شیخ طوسی اور مهدویت – تحریر: (حجت السلام و مسلمین علی اصغر سیفی)
2021-04-11 2021-08-18 18:02شیخ طوسی اور مهدویت – تحریر: (حجت السلام و مسلمین علی اصغر سیفی)
شیخ طوسی اور مهدویت – تحریر: (حجت السلام و مسلمین علی اصغر سیفی)
تمہید
ہر دور میں ایک معصوم زندہ امام کے وجود پر عقیدہ ،تمام اسلامی مکاتب میں صرف مکتب تشیع کا بنیادی امتیاز ہے ۔امام مہدی (عج)کی غیبت،علت وحکمت غیبت اور امام غائب سے کس طرح فیض لیا جاسکتا ہے وغیرہ صدر اسلام سے احادیث و روایات میں بیان کیا جاتا رہا ،آئمہ علیہم السلام کے اصحاب اور شیعہ خواص اس موضوع سے مطلع تھے ۔جب غیبت امام (عج) واقع ہوئی تو ایک طرف شیعہ عوام الناس حیرت سے دوچار ہوئی اور دوسری طرف دیگر مکاتب اور منکرین امامت نے اس موضوع کو بہانہ بناکر بہت سے شبہات اور اعتراضات کی بوچھاڑ کردی۔مکتب تشیع کے محافظ اور مدافع علماء اور بزرگان نے آغاز غیبت سے اس موضوع کو لسان وقلم سے نہایت مستحکم دلائل کے ساتھ بیان کیا ،تاکہ شیعہ عوام کے زمانہ کے امام پر ایمان میں اضافہ ہو اور مخالفین بھی ساکت ہوں۔اس حوالے سے اہم ترین قیمتی قلمی آثار غیبت نعمانی ،کمال الدین اور اربع رسالات شیخ مفید(رح)قابل ذکر ہیں۔اسی سلسلے کی ایک اہم ترین کڑی شیخ طوسی (رح) کی کتاب "الغیبۃ” ہے ۔اس مختصر مقالہ میں اس کتاب کے پیش نظر شیخ طوسی (رح) کی مہدویت کے حوالے سے خدمات کو پیش کیا جاتا ہے۔ مطالب کو تین مرحلوں میں پیش کیا جائیگا ،سب سے پہلے شیخ بزرگوار کا مختصر تعارف ، اسکے بعد آپ کی مہدوی موضوع میں فعالیت و کاوش کے چند نمونے پیش کیے جائیں گے اور آخر میں انکی کتاب”الغیبۃ ” کا جائزہ پیش کیا جائیگا۔
شیخ طوسی (رح) کا مختصر تعارف
محمد بن حسن بن علی بن حسن المعروف شیخ الطائفہ تاریخ تشیع کی تاریخ ساز عظیم شخصیت تھی ۔آپ 385 ھجری میں پیدا ہوئے اور آپکا سال وفات 460ھجری ہے۔مکتب تشیع کی احا دیث میں معتبر کتب اربعہ میں سے دو کتاب"الاستبصار اور التھذیب” آپ نے تحریر کیں۔علماء شیعہ کی تاریخ میں عظیم الشان متکلم،محدث،مفسر اور فقیہ شمار ہوتے ہیں۔
تئیس سال کی عمر میں آپ خراسان سے بغداد آئے اور شیخ مفید (رح) اور سید مرتضی علم الھدی(رح) جیسے بزرگ علماء سے کسب فیض کیا۔سید مرتضی (رح) کی وفات کے بعد مذھب جعفریہ کی زعامت اور مرجعیت آپکے کندھوں پر آگئی اور عباسی خلیفہ نے بغداد کی کرسی کلام آپکے سپرد کی۔
بغداد پر ۴۴۸ ھجری میں سلجوقی ترک افواج نے حملہ کیا اور ترک سردار طغرل بیگ نے متعصب اھلسنت علماء کی شہہ پر شیخ طوسی (رح) کے حوزہ اور گھر پر حملہ کیا،لوٹ مار کی اور انکے کتابخانہ کو جلایاتو آپ نجف تشریف لائے اور حوزہ علمیہ نجف کی تاسیس کی۔
حوزہ علمیہ نجف میں شیخ طوسی(رح) نے سینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی ،ان میں تین سو کے قریب مجتہد تھے[1] ۔ انکے مشہور ترین شاگرد ابوالصلاح حلبی تھے۔آپ تمام اسلامی علوم میں صاحب نظر اور سب سے بڑھ کر تھے۔فقہی اجتہاد میں آپ نے منفرد روش اختیار کی اور فقہی علمی موضوعات کو وسعت بخشی۔آپکے علمی مقام اور نفوذ کا یہ عالم تھا کہ وفات کے اسّی سال بعد تک کوئی شیعہ فقیہ انکے فتوی کے خلاف فتوی صادر نہیں کرتا تھا۔آپ نے فقہ،کلام،تفسیر،حدیث،رجال اور اصول فقہ وغیرہ میں دسیوں کتابیں تحریر کیں۔آج تک استفادہ ہونے والے آپکے شہرہ آفاق علمی آثار مندرجہ ذیل ہیں:
1- حدیث میں تهذیب الأحکام،الإستبصار فیما اختلف من الأخبار، کتاب الإمالی، کتاب الغیبة(مہدویت سے متعلق ہماری مورد بحث کتاب ہے)۔
2- تفسیر میں التبیان فی تفسیر القرآن۔فقہ میں النهایة فی مجرد الفقه و الفتوی اور المبسوط فی الفقه الإمامیة۔اصول فقہ میں عده در اصول۔
3- کلام میں اصول عقائد یا اصول العقائد،تلخیص الشافی اور تمهید الاصول۔ادعیہ میں مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد ہے۔
شیخ طوسی (رح) کی مہدوی فعالیت کے چند نمونے
اما زمانہ (عج) کی طولانی غیبت کو دشمنان مکتب اھل بیت (ع)نے ہمیشہ مختلف اعتراضات اور خدشات کا نشانہ بنانے کوشش کی، لیکن ہر دور میں امام مہدی (عج) کے جانثار سپاہی اور ناصرین یعنی فقہاء اور علما ءاعلام نے قران و حدیث اور عقلی مستحکم دلائل سے مخالفین کو ساکت کیا۔
غیبت کبری کے آغاز میں جب معاندین نے زبان اعتراض کھولی تو شیخ طوسی(رح) نے شیعی عقائد کی رو سے غیبت کے موضوع پر وسیع بحث کی اور مخالفین کے اعتراضات و شبہات کا مدلل اور مضبوط جواب” کتاب الغیبۃ”کی تصنیف کی صورت میں دیا۔یہاں کچھ شبہات اور جوابات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
(۱)امام عصر (عج) کی مخفی ولادت:
شیخ طوسی(رح) نےامام زمانہ (عج) کی ولادت باسعادت پر تفصیل سے بحث کی اور بہت سے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں۔آپ امام زمانہ (عج) کی ولادت کے مخفی ہونے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں :یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے اس طرح کی مثالیں ماضی میں دیگر ملل و اقوام میں بھی موجود تھیں۔وہ بہت سی مثالیں بیان کرتے ہیں مثلا تاریخ ایران سے کیخسرو کی داستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ کیخسرو کی والدہ نے اپنا حمل اور بچے کی ولادت کو مخفی رکھا کیونکہ کیخسرو کا دادا افراسیاب بچے کو قتل کا قصد کئیے ہوئے تھا[2]۔
اسی طرح شیخ طوسی (رح) حضرت ابراھیم خلیل (ع) کی ولادت پر اشارہ کرتے ہیں کہ قران کریم اور دیگر تاریخی ماخذات کی رو سے کاھنوں نے نمرود کو خبردار کیا ہوا تھا کہ ایک بچہ جلد ہی پیدا ہوگا اور لوگوں کو انکے دین سے دور کرے گا اور بتوں کو توڑے گا۔نمرود نے اس مسئلہ سے بچنے کےلئے حکم جاری کیا کہ اس سال پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کو قتل کیا جائے ۔لیکن حضرت ابراھیم(ع) کی والدہ نے اپنے حمل کو چھپائے رکھا اور شہر کے نزدیک لوگوں کی نگاہوں سےپنہاں اپنے بچے کو جنم دیا۔[3] شیخ طوسی(رح) حضرت موسی(ع) کی مخفی ولادت کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور مخالفین پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تاریخی اور بالخصوص انبیاء جیسی الہی شخصیات میں مخفی ولادت کی بکثرت مثالیں موجود ہیں تو امام زمانہ(عج) کی ولادت کا مخفی ہونا کیوں قابل اعتراض قرار پایا؟!
(2) امام زمانہ (عج) کی غیبت:
بعض مخالفین مکتب تشیع ، امام عصر(عج) کی غیبت اور غیبت کے طولانی ہونے نیز حضرت کا کسی رابطہ نہ ہونے کو خلاف عرف وعقل جانتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں اور بعض یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ بیس سے زیادہ سال کی غیبت سنی نہیں گئی اور یہ طولانی غیبت کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
شیخ طوسی (رح) جواب میں فرماتے ہیں کہ مخالفین اعتراض کرنے میں زیادہ روی اور مبالغہ کا شکار ہوئے ہیں جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں امام عصر(عج) اس طرح سب کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہیں۔
امامیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ امام عسکری(ع) کے زمانہ میں انکے بعض اصحاب نے امام عصر(عج) کی زیارت کی اور امام عسکری(ع) کی شہادت کے بعد بھی انکے اور شیعوں کے درمیان اصحاب خاص واسطہ تھے کہ جو نواب اربعہ کے عنوان سے مشہور ہوئے۔نواب اربعہ، امام (عج) کے حکم سے بظاھر امام والی ذمہ داری انجام دیتے تھے مثلا لوگوں سے وجوھات کی وصولی اور لوگوں کے شرعی مسائل اور سوالات کا جواب دینا وغیرہ[4]۔
شیخ طوسی (رح) نیز واضح کرتے ہیں کہ اس طرح کی غیبت پہلی دفعہ واقع نہیں ہوئی اور نہ یہ غیر معمولی ہے ۔آپ یہاں بڑی شخصیات کے بارے مشہور روایات و حکایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،سب سے پہلے حضرت خضر (ع)کے موضوع کو بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت یوسف (ع)کی غیبت کو بھی اس اعتراض کا جواب قرار دیتے ہیں۔
(۳) امام زمانہ (عج) کی طولانی عمر:
غیبت کے موضوع میں ایک مشہور اعتراض ، حضرت کی طولانی عمر کا نامعقول ہونا ہے۔مکتب تشیع کا عقیدہ ہے کہ امام عصر(عج) کمال عقل اور جوانی کی طاقت کے ساتھ مسلسل زندہ ہیں ،گذرتے زمان کی گردش آپ میں ضعف و بڑھاپا نہیں پیدا کرسکی ۔جبکہ شیعہ مخالف مکاتب فکر کا نظریہ ہے کہ عرفی اور فطری طور پر بشر اس طرح طولانی عمر نہیں کرسکتا۔
شیخ طوسی (رح) اس شبہہ و اعتراض کے مدمقابل عرب و عجم کے معمّرین کا نام لیتے ہیں کہ جنہوں نے بہت طولانی عمر زندگی کی۔آپ نے حضرت نوح(ع)،لقمان بن عاد،ربیع بن ضبیع،مستوغر بن ربیعہ ،اکثم صیفی اور دیگر افراد کا نام لیا اور انکی مدت عمر بیان کی۔
شیخ طوسی (رح) نیز واضح کرتے ہیں کہ کسی چیز کے درست ہونے کو ثابت کرنے کا سادہ ترین راستہ اس چیز کا دنیا میں واقع ہونا ہے۔جب تاریخ بشریت ھزار سال سے زیادہ عمر گزارنے والے لوگوں کا تذکرہ کرتی ہے تو یہ بذات خود علی الاعلان گواہی ہے کہ ایسی چیز کسی صورت میں محال نہیں ہے۔[5]
(۴) امام عصر(عج) کی غیبت کا فلسفہ:
امام عصر(عج) کی غیبت کے موضوع میں ایک اہم ترین بحث آنحضرت (عج) کی غیبت کی علت و فلسفہ ہے۔ روایات میں مختلف علل اور وجوھات بیان ہوئی ہیں مثلا جان کا خوف،لوگوں کی آزمائش وغیرہ،شیخ طوسی (رح) کی نظر یہ ہے کہ امام عصر (عج) کی ٖغیبت کی حقیقی علت انکی جان کی حفاظت ہے ۔
بعض مخالفین اسی نظریہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں اللہ تعالی نے اپنی عنایات کے محور امام کی دشمنوں کے مدمقابل حمایت نہیں کی کہ وہ غائب ہونے پر مجبور نہ ہو ۔معترضین اس حوالے سے انبیاء الہی کی مثال پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب بھی انبیاء کو بھیجا انکی رسالت کے تمام ہونے سے پہلے دشمنوں سے انکی جان کی حفاظت کی،کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ امام سے دفاع نہ کرے اور وہ غیبت پر مجبور ہو؟
شیخ طوسی(رح) اس اعتراض کے جواب تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ کا منع اور نہی کرنا دو صورتوں میں ہے :پہلی صورت:منع کرنا ،تکلیف سے منافات نہ رکھتا ہو اور مکلف ترک گناہ پر مجبور نہ ہو۔دوسری صورت: مکلف ترک گناہ پر مجبور ہو۔
اللہ تعالی نے پہلی صورت "منع” کو لوگوں کے حق میں انجام دیا ،حضرت کے حق میں ظلم سے نہی کرتے ہوئے لوگوں کو روکا ہے کہ وہ حضرت کو
کسی قسم کا نقصان پہنچائیں بلکہ حضرت کے مدمقابل تواضع اور فرمانبرداری کا حکم دیا اور نیز ابھارا ہے کہ لوگ حضرت کے اوامر و نہی کی اطاعت
کریں۔
شیخ طوسی(رح) غیبت کو امام کے لیئے اسی طرح کا حفاظت کا ذریعہ جانتے ہیں۔انکی رائے کے مطابق اگر خدا ہمیشہ خارق العادہ کام کے ذریعے سے نبی یا امام کی حفاظت کرتا رہے ممکن ہے دین میں مفسدہ پیدا ہو۔غیبت ایک طرح کی جان کی حفاظت کا ذریعہ ہے کہ اللہ اس سے پہلے انبیاء کو بھی اسی طرح بچاتا رہا ہے،اسکی مثال نبی اکرمﷺ کا غار ثور میں پنہاں ہونا اور شعب ابی طالب میں محصور ہونا ذکر کرتے ہیں۔
جہاں تک "منع” کی دوسری صورت کا تعلق ہے، شیخ طوسی(رح) فرماتے ہیں کہ ایسی ممنوعیت انسانوں کے اختیار و تکلیف کے منافی ہےاور سوائے ابلاغ رسالت اور خاص موارد میں امام کے لیے مہیا ہوتی ہے۔[6]
شیخ طوسی (رح)، امام عصر (عج) کی علت غیبت پر تحقیقی بحث کو آگے بڑھاتے ہیں اور اس اعتراض کے سلسلے میں دیگر علماء کے جوابات کا بھی تجزیہ کرتے ہیں اور کچھ جوابات کو ضعیف جانتے ہیں۔[7]
شیخ طوسی(رح)، امام عصر(عج) کے موضوع پر بہت سے شبہات اور سوالات کا جواب دیتے ہیں اور عقیدہ مہدویت کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔جو جوابات شیخ (رح) نے دئیے صدیوں تک فقہاء کے لیے مورد استفادہ قرار پاتے رہے۔
کتاب الغیبۃ طوسی کا جائزہ
کتاب کا نام ا ور تعارف
شیخ الطائفہ ابو محمد بن الحسن طوسی (متوفی 460ھ)کی کتاب "الغیبۃ” شیعہ ماخذات و مصادر میں نہایت معتبر اور قدیمی کتاب شمار ہوتی ہے ۔یہ کتاب عصر غیبت صغری کے قریب تحریر ہوئی اور علماء سلف کے ان آثار میں سے جو ابھی تک موجود ہیں ،خاص اہمیت کی حامل ہے۔مہدویت کی ابحاث میں اھل نظر و تحقیق اسے چشمہ زلال و ناب کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔
شیخ طوسی (رح)اس کتاب میں بارھویں امام (عج) کی غیبت کبری کو روایات اور کلامی روسے واضح کرنے کے لیے جدید ترین دلائل و شیوہ سے استفادہ کرتے ہیں۔مختلف احادیث اور عقلی دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ بارھویں امام حضرت مہدی(عج) ہیں اور ضروری ہے کہ آپ غیبت میں رہیں۔
شیخ طوسی(رح) "احمد بن نوح بصری” کی مفقود کتاب "الاخبار الوکلاء الاربعۃ"سے نواب اربعہ کی مخفی سرگرمیاں اور فعالیت کے بارے موثق تاریخی معلومات بیان کرتے ہیں۔
کتاب "الغیبۃ” ان دسیوں کتابوں میں سے ایک ہے جو اس نام یعنی "الغیبۃ” کے نام سے تحریر ہوئی۔اس نام سے قدیمی ترین کتاب ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی،لیکن کتب تراجم نے اس عنوان سے تحریر ہونے ولی کتب کو دوسری صدی کے بعد سے درج اور تعارف کروایا ہے۔شیخ طوسی (رح) کی کتاب سے پہلے اس عنوان سے تحریر ہونے والی قابل ذکر اور اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
کتاب غیبت نعمانی(متوفی 360ھ)،کتاب غیبت شیخ مفید(متوفی 413ھ)اور کتاب غیبت سید مرتضی(متوفی 436)
ظاھرا مصنف نے اپنی کتاب کو کوئی نام نہیں دیا ،آقا بزرگ تہرانی (رح) نے اسے "الغیبۃ” کا نام دیا ہے۔وہ شیخ طوسی کی کتاب "الغیبۃ” کو امام زمان(عج) کے وجود،حضرت کی علت غیبت اور آخرالزمان میں علامات ظہور پر محکم ترین عقلی و نقلی دلائل اور براہین پر مشتمل جانتے ہیں۔[8]
شیخ طوسی(رح) نے اس کتاب کو 447 ھ میں یعنی اپنی وفات سے تیرہ سال پہلے تحریر کیا تھا۔
کتاب کا مقدمہ
شیخ طوسی (رح) کتاب کےمقدمہ میں ،اس کتاب کو تحریر کرنےکی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں:میں نے یہ کتاب ایک محترم شخصیت کی درخواست پر تحریر کی ،اللہ تعالی انکی عمر طولانی کرے۔انہوں نے درخواست کی تھی کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت پر ایک کتاب تحریر کروں اور اس میں حضرت کی غیبت کا سبب،اسکے طولانی ہونے کی وجہ اور یہ کہ کیوں حضرت ظہور نہیں کرتے ؟آیا کوئی رکاوٹ ہے ؟اور وہ رکاوٹ کیا ہے وغیرہ بیان کروں۔میں نے بھی اس محترم ہستی کی درخواست کو قبول کیا اور انکے حکم کی اطاعت کی۔[9]
کتاب میں مطالب کی ترتیب
یہ کتاب آٹھ ابواب میں ترتیب پائی ہے:
(1)الکلام فی الغیبۃ:مصنف اس باب میں امام غائب کی امامت کو ثابت کرتے ہیں،اس کو ثابت کرنے کے لیے کچھ تمہیدی بحثیں کرتے ہیں مثل ہر دور میں امام کے وجود کا وجوب ،امام کی عصمت کی وجوب اور لوگوں کے درمیان امام کا حضور ثابت کرتے ہیں۔مصنف اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کیسانیہ ،ناووسیہ،واقفیہ ،محمدیہ اور فطحیہ وغیرہ کے امامت کے بارے عقائد رد کرتے ہیں۔اس کے بعد غیبت پر عقیدہ رکھنے کی صورت میں جو شبہات پیش آتے ہیں ،انکا جواب دیتے ہیں اور آخر میں صاحب الزمان کی غیبت پر دلائل ،یہ کہ وہ بارھویں امام ہیں اور امام حسین (ع) کی ذریت میں سے ہیں ،تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور منکرین کے دلائل کو رد کرتے ہیں۔
(2)حضرت حجۃ بن الحسن عسکری (عج) کی ولادت اور دلائل و روایات سے امام (عج) کی ولادت کو ثابت کرتے ہیں۔
(3)ان لوگوں کے بارے ،جنہوں نے امام زمان(عج) کا دیدار کیا۔
(4)حضرت (عج) کے معجزات اور ان سے پہنچنے والی بعض توقیعات کے بارے میں ہے۔
(5)حضرت(عج) کے ظہور سے موانع۔
(6)حضرت (عج) کے سفیروں اور وکیلوں (تمام وکیل خواہ جنکی مدح کی گئی ہو یا مذمت کی گئی ہو)سے مربوط حکایات،انکے نام کا ذکر اور ان افراد کی مذمت کہ جنہوں نے جھوٹی نیابت کا دعوی کیا۔
(7)حضرت (عج) کی مدت عمر اور ان روایات کی توجیہ ،جو انکے فوت ہونے پر دلالت کرتی ہیں؛ وقت ظہور کا نامعلوم ہونا اور ان روایات کی توجیہ جو خاص وقت معین کرتی ہیں؛ علامات ظہور کا بیان۔
(8) حضرت (عج) کی بعض خصوصیات ،صفات اور سیرت کا بیان۔[10]
کتاب کی خصوصیات
کتاب کا غیبت کے موضوع میں مرجع اور ماخذ قرار پانا:یہ کتاب مصنف اور موضوع کی اہمیت کے پیش نظر خاص مقام کی حامل ہے ،یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مہدویت اور غیبت میں کتاب تحریر کرنا چاہے تو وہ مجبور ہے کہ اس کتاب سے استفادہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع سے اب تک علماء اور محققین اس کتاب پر توجہ رکھتے ہیں۔
حدود شرعی کا امام (ع)کے زمانہ حضور سے خاص ہونا:حضرت(عج) کی غیبت کے قائل ہونے کی صورت حدود شرعی کے اجراء کا شبہہ پیش آتا ہے۔بظاھر مصنف قائل ہیں کہ حدود شرعی کو صرف معصوم ہی جاری کرسکتا ہے اس صورت میں قائل ہونگے کہ حدود منسوخ ہوچکی ہیں۔
نیابت کے دعویدار:غیبت صغری سے لیکر اب تک علماء میں ایک اہم بحث ان لوگوں کے بارے میں ہے جو امام مہدی(عج) کی جھوٹی نیابت کا دعوی کرتے ہیں۔مصنف اس کتاب میں بعض ایسے مدعیوں کا نام ذکر کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک حسین بن منصور حلاج ہے، اسکے دعوی پر دلیل کے عنوان سے مصنف دو داستانوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک ابوسھل نوبختی کی طرف سے ہے اور دوسری شیخ صدوق کی طرف سے ہے ۔اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو کوئی بھی حلاج کی نیابت پر دلیل نہیں بن سکتی۔
حضرت حجت(عج) کی حیات:تمام شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مقام امامت پر فائز ہونے کے بعد نگاہوں سے غائب ہوئے ،اسے غیبت صغری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس دور میں حضرت کے چار خاص نائب تھے کہ جو حضرت اور لوگوں کے درمیان رابطہ کا ذریعہ تھے۔نائب چہارم کے بعد غیبت کبری کا زمانہ شروع ہوا کہ ابھی تک جاری ہے۔
امام زمانہ (عج) کی غیبت کے موضوع پر "کتاب الغیبۃ ” شیعہ ماخذات میں ایک اہم ترین اور مکمل ترین منبع اور ماخذ ہے۔اس کتاب میں غیبت امام کی علت وحکمت کو بیان کیا گیا ہے۔شیخ طوسی (رح)نے اس اپنی عظیم کتاب میں جدت اور نیا طرز تحریر انتخاب کرتے ہوئے غیبت امام زمانہ (عج) کو تمام جہات سے بیان کیا ہے۔انہوں نے اس موضوع پر قران ،احادیث نبی(ص) و آئمہ معصومین علیہم السلام اور عقل دلائل دئیے نیز مخالفین کے شبہات و اعتراضات کے جوابات بھی دئیے۔
یہ کتاب امام زمانہ (عج) کے بہت سے فضائل ،حضرت کی زمانہ غیبت و ظہور میں سیرت اور روش نیز انکے ظہور کی علامات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
شیخ طوسی(رح) خود اس حوالے سے ذکر کرتے ہیں:میرے پاس اگرچہ وقت کی کمی،ذھنی مشغولیت ،بہت سی زندگی کی مشکلات اور رکاوٹیں اور ناگوار حوادث کا یکے بعد دیگرے سامنے آنا،ان سب چیزوں کے باوجود ایسے نکات کی طرف اشارہ کرونگا کہ پھر شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔اس موضوع پر طولانی گفتگو نہیں کرونگا کیونکہ ہمارے علماء،اساتید اور مشائخ نے مسئلہ امامت پر تفصیل سے بحثیں کی ہیں۔میری اس کتاب میں کوشش ہے کہ اس موضوع میں مختلف سوالات کا جواب دوں اور اپنی بات کی تائید میں بعض روایات کا ذکر کروں تاکہ روایات کی طرف میلان رکھنے والے حضرات بھی انہیں قبول کریں اور اللہ تعالی اس کام میں طالب نصرت ہوں۔
حدیث وصیت
کتاب الغیبۃ طوسی میں نقل ہونے والی احادیث و روایات میں ایک اہم ترین حدیث "حدیث شب رحلت پیغمبر(ص)"ہے۔جو کچھ عام طور پر لوگوں میں مشہور بات ہے (کہ ایک صحابی وصیت لکھنے سے مانع ہوا تھا)اسکے برخلاف،نبی خداﷺ اس رات اپنے بعض اصحاب کے درمیان اپنی وصیت تحریر کرنے کا قصد رکھتے تھے اور یہ گمراہی سے بچانے والا نوشتہ یعنی آنحضرت ﷺ کی وصیت تحریر ہوئی،اسے امام علی (ع) نے سلمان اور ابوذر جیسے شاھدین کے سامنے مکتوب فرمایا۔یہ وصیت شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود ہے ،معتبر قرائن اور معنوی تواتر کی بناء پر اہم درجہ کی حامل ہے۔
اس وصیت کا کچھ حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
امام جعفر صادق(ع) اپنے والد گرامی امام محمد باقر(ع) ،انہوں نے اپنے والد گرامی امام زین العابدین(ع)، انہوں نے اپنے والد گرامی امام حسین (ع) اور انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمومنین (ع) سے نقل فرمایا کہ آپ فرماتے ہیں:
رسول خداﷺ اپنی شب رحلت،علی(ع)سے فرماتے ہیں :اے ابا الحسن ،ایک کاغذ اور دوات لاؤ اور پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی وصیت لکھوائی اور یہانتک پہنچے کہ فرمایا:اے علی میرے بعد بارہ امام ہیں اور انکے بعد بارہ مہدی(عج) ہیں۔پس اے علی تو بارہ اماموں میں سے پہلا ہے…تو میرے بعد میری امت پر میرا خلیفہ اور جانشین ہے ،جب تیرا وقت وفات آپہنچے تو خلافت کو میرے بیٹے حسن(ع) کے سپرد کردے،جب اسکی وفات کا وقت ہو تو وہ خلافت میرے بیٹے حسین شہید(ع) ذکی مقتول کے سپرد کردے ،وہ اپنے آخری وقت خلافت اپنے فرزند علی ذی الثفنات(امام سجاد(ع)) کے سپرد کردے…. نبی اکرمﷺ بالترتیب تمام اماموں کا نام لیتے ہیں اور جب امام مہدی(عج) کا ذکر آتا ہے تو فرماتے ہیں:مہدی کے بعد بارہ مہدی ہیں ،جب مہدی کا وقت وفات آپہنچے تو وہ خلافت اپنے فرزند مہدی اول کے سپرد کرے ،اسکے تین نام ہیں ،ایک نام میرے نام جیسا ،دوسرا نام میرے والد کے نام جیسا ہے اور وہ احمد اور عبداللہ نام ہے اور تیسرا نام مہدی ہے اور وہ مومنین میں سب سے پہلا ہے۔11]
کتاب الغیبۃ طوسی کے مصادر و ماخذات
شیخ طوسی(رح)کی اس کتاب کے ماخذات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔وہ ماخذات جو ابھی بھی ہمارے پاس موجود ہیں مثلا کتاب کافی،غیبت نعمانی ،کمال الدین، اربع رسالات شیخ مفید ،الذخیرہ سید مرتضی، کتاب مسائل علی بن جعفر(ع)،کتاب سلیم بن قیس وغیرہ۔
کچھ ماخذات ایسے ہیں جو اب ہمارے پاس موجود نہیں ہیں مثلا الضیاء فی الرد علی المحمدیة و الجعفریة سعد بن عبدالله اشعری قمی، کتاب الرجعة و کتاب القائم اثر فضل بن شاذان، کتاب اخبار الوکلاء الاربعة ابن نوح سیرافی، کتاب الاوصیاء و کتاب الغیبة شلمغانی، کتاب فی نصرة الواقفة علی بن احمد علوی وغیرہ.
منابع
1-گرجی، ابوالقاسم؛ تاریخ فقه و فقها، تهران: سازمان مطالعه و تدوین کتب علوم انسانی دانشگاهها (سمت)، 1375، صص 184
2-طوسی، الغیبه، ص ۱۰۵
3-سابقہ ماخذ
4-طوسی، الغیبه، ص ۱۰۹-۱۰۷
5-طوسی، الغیبه، ص ۱۲۶-۱۱۲
6-طوسی، الغیبه، ص ۸۵
7-طوسی، الغیبه، ص ۹۷
8-تهرانی، الذریعة، ج ۱۳، ص۷
9-طوسی، الغیبه،مقدمہ
10-طوسی، الغیبه، ۱۴۱۱ ق، فهرست کتاب.
11-طوسی، الغیبه، ص 150، ح 111