عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ بحث مہدویت(ساتویں قسط)- موضوع:امام عصر عج کی طولانی عمر مبارک_ مصنف:جناب آغا علی اصغر سیفی صاحب

مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ بحث مہدویت(ساتویں قسط)- موضوع:امام عصر عج کی طولانی عمر مبارک_ مصنف:جناب آغا علی اصغر سیفی صاحب

حضرت امام مہدی عليہ السلام کی زندگی سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث آپ کی طولانی عمر کے بارے میں ہے۔
اس وقت 1437 ھجری ہے. امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی عمر مبارک 1182 سال ہے.
بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک انسان کی عمراتنی طولانی ہوسکتی ہے؟!
اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانہ میں عام طور پر٠ ٨ سے٠٠ ١ سال کی عمر ہوتی ہے لہٰذا بعض لوگ عمر کا یہ دورانیہ دیکھنے اور سننے کی بنا پر اتنی طولانی عمر پر یقین نہیں کرپاتے یا اتنی طولانی عمر کو بعید اور ناممکن خیال کرتے ہیں۔ ورنہ تو طولانی عمر کا مسئلہ عقل اور سائنس کے لحاظ سے بھی کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔
دانشوروں نے انسانی بدن کے اعضاء کی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان بغیر بوڑھا اور ضعیف ہوئے بہت زیادہ طولانی عمر پاسکتا ہے۔
برنارڈ شو کہتے ہیں:
بیالوجسٹ ماہرین دانشوروں کے لئے قابل قبول اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی عمر کے لئے کوئی حد معین نہیں کی جاسکتی‘(راز طول عمر امام زمان, علی اکبر مہدی پور, س 13)
پر وفیسر ”اٹینگر” لکھتے ہیں:
ہماری نظر میں عصر حاضر کی ترقی اور ہمارے شروع کیے ہوئے کام کے پیش نظر اکیسویں صدی کے لوگ ہزاروں سال عمرپاسکتے ہیں”.(مجلہ دانشمند,سال 6،نمبر6،ص 147)
اس وقت بھی دنیا میں ایسے افراد کم نہیں جو مناسب کھانے پینے اور متناسب آب و ہوا اور دوسری بدنی و فکری سرگرمیوں کی بنا پر ١٥٠ سال یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عمر پاتے ہیں۔
اسکے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ انسانی تاریخ میں طولانی عمر کا متعددبار تجربہ اور آسمانی اور تاریخی کتابوں میں بہت سے ایسے افراد کا نام اور ان کی زندگی کے حالات بیان کئے گئے ہیں جن کی عمر آج کل کے انسان سے بہت زیادہ طولانی تھی۔
اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں۔ ہم ذیل میں چند نمونے بیان کرتے ہیں:

١۔ قرآن کریم میں ایک ایسی آیت ہے جو نہ صرف یہ کہ انسان کی طولانی عمر کی خبر دیتی ہے بلکہ عمر جاویداں کے امکان (ہمیشہ کی زندگی )کے بارے میں خبر دے رہی ہے۔
چنانچہ حضرت یونس عليہ السلام کے بارے میں ارشادہوتا ہے:
فَلَولاَ اَنَّہُ کَانَ مِن المُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِی بَطْنِہِ اِلَی یَومِ یُبعَثُون(سورہ صافات,آیت 143)
اگر وہ (جناب یونس عليہ السلام ) شکم ماہی میں تسبیح نہ پڑھتے تو قیامت تک شکم ماہی میں رہتے”۔
لہٰذا مذکورہ آیہ شریفہ بہت زیادہ طولانی عمر (جناب یونس عليہ السلام کے زمانہ سے قیامت تک) کے بارے میں خبر دے رہی ہے جسے ماہرین حیاتیات کی اصطلاح میں ”عمر جاوداں” کہتے ہیں.

٢۔ قرآن کریم میں جناب نوح عليہ السلام کے بارے میں ارشادہوتا ہے:
بے شک ہم نے نوح کو ان کی قوم میں بھیجا جنھوں ان کے درمیان٥٠ ٩ سال زندگی بسر کی”۔(عنکبوت, آیت14)
مذکورہ آیہ شریفہ میں جو مدت بیان ہوئی ہے وہ ان کی نبوت اور تبلیغ کی مدت ہے، کیونکہ بعض روایات کی بنا پر جناب نوح عليہ السلام کی عمر ٢٤٥٠ سال تھی۔
حضرت امام زین العابدین عليہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ:
امام مہدی عليہ السلام کی زندگی میں جناب نوح عليہ السلام کی سنت پائی جاتی ہے اور وہ ان کی طولانی عمرہے”۔(کمال الدین, ج2،ص 309)

٣۔ اور اسی طرح جناب عیسیٰ عليہ السلام کے بارے میں ارشادہوتاہے۔
بے شک ان کو قتل نہیں کیا گیااور نہ ہی ان کو سولی دی گئی ہے بلکہ ان کو غلط فہمی ہوئی…۔ بے شک ان کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالی نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے کہ خداوندعالم صاحب قدرت اور حکیم ہے”۔(نساء, آیت 157 ،158)
تمام مسلمان قرآن و احادیث کے مطابق اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عليہ السلام زندہ ہیں اور وہ آسمانوں میں رہتے ہیں اور حضرت امام مہدی عليہ السلام کے ظہور کے وقت آسمان سے نازل ہوں گے اور آپ کی نصرت و مدد کریں گے۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہیں:” صاحب امر (یعنی امام مھدی عليہ السلام ) کی زندگی میں چار انبیاء کی چار سنتیں پائی جاتی ہیں… ان میں حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی سنت یہ ہے کہ لوگ ان ( یعنی امام مہدی عليہ السلام ) کے بارے میں بھی کہیں گے کہ وہ وفات پاچکے ہیں، حالانکہ وہ زندہ ہوں گے”۔(بحار,ج51،ص 217)
قرآن کریم کے علاوہ خود توریت اور انجیل میں بھی طولانی عمر کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی ہے۔ توریت میں بیان ہوا ہے:
… جناب آدم کی پوری عمر نو سو تیس سال تھی جس کے بعد انہوں نے وفات پائی … ”انوش” کی عمر نو سو پانچ سال تھی، ”قینان” نے عمر نو سو دس سال کی عمر پائی، ”متوشالح” نے نو سو اُنہتر سال کی عمر میں وفات پائی۔(توریت,باب 5،آیت5 تا 26)
اس بنا پر خود توریت میں متعدد حضرات کی طولانی عمر (نو سو سال سے بھی زیادہ) کا اعتراف کیا گیا ہے۔
انجیل میں بھی کچھ ایسی تحریریں ملتی ہیں جن سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ جناب عیسیٰ عليہ السلام سولی پر چڑھائے جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے اور آسمانوں پرچلے گئے (عہد جدید,باب اول آیات 1 تا 12)
اور ایک وقت آسمان سے نازل ہوں گے اور اس وقت جناب عیسیٰ عليہ السلام کی عمر دو ہزار سال سے بھی زیادہ ہے۔
اور تاریخ میں اس کے بہت سے نمونے ملتے ہیں اور خداوندعالم کی لا محدود قدرت کے لحاظ سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ تمام آسمانی ادیان کے ماننے والوں کے عقیدے کے مطابق کائنات کا ذرہ ذرہ خداوندعالم کے اختیار میں ہے اور تمام اسباب و علل کی تاثیر بھی اسی کی ذات سے وابستہ ہے اگر وہ نہ چاہے تو کوئی بھی سبب اور علت اثرانداز نہ ہو سکے، نیز وہ بغیر طبیعی سبب اور علت کے بھی پیدا کرسکتا ہے۔
وہ ایسا خدا ہے جو پہاڑوں کے اندر سے اونٹ نکال سکتا ہے اورجلانے والی آگ کو جناب ابراہیم عليہ السلام کے لئے گلزار بنا دیتا ہے۔ نیز جناب موسیٰ عليہ السلام اور ان کے ماننے والوں کیلئے دریا کو خشک کرکے اس کے اندر سے راستہ بناکراورانہیں پانی کی دو دیواروں کے درمیان سے نکال سکتا ہے۔ (سورۃ انبیاء آیت69،سورۃ شعراء آیت 63)
تو کیا تمام انبیاء اور اولیاء کے خلاصہ، آخری ذخیرہ الٰہی اور تمام صالحین کی تمناؤں کے مرکز نیز قرآن کریم کے عظیم وعدہ کو پورا کرنے والے کو اگر طولانی عمر عطا کرے تو اس میں تعجب کیا ہے؟!
حضرت امام حسن مجتبیٰ عليہ السلام فرماتے ہیں:
اللہ تعالی ان (اما م مہدی عليہ السلام ) کی عمر کو ان کی غیبت کے زمانہ میں طولانی کردے گا اور پھر اپنی قدرت کے ذریعہ ان کو جوانی کے عالم میں (چالیس سال سے کم) ظاہرکرے گا تاکہ لوگوں کو یہ یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے”۔(بحار الانوار,جلد51،صفحہ 109)
لہٰذا ہمارے بارہویں امام حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طولانی عمر مختلف طریقوں: عقل، سائنس اور تاریخی لحاظ سے ممکن اور قابل قبول ہے اور ان سب چیزوں سے بڑھ کر اللہ تعالی کے ارادہ اور قدرت کے جلووں میں سے ایک جلوہ ہے۔
(جاری ہے……)

طالب دعا: علی اصغر سیفی​

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید