عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ اخلاق منتظرین

سلسلہ اخلاق منتظرین
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ اخلاق منتظرین

استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

موضوع: قرآن مجید کی تلاوت اور قرآن بعنوان معلم و مربی اخلاق

ہماری گفتگو کا موضوع اخلاقِ منتظر ہے۔
آج ہم نے قرآن مجید کی قرأت پر گفتگو کرنی ہے۔
پروردگار کا بے پناہ شکر ہے کہ خدا نے ہمیں دو طرح کی حجت یا دو طرح کی ہدایت سے نوازا ہے ۔

ایک حجت صامت ہے جو قرآن مجید ہے۔

اور دوسری حجت ناطق ہے جو امام مہدی عجل اللہ تعالی ہیں۔

تو اہل انتظار ان دونوں الٰہی حجتوں سے فیض لیتے ہیں،

قرآن کتابِ ہدایت ہے اور امام ہادی ہیں۔
قرآن کتاب ہے اور امام اس کے مفسر ہیں۔
قرآن وحی ہے امام اس کے محافظ ہیں۔
ہر دور میں دو حجت ہمیشہ رہی ہیں جس طرح کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ *”میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک قرآن اور ایک میری اہل بیت علیہم السّلام”*

تو ہر دور میں قرآن بھی رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت میں سے بھی ایک معصوم ہستی ، ایک امام جو ہے وہ بھی ہماری ہدایت کا سامان فراہم کرتے رہے۔

🔰 *قرآن شفاء ہے ان بیماریوں کے لیے جو کہ سینوں میں ہیں۔*
ویسے تو قرآن مجید کی توصیف خود قرآن میں کئی انداز سے ہوئی اس کی عظمت اور اس کی اہمیت پر پروردگار نے اشارہ کیا۔

بعنوان مثال سورۃ یونس کی آیت نمبر 57 آپ کی خدمت میں تلاوت کرتے ہیں۔

*یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۵۷﴾*

ترجمہ: *” اے لوگوں یقیناً تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آئی ہے تمہارے پاس کہ جس کے اندر شفا ہے ان بیماریوں کے لیے جو کہ سینوں میں ہیں۔”*
یہاں بیماریوں سے مراد جو ہے وہی ہماری اخلاقی بیماریاں یعنی بداخلاقیاں،یا عقائد سے متعلق جو بیماریاں ہیں یعنی لوگ جو گمراہ ہیں عقائد کے اعتبار سے مثلاً شرک کر رہے ہیں۔
تو قرآن مجید جو ہے وہ ان تمام سینوں کے اندر جو بیماریاں ہیں
ان سب کے لئے شفاء ہے اور پھر پروردگار فرما رہا ہے کہ *”وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ”* مومنین کے لیے کاملاً یہ کتاب ہدایت ہے اور رحمتِ پروردگار ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خود احادیثِ نبوی و آئمہ علیہم السلام کے اندر قرآن مجید کی کیا اہمیت ہے۔

🔰 *قرآن ہر دور میں زمانے کی حجت سے متمسک ہونے کی دعوت دیتی ہے۔*
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن کتابِ انتظار ہے۔

قرآن ایک زندہ کتاب ہے جو ہر دور کی حجت اور اس زمانے کی امت کے درمیان ہدایت کا کام کرتی ہے اور ہر دور کے لوگوں کو اس زمانے کی حجت سے متمسک ہونے کی دعوت دیتی ہے۔

کیونکہ یہ ہر دور کی کتاب ہے یہ صدر الاسلام کی کتاب نہیں ہے یہ قیامت تک آنے والے ہر دور کے لوگوں کی کتاب ہے اور ان کے مسائل کا حل ہے اس کے اندر جو کچھ بھی بیان ہوا ہے وہ ہر زمانے کے لوگوں کے مسائل ہیں۔

آج جو یہاں قرآن مجید اگر اہل ایمان کی بات کر رہا ہے یا صالحین کی بات کر رہا ہے تو آج اس سے مراد منتظرین ہیں۔
تو پس یہ پروردگار کا یعنی آج اگر ہم فرمان پڑھیں تو یہ اہلِ انتظار کے لیے ہے کہ پروردگار فرما رہا ہے تمہارے پاس خدا کا وعظ، خدا کی طرف سے نصیحتیں آئی ہیں جو کہ سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہیں اور مومنین کے لیے ہدایت و رحمت ہیں۔
تو یہاں آج کے دور میں اہل انتظار مخاطب ہیں کیونکہ اس سے پہلے والے جو لوگ تھے دنیا سے چلے گئے تو اب یہ قرآن آج کی امت کی کتاب ہے۔

تو پھر آج اس میں جب خدا ہمیں کہتا ہے *”اے لوگوں”* تو اس سے مراد ہم ھی ہیں , جب خدا یہ فرما رہا ہے کہ یہ مومنین کے لیے رحمت ہے تو یہاں مومنین سے مراد وہی ہیں جو آج کی حجت کی ولایت سے متمسک ہیں یعنی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف پر ایمان رکھتے ہیں۔
قرآن مجید کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معروف فرمان ہیں، *”اپنے گھروں کو قرآن کی تلاوت سے نورانی کریں جس گھر میں بھی قران کی تلاوت ہوتی ہے اس گھر سے شیاطین بھاگ جاتے ہیں اور وہ گھر ملائکہ کا مسکن ہو جاتا ہے”*

اس لئے وہ گھر نورانی ہوجاتا ہے اب تلاوت کے حوالے سے مختلف سوالات ہیں تو روایات جو ہیں وہ مختلف سوالات کا جواب دیتی ہیں ۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کس انداز سے کرنی چاہیے تو اس حوالے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ *”جب بھی قرآن کی قرأت کریں تو اس کو عربی طریقے سے،عربی لحن سے اس کی قرأت کریں”* جیسا کہ زور دیا جاتا ہے کہ قرآن کی تجوید سیکھیں معلمینِ قرآن سے سیکھیں کہ عربی لب و لہجہ کیا ہے اس لب و لہجہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت کریں۔

اور فرماتے ہیں کہ *”گنہگار لوگ جو ہین یا جو فاسق لوگ ہیں ان کے انداز سے قرآن نہ پڑھیں”*
اب یہ کون سا انداز ہے اس میں بعد میں فرماتے ہیں کہ *”یہ لوگ جو ہیں یہ قرآن کو غنا یعنی موسیقی کی انداز سے پڑھتے ہیں یا شعروں کے انداز سے پڑھتے ہیں فرماتے ہیں کہ اس انداز سے قرآن نہ پڑھیں”*

فرماتے ہیں کہ *”میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ جو غنا والے انداز سے”* جسے کہ آج بھی ہم بسا اوقات دیکھتے ہیں کہ بہت ہی گلے میں گھما گھما کر اور عجیب عجیب انداز سے بعض لوگ ممبر پر بھی ہم دیکھتے ہیں جیسے ذاکرین بڑے عجیب عجیب انداز سے قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اور کچھ لوگ جو ہیں وہ شعروں کے انداز سے یا نعوذ باللہ کسی گانے کی طرز پر بھی اس طرح کی بھی جرآت کرتے ہیں۔
تو اس انداز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ اس انداز سے پڑھیں جس طرح عربی لب و لہجہ ہے یعنی وہی تجوید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ اپنی زندگی میں ایک معلم قرآن سے کہ جو تجوید اور قرأت ان چیزوں کے ماہر ہیں ان سے ضرور استفادہ کریں اور ان سے قرآن پڑھنا ضرور سیکھیں۔

⭕عام طور پر لوگ پوچھتے ہیں کہ کتنا قرآن ہر روز پڑھنا چاہئیے۔؟

اس حوالے سے امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے کہ *”قرآن ، پروردگار کا اپنے بندوں کے ساتھ ایک عہد و پیمان ہے چونکہ اس میں اللہ تعالی نے لوگوں کو بتایا ہے کہ تم جو عمل کرو گے میں اس کے مد مقابل تمہیں کتنی جزا دوں گا یا سزا دوں گا لوگوں کو حقائق کی طرف دعوت دی گئی ہے اور اللہ نے لوگوں سے گفتگو کی ہے ان سے عہد و پیمان کیا ہے”* صاف فرماتے ہیں مولا امام صادق علیہ السلام *” بس ایک مسلمان شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس عہد و پیمانِ پروردگار یعنی قرآن مجید کی طرف نگاہ کرے اس پر غور کرے اور روزانہ وہ 50 آیات کی تلاوت کرے”*
یعنی تقریبا وہ قرآن مجید کے چھ صفحات بن جاتے ہیں تو بس آج کے دور میں ہر منتظر جو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا منتظر ہے وہ امام صادق علیہ السلام کے فرمان پر عمل کرتا ہوا کم ازکم ہر روز 50 آیات کی یعنی تقریباً چھ صفحات کی ضرور تلاوت کرے ۔

🔰 *تلاوت قرآن مجید کے آداب۔*

اب اس میں مولا امام صادق علیہ صلاۃ و سلام سے یہ بھی پوچھا گیا کہ *”آیا ہم قرآن کو حفظ سے تلاوت کریں یا قرآن کو کھول کر اس کی زیارت کرتے ہوئے تلاوت کریں۔؟”*
مثلاً بعض لوگوں کو لمبی لمبی سورتیں یاد ہیں ممکن ہے وہ کہیں ہم 50 آیات اپنے حافظے سے بھی تلاوت کرسکتے ہیں، تو مولا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ *”بہتر یہی ہے کہ آپ قرآن مجید کو کھولیں اور قرآن مجید کو کھول کر اپنے سامنے اس پر نگاہ کریں اور تلاوت کریں”* یعنی دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کریں اگرچہ حفظِ قرآن بہت بڑی فضیلت ہے لیکن اگر آپ نے ہر روز چھ صفحات تلاوت کرنے ہیں تو مولا امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ *”بہتر یہی ہے کہ قرآن کھولیں اس کی زیارت کرتے ہوئے تلاوت کریں”* اور فرماتے ہیں کہ *”آیا تو نہیں جانتا کہ قرآن کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے.”*
اس میں مزید مولا علیہ السلام ایک اور نصیحت بھی کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ *”جب بھی آپ قرآن مجید کی تلاوت کریں تو اس میں جلدی نہ کریں جلد جلد آیات قرآن کو نہ پڑھیں بلکہ بہت ہی آرام سے پرسکون انداز سے قرآن مجید کی تلاوت کریں اور جب بھی آپ تلاوت کرتے ہوئے کسی ایسی آیت پر پہنچیں کہ جہاں پروردگار نے جنت کا ذکر کیا ہے”*
فرماتے ہیں کہ *”جب تم قرآن پڑھتے ہوئے کسی ایک ایسی آیت پر پہنچتے ہوں جہاں پر پروردگار نے جنت کا ذکر کیا تو وہ ٹھہر جاؤ؛ اور اللہ تعالی سے جنت مانگو یہ مقام دعا ہے کیوں کہ خدا کی کلام کی تلاوت ہورہی ہے آپ کو معلوم ہے کہ جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو خدا نظر رحمت سے دیکھتا ہے اسے, تو جب بھی جنت کا ذکر آئے تو وہاں ٹھہر جائیں اللہ سے دعا کریں پروردگار ہمیں اہل جنت میں سے قرار دے”*

اور فرماتے ہیں کہ *”جب تم تلاوت کرتے ہوئے کسی ایسی آیت پر پہنچو کہ جہاں جہنم کا ذکر ہے تو وہاں بھی ٹھہر جاؤ اور پروردگار سے پناہ مانگو جہنم کی اور کہو کہ خدایا ہمیں اہل جہنم سے قرار نہ دے ہم پناہ مانگتے ہیں”*

تو یہ سارے آداب جو ہیں ہمارے آئمہ علیہم السلام نے ہمیں بیان کیے ۔
فرماتے ہیں کہ
*”جب بھی قران کی تلاوت کرو تو حزن کے ساتھ کرو یعنی آپ کی آواز کے اندر ایک حزن ہو، ایک غمگین، محزون آواز سے پروردگار کی کلام کی تلاوت کریں”*

اس کے بعد فرماتے ہیں بہت ہی اہم ترین فرمان ہے جس کی وجہ سے ہم کہہ رہے ہیں کہ حتماً قرآن مجید کی تلاوت ہونی چاہیے اور یہ فرمان بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے فرماتے ہیں کہ
*”قرآن مجید کی تلاوت کریں ہر روز اور پروردگار اس دل کو، اس شخص کو عذاب نہیں کرے گا کہ جو قرآن کو اپنے اندر لیتا ہے”* ظاہر ہے انسان جب ہر روز قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو اس کے مفاہیم اس کی آیات اس کے دل میں اپنی جگہ بناتے ہیں اس کے حافظے میں آجاتے ہیں تو یہ نورانیت جب اس کے اندر داخل ہو گی تو فرماتے ہیں کہ *”پروردگار ایسے شخص کو عذاب نہیں کرے گا، وہ دل جس نے قرآن کو سنبھالا ہوا ہے خدا اسے کبھی بھی عذاب نہیں کرے گا۔”*

خود امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب صلوات اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ *”متقین کی نشانیاں ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ قرآن کو ترتیل سے یعنی سکون سے آرام آرام سے مکمل اس کے الفاظ کی ادائیگی سے تلاوت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو محزون کرتے ہیں”* یعنی جب قرآن پڑھتے ہیں تو ان کے دل محزون ہوتے ہیں۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مولا علیہ السلام کا ایک فرمان یہ بھی فرماتے ہیں کہ *”اچھے انداز سے قرآن کو پڑھیں، یعنی جلدی نہ کریں بہت ہی آرام پرسکون انداز سے”*
اور فرماتے ہیں کہ *”قرآن مجید جو ہے اس کے اندر جو داستانیں ہیں مختلف امتوں کی یہ تمہارے لیے بہت ہی نفع مند ہیں بہت ہی مفید ہیں،”* پھر اس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ امتوں نے اپنے انبیاء سے کیا کیا، اور کیا پھر ہوا انکے ساتھ، یا گذشتہ ادوار میں صالحین پر اللہ نے کیا لطف و انعام دیا اور خدا نے کس طرح اپنے وعدے پورے کیے تو ہم سے بھی اللہ جو وعدے کر رہا ہے وہ اسی طرح ہم سے بھی پورے کرے گا،

ویسے اللہ کا ایک بہت بڑا وعدہ یہ ہے کہ وہ صالحین کی حکومت کو بپا کرے گا اور جس ہستی کے ذریعے یہ حکومت بپا ہونی ہے وہ آج موجود ہے امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کہ اللہ نے قرآن میں دو سو کے قریب آیات میں اس عظیم وعدے کی طرف اشارہ کیا ہے اور بار بار جو ہے وہ صالحین کی حکومت اور اس کی خصوصیات پر پروردگار نے آیات قرآن نازل کی ہیں۔

تو آج ہم اسی دور میں ہیں کہ جس ہستی کے ذریعے دنیا میں حکومت الٰہی بپا ہونی ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے آئمہ علیہم السّلام بالخصوص امیر المؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ *”اس دور میں پھر قرآن کی حکومت ہوگی، جب امامِ مہدی علیہ السلام کا زمانہ آئے گا تو پوری دنیا کے اوپر قرآن حکومت کرے گا”*
اس لیے امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کو *”دولة القران”* یعنی حکومتِ قرآن بھی کہتے ہیں۔

اور ہمارے آئمہ معصومین علیہم السّلام فرماتے ہیں کہ *”اس زمانے میں مومنین وہ جگہ جگہ خیمیں لگائیں گے اور قرآن کا درس دیں گے اور قرآن سے اس طرح فیض لیں گے یعنی اس طرح قرآن کی تعلیم دیں گے جس طرح قرآن نازل ہوا یعنی سب اہلِ قرآن ہوں گے، اور قرآن جو ہے ہمارے وجود پر ہماری زندگیوں پر حکومت کرے گا اور یہ کتاب ہدایت اس ھادی کے ذریعے پوری دنیا کا قانون بنے گی اور پوری دنیا پر نافذ ہوگی”*
تو اس زمانے میں قرآن مجید زندوں کی کتاب کہلائے گی، آج تو بڑا افسوس ہوتا ہے جب کوئی شخص مرتا ہے تو قرآن پڑھتے ہیں ورنہ قرآن کو اللہ نے زندہ لوگوں کے لئے بھیجا ہے۔
اگرچہ میت کے لیے پڑھنا چاہیے ثواب ہے تو وہ جو تلاوت کا ثواب ہے وہ میت کو دے رہے ہیں ورنہ قرآن کے اندر جو ہدایت اللہ نے جو قوانین بھیجے ہیں اب اس کا فایدہ میت کو نہیں ہو رہا ہے وہ زندوں کے لیے ہیں۔
قرآن کتابِ ہدایت ہے زندہ کے لئے۔

تو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ شریف یہ قرآن جسے ہم غلافوں میں بند کر دیتے ہیں اور صرف میت کے لئے پڑھتے ہیں یا ثواب کے لیے پڑھتے ہیں مولا عج اسے کتابِ زندگی قرار دیں گے اور قرآن کی رو سے یہ حکومتِ صالحین بپا ہو گی اور تا قیامت قرآن پھر حاکم ہوگا۔

اور پروردگار ہم سب کو ایسا دور دکھائے جو قرآن کا دور ہے، قرآن اور امام مہدی علیہ السلام کا دور ہے تو جس میں امام مہدی عج جیسا امام حکومت کر رہے ہیں اور کتابِ ہدایت، کتابِ قرآن کو ہم پر حاکم کیا ہوا ہے کہ اس زمانے میں ہم اپنی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام اصول قرآن سے لیں گے۔
اور اس قرآن کی ہدایت کی رو سے شرق و غرق پر صرف اور صرف پروردگار کی عبادت ہو گی دنیا میں سب لوگ موحد ہوں گے چوں کہ موحدِ امام اور کتابِ توحید وہ ہم پر حاکم ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو ان منتظرین میں سے قرار دے جو ہر روز کم از کم پچاس آیتِ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور بہت ہی پرسکون انداز سے اور قرآن کو اس کے عربی لحن و تجوید سے تلاوت کریں اور قرآن کے مفاہیم اور اس کے ترجمے پر بھی غور کریں اور اس کے اندر اللہ تعالی کے پیغامات ہیں ان پر بھی غور کرتے ہیں ان سے درس لیتے ہیں اور ہمارے دل جو ہیں وہ قرآنی مفاہیم اور قرآنی آیات کا مسکن بنیں ان شاءاللہ جب قرآن سے ہمارا انس بڑھے گا تو پھر جو قرآن کا محافظ امام مہدی علیہ السلام ہیں ان سے بھی انس بڑھے گا کیوں کہ یہ امام (قرآن) ہمارے پاس موجود ہے جو کچھ ہم اس سے کر رہے ہیں جو معاملہ ہمارا ان سے ہو رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس امام عج جو پردۂ غیبت میں ہیں اس سے ہم نے کیا کرنا ہے۔

تو جتنی عظمت، جتنی توجہ، اس امام صامت پر ہماری بڑھے گی اتنا ہی تعلق وہ امامِ ناطق سے بڑھے گا کیوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں ۔

اللہ تعالی ہم سب کو اہل قرآن میں سے قرار دے انشاء اللہ۔

پروردگار ہم سب کو مولا عج کے قرآن سے مانوس منتظرین میں سے قرار دے

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید