سلسلہ دروس انتظار-درس 1
2023-05-25 2023-05-25 17:26سلسلہ دروس انتظار-درس 1
سلسلہ دروس انتظار-درس 1
موضوع : انتظار پر تمہیدی گفتگو ، انتظار کیا ہے کیوں کریں ؟ امام کی ضرورت کیا ہے ،حضرت عیسی ع کی رو سے دوبارہ جنم لیں عالم ملکوت تک پہنچیں۔
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ :
انتظار :
انتظار یعنی:
زمانہ غیبت میں ہم سب کا کردار، عمل ، ہمارا وظیفہ اور ہماری ذمہداری۔
۔ بلآخر وہ راہ جو ظہور پر ختم ہوگی۔
۔ انتظار یعنی مولاؑ کے ظہور کی تیاری۔
انتظار یعنی :
۔ اپنے نفس سے جنگ
۔ اللہ، رسولؐ اللہ اور حجت خدا کے دشمنوں سے جنگ
انتظار یعنی :
۔ اسلام حقیقی ، ایمان واقعی
امام زمانہؑ عج سے متعلق آیات و احادیث میں سب سے زیادہ جس موضوع پر گفتگو کی گئی وہ انتظار ہے۔ آئمہؑ و معصومینؑ نے سب سے زیادہ انتظار پر گفتگو کی۔
ہم تب انتظار کے موضوع پر بات کر سکتے ہیں جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم امام زمانہؑ کو کیوں چاہتے ہیں۔ یعنی امام مھدیؑ کی معرفت سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ہمیں ان کے وجود کی ضرورت کیوں ہے؟
جب تک ہم ان کے وجود کی ضرورت کی تشنگی کو محسوس نہ کریں گے ۔ اسوقت تک ہم معرفت و انتظار کی کیفیت و عظمت کو نہیں پا سکیں گے۔
دوسرے معنوں میں ہم تب تک مولاؑ کی تلاش میں نہیں نکلیں گے جب تک ہم ان کی جانب توجہ نہیں کریں گے۔ یہ توجہ مہم ترین ہے، اس توجہ کی وجہ سے ہم امام کی جانب بڑھیں گے اور کوئی قدم اٹھائیں گے۔ کیونکہ تب ہمیں امامؑ عج کی ضرورت کا احساس ہو گا۔
غیبت طولانی سے طولانی ہو رہی ہے اور ہم دنیا، انسان، بشر ۔ اہل ایمان و اسلام ، عبادات اور اپنی روزمرہ کی زندگی کے تمام امور کو اپنے وقت کے مطابق چلا رہے ہیں لیکن یہاں کوئی بھی امام کے وجود کی ضرورت پر متوجہ نہیں ، وہ امام جو تنہا، غائب مضطرب ہے اور اللہ کی بارگاہ میں ہمیشہ ہمارے لیے دعا گو ہیں۔ وہ جو ہمارا روف و کریم امام ہے وہ جو موجود ہے۔ اور ان کے وسیلے سے جو ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوگی اس کی اہمیت کو ہم محسوس نہیں کر رہے ۔ اور اس کی جانب توجہ نہیں کر رہے ۔
ہمارا یہ وظیفہ تھا کہ ہم امام کو غیبت کی تنہائیوں سے نکالتے ہوئے اور ان کی اقتداء میں وہ بہت بڑا قدم اٹھاتے کہ جس کا انتظار صدیوں اور ہزاروں سالوں سے ہو رہا ہے۔
یہ خاموشیاں اس لیے ہیں کیونکہ ہم آج تک ان کی ضرورت کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ امام ؑ کی ضرورت اسی طرح ہے جس طرح نبیؐ کی ضرورت ہے۔ جس طرح نبی ہمارے درمیان تشریف لائے انہوں نے ہمیں شرک اور بے پناہ گمراہیوں سے بچایا۔
سورہ آل عمران 101
ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے:
وَكَيْفَ تَكْـفُرُوْنَ وَاَنْتُـمْ تُـتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيَاتُ اللّـٰهِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُهٝ ۗ وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّـٰهِ فَقَدْ هُدِىَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (101)
اور تم کس طرح کافر ہو گے حالانکہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور اس کا رسول تم میں موجود ہے، اور جو شخص اللہ کو مضبوط پکڑے گا تو اسے ہی سیدھے راستے کی ہدایت کی جائے گی۔
قرآن و رسولؐ ہمیں ہدایت کی راہ پر لانے والے ہیں۔ اور ہمیں ہر طرح کے شرک اور گمراہیوں سے بچانے والے ہیں۔ تو آیا یہ وہی 23 سالہ دور رسالت تھا کہ جس کے لیے اللہ نے انتظام کیا تھا یا پھرقیامت تک انتظام ہے ۔
یقیناً پروردگار رحیم جو سب سے زیادہ مشتاق ہے کہ ہم راہ ہدایت اور راہ عبودیت پر رہیں تاکہ جنت کی جانب جائیں۔ اس نے ہمارے لیے رسولؐ اللہ کی رحلت کے بعد ہمارے لیے انتظام کیا کہ ایسے خلفا ء اور آئمہؑ ہوں جو نبیؐ جیسی خصوصیات رکھتے ہوں۔ وہ صاحبان عصمت ہوں ، ہادی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے علوم اور پروردگار نے جو کچھ نوع بشر کو دینا ہے اس سے مزین ہوں وہ سب چیزوں سے حامل ہوں اور وہ ہمارے لیے یہ سب پہچائیں اور ہمارے لیے ھادی اور معلم و مربی بنیں۔
سورہ قدر بتا رہی ہے کہ ہر دور میں ایک ہستی موجود ہے کہ جس پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ ہر دور میں حجت خدا موجود ہے ۔
اسی لیے ہمارے آئمہ ؑ فرماتے ہیں کہ مخالفین سے سورہ قدر سے تفسیر اور اس کی تلاوت کے ذریعے ہماری امامت کے بارے میں بحث کرو۔
کہ وہ کون سی ہستی ہے کہ جو یہ شاہستگی رکھتی ہے کہ ملائکہ کی میزبان ہو۔ سبحان اللہ
شب قدر کیا بھیجا جاتا ہے اور کس کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ وہ کون ہے جو اللہ اور رسولؐ کے علاوہ ہمارے اعمال سے باخبر ہے۔
پروردگار عالم سورہ توبہ 105 میں فرماتا ہے:
قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ
اور (ان سے) کہو کہ : ’’ تم عمل کرتے رہو۔ اب اﷲ بھی تمہارا طرزِ عمل دیکھے گا، اور اُس کا رسول بھی اور گروہ مومنین بھی۔
وہ کون گروہ مومنین ہیں جو ہمارے اعمال کو دیکھ رہیں ہیں۔
آئمہؑ معصومین وہ حقیقی مومن ہیں۔ ہم تو ان کی راہ پہ چلتے ہوئے کچھ نہ کچھ مومن ہونے کے درجہ پا لیتے ہیں۔
انتظار گویا ہمارا دوبارہ زندگی میں پیدا ہونا ہے۔ یعنی ایک نئے ہدف اور ایک نئے انداز سے زندگی گذارنا اور پچھلی زندگی کو خدا حافظ کہہ دینا۔
انتظار یعنی: ولی خدا کی اقتداء۔
انتظار یعنی :
عبادت ، لوگوں کی ہدایت اور لوگوں کو ظلم و ستم سے نجات دلانے میں ، عدالت بپا کرنے میں اور قرآن کی حکومت پوری دنیا میں نافذ کرنے میں اپنے امامؑ عج کے ساتھ ہونا۔اور اپنے امام کی ہمراہی کرنا۔
گناہوں والی زندگی ، ایک بے فکر زندگی سے خدا حافظی کرنی ہو گی ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک حکیمانہ جملہ ہے۔
لَنْ یَلِجَ مَلَکُوتَ السَّمآء مَنْ لَمْ یُولَدْ مَرَّتَیْنِ»
ملکوت (روحانیت ، و معنویت، عبودیت کے اعلیٰ ترین مراتب)
فرماتے ہیں کہ
ملکوت تک وہی جا سکتا ہے جو دوبارہ متولد ہو ۔
انسان دو مرتبہ پیدا ہوتا ہے:
- جب وہ اس عالم ملک میں رحم مادر سے پیدا ہوتا ہے
- جب وہ خدا کی بارگاہ میں اپنے گذشتہ اعمال کے بارے میں توبہ کرتا ہے۔ اپنے اعمال سے پشیمان ہوتا ہے اور اپنی اصلاح کرتا ہے۔ اور پھر اپنے زمانے کے ولیؑ کی ہمراہی میں بامقصد زندگی کا آغاز کرتا ہے۔
یہ انسان کی دوسری ولادت ہے جو اسے ملکوت تک پہنچاتی ہے۔ انسان سب سے زیادہ اپنی زندگی کو سمجھتا ہے۔
جناب ابوذر کی زندگی قابل غور ہے کہ کیسے ایک نگاہ ایک توجہ سے ان کی زندگی بدل گئی اور ابوذر ابوذر ہوگئے کیونکہ انہوں دوبارہ جنم لیا تھا۔ انہوں نے اپنے نفس سمت اور راہ کو تبدیل کیا تھا۔
اگر ہم روحانی طور پر دوبارہ جنم لینا چاہتے ہیں کہ تو ہمیں انتظار کی بحث پر توجہ کرنی ہوگی۔ یعنی دنیا میں ایک اور رنگ سے داخل ہونا اس دنیا کو ایک اور نگاہ سے دیکھنا۔
یہ دنیا وقت گذارنے کا نہیں بلکہ کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔
پروردگار عالم ہمیں مولاؑ کے سچے منتظر بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ایک نئی زندگی عطا فرمائے
آمین۔
والسلام ۔
عالمی مرکز مہدویت قم