عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ تفسیر سورہ حدید درس 8

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ تفسیر سورہ حدید درس 8

سلسلہ تفسیر سورہ حدید
(درس 8 آیت 11)
آیت کا ترجمہ و تفسیر ، اللہ کو قرض الحسنہ دینے کا مطلب ، انفاق کرنے کی شرائط

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:
سورہ حدید آیت نمبر 11 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے
مَّنْ ذَا الَّـذِىْ يُقْرِضُ اللّـٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهٝ لَـهٝ وَلَـهٝٓ اَجْرٌ كَرِيْـمٌ
ایسا کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض (حسنہ) دے پھر وہ اس کو ا س کے لیے دگنا کر دے اور اس کے لیے عمدہ بدلہ ہے۔

یہاں پروردگار عالم نے جو کہ خود تمام دنیا کے اندر جو کچھ بھی نعمات اور اموال ہیں سب کا مالک ہے جو ہمارے وجود کا بھی مالک ہے جس نے ایک عجیب و غریب اور خوبصورت تعبیر کے ساتھ ہمیں ان اموال کا مالک بنایا اور ہم سے قرض مانگ رہا ہے اور یہ فرمایا کہ :
مجھے قرض حسنہ دیں۔ نہ صرف یہ کہ میں آپ کو وہ قرض حسنہ واپس کروں گا بلکہ کئی برابر اس میں اضافہ کروں گا ۔ اور اس کے بعد رب العزت اجر عظیم کی بات کر رہا ہے وہ اجر جسکے بارے میں کوئ نہیں جانتا اور وہ روز آخرت ہمیں ملے گا۔

خدا کو قرض دینے سے مراد اللہ کی راہ میں انفاق ہے۔ یعنی وہ لوگ جو مجبور ہیں اپنے مسائل کا شکار ہیں۔ یعنی غریب مسکین، یتیم ، بے مکان، اور ایسے افراد جو کسی مرض میں مبتلا ہیں پہلے کماتے تھے لیکن اب وہ مرض کی وجہ سے کما نہیں سکتے۔ اور کوئی کمانے والا بھی نہیں یا پھر مر چکے ہیں اور یتیم بچے ہیں ۔ یا پھر کوئی کاروباری نقصان کا شکار ہو چکا ہے۔

ہمارے اردگرد اس طرح کی کئ مثالیں موجود ہیں جن کو دینا گویا اللہ کی راہ میں انفاق کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ان کو دے رہے ہو گویا تم نے مجھے قرض دیا۔اور پھرمیں تمھارا رب ہوں میں تمھیں دو برابر واپس کروں گا اور اجر عظیم دوں گا۔

پروردگار عالم نے مختلف آیات میں انفاق کا ذکر کیا ہے

سورہ بقرہ 267 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُـمْ
اے ایمان والو! اپنے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو۔

ہمیشہ انفاق حلال مال میں سے ہوتا ہے نہ کہ حرام مال سے ۔ اور ناپاک مال سے خرچ نہ کرو وہ تو مورد قبول واقع نہیں ہوتا۔

سورہ حشر کی آیت نمبر 9 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے:
وَالَّـذِيْنَ تَبَوَّءُوا الـدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِـهِـمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْـهِـمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِىْ صُدُوْرِهِـمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ وَلَوْ كَانَ بِـهِـمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ(9)
اور وہ (مال) ان کے لیے بھی ہے کہ جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں) گھر اور ایمان حاصل کر رکھا ہے، جو ان کے پاس وطن چھوڑ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں، اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے، اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو، اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں۔

پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ وہ مال جو خود تمھاری بھی ضرورت ہے اور اس میں سے زیادہ ضرورت مند کو دو اور اسے اپنے اوپر مقدم کرو۔

اسی طرح سورہ البقرہ کی 273 آیت میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ :
لِلْفُقَرَآءِ الَّـذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِى الْاَرْضِ ؕ يَحْسَبُهُـمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُهُـمْ بِسِيمَاهُـمْۚ لَا يَسْاَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْـرٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ بِهٖ عَلِـيْمٌ (273)
خیرات ان حاجت مندوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں رکے ہوئے ہیں ملک میں چل پھر نہیں سکتے، نا واقف ان کے سوال نہ کرنے سے انہیں مال دار سمجھتا ہے، تو ان کے چہرے سے پہچان سکتا ہے، لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے، اور جو کام کی چیز تم خرچ کرو گے بے شک وہ اللہ کو معلوم ہے۔

پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ جو لوگ ضرورت مند ہو گئے ہیں ان کے اندر طبقہ بندی کرو اور جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہے اسے پہلے دو اور جو اللہ کی راہ میں سخت مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں ان کو دو۔

سورہ البقرہ کی 271 آیت میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ :
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۖ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَـفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرٌ (271)
اگر تم خیرات ظاہر کرکے دو تو بھی اچھی بات ہے، اور اگر اسے چھپا کر دو اور فقیروں کو پہنچا دو تو تمہارے حق میں وہ بہتر ہے، اور اللہ تمہارے کچھ گناہ دور کر دے گا، اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبر رکھنے والا ہے۔

پروردگار فرما رہا ہے کہ اگر مخفی انفاق کرو تو وہ بہتر ہے جیسے آئمہ معصومین ؑ شب کی تاریکی میں لوگوں کے گھروں کے دروازے پر سامان پہنچا دیتے تھے اور لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کون دے رہا ہے۔

اور آج اس کے کئی طریقے ہیں مثلا کسی کے اکاونٹ میں بھیج دینا۔ وغیرہ۔

سورہ البقرہ کی 264 نمبر آیت میں پروردگار عالم فرما رہا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى كَالَّـذِىْ يُنْفِقُ مَالَـهٝ رِئَـآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۖ فَمَثَلُهٝ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٝ وَابِلٌ فَتَـرَكَهٝ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُـوْا ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْكَافِـرِيْنَ (264)
اے ایمان والو! احسان جتا کر اور ایذا دے کے اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا، سو اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اس پر کچھ مٹی پڑی ہو پھر اس پر زور کا مینہ برسا پھر اس کو بالکل صاف کر دیا، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا ہاتھ بھی نہ لگے گی، اور اللہ کافروں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔

پروردگار فرما رہا ہے کہ اے ایمان والوں اپنے انفاق کو احسان اور اذیت کے ساتھ باطل نہ کرو اگر مدد کی ہے تو سرعام اس کی توہین نہ کرو۔ اس پر احسان نہ جتلاؤ اسے کے بارے میں دوسروں سے ذکر کر کے اسے نادم نہ کرو۔ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔

سورہ مدثر آیت نمبر 6 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ

وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْـثِرُ
اور بدلہ پانے کی غرض سے احسان نہ کرو۔

فرمایا
جب بھی انفاق کرو تو احسان نہ جتلاؤ اور اس کو بہت بڑا کام نہ سمجھو۔ یہ معمولی کام ہے اس میں تواضع قائم کرو اور تکبر نہ کرو یہ اللہ ہی کا مال ہے جو اس نے تمھیں دیا۔

سورہ آل عمران کی آیت نمبر 92 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّـٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ بِهٖ عَلِـيْمٌ (92)
ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کر سکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز سے کچھ خرچ کرو، اور جو چیز تم خرچ کرو گے بے شک اللہ اسے جاننے والا ہے۔

فرمایا
وہ مال جو کے تمھیں بہت پسند ہے اگر اسمیں سے تم خرچ کرو گے تو پھر تم عظیم اجر تک اور اس عظیم مقام تک پہنچو گے۔ یہ چیزیں فانی ہیں اور اگر تم اپنی عزیز ترین چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اسے پسند کرتا ہے۔

ہم نے سورہ حدید کی اس آیت 11 میں پڑھا ہے کہ
پروردگار عالم نے واضح طور پر فرمایا کہ خود کو دنیاوی مال کا حقیقی مالک تصور نہ کرو بلکہ تم اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہو اور جو مال تمھیں اللہ نے دیا ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔

سورہ المائدہ کی آیت نمبر 27 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ
وَاتْلُ عَلَيْـهِـمْ نَبَاَ ابْنَىْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِۖ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّـٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ* (27
اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دے، جب ان دونوں نے قربانی کی ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا، اس نے جواب دیا اللہ پرہیزگاروں ہی سے قبول کرتا ہے۔

فرمایا
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ مال حلال ہو اور اس میں سے خرچ کرو کہ اللہ فقط اسے قبول کرتا ہے۔

حرام سے کیا ہوا انفاق ضائع ہو جاتا ہے۔

اللہ جسے قابل اجر سمجھتا ہے وہ مال حلال ہے۔

حرام سے بنی مسجد میں عبادت نہیں ہو سکتی ۔ حرام حرام ہے۔

روایت
نبیؐ کریم فرماتے ہیں کہ
اللہ ایسے مال سے صدقہ قبول نہیں کرتا کہ جس میں خیانت ہوئی ہو۔

اہل انتظار کی نشانیاں
۔ وہ لوگ ہیں جو اپنے حلال مال سے اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔
کسی پر احسان نہیں جتلاتے

تکبر کا شکار نہیں ہوتے
اس کام میں تواضع اختیار کرتے ہیں۔

ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے اہل انتظار برادران کی مشکلات میں مددگار بنتے ہیں۔ اسی طرح منتظرین سوسائٹی تشکیل پاتی ہے۔

منتظرین امام کسی حاجت مند کا انتظار نہیں کرتے بلکہ خود ایسے افراد کو ڈھونڈتے ہیں کہ جو مجبور ہیں اور خودار ہیں اور خود ان کو تلاش کرکے ان کی مدد کرتے ہیں ۔

یہی لوگ امام وقت ؑ کی نگاہ میں بھی ہیں اور یہی لوگ کل مولاؑ کے ناصرین میں سے بھی ہونگے جو خدمت خلق میں مصروف ہیں۔

تحریر و پیشکش
سعدیہ شہباز

 

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید