عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ دروس انتظار – درس 14

سلسلہ دروس انتظار
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ دروس انتظار – درس 14

موضوع: انتظار کے ثمرات ، صبر دین آئمہ میں سے ہے، صابر کا درجہ صدیق ہے،امام حسین ع کی غیبت کے بارے پشین گوئی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیبت میں منتظرین کی توصیف کرنا،صابرین ہی حزب اللہ ہیں

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ : 
موضوع سخن: بحث انتظار ہے اور ہماری گفتگو انتظار کے ثمرات پر پہنچی تھی۔ ایک اہم ترین بحث یہ ہے کہ بعنوان منتظر، انتظار امام کا ثمرہ کیا ہوتا ہے۔

یعنی مجھے اس اجتماعی اور انفرادی زندگی میں اس انتظار امامؑ سے کیا ثمرات مل رہے ہیں:

صبر: 
سب سے پہلا ثمرہ ہمارے ماہرین احادیث اور روایات کی رو سے جو بیان کرتے ہیں وہ صبر ہے۔

صبر ایک پاکیزہ اور متقی شخص کی اندرونی صفت حسنہ ہے کہ وہ مصائب کے سامنے سیسہ پلائ دیوار بن جائے اور اپنی شخصیت اور اہداف کا دفاع کرے اورکبھی بھی راہ حق سے نہ ہٹے۔

صبر مشکل ہے لیکن اس کے لیے انتظار امامؑ توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس حوالے سے امام صادقؑ کا بحار الانوار میں فرمان موجود ہے ۔ فرماتے ہیں کہ:
من دین اآلئمۃ الورع۔ ۔ ۔و انتظار الفرج بالصبر
“دین آئمہ میں سے پرہیزگاری ۔۔۔۔اور صبر و تحمل سے انتظار فرج کرنا ہے۔ ”

آئمہ ؑ صبر کے ساتھ ظہور اور آسانیوں کے منتظر ہیں۔ اور صبر ایک منتظر کی نشانی بھی ہے۔ بلآخر وہ جانتا ہے کہ کائنات حجت خدا سے خالی نہیں ہے اور وہ کسی وقت بھی ظہور فرما سکتے ہیں اور اب یہاں وہ اپنے امام ؑ کی اقتداء میں صبر کرتا ہے۔

صبر ہم نے کئی مشکلات پہ کرنا ہے۔ مادی ، سیاسی اور ایک مشکل خود دین کے موضوع میں بھی ہے۔ جہاں اتنے انحرافات اور بدعات ہیں۔ بحارالانوار میں اس حوالے سے امام حسین ؑ کا فرمان ہے:
فرمایا : 
امام مہدیؑ عج کے لیے ایسی غیبت ہے جس کے دوران ایک گروہ دین کو چھوڑ دے گا اور ایک گروہ دین کا پابند رہے گا اور اسے اذیت و آزار کا سامنا کرنا پڑے گا، انہیں کہا جائے گا کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ امام مہدی کے ظہور کا وعدہ کب پورا ہوگا؟ لیکن وہ جو زمانہ غیبت میں ان مشکلات اور جٹھلائے جانے پر مضبوط رہے گا وہ گویا ایسے مجاہد کی مانند ہے جو رسول اللہ کے ہمراہ تلوار سے جہاد کر رہا ہو۔ ”

امام صادقؑ نے رسول اللہ سے نقل کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب قتل و غارت کے علاوہ حکومت ہاتھ نہ آئے گی۔ اور مال و ثروت سوائے غصب اور بخل کے نہ ملے گا۔ محبت اور دوستی دین سے خارج ہوئے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ پس جو بھی اس زمانے کو پائے اور اپنی تنگدستی پر صبر کرے اگرچہ لوگوں کی محبت کو جلب کر سکتا ہو اور ذلت و خواری پر صبر کرے جب کہ عزت دار بننے کی طاقت رکھتا ہو تو ایسے شخص کو خداوند صدیق کے برابر جو میری تصدیق کرنے والے ہیں اجر و ثواب عطا کرے گا۔
مقام نبوت کے بعد سب سے بڑا مقام صدیقین کا ہے اللہ صابر کو صدیق کا مقام عطا فرماتا ہے
اس روایت میں عزت و ذلت سے مراد دنیاوی و ظاھری عزت و ذلت ہے ورنہ مومن تو ہمیشہ ہی عزت سے سرشار ہوتا ہے چاہے وہ فقر و تنگدستی میں ہو یا تونگری میں۔ مومن اللہ کی نگاہ میں ہمیشہ عزت دار ہے۔ اور عزت و ذلت دنیا کے لیے ہے۔

اسی طرح امام موسی ٰ کاظمؑ فرماتے ہیں۔؛ 
” جو بھی صبر کرے اور منتظر رہے اسے فرج اور کامیابی حاصل ہوگی اور انتظار فرج اور کشادگی کا ایک حصہ ہے۔

منتظر کے لیے بار بار صبر کی بات ہو رہی ہے اور صابر لوگ ہی ظہور کا باعث بنیں گے۔

والسلام۔ 

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید