عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید 17درس

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ درس تفسیر سورہ حدید 17درس

آیات کا ترجمہ و تفسیر ، طبیعی حوادث زلزلہ سیلاب وغیرہ اور بیماریاں و پریشانیاں سب اللہ کی طرف سے مقدر شدہ ہیں ، ان قدرتی آفات کا فلسفہ ، محمد و آل محمد علیہم السلام کے قدرتی آفات اور انسانوں پر آنے والی مصیبت پر فرامین۔۔۔

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ : 

آیت 22:
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِى الْاَرْضِ وَلَا فِىٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِىْ كِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْـرَاَهَا ۚ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّـٰهِ يَسِيْـرٌ
جو کوئی مصیبت زمین پر یا خود تم پر پڑتی ہے وہ اس سے پیشتر کہ ہم اسے پیدا کریں کتاب میں لکھی ہوتی ہے، بے شک یہ اللہ کے نزدیک آسان بات ہے۔

تفسیر: 
پروردگار عالم فرماتا ہے کہ دنیا میں جو بھی مصیبت آتی ہے مثلاً سیلاب، قحط ، خشک سالی یا پھر زلزلے ہیں جن کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں مر جاتے ہیں۔

اسی طرح جو بھی مصیبت آتی ہے وہ ہماری جانوں پہ جیسے بیماریاں یا موت ہے۔

پروردگار فرما رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم تمھیں پیدا کریں ہم نے انہیں ایک خاص کتاب میں لکھا ہوا تھا۔ یعنی یہ چیزیں مقدر تھیں اور اللہ پر یہ کام بہت آسان ہے۔ اور اگر تمھارے ہاتھوں سے نکل جائے تو اس پر غم نہ کرو اور اگر کوئی چیز تمھارے پاس آجائے تو اس پر غرور نہ کرو۔ اور اللہ غرور کرنے والوں کو اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔

اللہ تعالیٰ ان آیات میں ہمارے لیے بے پناہ پیغامات بیان فرما رہا ہے۔

خالق اکبر فرماتا ہے کہ زمین پر جتنی بھی مصیبتیں ہیں اور جو خود انسان کے وجود کو لاحق ہوتی ہیں وہ تقدیر ہوتی ہیں۔ اور اللہ نے ان چیزوں کو معین کیا ہوا ہے۔

کہتے ہیں کہ تاریخ میں ایک واقعہ اسی حوالے سے ہے کہ جب اہلبیت ؑ اسیر کربلا و شام دربار میں پہنچے تو اس لعین نے ایک آیت پڑھی۔
جو سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 ہے : کہ
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ (30)
اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے۔

تو اسوقت امام سجادؑ نے جواب دیا کہ یہ آیت محمد ؐ و آل محمدؑ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی بلکہ ۔۔

⚫امام سجادؑ نے سورہ حدید کی آیت نمبر 22 کی تلاوت فرمائی:

*مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِى الْاَرْضِ وَلَا فِىٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِىْ كِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْـرَاَهَا ۚ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّـٰهِ يَسِيْـرٌ*

جو کوئی مصیبت زمین پر یا خود تم پر پڑتی ہے وہ اس سے پیشتر کہ ہم اسے پیدا کریں کتاب میں لکھی ہوتی ہے، بے شک یہ اللہ کے نزدیک آسان بات ہے۔

یعنی اللہ نے ہمارے لیے شروع سے مقرر کیا تھا کہ ہمیں دین کی حفاظت کے لیے کتنی سختیوں سے دوچار ہونا پڑے گا اس لیے ہم اسے آسانی سے تحمل کر رہے ہیں۔

ہماری روایات میں آیا ہے کہ جو لوگ مصیبت سے دوچار ہوئے ہیں جیسے خشک سالی، قحط سالی اور سیلاب۔ اور جیسے ابھی دنیا نے زلزلے کی تباہ کاریاں دیکھیں۔

⚫حدیث میں روایت ہے کہ یہ ظالم کے لیے تنبیہ ہے۔اور اسے متوجہ کرنے کے لیے ہے کہ تو کچھ بھی نہیں اور اللہ تجھے کسی بھی وقت پلٹا سکتا ہے۔ اور مومنین کے لیے آزمائش اور امتحان ہے اور ان کے لیے رشد و کمال ہے کہ وہ اس سے عبرت لیں۔ اور زندگی کے ہر لمحے اللہ کا شکر عبادت اور وظائف انجام لائیں۔

اسی طرح یہ مصائب انبیا ء کے لیے درجات کی بلندی کا وسیلہ ہیں اور اولیاء کے لیے کرامت الہی کو وصول کرنے کا ذریعہ ہے۔

آیت دو قسم کی بلاؤں کی جان اشارہ کر رہی ہے
1۔ مصبت الارض:
زلزلہ ، قحط، خشک سالی ، سیلاب وغیرہ
2۔ انسان کے وجود سے منسلک مصیبت: بیماری ، حادثہ موت وغیرہ

یہ تمام چیزیں طے شدہ ہیں اور ایک دم رونما نہیں ہوئیں اور اللہ کی طاقت سے کوئی چیزخارج نہیں۔
اور اس کے بعد پروردگار فرماتا ہے کہ یہ اتنا بڑا نظام چلانا آسان ہے اور اس میں یہ بلائیں اور مصیبتیں بھی آتیں ہیں۔

آیت نمبر: 23
لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتَاكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (23)
تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے اس پر رنج نہ کرو اور جو تمہیں دے اس پر اتراؤ نہیں، اور اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔

اور اگر تمھارے ہاتھ سے کچھ نکل جائے جیسے زلزلے میں لوگ عرش سے فرش پر آگئے۔ اس پر افسوس نہ کرو اور جو کچھ تمھیں ملا ہے تو اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تکبر اور جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔

یہ ساری چیزیں اللہ کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں کمال پانے کا وسیلہ تھیں۔ ہماری زندگی کے تمام مراحل اس سیڑھی کے زینوں کی مانند ہیں کہ جب پر قدم بہ قدم چڑھ کر ہم کمال تک پہنچتے ہیں۔

ان نعمات کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک بنک کا ملازم ہے تو وہ ایک دن لوگوں کو پیسے دیتا ہے اور ایک دن ان سے وصول کرتا ہے۔ نہ تو وہ پیسے دیتے ہوئے غمگین ہوتا ہے اور نہ ہی لیتے ہوئے کیونکہ اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہوتا۔

پروردگار عالم فرماتا ہے کہ میرا بندہ ایسا ہو کہ جب نعمتیں ہاتھوں سے نکلیں تو غمگین اور محزون نہ ہو اور جب نعمتیں ہاتھ میں آئیں تو تکبر نہ کرے۔ البتہ انسان کی طبیعت پر تھوڑا سا فرق پڑتا ہے لیکن اس سے اسے کوئی فرق نہ پڑے۔ ہمیں اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے کچھ دیر کے لیے ہیں یعنی عارضی ہے۔

کربلا کے اندر اتنا کچھ ہوا لیکن بی بی زینب ؑ کا مقام معرفت یہ ہے کہ فرمایا:

ما رایت الا جمیلا
میں نے سوائے خوبصورتیوں کے کچھ نہیں دیکھا۔ !
میں نے نظام پروردگار دیکھا جو کچھ اس نے دیا ہے اور کچھ لیا ہے۔

امام حسینؑ اس نشیب میں زندگی کے آخری لمحات تھے جب ان کا بدن اقدس زخموں سے چور چور تھا وہاں فرما رہے تھے:

رضا بقضائہ صبراً علی بلاء
اے اللہ تو نے جو مقدر کیا تھا میں اس پر راضی ہوں اور ان تمام مصیبتوں پر صبر کرتا ہوں کیونکہ صبر وسیلہ کمال ہے۔

امیر المومنین ؑ کو شہادت اور موت کا اشتیاق تھا تو وہ کس چیز سے تشبیہ دیتے تھے۔ فرماتے تھے:

اللہ کی قسم علی ؑ ابن ابی طالب کو موت سے اس طرح عشق ہے جس طرح ایک دودھ پیتے بچے کو اپنی ماں کے سینے سے ۔

ہمیں زندگی کے تمام حوادث کو اللہ کی حکمت و علم کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے نہ کہ یہ اتفاق کی بات ہے۔ کہ ہم غم یا بے پناہ خوشی کا شکار ہوں۔ یہ تمام چیزیں طے شدہ ہیں جن میں ہم اپنا وظیفہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ نظام پروردگار ہے وہ دیتا ہے پھر لیتا ہے پھر دیتا ہے پھر لیتا ہے۔

کسی نے مولا علیؑ سے پوچھا کہ مولاؑ زہد کیا ہے؟

آپ نے فرمایا :
تو انہوں نے سورہ حدید کی اسی 23 نمبر آیت کی تلاوت کی۔

لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتَاكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (23)

یعنی زہد اسے کہتے ہیں کہ دنیا کی کسی چیز سے وابستہ نہ ہوں اور انہیں وسیلہ سمجھیں۔ یہ آیت مجیدہ کہہ رہی ہے کہ سب چیزیں لوہے محفوظ میں موجود ہیں اور اللہ کی جانب سے طے شدہ ہیں۔

خوشی کی لمحات یا غم کے لحظات کی دنیا کے حوالے سے قابل مذمت ہے اور آخرت کے حوالے وسیلہ کمال ہیں۔ خدا نے ان اشیاء کے آنے جانے میں ہمارے لیے درجہ کمال رکھا ہے اور اس درجے کو پانے کی خوشی محسوس کرنی چاہیے یعنی اللہ کے امتحانوں میں کامیاب ہونے کی لذت محسوس کرنی چاہیے۔

مومن اور منتظر تمام چیزوں پہ توجہ رکھتا ہے اور ہر وقت توحید پر قائم رہتا ہے ان تمام چیزوں پر توجہ کرتا ہے اور آزمائشوں میں کامیاب ہوتا ہے۔

اہل انتظار امتحانوں سے گھبراتے نہیں بلکہ امتحان مانگتے ہیں کیونکہ امتحان فقط وہ تنہا راہ ہے جس میں وہ مقام کمال و دراجات تک پہنچ سکتے ہیں۔

والسلام ۔
سعدیہ شہباز

عالمی مرکز مہدویت قم 

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید