلیم خم ہے۔

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید