عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

ابو خلدون اور الازھر کے کچھ علماء کا احادیث مہدویت کا انکار

b profile
مہدی مضامین و مقالات

ابو خلدون اور الازھر کے کچھ علماء کا احادیث مہدویت کا انکار

استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

خلاصہ
ابن خلدون جو بہت بڑے عالم ہیں انہوں نے احادیث مہدویت کا انکار کیا اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ “الازھر یونیورسٹی ” کے پروفیسر سعد محمد حسن جو احمد امین کے شاگرد ہیں انہوں نے بھی نظریہ ابن خلدون کی تائید کرتے ہوئے احادیث مہدویت کا انکار کیا۔ اسی طرح ابوزھرہ ، محمد فرید و جدی ، جبہان اور سائح لیبی نے بھی یہی نظریہ اپنایا ہے کہ ابن خلدون نے ان احادیث پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے بہت سی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس گروہ کی نظر میں حضرت عیسیٰؑ کے علاوہ کوئی مہدی نہیں۔
ہمارا تجزیہ

ابن خلدون کے احادیث کو ضعیف قرار دینے کی حقیقت:
پہلی بات یہ ہے کہ ابن خلدون نے تمام احادیث مہدویت کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ کچھ کو مانا بھی تھا۔ انہوں نے 23احادیث مہدویت میں سے 19 کا انکار کیا اور ضعیف قرار دیا اور باقی کو انہوں نے قبول کیا۔ اور اس انکار کے باعث اہل تسنن علماء میں ان کے خلاف تنقید ہوئی۔اور اہلسنتؔ علماء نے مضبوط دلائل کے ساتھ ان کے اس نظریے کو رد کیا اور ابن خلدون کا ایک شدید مواخذہ ہوا۔
علماء اہلسنتؔ جو ابن خلدون کے اس نظریے کے خلاف تھے انہوں نے پہلی بات یہ کہی کہ آپ تاریخ اور سوشیالوجی میں مہارت رکھتے ہیں آپ کا علم حدیث اور علم رجال سے کیا تعلق۔ آپ ان میں مہارت نہیں رکھتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نظریہ مہدویت جن احادیث سے ثابت ہے ان میں متواتر احادیث بھی ہیں اور احادیث صحیحہ کی بہت بڑی تعداد ہے۔
تو کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک موضوع جس پر صحیح اور متواتر احادیث ہوں اور پھر اس پر اصحاب اور تابعین اور بڑے بڑے اہلسنت کے آئمہ سب اسے قبول کرتے ہیں اور اس موضوع پر 1400 سالوں احادیث کے اتنے بڑے بڑے مجموعے ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس موضوع کا انکار کیا جائے۔
ابن خلدون نے چار احادیث مہدویت کو تسلیم کیا تھا۔

1۔ حاکم کی روایت عون اعرابی سے: اور اس نے “ابو صدیق ناجی ” اور اس نے ابو سعید خدری” سے نقل کیا ہے۔
2 ۔ حاکم کی روایت سلیمان بن عبید کے سند سے: اور اس نے ابو صدیق ناجی” اور اس نے ابو سعید خدری ” سے نقل کیا ہے۔
3۔ ظہوری مہدی عج کے بارے میں حاکم کی روایت حضرت علی ؑ سے اسے بھی ابن خلدون نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
4۔ ابی داود سجستانی کی ” صالح بن خلیل ” اور اس کی “ام سلمہ” سے روایت اس کے بارے میں ابن خلدون” نے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں اور ان میں سے کوئی غیر موثق اور مجہول نہیں ہیں۔
اگر اس موضوع پر ایک روایت کے صحیح ہونے پر اگر کوئی قائل ہو تو نظریہ ثابت ہو جاتا ہے۔ اور کہاں ابن خلدون چار احادیث کے قائل ہیں۔ اور پھر بھی منکر مہدی عج نہیں لیکن جو بعد میں آئے انہوں نے تو امام مہدی اور تمام روایات کا انکار کیا اور حضرت عیسیٰؑ کو ہی مہدی قرار دیا۔
بان علماء کے خلاف اہلسنت کے علماء نے تحریک اٹھائی اور ان سب کے نظریات کو باطل قرار دیا۔ اور عقیدہ مہدویت کو اسلام کے اہم عقائد میں سے قرار دیا اور حتی کہ اہلسنت کے بعض علماء نے اعلان کیا کہ جو عقیدہ مہدویت کا قائل نہیں گویا وہ مسلمان نہیں ۔
نتیجہ:
مہدویت کا موضوع شیعہ سنی کتابوں میں موجود ہےاور بہت سارے امور میں دونوں کی آراء متفق اور مشترکہ ہیں۔ کچھ امور کے اندر اختلاف نظر ہے لیکن بطور کلی دونوں امام مہدی عج کے ظہور ان کی امامت اور کی حکومت عدل جو پوری زمین پر بپا ہوگی کے قائل ہیں۔
اہلسنتؔ اور اہل تشیع کی احادیث میں فرق:
1۔ اہلسنت میں احادیث مہدویت کی تعداد تشیع کی نسبت کم ہے۔
2۔ اہلسنت میں احادیث کلی ہیں۔ مثلاً امام مہدیؑ عج زمین کو عدل سے بھریں گے ، مال کو ایسے تقسیم کریں گے وغیرہ۔ لیکن اس کی جزئیات شیعہ احادیث میں زیادہ بیان ہوئی ہیں۔
3۔ اہل سنت نے احادیث میں صرف رسولؐ اللہ اور اصحاب پر اکتفاء کیا ہے اور اہلبیتؑ سے بلکل تمسک نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ احادیث کی ایک بڑی تعداد سے محروم ہوگئے۔ جبکہ شیعہ میں احادیث کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔
4۔ ایک سو سال تک اہلسنت میں احادیث کے نقل ہونے پر پابندی رہی جو جناب عمر فاروق کے زمانہ سے شروع ہوئی اور بنی امیہ کے تمام دور میں یہ پابندی رہی۔ جبکہ شیعہ خاندان وحی سے مربوط ہیں اور ہمیشہ سلسلہ احادیث رہا ہے اور ہمارے ہاں محدثین نے ہمیشہ اس پر کام کیا ہے۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید