عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ دروس انتظار – درس 13

سلسلہ دروس انتظار
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ دروس انتظار – درس 13

موضوع: منتظر کی ہر لمحہ تیاری اور امادگی، حضرت یوسف ع کے کرتہ کی حقیقت ، کرتہ کی خوشبو نے کیا فیض دیا، امام کاظم ع کی قیام قائم کے لیے تیاری کی وضاحت۔

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:
موضوعِ سخن: انتظار ہے اور ہم یہاں پہنچے تھے کہ ایک منتظر ہمیشہ زمانے کے ھادیؑ سے متوسل رہتا ہے اور اُنہیں اپنی ہدایت کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔

اب ایک منتظر جسے ہدایت مل چکی ہے،حقائق کا پتہ چل گیا ہے بامعرفت ہے اسے پتہ ہے کہ مولا ع کے ظہور کے لیے کیسے تیاری کرنی ہے۔ تو پھر وہ ہمیشہ آمادہ اور تیار ہے۔

جیسے کچھ لوگ موت سے ڈرتے ہیں اور کچھ لوگ موت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔ یعنی اُنہیں کوئی خوف نہیں ہوتا چونکہ وہ بعنوانِ عبدِ خدا تمام کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ان کے کاموں میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی کہ وہ خدا کے حضور شرمندہ ہوں یا خوف زدہ ہوں۔

مومن بھی ایسا ہی ہے، مومن جو کہ منتظر ہے وہ جس طرح کی زندگی گزارتا ہے اُس زندگی کے اندر وہ اپنے فردی اجتماعی تمام امور منظم انداز سے بجا لاتا ہے۔ وہ اللہ کا بہترین عبد بھی ہوتا ہے، اپنے زمانے کے امامؑ کا بہترین پیروکار بھی ہوتا ہے۔

معاشرے میں ایک بااخلاق نیک اورکریم شخص ہوتا ہے۔ اپنی فردی زندگی میں اپنے وجود کے لیے اپنے اردگرد والے لوگوں کے لیے وہ باعثِ رحمت اور سعادت ہوتا ہے۔

وہ ہمیشہ تیار رہتا ہے اس کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ظہور پہلے ہو یا بعد میں ہو وہ ہر لحظے کو امام عج کا لحظہ سمجھتا ہے۔

چونکہ اس معرفت نے اُس کے اندر انقلاب بپا کردیا ہے اب وہ صرف عملی تحریک کا منتظر ہے۔ اُسے خوشبو آچکی ہے اور اب وہ اپنے زمانے کے مسیحا کو زمانے کی حجت کو ڈھونڈ رہا ہے۔

خوشبوئے ِیوسفؑ :
کہتے ہیں جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے اندر حضرت یوسفؑ کے کُرتے نے انقلاب بپا کردیا تھا۔ جب خوشبوئے یوسفؑ انہیں آئی تو نابینا یعقوبؑ اٹھ کھڑے ہوئے اور حرکت میں آگئے اور مصر کی طرف ان کی آنکھیں لگ گئیں اور ہر لحظہ انتظار میں تھے۔

جناب مفضل ابنِ عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ ع فرما رہے تھے کہ:

“کیا تم جانتے ہو کہ حضرت یوسف ؑکا جو کرتہ تھا وہ کیا تھا؟
میں نے عرض کیا نہیں مولا ع آپ فرمائیں :
انہوں نے فرمایا کہ جب حضرتِ ابراہیمؑ کے لیے آگ جلائی گئی تھی اور نمرود نے منجیق کے ذریعے ان کو آگ میں پھینکنا تھا تو حضرتِ جبرائیلؑ ان کے لیے کرتہ لے کر آئے جو انہیں پہنایا کہ اِس کرتے کے ذریعے آپ کو نہ سردی نقصان دے سکتی ہے اور نہ گرمی۔
سبحان اللہ!

اسی لیے حضرتِ ابراہیمؑ جب آگ میں پھینکے گئے تو وہ جبرائیل ؑ جو کرتہ لے کر آئے تھے اُنہوں نے وہ پہنا ہوا تھا اور اس کے ذریعے وہ آگ کے شعلوں سے محفوظ رہے۔
سبحان اللہ!

اور جب حضرتِ ابراہیمؑ کا وقتِ وفات آیا تو انہوں نے اس کرتے کو لپیٹ کر ایک تعویز کی شکل میں اکٹھا کیا اور لپیٹ دیا اور حضرتِ اسحاقؑ جو چھوٹے بیٹے تھے ان کی گردن میں یا بازو میں اسے آویزاں کردیا۔

حضرتِ اسحاقؑ نے اپنے بعد یہ تعویذ حضرتِ یعقوبؑ کو دیا اور حضرت یعقوبؑ نے یہ کرتہ والا تعویذ اپنے فرزند دلبند حضرتِ یوسفؑ کے بازو پر باندھ دیا۔ اور حضرتِ یوسف ع جب مصر پہنچے انہوں نے پھر اس کو تعویذ سے باہر نکالا۔ جب یہ کرتہ اس تعویذ سے نکالا گیا تو حضرت یعقوبؑ نے کنعان میں یعنی اتنی دور اس کی خوشبو کو محسوس کیا۔
سبحان اللہ!

اس لیے نقل ہوا ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے اپنے اردگرد ان لوگوں کو کہا:
اِنِّـىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ ۖ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ 
اگر تم مجھے خطا پر نہ سمجھو تو میں یوسفؑ کی خوشبو محسوس کررہا ہوں۔سورہ یوسف 94

یہ وہی کرتہ تھا جو جنت سے لایا گیا تھا اور یہی اتنے انبیاء کرام ؑ نے اسے استفادہ کیا۔

جنابِ مفضؒل فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا مولاؑ آپؑ پر قربان ہوجاؤں یہ کرتہ اب کس کے ہاتھ میں ہے؟

آپؑ نے فرمایا یہ کرتہ ان کے پاس ہے جو اس کے اہل ہیں ۔ یعنی مراد یہ تھی ہم اہلبیتؑ کے پاس ہے۔ اور جب ہمارے قائم عج ظہور کریں گے تو یہ کرتہ بھی ان کے ساتھ ہوگا یعنی جیسے باقی تبرکاتِ انبیاءؑ ہونگے تو یہ کرتہ بھی ہوگا۔

اور پھر فرمایا:
ہر نبیؑ نے جو کچھ بھی اللہ سے لیا یعنی علم یا اور کوئی بھی چیز جو سلسلہء وراثت انبیاء میں منتقل ہوئی وہ سب کی سب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی ہیں اور یوں ہم اوصیاءؑ کے پاس ہیں ۔
سبحان اللہ!

خلاصہ :
جو اپنے محبوب کے منتظر ہوتے ہیں جس طرح حضرتِ یعقوبؑ اپنے محبوب فرزند حضرت یوسفؑ کے منتظر تھے یا جیسے ہم اپنے محبوب مسیحا حجتِ خدا عج کے منتظر ہیں تو محبوب کی چھوٹی سی نشانی بھی بہت بڑا اثر چھوڑتی ہے۔

تاریخ میں یہ ذکر ہے کہ حضرتِ یوسفؑ کے کرتہ کو جب ان کا بیٹا لے کر آیا اور حضرت یعقوبؑ کے چہرے اور بدن پر وہ کرتہ ڈالا گیا تو اس کا حضرتِ یعقوبؑ کی روح اور ان کے بدن پر کیا اثر ہوا کہ اُن کا اندھا پن اور نابینائی جو ہے وہ بینائی میں تبدیل ہوگئی اور ان کی متبرک روح شاد ہوگئی۔
سبحان اللہ!

ہمیں بھی زمانے کے یوسفؑ کی خوشبو آنی چاہیئے کیونکہ وہ ہمارے درمیان میں موجود ہیں اور اُس خوشبو کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں ہم تیار رہیں اور یہ ہماری اہم ذمہ داری ہے۔

اہل انتظار:
منتظر کو جب پتہ ہے کہ مولا ع نے عالمی حکومت تشکیل دینی ہے تو جیسا کہ حدیث میں ہے کہ منتظرین ” وہ ہمیشہ اپنے مولا ع کی حکومت کو بپا کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

اپنے اندر صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں، علم حاصل کرتے ہیں اپنی تربیت کرتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئیے اپنے امامؑ عج کی نصرت کے لیے ۔

جناب مُحقق شیخ کلینیؒ نے امام کاظمؑ سے نقل کیا ہے کہ:

جو بھی ہمارے انتظار میں یعنی ہمارے قائؑم عج کے انتظار میں گھوڑے کو تیار کرے اور اس کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو غضبناک کرے کیونکہ اس کی نسبت ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ اس کے رزق میں برکت عطا کرے گا۔ اسے شرح صدر عطاکرے گا، اسے اپنی آرزو تک پہنچائے گا اور اس کی حاجات پوری ہوں گی۔

یعنی زمانہ غیبت میں ایک چھوٹا سا کام جو ہے جو ایک چھوٹی سی تیاری ہے اس کی کتنی برکات ہیں اور جب خود ظہور کا زمانہ ہوگا اس وقت دنیا کی کیا حالت ہوگی۔

کس طرح تیاری کی جائے:

یہ ساری چیزیں زمانے کو حالات کو دیکھ کر یہاں گھوڑے یا تلوار کی جو بات ہے یہ مثال ہے۔🫴 مقصد یہ ہے کہ آخری جو حجتِ حق ہے اس کی نصرت کے لیے آپ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق تیار ہوں۔

پس انتظار ایک فرہنگ ہے۔ فرہنگ یعنی تیاری کی فرہنگ، آمادہ ہونے کی فرہنگ، اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی فرہنگ اور ثقافت۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح کی ثقافت کے اندر اس طرح کا منتظر بننے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس کی ہر سانس اپنے امام وقت عجؑ کی تیاری کی سانس ہو۔
آمین۔
والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید