عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید – 18درس

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید – 18درس

آیت (24)
آیت کا ترجمہ و تفسیر ، بخل اور بخیل کی مذمت، بخیل کا معنی ، کیوں انفاق کا حکم ؟ ، نہج البلاغہ میں مولا علی ع کا بخل و انفاق پر اہم خطبہ ، روایات میں بخل و بخیل ، اہم نکات ۔۔۔

اَلَّـذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَيَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَنْ يَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَـمِيْدُ (24)
جو خود بھی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو کوئی منہ موڑے تو اللہ بھی بے پروا خوبیوں والا ہے۔

سورہ حدید کی اس آیت مجیدہ میں پروردگار عالم نے لوگوں کے اس گروہ سے خطاب کیا ہے کہ جو خود بھی کنجوس ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کا سبق پڑھاتے ہیں۔

پروردگار عالم فرماتا ہے کہ جو بھی میرے حکم یعنی انفاق سے منہ موڑے گا تو جان لے کہ خدا کو تمھارے مال کی ضرورت نہیں وہ خود بے نیاز ہے اور قابل ستائش ہے۔

کنجوسی، بخل کی تعریف:
ماہرین لغت یہ کہتے ہیں یعنی لوگوں کے اندر اپنی مالی برتری کو محفوظ رکھنا۔

کنجوس یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ نعمات دوسرے لوگوں کو بھی مل جائیں گی تو وہ لوگوں پر اپنی مالی برتری نہیں رکھ سکتا۔

کجنوس ہمیشہ مغرور ہے۔

مولا علیؑ نہج البلاغہ کے
183 نمبر خطبہ میں بہت ہی خوبصورت درس دیتے ہیں ۔
فرماتے ہیں کہ:

اے اللہ کے بندوں فقط اللہ کو اپنے مدنظر رکھو تم اس حال میں ہو کہ نعمتوں میں غرق ہو۔ اس سے پہلے کے بیماری، تنگیاں اور مصیبتیں تمھاری طرف آئیں۔ بس کوشش کرو کہ اپنی گردنوں کو آزاد کرو جو زنجیروں میں بند ہو جائیں۔

مولاؑ فرماتے ہیں کہ شب میں کچھ حصہ جاگا کریں اور اپنا پیٹ خالی رکھیں۔ اور خیرات کی راہ میں قدم اٹھائیں اور اپنے مال سے محتاجوں کو انفاق کریں اور اپنے مادی بدن و مال سے کچھ نکالیں تاکہ آپ کا نفس اور روح کمال تک پہنچے۔

اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم خدا کی مدد کرو تو خدا بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم رکھے گا۔

اور قرآن میں ہے کہ: وہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دےگا تاکہ اللہ بھی چند برابر بڑھائے اور اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

اللہ نے جو ہم سے مانگا ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا کو اس کی ضرورت ہے۔ اللہ اس حالت میں ہم سے مانگ رہا ہے کہ زمین و آسمان میں خدا کے لشکر ہیں جو اس کے تابع ہیں۔ وہ عزیز و حکیم اس کائنات کا مالک ہے ۔ وہ بے نیاز ہے اور حمد و ثنا کے لائق ہے۔

اللہ اس لیے مانگ رہا ہے تاکہ ہم ہمیں وہ ہمیں آزمائے اور دیکھے کہ کس کا عمل دوسرے سے بہتر ہے۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے نیک اعمال میں دوسروں پہ سبقت کریں۔ اور وہ جو خدا کے گھر میں رہنے والے ہمنشیں ہیں ہم ان کے ہمنشین بنیں۔

احادیث میں بخل کے حوالے سے بہت کچھ بیان ہوا۔

مولا علیؑ نے اپنے فرزند ارجمند حسن ؑ مجتبیٰ سے پوچھا:

بخل کیا ہے ؟
امام حسنؑ نے فرمایا ۔ جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے تو اسے عزت سمجھے اور جو کچھ اللہ کی راہ میں دیتا ہے اسے ضائع ہوا سمجھے۔

بخیل آدمی اول تو کسی کو دیتا نہیں اور اگر دے دے تو پچھتاتا ہے اور اسے ضائع سمجھتا ہے۔

معصومؑ فرماتے ہیں کہ بخل کرنے والا وہ گویا اللہ پر بدگمان ہے اور اسے اللہ پر توقع نہیں ہے۔

روایت ہے کہ:
امام جعفر صادقؑ ایک مرتبہ دوران طواف دعا فرما رہے تھے:
پروردگارا مجھے بخل کے شر سے محفوظ رکھ۔

بخل یا کنجوسی فقط مال میں نہیں بلکہ لوگوں کے احترام میں بھی ہوتی ہے۔

روایات میں ہے کہ :
وہ بھی بخیل ہے جو لوگوں کو سلام میں بخل کرتا ہے۔

معصؑوم فرماتے ہیں:
لوگوں میں بدترین بخل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے خمس و زکوۃٰ کے واجبات میں بخل کرے۔

نبیؐ کریم فرماتے ہیں:
وہ بھی بخیل ہے کہ جس کے سامنے میرا نام لیا جائے۔ اور وہ مجھ پر درود و سلام نہ بھیجے۔

روایات میں ہے کہ :
بخیل سے کبھی مشورہ نہ لیں۔

معصومؐ فرماتے ہیں کہ:
بخیل کی طرف دیکھو بھی مت

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بخیل لوگوں کو متکبر قرار دیا۔ جو خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجتھے ہیں۔ خود پر فخر کرتے ہیں اور خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اور یہی ان کی حالت باعث جہنم بنتی ہے۔

آیت بتا رہی ہے کہ بخیل کبھی بھی اللہ کا محبوب نہیں بن سکتا۔اسے کبھی بھی اللہ کی عنایات اور محبت و شفاعت نہیں ملتی۔

روایت ہے کہ اللہ گناہگار سخی کو عبادت گذار بخیل سے زیادہ پسند کرتا ہے۔

بخیل خود بھی گناہ کرتا ہے اور لوگوں کو بھی گناہ کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ اگر دوسرے لوگ سخاوت کریں گے تو اس کا بخل ظاہر ہو جائے گا۔ بخیل وہ ہے جو اللہ کے حکم کا نافرمان ہے۔ اور اس کے مد مقابل پروردگار فرماتا ہے میں غنی ہوں مجھے ضرورت نہیں میں اس لیے تمھیں کہتا ہوں کہ انفاق کرو تاکہ تم کمال پاؤ۔

جوشخص انفاق کرتا ہے اس کے لیے دوسروں کی دعائیں دنیا و آخرت میں باعث شفا واجر ہیں۔

امامؑ عج جب ظہور فرمائیں گے تو ان کی اہم ترین علامت سخاوت ہے۔

امام زمانہؑ عج کے منتظر کی زمانہ غیبت میں علامت یہی ہے کہ وہ اخلاق،سلام، گفتگو، محبت اور مال میں سخی ہیں اسلیے وہ خود بھی محترم ہیں اور لوگوں میں بلند ترین مقام کے حامل ہیں۔

پروردگار ہمیں ایسے اہل انتظار بننے کی توفیق دے اور ہمیں بخل جیسی پلید خصلت و صفت سے ہمیں محفوظ رکھے ۔

والسلام ۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید