سماجی سطح پر عقیدہ مہدویت کے ثمرات
2022-07-26 2022-07-26 13:14سماجی سطح پر عقیدہ مہدویت کے ثمرات
سماجی سطح پر عقیدہ مہدویت کے ثمرات
سلسلہ معرفت امام زمانہ عج
موضوع :سماجی سطح پر عقیدہ مہدویت کے ثمرات
استاد حجت الاسلام و المسلمین علی اصغر سیفی
نکات
امید کا مستحکم ہونا اور خوف دور ہونا_
ھماری گفتگو سماجی سطح پر عقیدہ مھدویت ھے ۔ اس حوالے سے عرض کیا تھا کہ دنیا کی ھر ملت، ھر سماج اور ھر سوسائٹی فطری طور پر ایک ایسے مصلح، ایک ایسے منجی کی منتظر ھے جو آئے اور دنیا کے تمام مسائل حل کرے ۔لوگوں کو پرسکون زندگی فراھم کرے۔ایسی زندگی جس میں کوئی خوف نہ ھو۔جس میں فقط اور فقط انسانی کمالات اور سعادتیں ھوں ۔ جس میں لوگوں کے رویے ایک دوسرے سے انسانی رویے ھوں اور فطری رویے ھوں جس میں انسان، انسان کے لیے مشکل کھڑی نہ کرے ۔انسان, انسان کی زندگی کو جھنم نہ بنائے ۔اب یہ کام دنیا کے بنائے ھوئے نظام تو نہیں کرسکتے۔۔ دنیا میں لوگوں نے ھر طرح کے نظریے دے دیئے لیکن کوئی نظریہ لوگوں کو سعادت مند زندگی فراہم نہیں کرسکا۔ اگرچہ سہولیات بہت ھیں اس میں کوئی شک نہیں ھے ۔انسانی، حیوانی،حتٰی کہ زمین کےحقوق کی طرف توجہ بڑھی ھے اس میں کوئی شک نہیں ھے ۔پہلے کی نسبت لوگ خوشحال بھی ھیں اس میں کوئی شک نہیں۔لیکن نئی نئی نفسیاتی بیماریاں بڑھی ھیں ۔ نئی جسمانی بیماریاں بڑھی ھیں،رویوں کے اندر عجیب خوفناک تبدیلیاں بھی آئی ھے اس میں بھی کوئی شک نہیں ھے۔لوگ ایک دوسرے سے دور رھنا زیادہ پسند کرتے ھیں ۔ بے حسی بڑھ گئی ھے ،پہلے والی قربت اور اپنائیت ختم ھو رھی ھے ۔تو انسان دن بدن تنہائی کی طرف جارھا ھے۔ یہ ایک اھم ترین المیہ ھے دنیا کا ۔
اُمید بخش ہونا
تو لہٰذا ساری دنیا کے اندر بالآخر اس موعود، اس منجی کا انتظار ھے کہ جو آئے اور لوگوں کو اس زندگی کی طرف لے کر جائے جس میں انکے سارے مسائل حل ھوں ۔اس حوالے سے گفتگو ھوچکی تھی ۔ مختلف مغربی دانش ور کی آراء بھی آپ کی خدمت میں بیان ھوئیں ۔ اور احادیث کی طرف بھی اشارہ ھوا ۔آج ھم یہ دیکھتے ھیں کہ اسلام جو عقیدہ مھدویت پیش کرتا ھے اسکے عالمی،سماجی سطح پر کیا اثرات ھیں ۔
عقیدہ مھدویت کے عالمی اور سماجی سطح پر اثرات
عقیدہ مھدویت بالآخر ھماری امید کو مستحکم کرتا ہے,یعنی ایک تو ھم مایوسی سے بچتے ھیں۔دوسرا یہ کہ وہ امام ع جس نے ظہور کرنا ھے وہ زندہ اور موجود ھے ۔اس وجہ سے ھماری امید مستحکم اور قوی ھوتی ھے ۔ اگرچہ باقی جتنے بھی سماج ھیں ،جتنے بھی اقوام ھیں وہ اس طرح کی مستحکم امید نہیں رکھتے۔ امید ھے ان کے اندر لیکن انکو یہ نہیں پتہ کہ وہ کون ھیں اور کیسے آئے گا ۔ھمیں یہ پتہ ھے۔ اھل تشیع کو پتہ ھے کہ وہ کون ھیں ،کیا نام ھے اور وہ کیسے آئیں گے اس راہ کا بھی پتہ ھے ۔اسی لیے مکتب تشیع کے اندر تحرک زیادہ ھے جمود نہیں ھے ۔ یعنی مایوسی نہیں ھے ۔اگر جمود ھوتا تو یہ کب کا ختم ھوچکا ھوتا ۔ ھم کسی جگہ رکے نہیں ھیں بلکہ مسلسل تحرک ھے مسلسل تحریک ھے۔ اب دیکھیں کہ خود اجتھاد کے اندر مکتب تشیع کہتا ھے کہ جس نے آغاز سے تقلید کرنی ھے وہ کسی مردہ مجتھد کی نہیں بلکہ زندہ مجتھد کی کرے ۔چونکہ زندہ مجتھد زمانے کے مسائل کو سمجھتا ھے اور جدید دور کے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ھے ۔لیکن ھمارے اردگرد جو باقی مکاتب فکر ھیں وہ ابھی بھی ابوحنیفہ،مالک،شافعی یا بہت سارے مردہ علماء کی تقلید پر باقی ھیں کہ جنکا اس زمانے سے کوئی تعلق ھی نہیں ھے اور نہ وہ اس زمانے کے مسائل کو سمجھتے ھیں ۔ اس لیے ان کے اندر تنگ نظری ھے لیکن تشیع کے اندر روشن فکری ھے وسعت نظری ھے۔ چونکہ ھم مسلسل حرکت میں ھیں ۔زندہ مجتھد پر ایمان رکھتے ھیں۔اسکی تقلید کرتے ھیں اور ھمارا امام ع زندہ ھے جسکی ظاھری اور باطنی ھدایت ھمیں مل رھی ھے ۔اور یہ وھی امام ع ھیں جس نے ظہور کرنا ھے اور دنیا کو ظلم و ستم سے نجات دینی ھے ۔ عدالت سے بھرنا ھے ۔لہٰذا ھمارے اندر امید بڑی قوی ھے اسی وجہ سے شیعہ کبھی بھی ظلم کے دباؤ میں نہیں آتا۔پوری دنیا کی تاریخ یہ بتا رھی ھے ۔ شیعوں پر جسطرح ظلم ھوا ھے تو آج تک تو شیعہ ملت باقی بچنی ھی نہیں چاھییے تھی ختم ھوجانی چاھییے تھی۔تاریخ کا حصہ ہونا تھی لیکن یہ باقی ھے بلکہ دنیا پر اپنی حکومتیں قائم کررھی ہے۔عالمی سطح پر بڑے بڑے شیطانوں کو للکار رھے ھیں شیعہ۔ تو یہ اسی امام حیی۔۔۔۔ وقت کے امام ع پر ایمان کے اثرات ھیں۔ کہ ھم کسی ظلم کے دباؤ میں نہیں آتے بلکہ منتظر ھیں ۔ اس دن کا انتظار کررھے ھیں کہ جب پوری دنیا پر ھم نےحکومت کرنی ھے پوری دنیا کے ان ظالموں پر تسلط پانا ھے ۔تو لہٰذا ھمارے ھاں عقیدہ مھدویت اس اعتبار سے قوی ھے اور ھمیں قوی امید دیتا ھے ۔
امام مھدی ع کے اقدامات میں امن و امان کا احساس
دوسری جو چیز ھے وہ یہ کہ عقیدہ مھدویت نے ھی دنیا کو بتایا ھے کہ وہ کیسا امن و امان فراھم کرے گا۔ آج لوگ طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا تو ھیں لیکن انکو رائے حل کا نہیں پتہ اور انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ منجی کیا کرے گا لیکن اسلام میں عقیدہ مھدویت آنے والی پوری دنیا کا نقشہ دے رھا ھے ۔ بتا رھا ھے کہ امام مھدی ع نے کیا کرنا ھے ۔اقتصادی سطح پر کیا اقدامات کرنے ھیں،دنیا سے فقر وفاقہ کا خاتمہ کیسے کرنا ھے ،غربت کیسے ختم کرنی ھے ،سماجی سطح پر مولا نے کیا اقدامات کرنے ھیں پوری دنیا کو امن و امان کیسے فراھم کرنا ھے،دنیا کو ظالموں سے کیسے نجات دینی ھے، لوگوں کی زندگی میں سکون اور اطمینان کیسے آئے گا،لوگوں کے اندر بیماریاں کیسے ختم ھونگی۔جسمانی ،نفسیاتی، فکری ،روحی،باطنی ۔کیسےانسانی کمالات انفرادی اور اجتماعی سطح پر نکھر کر سامنے آئیں گے، کیسے دنیا کے اندر حکومتوں کے ادارے لوگوں کی خدمت کریں گے ۔ اور ثقافتی سطح پر مولاع کے اقدامات بتا رھے ھیں کہ کس طرح لوگ روحانی کمال پائیں گے۔ کیسے علم کے جلوے لوگوں کے وجود سے ظاھر ھونگے۔ کسطرح لوگ مواحد بنیں گے توحید مزاج بنیں گے۔کس طرح لوگ تربیت پائیں گے۔اور اس تربیت کے نتیجے میں ھمارے گھر کا ماحول،محلے کا ماحول شہر کا ماحول ملکوں کا ماحول،عالمگیر ماحول جنت جیسا رویہ پائے گا۔اس لیے کہتے ھیں نا کہ زمانہ ظہور کے اندر آسمانی مخلوقات زمین والوں پر رشک کریں گی۔ ابھی تو ھوسکتا ھے وہ زمین والوں کے کام دیکھ دیکھ کر لعنت بھیجتے ھوں فرشتے ھم پر۔لیکن اس زمانے میں مولا ع کے دور حکومت میں ایک ایسا خوبصورت نظام جب قائم ھوگا اور دنیا بالآخر اس شکل میں آئے گی کہ ملائکہ درود بھیجیں گے رشک کریں گے۔روایات بتاتی ہیں آسمان و زمین کے رہنے والے امام زمانہ عج سے راضی ہونگے (بحار الانوار ، جلد51 , صفحہ71)۔
اور یہ حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کی عالمی حکومت کے زیر سایہ ھوگا۔ اور قرآن نے بار بار اس طرف اشارہ کیا بالخصوص سورہ نور کی آیت نمبر 55 میں دیکھیں کہ پروردگار فرما رھا ھے ۔
کہ جب وہ صالحین کی حکومت بپا ھوگی اور دنیا پر توحید کا پرچم لہرائے گا اور شرک ختم ھوجائے گا ریاکاری ختم ھو جائے گی منافقت ختم ھو جائے گی ظلم و ستم ختم ھو جائے گا۔اسکے بعد پروردگار فرماتا ھے کہ ھر خوف امن سے تبدیل ھو جائے گا۔
کسی قسم کا کوئی خوف نہیں رھے گا۔نا راستوں کا خوف نہ اقتصادی خوف نا سیاسی خوف نہ معاشرتی خوف نہ لوگوں کے رویوں کا خوف۔ابھی تو ھم ھزاروں قسم کے خوف میں مبتلا رھتے ھیں کہ یہ نہ ھوجائے وہ نہ ھو جائے ۔لیکن اس وقت ھمارے دلوں میں کوئی خوف نہیں رھے گا ۔
امام قائم کے حکومت کی مثال
کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک دفعہ اپنے اصحاب کے پاس تشریف فرما تھے تو امام قائم علیہ السلام کا ذکر چل پڑا تو فرمایا کہ
یہ جو راستہ ھے عراق شام کا ۔اس زمانے میں بڑا خوفناک راستہ تھا۔(چونکہ ادھر امیر شام کی حکومت تھی اور مسلسل ان راستوں کے اندر اس حکومت کے کارندے اور کچھ ڈاکو راہزن لوگوں کے قافلے لوٹتے تھے۔ تو مردوں کے قافلوں کو امن نہیں کجا کوئی خاتون ۔ )تو مولا ع فرماتے ھیں کہ اس راستے میں اتنا امن ھوگا کہ ایک خاتون پورے بدن پر زیورات پہن کر اسی راستے کو طے کرے گی اکیلی تنہا لیکن اس کے دل میں کوئی خوف نہیں ھوگا.(بشارت الاسلام صفحہ 236)
یعنی یہ قائم ع کے دور حکومت کے امن و امان کی مثال مولا ع پیش کررھے ھیں۔ یعنی اس زمانے میں دنیا میں ھر راستہ ھر قسم کے خوف سے پاک ھو جائے گا۔کہ ایک خاتون بھی مکمل زیور پہن کر پوری دنیا کا تنہا سفر کرے اس کے دل میں کوئی خوف نہیں ھوگا۔
ابھی بھی ھوسکتا ھے بعض لوگ کہیں کہ دنیا کے اندر کچھ ایسے ممالک ھیں جہاں خواتین تنہا سفر کرتی ھیں کچھ نہیں ھوتا ۔ درست ھے کہ کچھ نہیں ھوتا لیکن دل میں خوف تو ھوتا ھے نا۔ لیکن مھدی علیہ السلام کی حکومت میں دل کے اندر بھی خوف ختم ھو جائے گا ۔ اتنی پرامن سوسائٹی پوری دنیا میں تشکیل پائے گی امام ع کی برکت سے۔
اللّٰہ ھم کو توفیق دے کہ ھم اس حکومت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔اور اس باسعادت زندگی کو درک کریں کہ جس پر ملائکہ درود بھیجیں گے اور وہ دن آنے والا ھے جیسا کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں زمین نور پرودگار سے چمکے گی۔کیونکہ مھدی زھرا ترازوئے عدل رکھیں گے اور دنیا سے ھر خوف اور ظلم کو ختم کردیں گے۔ (عیون اخبار رضا ،جلد2 صفحہ 376)
ان شاءاللہ۔ اللّٰہ ھم سب کو ایسا زمانہ دیکھائے ۔پروردگار ھم سب کو وہ قوم بنائے کہ جس کی برکت سے مھدی زھرا عج ظہور کرے اور دنیا یہ سعادت مند زمانہ دیکھیں ۔