عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید – 20درس

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید – 20درس

آیت (26)
آیت کا ترجمہ و تفسیر ،نبوت و امامت کا مقام صرف اللہ سے انتخاب ہوتا ہے اور کیوں، معیار حسب ہے نہ نسب ، حضرت نوح اور حضرت ابراھیم علیہما السلام کی ذریت

خلاصہ:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُـوْحًا وَّاِبْـرَاهِـيْمَ وَجَعَلْنَا فِىْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ۖ فَمِنْـهُـمْ مُّهْتَدٍ ۖ وَّكَثِيْـرٌ مِّنْـهُـمْ فَاسِقُوْنَ
اور ہم نے نوح اور ابراھیم کو بھیجا تھا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی تھی، پس بعض تو ان میں راہِ راست پر رہے، اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں۔

تفسیر:
پروردگار عالم اس آیت کے اندر بطور کلی بیان فرما رہا ہے کہ نظام نبوت اللہ کی طرف سے ہے۔ ہدایت کےدو نظام ہیں۔
1۔ نبوت
2۔ امامت
یہ دونوں نظام بادشاہوں کی طرح وراثتی نہیں۔ بلکہ خدا جسے چاہتا ہے کہ اس کے اندر اگر باطنی پاکیزگی اور عصمت ہو اور استعداد ہو کہ وہ لوگوں کی ہدایت کر سکے تو پروردگار عالم اسے مقام نبوت یا امامت عطا فرماتا ہے۔

البتہ نبیوںؑ یا اماموں کی اولادوں میں یہ استعداد زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہاں تریبت کا زیادہ ماحول ہوتا ہے۔ وہ اس گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں توحید و عبودیت و ہدایت کی باتیں ہوتی ہیں۔
جہاں نفس امارہ اور شیطان سے جہاد اور انسانیت کے کمال کی باتیں ہوتی ہیں۔

تو لامحالہ اولاد میں یہ صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کہ وہ کمال کو حاصل کریں ۔ لیکن اللہ کی کسی سے رشتہ داری نہیں ہے۔ اگر کسی اور جگہ سے کوئی شخص نبوت والی صلاحت حاصل کر لے ۔ پھر چاہے اس کے والد نبی ؑ نہ ہوں پھر بھی اللہ اسے نبیؑ قرار دیتا ہے۔

ویسے تو ہم سب نسب میں اولاد پیغمبرؑ ہیں یا ہم اولاد آدمؑ سے ہیں یا اولاد نوحؑ سے۔

بہت سارے لوگ اولاد ابراہیمؑ سے ہیں۔ اور خدا خود فرما رہا ہے کہ ان کی تمام اولاد ہدایت یافتہ نہیں۔ کچھ نے ہدایت پائی اور کچھ فسق و فجور اور گناہوں میں مبتلا ہیں۔

مقام نبوت و امامت کے لیے صلاحیت ضروری ہے۔ کہ وہ خود بھی معصوم ہو اور لوگوں کو بھی پاکیزگی کی راہ پر لانے کی طاقت رکھتا ہو۔
اسلیے جب حضرت ابراہیمؑ کو مقام نبوت کے بعد جب مقام امامت ملا تو انہوں نے مقام امامت اپنی اولاد کے لیے طلب کیا تو اللہ نے فرمایا:

لاینال عهدی الظالمین۔
میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔

پیغمبر ہو یا امام اللہ کی جانب سے معین ہونے کی شرط اہلیت ہے نہ کہ وراثت۔

آیت میں کیونکہ حضرت نوؑح و ابراہیمؑ کی نسل کی بات ہوئی ہے۔ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے جو زندہ رہے وہ حام ، سام اور یافث تھے۔ اس لیے زمین پر آج جتنی بھی قومیں اور نسلیں ہیں۔
چاہے وہ عرب ، فارس یا روم ہوں یہ سامی کہلاتے ہیں اور ترک یافث کی اولاد کہلاتے ہیں۔
اسی طرح سوڈان ، سندھ ، ہند، حبشہ اور بربر کے جو قبائل ہیں۔ وہ حام کی اولاد کہلاتی ہیں۔

اگر تحقیق میں جائیں تو یہ باتیں درست نہیں ۔ کیونکہ طوفان نوح کے بعد فقط حضرت نوح ؑ کی اولاد تو باقی نہیں بچی تھی۔ بلکہ بہت سارے اور مومنین بھی تھے جن کی آگے نسلیں ہیں۔ تو پس جو کچھ بھی زمین پہ ہے اگرچہ حضرت نوحؑ کی کثیر نسل ہے لیکن حضرت آدمؑ کی حضرت نوحؑ سے ہٹ کر بھی اولاد موجود ہے۔

اب یہ جتنے بھی پیغمبرؑ آئے وہ اولاد نوحؑ شمار ہوتے ہیں ۔ خود حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی نسل سے آنے والے پیغمبر اولاد نوح شمار ہوتے ہیں۔

جہاں تک حضرت ابراہیم ع کی نسل کا تعلق ہے قرآن میں ان کا ذکر ہے۔
پروردگار عالم فرماتا ہے:
ہم نے انہیں اسؑحاق اور یعقوؑب عطا کئے۔ اور پھر ان کی آگے سے ذریت حضرت ہارونؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت ذکریہؑ میں حضرت داؤدؑ و حضرت سلیمانؑ ، حضرت موسیٰ ؑ و حضرت عیسیٰ ؑ اور انبیاؑ کا ایک بے پناہ سلسلہ ہے۔ خود حضرت اسماعیل ع سے آگے ہمارے نبیؐ اکرمؔ حضرت محمدؐ ہیں۔

یہ ساری وہ ہستیاں ہیں جو پیغمبر ہیں اور اس کے علاوہ ان کی نسل میں صالحین بھی گذرے ہیں۔ اور اماموں کی بھی تعداد بھی گذری ہے اور دوسری جانب نافرمان اور مشرک بھی گذرے ہیں۔ اور جناب ابراہیمؑ وہ ہستی ہیں کہ جن کو اللہ نے علی الاعلان مقام امامت عطا فرمایا۔

خود ہمارے پیغمبرؐ اور ان کی نسل ابراہیمؑ کی نسل ہے۔

آیت مجیدہ میں پیغامات:
اللہ نے جناب نوحؑ و جناب ابراہیمؑ کے نام لیے یعنی بزرگ و اچھی ہستیوں کو نام کے ساتھ یاد رکھنا چاہیے۔ جیسے ہم بھی آئمہؑ اور مختلف حرموں میں زیارت کے لیے جاتے ہیں کیونکہ ہم ان کی یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھنا چاہتے ہیں۔

نبوت لوگوں کے انتخاب سے نہیں بلکہ خدا خود عہدہ نبوت کو منتخب کرتا ہے۔

نبی ؑ کا کام لوگوں کو پیغام حق سنانا ہے آگے قبول کرنا نہ کرنا لوگوں کا اختیار ہے۔ دنیا دارالاختیار ہے اسی لیے کچھ ہدایت یافتہ ہے اور کثیر تعداد فاسق ہیں۔

ہم نے خود اپنی مرضی سے ہدایت پانی ہے اور جنت و جہنم ہمارے اپنے اختیار میں ہیں۔

نسب نجات بخش نہیں بلکہ وہ انسان کا حسب ہے جو نجات بخش ہے۔

اگر کوئی شخص نبی کی اولاد ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پاک ہے بلکہ یہ اس کا عمل ہے جو بتائے گا کہ وہ کس حد تک دین و ایمان کے بارے میں اچھا ہے۔
نسب دنیاوی حوالے سے مفید ہے جیسے اللہ فرماتا ہے ہم نے قبائل کو خلق کیا تاکہ وہ پہچانے جائیں۔ یہ نسب فقط پہچان کے لیے ہے نہ کہ نجات کے لیے۔

امام سجاد ؑ جب شب میں گریہ فرماتے تھے تو گریہ میں کئی دفعہ جب پوچھا جاتا تھا کہ مولاؑ
آپ تو خاندان نبوت سے ہیں ۔ معدن رسالت سے ہیں۔

آیا آپ کے بارے میں یے اللہ نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا کہ :

اِنمَا یُرِیدُ اَللہ لِیُذَھِب عَنکُم رِجسِ اَھل البِیتِ وَیُطَھِرکُم تَطھِیراً۔

تو امام فرماتے تھے کہ اللہ نے جنت اطاعت گذاروں کے لیے بنائی ہے۔ چاہے وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ اور جہنم نافرمانوں کے لیے ہے چاہے سید اور قریشی ہی کیوں نہ ہوں اور جب صور پھونکا جائے گا تو اس وقت نسب نہیں پوچھے جائیں گے حسب پوچھے جائیں گے۔

پروردگار عالم توفیق دے کہ ہم فقط اپنے نسب اور قوم پر فخر نہ کریں بلکہ اپنے اعمال کے ذریعے اپنی بندگی کو اللہ کی بارگاہ میں ثابت کریں اور زمانے کے ولی کی نگاہ میں اپنے سچے شیعہ ہونے کو ثابت کریں۔
آمین۔
والسلام ۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید