عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ بحث مہدویت ( پہلی قسط)_ غیبت کا فلسفہ- مصنف: آغا علی اصغر سیفی صاحب

سلسلہ بحث مہدویت_غیبت کا فلسفہ( پہلی قسط)
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ بحث مہدویت ( پہلی قسط)_ غیبت کا فلسفہ- مصنف: آغا علی اصغر سیفی صاحب

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اللھم بلی لاتخلوا الارض من قائم اللہ بحجتہ اما ظاھرا مشھورا و اما خائفا مخمورا لئلا تبطل حجج اللہ و بیناتہ (نہج البلاغہ فیض الاسلام ص ۱۱۵۸)
اے پروردگار کیوں نہیں زمین تو کبھی بھی اللہ کی حجت کے ساتھ قائم سے خالی نہیں ہوگی خواہ وہ قائم آشکار اور معروف ہو خواہ و خائف اور پس پردہ ہو (بہرحال زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی)تاکہ اللہ تعالی کی حجتیں اور نشانیاں باطل نہ ہوں-

ہماری احادیث کے ماخذات میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوا ہے آپ نے ارشاد فرمایا : ھوالذی یجری فیہ سنن الانبیاء علیھم السلام (بحار الانوار ج۵۱ ص۲۲۴)
مہدی وہ ذات ہے کہ جس میں تمام انبیاء علیھم السلام کی سنتیں اور صفات جاری ہوں گی ، تو ان میں سے ایک سنت لوگوں سے ایک طویل زمانہ تک غائب رہنا ہے ۔
امام زمانہ عج کی دو غیبتیں ہیں ایک غیبت صغری ہے جس میں اگر وہ مخفی زمانہ بھی شامل کیا جائے کہ جب آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے تو یہ غیبت کل ۷۵سال بنتی ہے، اس کے بعد ۳۲۹ھجری سے آپ کی غیبت کبری شروع ہوئی کہ جو ابھی تک جاری ہے ، یہاں ایک قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ان دونوں غیبتوں میں امام عالی مقام( عج )کا رابطہ لوگوں سے مکمل طور پر منقطع نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
آپ کی غیبت صغری کے زمانے میں آپ کے نائبین حضرات ترتیب کے ساتھ یہ ہیں: (۱)عثمان بن سعید اسدی (۲)محمد بن عثمان بن سعید عمروی (۳)حسین بن روح نوبختی (۴)علی بن محمد سمری ، یہ مکتب تشیع کی چار ممتاز شخصیات عظیم علماء میں سے تھیں اور تمام اھل ایمان و ولایت کے نزدیک محترم تھیں اور امام علیہ السلام اور لوگوں کے درمیان امام کی سفیر اور رابطہ کا وسیلہ تھیں، لیکن غیبت کبری کے زمانے میں امام زمانہ (عج ) کا لوگوں سے رابطہ کچھ اور انداز سے شروع ہوا اب امام اور لوگوں کے درمیان رابطہ ،لوگوں کی فقہی ضروریات پوری کرنا اور ان کی معاشرتی ،سیاسی اور دینی مشکلات میں ان کی رہنمائی اور ان پر رہبری کا کام ان فقہاء حضرات کے کاندھوں پر ہے کہ جو آئمہ اھل بیت علیھم السلام کی شرائط پر پورے اترتے ہیں ،یہ شرائط فقہی کتابوں میں مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ علماء اور فقہاء اس منصب (نیابت امام زمان عج) کی لیاقت رکھتے ہیں جو علم و عمل دانائی و کردار اور تقوی میں سب سے زیادہ ائمہ اھل بیت(ع) کے نزدیک ہوں اور دین الھی کا زبان و کردار کے ساتھ پرچار کرنے والے ، تمام مسائل پر گہری مخلصانہ بصیرت کے حامل اور اسلام و مسلمین کی حفظ کی خاطر ہر قسم کی مالی و جانی قربانی سے دریغ نہ کرنے والے ہوں .​

ہمارے دینی معارف سے امام زمانہ (عج) کی غیبت پر چند حکمتیں ذکر کی جاتی ہیں:
(۱) اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے ایک اسم حکیم ہے تقریبا قرآن مجید میں یہ اسم ۸۰دفعہ سے زائد آیا ہے مثلا ان اللہ عزیز حکیم (بقرہ ۲۷) وھو الحکیم الخبیر (انعام ۱۸) واللہ علیم حکیم (انفعال ۷۱) اور ہم فرشتوں کی زبانی سنتے ہیں کہ قالوا سبحانک لاعلم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم (بقرہ ۳۲)۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چونکہ اللہ تعالی ان آیات کی بنا پر حکیم ہے اور حکیم ہمیشہ بغیر مقصد کے کام نہیں کرتا لہذا یہ تمام حوادث اور واقعات جو اس کے حکم کی بنا پر متحقق ہوتے ہیں یقینا ان کا کوئی نہ کوئی ھدف ہے اگرچہ یہ فعل کا ھدف ہے نہ کہ فاعل کا ھدف۔
ہمارے معارف دینی اور فلسفہ الھی میں فعل کے ھدف اور فاعل کے ھدف کے درمیان ایک گہرے فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالی کا اپنا ھدف و مقصد نہیں ہے چونکہ وہ غنی اور بے نیاز ہے اور کمال مطلق ہے اس کی ذات ہر قسم کی کمی اور نقص سے خالی ہے جیسا کہ رجب کی دعا میں پڑھتے ہیں جو امام زمانہ(عج) سے ان کے دوسرے نائب جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ علیہ کے ذریعہ ہم تک پہنچی کہ امام فرماتے ہیں: یافاقد کل مفقود (مفاتیح الجنان ص ۲۳۲)
وہ کسی بھی ھدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے کام نہیں کرتا کیونکہ وہ کامل و اکمل ذات پہلے ہی سے غنی ہے: ان اللہ لغنی عن العالمین (عنکبوت ۶۰)
لیکن اللہ تعالی کے افعال باھدف ہیں بالالفاظ دیگر یہاں دو چیزیں ہیں:
(الف) اللہ تعالی کا اپنا ذاتی کوئی ھدف نہیں چونکہ لغنی عن العالمین ہے
(ب) اس کی حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ جو فعل بھی انجام دے وہ فعل ھدف کے ساتھ ہو، تو اللہ تعالی جس موجود کو بھی حیات سے نوازا تو اسے اس کی تخلیق کے ھدف کی طرف ھدایت دی، حکیم سبزواری رحمۃ اللہ کے بقول: اذ مقتضی الحکمۃ والعنایۃ ایصال کل ممکن لغایۃ… اللہ تعالی کی حکمت و عنایت کا تقاضا یہ تھا کہ یہ موجود ممکن کو اس کی تخلیق کے ھدف و مقصد کی طرف رہنمائی کرے ۔
اللہ تعالی کے اوامر و نواھی میں بھی یہی چیز ہے کہ یہ سب فرامین حکمت و مصلحت کی بنیاد پر ہیں، یہ سب مصلحتیں لوگوں کے لئے ہیں ان کا فرض ہے کہ ان مصلحتوں اور اھداف کو پہچانیں اگرپہچانیں گے تو ان بندوں کا فائدہ ہے نہ پہچانیں گے تو ان کا نقصان ہے ورنہ اللہ تو اس فائدہ اور نقصان سے منزہ ہے، امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا مسئلہ جو کہ اسلام کے اہم اور پچیدہ مسائل میں سے ہے اور اس غیبت کے لئے حکمت اور مصلحت ہے جو کہ خود امام اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے یہ کہ یہ مصلحت کامل طور پر ہمیں کیوں نہیں معلوم اس حوالے سے توجہ رکھنی چاہئے کہ کائنات میں بہت سے حقائق ہیں جو ابھی تک مجہول ہیں یا ایسے واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں کہ ہم ان کی حقیقت سے بے خبر ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارا علم نہایت ہی محدود ہے اور ان سب مجہولات کو روشن کرنے پر قادر نہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا: اوتیتم من العلم الا قلیلا (اسراء ۵۷)
قران کے مطابق انسانوں کو بہت کم علم دیا گیا ہے.
البتہ ہوسکتا ہے کہ اس لاعلمی اور بے خبری میں بھی حکمت ہو اور اس کا معلوم ہونا ہمارے لئے بہتر نہ ہو، امام زمانہ عج کی غیبت کا مسئلہ بھی شاید انہی چیزوں کی مانند ہے کیونکہ ابھی تک اس کی تمام تر جہات ہمیں معلوم نہیں ہوسکیں. یہ ایک راز ہے اللہ اور امام مہدی عج کے درمیان کہ خود امام مہدی عج سرّ اور اسم اعظم ہیں کہ جن کا دل پروردگار علیم و حکیم کی تجلی گاہ ہے۔
ہم امام زمانہ عج کی زمانہ غیبت میں دعا پڑھتے ہیں: اللھم فصبرنی علی ذلک حتی لا احب تعجیل ما اخرت ولا تاثیر ما عجلت ولا کشف ما سترت ولا عما کتمت ولا انا زعک علی تدبیرک ولا اقول :لم و کیف ومابال ولی الامر لا یظھر ؟ وقد امتلات الارض من الجور و افوض اموری کلھا الیک..
اے ہمارے پروردگار مجھے حضرت کی غیبت کی اس مصیبت عظیم پر صبر کرنے کی توفیق عطا کر، تاکہ میں جہاں، تو نے تاخیر کی وہاں جلدی اور جہاں، تو نے جلدی کی وہاں تاخیر نہ چاہوں اور جسے تو نے چھپایا اسے ظاھر کرنا اور جسے تو نے پنہاں کیا اسے ڈھونڈنا نہ چاہوں اور نہ تیری تدبیر میں تجھ سے نزاع کروں اور نہ کہوں کہ کیوں اور کیسے یوں ہوا؟ اور زبان پر اعتراض جاری نہ کروں کہ ولی امر اور صاحب فرمان خدا ظاھر نہیں ہوتے حالانکہ زمین ظلم و ستم سے لبریز ہوچکی ہے، اے پروردگار توفیق دے کہ تیرے ارادہ و مشیت کے سامنے سرتسلیم خم کروں اور سب امور تجھ پر چھوڑ دوں۔
عن عبد اللہ بن الفضل الھاشمی قال: سمعت الصادق جعفر بن محمد علیہ السلام یقول ان لصاحب ھذا الامر غیبۃ لابدمنھا یرتاب فیھا کل مبطل فقلت لہ و لم جعلت فداک ؟ قال لامر لم یوذن لنا فی کشفہ لکم (المہدی مرحوم صدر ص ۱۶۸)
امام صادق علی السلام نے فرمایا امام مہدی کے لئے یقینا غیبت ہے یعنی اللہ تعالی کی طرف سے طے ہوچکا ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ تک غیب رہیں ایسی غیبت ہوگی کہ یہ باطل پسند متردد ہوجائے گا راوی نے پوچھا : اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک ایسا راز ہے کہ جس کے ظاھر کرنے کا حکم نہیں دیا گیا لہذا ضروری ہے کہ روز موعود تک یہ راز مخفی رہے.

پروردگار کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے.خواہ ہمیں حکمت معلوم ہو یا نہ ہو. اور احادیث میں غیبت کو سرّ الہی سے تعبیر کیا گیا ہے. معصومین علیھم السلام نے غیبت کے فلسفہ میں مذید کیا فرمایا ہے:
(۲) آپ کی جان کی حفاظت: تاکہ ائمہ علیھم السلام کا یہ آخری فرد زندہ رہے اور مناسب حالات میں اللہ تعالی کے عہد کو پورا کرنے کے لئے قیام کرے، اگریہ غیبت کا مسئلہ پیش نہ آتا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیھم السلام کی پشین گوئیوں کے مطابق کہ انہوں نے فرمایا تھا امام مہدی عج قیام کریں گے اور ظلم و بے انصافی کو مٹا دیں گے اور شرک و کفر و نفاق کے نمونوں کو ذلت سے خاک میں ملا دیں گے تو اس نے زمانہ کے طاغوت اور ظالم حکمران طبقہ آپ کو شہید کردیتے ، کیونکہ انصار و یاوران کی مطلوبہ تعداد نہ ہوتی اور اس عظیم تبدیلی کے لیے مناسب تیاری نہ کیے ہوتے .جس طرح دیگر آئمہ علیہم السلام شہید ہوئے یہ بھی شہید ہوجاتے.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا لابد للغلام من غیبۃ فقیل لہ و لم یا رسول اللہ ؟ قال یخاف القتل،میرا بیٹا مہدی ضرور غائب ہوگا پوچھا گیا وہ کیوں غائب ہوں گےتو آپ نے فرمایا: قتل کے خوف سے. ( علل الشرایع، ج 1، ص 284، باب 179، ح 1; بحارالانوار، ج 52، ص 90، ح 1.)
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے. کہ امام موت و شہادت سے نہیں ڈرتے بلکہ راہ خدا میں شہادت ہمارے آئمہ علیہم السلام کا فخر ہے. اصل بات یہ ہے کہ شہادت فخر ہے لیکن مقصد نہیں ہے.مقصد صرف اور صرف پروردگار کی اطاعت ہے اگر اسکی رضا شہادت میں ہے تو وہ فخر ہے اگر اسکی رضا زندہ رہنے میں ہے تو زندگی کو موت سے بچانا ضروری ہے.امام مہدی عج کو اللہ تعالی نے عظیم الہی حکومت برپا کرنے اور ظالموں کو مٹانے کے لیے بھیجا اور یہ کام زندہ رہ کر ہوسکتا ہے لھذا امام کے لیے اپنی زندگی کو بچانا ضروری ہے اور غیبت بہترین وسیلہ ہے زندگی کی بقاء کا. تاکہ وہ ملت اور نسل آجائے جو یہ کہے اے مہدی اے ہمارے مولا ہم سب کچھ برداشت کریں گے لیکن آپ کی دوری نہیں آپ ظہور کریں ہم سب آپکی نصرت میں تیار ہیں اور سب کچھ قربان کرنے کے لیے حاضر ہیں.

(۳)مومنین کی آزمائش اور ان کا خالص کیا جانا:
پیغمبروں کی بعثت سے لیکر اب تک ایک سنت الھی لوگوں کو امتحان و آزمایش میں ڈالنا ہے جیسا کہ پروردگار قرآن مجید میں فرماتا ہے : وما کان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب (آل عمران ص ۱۷۹)
پروردگار ایسا نہیں ہے کہ مومنین کو اس حال میں کہ جیسے تم ہو چھوڑ دے (بلکہ ان کی ضرور آزمایش کرے گا) تاکہ نجس کو پاک سے جدا کیا جائے. پروردگار کی آغاز دین سے یہی سنت جاری ہے اور جاری رہے گی حتی یمیز الخبیث من الطیب تاکہ وہ دنیا سے لو لگائے مادیت میں غرق ہوکر آلودہ لوگوں کو خیر و آخرت کی طرف سبقت کرنے والے پاکیزہ لوگوں سے جدا کرے۔
امام مہدی علیہ السلام کہ جنہوں نے اپنے جانثاروں کے ساتھ مل کر جہان میں ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں لانی ہیں کہ اقوام عالم کو ظلم و ستم کی زنجیروں سے آزاد کرکے جہان عدل و حق میں لانا ہے تو ضروری ہے کہ آپ اور آپ کے جانثاروں کو اتنی بڑی آزمایش غیبت اور اس زمانہ غیبت میں اسلامی وظائف ادا کرنا کا سامنا کرنا پڑے تاکہ امام زمانہ کی فوج میں شامل ہوکر اتنے بڑے امور انجام دینے کے لئے پاکیزہ لوگ تیار ہوکر آئیں ۔
ہم اگر غور کریں تو قرآن نے انتہائی شفاف انداز سے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اس سے ہم بہتر طریقے سے اس الھی سنت کو اور اس کے پس پردہ نورانی مقاصد کو سمجھ سکتے ہیں، پروردگار فرماتا ہے: و تلک الایام نداولھابین الناس ولیعلم اللہ الذین امنوا یتخذمنکم شھداء واللہ لایحب الظالمین و لیمحض اللہ الذین امنوا و یمحق الکافرین (آل عمران آیت ۱۴۰، ۱۴۱)
اور ہم تو زمانے کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں تاکہ اللہ صاحب ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمین کو پسند نہیں کرتا اور اللہ صاحبان ایمان کو چھانٹ کر الگ کرنا چاہتا ہے اور کافروں کو مٹا دینا چاہتا ہے ۔
اگرچہ ہر دن انسان کو لئے امتحان ہے، لیکن غیبت کبری کا زمانہ مومنین کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے کہ جو ا پنے امام کے عشق و بابصیرت ایمان کے ساتھ بہت بڑی عدالت کے تحقق کے لئے انتظار کررہے ہیں اور یہ حق و ایمان کے عاشقوں کو معلوم ہے کہ یہ انتظار کس قدر ھمت و حوصلہ کا کام ہے اور ایک مقام پر پروردگار فرماتا ہے: الم احسب الناس ان یقولوا امنا وھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا و لیعلمن الکاذبین (عنکبوت آیات ۱ تا ۳)
آیا لوگ سمجھتے ہیں کہ امنا و صدقنا کہنے سے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا بغیر اس کے کہ انہیں فتنوں میں آزمایا جائے ؟ ہر گز نہیں ہم نے تو پچھلی امتوں کو بھی آزمایا تھا کہ اللہ تعالی ضرور پہچان لے ان لوگوں کو جنہوں نے سچ کہا اور ضرور پہچان لے گا جھوٹے لوگوں کو۔
ایک حدیث میں صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھتے ہیں :یا رسول اللہ وللقائم من ولدک غیبتہ ؟ قال ای و ربی لیمحض اللہ الذین آمنوا و یمحق الکافرین (معجم الاحادیث الامام المھدی ص ۱۱۳)
اے رسول اللہ آیا آپ کے فرزند قائم (مہدی علیہ السلام ) کے لئے غیبت ہے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : ہاں پروردگار کی قسم اور یہ غیبت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اس دورانیہ میں چاہتا ہے کہ مومنین کو خالص کرے اور کافروں کو نابود کرے ،
یعنی مومنین مختلف حوادث ، مشکلات اور بے عدالتی کے گرداب میں پھنس کر جہاد کرتے ہیں اور آلودہ میلانات اور نفسانی خواہشات سے اپنے دامن کو چھڑا کر پاکیزہ ہوتے رہتے ہیں تاکہ آخر الزمان میں مصلح الھی کی ہدایت تلے انسانوں کی ظلمت بھری راہوں میں راہنمائی کا چراغ بنیں.

(۴) امام زمانہ (عج) کے پرمقاصد پروگرام کو قبول کرنے کے لئے روحی اور فکری طور پر تیاری:
واضح سی بات ہے کہ اس پروگرام کو قبول کرنے سے پہلے انسانوں میں ضروری استعداد یعنی بلوغت عقلی اور شدید ضرورت کا احساس پیدا ہونا چاہئے امام مہدی علیہ السلام ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے قیام فرمائیں گے ۔ اذا قام قائمنا وضع اللہ یدہ علی رؤس العباد فجمع بہ عقولھم و کملت بہ احلامھم ،جب ہمارے قائم قیام فرمائیں گے تو اللہ تعالی اپنا دست لطف و رحمت اپنے بندوں کے ذہن و دل پر رکھے گا اور اس عنایت کے نتیجہ میں ان کے ذہن کامل ہوجائیں گے اور امام کے الھی پروگرام کو قبول کرنے اور ان کی عظمت کے آگے سرجھکانے کو تیار ہوجائیں گے ۔
(۵) امام زمانہ (عج) کی تیاری:
اللہ تعالی کی طرف سے یہ جو عظیم ذمہ داری ان کے دوش مبارک پر رکھی گئی یملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا (معجم الاحادیث الامام المھدی ص ۱۱۳) اس کے لئے تیاری بھی ایک وجہ غیبت ہوسکتی ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : یطف الھوی علی الھدی اذا عطفوا علی الھوی و یعطف الرای علی القرآن اذا عطفوا القران علی الرای (نہج البلاغہ صبحی صالح خطبہ ۱۳۸)
مندرجہ بالا دونوں احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہے کہ اللہ تعالی کے اس عظیم مصلح کو دو زمانوں میں دو بڑی مصبیتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا ایک عالمی سطح پر جس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے اور دوسری اسلامی دنیا میں کہ جس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے عالمی سطح پر مصیبت ظلم و ستم ہے کہ جس نے انسانی زندگی کو نابودی کے دھانے پر کھڑا کیا ہوا ہے اور انسانوں کی ہوا و ھوس اور حیوانی بے لاگ خواہشات ہیں کہ جہنوں نے انسانوں کو پیغمبروں کی نورانی ھدایت والے راستے سے منحرف کرکے ضلالت و غلاظت کی کھائیوں میں گرا دیا ہے، تو وہ الھی وجود عبدیت الھی کے سماں میں مرحلہ کمال تک پہنچ رہا ہے اور عالم بشریت کے وجدان و ضمیر اس کی انتظار میں ہیں کہ کب وہ اپنے دوش پر پرچم ھدایت لئے ہوئے انسان کو خواہشات و میلانات ، گناہ اور ظلم کی ظلالت بھری فضا سے نکالے اور ان کی شخصیت کے حسین شگوفے کھل اٹھیں اور ان کے دلوں پر حکمت و خیر کے چشمے جاری ہوں اور وہ اپنے پروردگار کے مقام قرب کی طرف سفر کا آغاز کریں ۔
ہاں وہ انسانوں کے ہاتھوں سے ہوا و ہوس کا پرچم لے لیں گے اور ہدایت کا علم ان کے کاندھوں پر رکھ دیں گے یعطف الھوی علی الھدی اذ عطفوا الھدی علی الھوی یہ عالمی عدل و انصاف کا ایک مصداق اور حیات انسانی اور الھی انبیا کی رسالت کا وہ ھدف ہے کہ قرآن مجید نے اس کا وعدہ دیا ہے لیقوم الناس بالقسط ، اس طرح کہ رحمت کی چھتری عالم انسانیت پر اپنا سایہ کرے تاکہ انسانی معاشرہ اس عدالت کے خیمہ میں صلح، محبت ، صداقت، امن،اور اللہ کی بندگی میں اولیا اور انسان کامل کی صورت میں تیار ہوں، یعبدوننی لایشرکون بی شیبا ،پردہ غیبت سے اپنا جلوہ ظاھر کرے گا اور پوری زمین کو الھی پرستش کا معبد بنائے گا۔
اب دیکھتے ہیں کہ جھان اسلام اور قرآن کے پیروکاروں پر کیا ہوگا؟ تو اس زمانہ غیبت میں جہاں اسلام میں ظلم و ستم کسی اور شکل میں ظاھر ہوگا اور وہ بے عدالتی کی شکل ہوگی قرآن مجید کی اپنی ناقص اور بدعملی سے آلودہ آراء کے ساتھ تفسیر ہوگی ،دنیا کے طالب اور دین فروش لوگ دین اور قرآن مجید کو دنیاوی مال تجارت سمجھ کر اپنی پست دنیاوی زندگی پر برباد کریں گے، بقول امام علی علیہ السلام کے ایسے جاھل لوگ لوگوں پر مسلط ہوں گے کہ لوگ لاعلمی میں انہیں علماء سمجھیں جبکہ وہ علم سے خالی ہوں گے، ایسے لوگ اپنی جاھلانہ اور گمراہ کن باتوں سے لوگوں کو اپنے دام میں پھنسائیں گے اور ان کی سادگی اور جھالت سے خوب فائدہ اٹھائیں گے اور آیات کی غلط تفسیر کرتے ہوئے ان سے سنگین جرائم و گناہ کروائیں گے، وہ ظاھر شبھات سے احتیاط کریں گے لیکن شبھات میں غرق ہوں گے بدعت کے مخالف ہوں گے مگر خود سب سے بڑے بدعت گزار ہوں گے ان کا ظاھر انسان ہوگا مگر باطن حیوان سے بدتر ہوگا انہیں نہ راہ ہدایت کی پہچان ہوگی کہ پیروی کریں اور نہ سیاہی قلب کی بنا پر اپنی گمراہی کا علم ہوگا کہ اس سے بچیں وہ مردہ ہوں گے کہ جب وہ سانس لے رہے ہوں گے (اقتباس از خطبہ ۷۶ نہج البلاغہ)
تو امام مہدی(عج) اس صورت میں قرآن مجید کو ان کی پرخطا اور ناحق آراء و نظریات کی شکنجہ سے آزاد کروائیں گے اور ان بدعمل خائن ، دنیا پرست ، فریب کار اور نام کے علماء کو نابود کریں گے، ایسا عظیم کام کہ جو تمام انبیاء و رسل و ائمہ الھی (ع) کی تبلیغ کا مقصود ہے اسے انجام دینے کے لئے آپکا معنوی تکامل ضروری ہے اس حوالے سے یہ بھی ایک وجہ غیبت شمار ہوتی ہے اگرچہ آپ حجت الھی اور اسم اعظم پروردگار ہیں پوری کائنات میں کامل ترین انسان ہیں اور سب سے زیادہ مقرب الھی ہیں لیکن اس قانون قرآنی کی بنا پر قل رب زدنی علما آپ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ الھی تربیت ، تعلیم جلال و جمال حق سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور ھر حوالے سے انسانوں کی زندگی میں بالخصوص مومنین کی نیتوں اور اعمال دین میں ان کی باطنی ھدایت میں مشغول ہیں تاکہ جنود الھی کی شکل میں آنے والے کل میں تمام قوتوں کے ساتھ باطل سے ٹکرائیں گے اور حق و عدالت کے نور سے پوری کائنات کو روشن کردیں۔

فلسفہ غیبت کی بحث اپنے اختتام کو پہنچی ہے, آخر میں بارگاہ قدرت میں دعا ہے:
پروردگارا ہمیں معلوم ہے ہماری خطائیں اور گناہوں کی کثرت مانع ہے کہ تیری پاک و پاکیزہ حجت کی ہمراہی کریں,تو ہمیں حد اقل حجت حق کے سچے ناصروں کا خدمت گزار بنا… اللهم عجل لولیک الفرج….

طالب دعا:علی اصغر سیفی

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید