عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ دروس معرفت 

saifi-904x700
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ دروس معرفت 

سلسلہ دروس معرفت

استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
🔰 معرفت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف قرآن کے ہمراہی کی معرفت ہے۔

ایک اور نکتہ اہم ترین جو آپ کی خدمت میں بیان کرنا ہے مولا اللہ فرجہ شریف کی معرفت کی ضرورت میں وہ یہ ہے کہ امام عجل جو ہیں وہ آج کے دور میں قرآن کے ہمراہی ہیں ۔ چونکہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں
کونسی دو چیزیں “کتاب اللہ وعترتِہٖ”
دو گراں قدر چیزیں جو پیغمبر ﷺ نے چھوڑی ہیں وہ ایک اللہ کی کتاب قرآن مجید اور دوسری عترت۔

اور عترت میں کون۔۔؟
عترت یعنی ترجمہ “عترت یعنی میری اہل بیت”
ترجمہ “جب تک تم لوگ ان دونوں سے اکھٹا تمسک کرو گے کبھی میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے”

ترجمہ “اور یہ دونوں بھی آپس میں جدا نہیں حتیٰ کہ یہ دونوں اکھٹے میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔”

تو پیغمبر ﷺ نے اپنے بعد قرآن اور اپنی عترت البتہ یہاں پر عترت سے مراد وہ عترت جو معصوم ہیں ناکہ کلُ آلِ پیغمبر ﷺ۔
یہاں تمام سادات مراد نہیں ہیں بلکہ معصوم ع کہ جن کی پیروی ہوتی ہے جس طرح قرآن حجت ہے اس طرح وہ بھی حجت ہیں ۔

تو سادات میں حجت کونسی ہستیاں ہیں ۔۔؟
کہ جو معصوم ہیں وہ اس سے مراد ہے ۔تو عام سادات ان سے نہ تمسک ہے نہ اس میں ہدایت ہے۔
جو آدمی خود معصوم نہ ہو بے شک سید زادہ ہو لیکن معصوم نہ ہو تو اس سے تمسک میں تو ہدایت نہیں ہے ۔
کیونکہ اس کے اندر خود اتنے گناہ ہیں۔
تمسک اس سے کیا جاتا ہے کہ جس طرح قرآن معصوم ہے اسی طرح وہ شخص جو ہستیاں عترت میں سے ہیں وہ بھی معصوم ہوں۔

🔰 قرآن و اہل بیت علیہم السّلام ان دونوں سے اکٹھا تمسک میں سعادت ہے۔

ان سے تمسک میں ہدایت ہے، ان سے تمسک میں سعادت ہے ۔
تو بس یہاں پیغمبر ﷺ ہمیں کئی چیزیں بیان کر گئے ایک تو یہ کہ قیامت تک جس طرح قرآن باقی ہے اسی طرح میری معصوم ع عترت باقی ہے ۔
جس طرح قرآن سے تمسک میں تم گمراہ نہیں ہو گے اسی طرح میرے سے تمسک میں تم گمراہ نہیں ہوگے۔
لیکن ایک اور اہم نکتے کی طرف جو اشارہ کیا وہ یہ ہے کہ اگر تمسک کرنا ہے تو دونوں سے اکٹھا کرنا ہے ایک سے نہیں کرنا گویا ایک سے کریں گے پھر بھی گمراہی ہے دونوں سے اکٹھا کرنا ہے۔
دونوں سے تمسک جب ہم کریں گے تو اس میں گمراہی نہیں ہے۔
ایک اور چیز آپ کی خدمت میں بیان کرتا ہوں بعض دفعہ محمد ﷺ و آلِ محمد سے منسوب ایسی روایت ہوتی ہیں جو بظاہر قرآن کے خلاف ہوتی ہیں اور یہ ہمارے آئمہ علیہم السّلام کو بھی معلوم تھی اور محمد ﷺ و آلِ محمد نے فرمایا تھا کہ*”اگر ہماری بات قرآن کے مطابق نا ہو، قرآن کے خلاف ہو تو وہ ہماری بات نہیں ہے وہ دشمنوں نے ، وہ جھوٹے لوگوں نے ہمارے فرامین میں شامل کئے ہیں اس کو دیوار پر دے مارو”
تو پس دیکھیں محمد ﷺ و آلِ محمد نے بھی اپنے آپ کو قرآن کے ہمراہی قرار دیا ہے کہ “ہمارا بھی وہ فرمان جو قرآن کے مطابق ہو اس سے تمسک رکھنا ہے اور قرآن کی وہ آیات جن کی ہم تشریح کریں ان سے تمسک کرو ہم سے ھٹ کر کوئی تشریح کرتا ہے تو اس سے تمسک نہیں کرنا ہے”
بس جس طرح قرآنِ مجید ہے اسی طرح ہر دور میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کی نسل سے ایک معصوم امام , ایک ھادی موجود ہے اور یہ دونوں ہادی ہیں وہ صامت ہادی ہے یہ ناطق ہادی ہے ۔
اس طرح اور بھی بہت ساری شباہتیں ہیں جیسے روایات میں بھی ہے کہ “قرآن جو ہے وہ شبِ قدر میں نازل ہوا اور شبِ قدر وہ رات ہے کہ جس میں آج بھی ملائکہ آتے ہیں لیکن جو زمانے کی معصوم حجت ع ہیں اس پر آتے ہیں۔”
تو بس جس رات قرآن آیا اسی رات ملائکہ جو ہیں وہ معصوم امام ع کی خدمت میں آتے ہیں جہاں تقدیروں کی بات ہوتی ہے۔
تو بس دونوں شبِ قدر کی اعتبار سے بھی مشابہہ ہیں ۔ شبِ قدر میں نزول قرآن ہے اور شبِ قدر میں نزولِ ملائکہ ہے وقت کے امام عجل پر بس دونوں اس حوالے سے بھی مشابہہ ہیں شبِ قدر دونوں کی ہے۔

🔰 قرآن اور عترتِ رسول اللہ ﷺ بےنظیر و بے مثل ہیں۔

قرآن کی کوئی نظیر نہیں ہے جس طرح پروردگار قرآن میں خود فرما رہا ہے ۔
آیـت قرآن
” سارے جن و انس جمع ہوجائیں اور اس قرآن ک مطابق ایک کتاب لے آئیں وہ کبھی بھی اس جیسا کلام نہیں لا سکتے وہ جتنی بھی ایک دوسرے کی مدد کریں”

تو جس طرح قرآن بے مثل ہے اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کی عترت طاھر ہے معصوم عترت، ان کی بھی کوئی نظیر و مثل نہیں ہے۔
آلِ محمد ﷺ یہی آئمہ صادقین ع،آئمہ مصومین ع ان کی بھی کوئی مثل نہیں ہے۔ “اس امت میں کوئی بھی ان معصومین امام جیسا نہیں , یہ ایک دوسرے جیسے ہیں بارہ کے بارہ لیکن ان کے علاوہ کوئی ان جیسا نہیں ہے”
یہ چیز بارہا حدیث میں آئی ہے جیسے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ “ہم اہلِ بیت علیہم السّلام ہیں، کوئی بھی ہمارے ساتھ مقایسہ نہیں کرسکتا یعنی کسی کا ہمارے ساتھ مقایسہ نہیں ہے، کوئی بھی ہم جیسا نہیں ہے۔”
جس طرح قرآن مجید میں پروردگار کی تمام صفاتِ جمال اور جلال خدا کی تمام نشانیوں کی تجلی ہے تو یہ جو عترت ہے معصوم ان کے بھی کردار اور ان کی صفات میں بھی پروردگار کی صفات کی عکاسی ہے جیسے میں نے پہلے بھی یہ بیان کیا پچھلے نکتے میں بیان کر چکا ہوں البتہ وہ عبدیت اور غلویت کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔

🔰 قرآن مجید کے ظاہر و باطن کے مفسر محمد و آل محمد ہیں
قرآن کلام خدا ہے اور اس کا جو باطن ہے اگرچہ اس کا ظاہر کلام خدا ہے اور اس کا باطن اس کے مفسر آل محمد ﷺ ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ قرآن کیا کہہ رہا ہے اس کا باطن کیا ہے؟

اس کے ظاہر میں بھی جو الفاظ کی پیچیدگی ہے اور جہاں کچھ سمجھ نہیں آرہی اس کی بھی تشریح محمد وآلِ محمد نے کی ہے
محمد و آل محمد مبین، مفسرِ قرآن مجید ہیں۔
اور ادھر ان ہستیوں کا تعارف قرآن کرا رہا ہے، قرآن بتا رہا ہے کہ کون اتباع کے لائق لوگ ہیں، اورکون پیغمبر ﷺ کے بعد ولی ہیں ، کون صادقین ہیں کہ جن کی ہمراہی کا حکم ہوا ہے، کون اولیائے خدا ہیں ، یہ قرآن کی تشریح کرتے ہیں اور قرآن ان کا تعارف کرواتا ہے۔
اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ حدیث ثقلین جو ہے اس نے ایک اور بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے وہ یہ ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں جس طرح قرآن قیامت تک ہے اسی طرح حجتِ خدا بھی قیامت تک ہے۔
کیوں کہ ہم روایت میں دیکھتے ہیں کہ اللہ نے یہ فیصلہ حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے ہی کیا تھا، جس وقت سے اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا تو اسی وقت یہ فیصلہ کیا کہ زمین کو کبھی بھی اس کے حال پہ نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اس میں ایک حجت خدا ع ہو۔
اب وہ حجت خدا نبی ہو یا امام ع ہو بالآخر ایک ہستی ہو گی جو ہدایت دے گی اور اللہ کے احکام پہنچائے گی اور وہی اللہ کے بندوں پر حجت ہو گی ۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید