عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ بحث مہدویت ( دوسری قسط)_غیبت کے مرا حل- مصنف:حجت الإسلام و المسلمین آغا علی اضغر سیفی صاحب

مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ بحث مہدویت ( دوسری قسط)_غیبت کے مرا حل- مصنف:حجت الإسلام و المسلمین آغا علی اضغر سیفی صاحب

فلسفہ غیبت کی بحث مکمل کرنے کے بعد مراحل غیبت کی بحث شروع کی جاری ہے.
احادیث میں امام مہدی علیہ السلام کے لئے دو قسم کی غیبت بیان ہوئی ہے :غیبت صغری (مختصر مدت کی غیبت) اور غیبت کبریٰ (طولانی عرصہ کی غیبت).

 تمہید :

لوگوں کے آئمہ اھل بيت عليھم السلام کي امامت و ولايت کے ساتھ نامناسب روّيہ سے غيبت ضروري ہوچکي تھي اور آئمہ معصومین(ع) علم الہی کی بناء پر اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے اور چاھتے تھے کہ شيعہ مومنین درست انداز سے اس واقعہ کا سامنا کریں اور اسے تحمل کریں.آئمہ معصومین عليھم السلام نے مختلف طریقوں سے اس حقیقت کو لوگوں کے لئے آشکار کیا:
(١): احادیث و روایات بیان کرتے ہوئے :
آئمہ معصومین عليھم السلام نے احادیث و روایات کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو غیبت کے واقعات سے آگا ہ کیا۔ ہماری احادیث کی کتب میں امام عج اللہ فرجہ الشریف کی مخفی ولادت اور حضرت ولی عصر علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں بہت سی احادیث و روایات بیان ہوئی ہیں۔
یہاں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ تمام معصومین علیہ السلام کی طرف سے غیبت کے بارے میں روایات صادر ہوئی ہیں۔
مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب ”کمال الدین و تمام النعمہ”ميں جو غیبت کے بارے میں تحریر ہوئی ہے ان روایات کی طرف اشارہ کیاہے اور ہر ہر امام سے اس موضوع پر حدیث کو جدا جدا باب میں ذکر کیاہے کہ ان میں سے بعض احادیث کی طرف اشارہ کیا جاتاہے:
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
طَوبٰی لِمَنْ أدْرکَ قَائِمَ اَھْلَ بَیْتِیْ وَ ھُوَ يَأتَمُّ بِہِ فِی غَیْبَتِہِ قَبْلَ قِیَامِہَ وَ یَتَوَلّی اَؤلیَائَہُ وَ یُعَادِی أعْدَاءَ ہُ ذَلِکَ مِنْ رُفَقَائِی وَ ذَوِی مَوَدَّتِی وَ أکْرَمَ اُمَّتِی عَلَّی یَوْمَ الْقِیَامَة.
اس شخص کيلئے خوشخبری ہے کہ جو میری اہلبیت (ع) کے قائم کو اس حال میں پائے ان کے ظہور سے پہلے ان کی غیبت کے زمانہ میں ان کی امامت پر ایمان رکھتاہو اور ان کے چاہنے والوں سے محبت رکھتا ہو اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھتاہو وہ قیامت کے دن میرے دوستوں، میرے چاہنے والوں اور میری امت کے سب سے زیادہ عزت پانے والے لوگوں میں سے ہوگا۔ ( کمال الدین باب٢٥ ، ح٢.)
امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام:
لِلْقََائِمِ مِنّا غَیْبَةٌ أمَدُھَا طَوِیلٌ… اَِلاَّ فَمَنْ ثَبَتَ مِنْھُمْ عَلَي دِيْنِہِ وَلَمْ يَقْسُ قَلْبُہُ لِطُولِ أَمَدِ غَيْبَۃِ اِمَامِہِ فَھُوَ مَعِي فِيْ دَرَجَتِي يَومَ الْقِيَامَۃ ہمارے قائم کے لئے ایک غیبت ہے کہ اس کی مدت طولانی ہے …۔ جان لیجئے کہ جو بھی اس زمانہ میں اپنے دین پر محکم و استوار ہوگا اور اس کا دل اپنے امام کی طولانی غیبت کی بناء پر سخت نہ ہو گا,وہ روز قیامت میرا ہم مرتبہ ہوگا۔ ( کمال الدین باب ٢٦، ح١٤.)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام :
أمَا عَلِمْتُم أنّہ مِنّا أحَدٌ اِلاَّ وَیقَعُ فِی عُنُقہِ بَیْعَةٌ لِطَاغَیةِ زَمَانِہ اِلاَّ الْقَائِمُ الذِیْ یُصَلّی رُوْحُ اللہِ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ خَلْفَہُ فَاِنَّ اللہَّ عَزَّوَجَلَّ یُخْفیْ وِلاَدَتَہُ وَ یُغَیّبُ شَخْصَہُ لِئلاَّ یَکُونَ لِاَحَدٍ فِیْ عُنُقِہ بَیْعَةٌ اِذَا خَرَجَ؛”
ابو سعید عقیصا کہتے ہیں : جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ مجبواً صلح کی تو لوگ ان کے پاس آئے ان میں سے بعض ان کے معاہدے کي وجہ سے ان سے ناراض ہوئے تو امام نے فرمایا: وای ہو تم پر٬ تم کیا جانتے ہو کہ میں نے کيا کہا: پروردگار کی قسم یہ کام میرے شیعوں کے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے کہ جس پر سورج چمکتاہے اورغروب ہوتاہے… آیا تم جانتے ہو کہ ہم میں سے کوئی امام ایسا نہیں ہے کہ جس پر اس کے زمانہ کے طاغوت کی ( جبری) بیعت نہ ہو مگر سوائے اس قائم کے کہ روح اللہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔اللہ تعالی ان کی ولادت مخفی رکھے گا اور ان کے وجود کو غائب رکھے گا یہاں تک کہ وہ خروج کریں گے اور ان کی گردن پر کسی کی بيعت نہ ہوگی۔ ( کما الدین ، ب٢٩، ح٢))

امام حسین علیہ السلام: مِنَّا أثْنَاعشرمَھْدِیّاً اَوّلُھُمْ أمِیْرُ الْمؤمِنِیْنَ عَلِیُّ ابنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَآخِرُ ھُمُ التّاسِعُ مِنْ وُلْدِیْ وَھُوَ الاِماَمُ القَائمُ بالْحَقِّ … لَہُ غَیبَة یَرْتَدَّ فِیْھَا أَقَوَامٌ وَيَثْبُتُ فِیھَا عَلَی الدِّیْنِ آخِرُونَ …”۔
امام حسین عليہ السلام نے فرمایا: ہمارے خاندان سے بارہ مھدی(عج) ہو ں گے ان میں سے سب سے پہلے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب عليہ السلام ہیں اور ان میں سے آخری میری نسل میں سے نویں امام ہوں گے وہ حق پر قائم امام ہیں …۔ ان کیلئے غیبت ہوگی کہ اس میں کچھ قومیں مرتد ہوجائیں گے اور دوسرے دین پر قائم رہیں گے اور انہیں تکلیفیں پہنچیں گی اور انہیں کہا جائے گا: اگر تم صحيح کہتے ہو تو يہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ جان ليں جو ان کي غيبت کے زمانہ اس اذيت اور جھٹلائے جانے پر صابر رہے ان مجاہدین کی مانند ہے کہ جو شمشير کے ساتھ پیغمبراکرم (ص) کی ہمراہی میں جنگ کرتے رہے ہیں۔ ( کمال الدین ، باب ٣٠ ، ح٣))

امام سجاد علیہ السلام:” ثُمَّ تَمْتَدُّ الْغَیْبُةُ بِِوَلِیَّ اللّہِ عَزّوَجَلّ الثَّانی عَشَرَ مِنْ أوْصِیَاءِ رَسُولِ اللَّہ والآئمِةِ بَعْدَہُ. یَا أبَا خَالِدٍ اِنَّ أھْلَ زَمَانِ غَیْبِتِہِ القَائِلِیْنَ بِاِ مَامَتِہِ وَالْمُنْتِظِرِیْنَ لِظُھورِہِ أَفْضَلُ مِنْ أھْلِ کُلِّ زَمَانٍ…”۔
ابوخالد کہتے ہیں : کہ میں اپنے مولی امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے فرزند رسول اللہ! وہ ہستیاں کہ جن کی اطاعت و مؤدت کو واجب کيا اور ان کي اقتداء کو اللہ تعالی نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد واجب قرار دیا وہ کون ہیں؟ فرمایا اے کنَد: اولی الامر کہ جنہیں اللہ تعالی نے لوگوں کا امام بنایا اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دیا وہ یہ ہیں: امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ع) پھر انکے دو فرزند حسن و حسين علھيم السلام اور پھریہ ذمہ داری ہمیں عطا ہوئی اس کے بعدکچھ نہ فرمایا٬ میں نے عرض کی :اے میرے سرور امیر المؤمنین(ع) سے ہماری طرف روایت نقل ہوئی ہے زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی٬ آپ کے بعد حجت اور امام کون ہیں فرمایا:ميرا فرزند محمداور ان کا نام تو رات میں باقر ہے وہ علم کو شگوفا کریں گے……۔ پھر ولی خدا کی غيبت طولانی ہوگی اور وہ ولی خدا پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد کے آئمہ(ع) کا بارہواں وصي ہےامام ہے٬ اے ابا خالد! ان کی غیبت کے زمانہ کے لوگ کہ جو ان کي امامت کا عقيدہ رکھتے ہيں اور ان کے ظہور کے منتظر ہيں تمام زمانوں کے لوگوں سے برتر ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں وہ عقل ، فھم اور معرفت عطا کرے گا کہ غیبت ان کے نزدیک مشاہدہ کي مانند ہوگی اور انہیں اس زمانہ میں ان مجاہدین کا مرتبہ ملے گا کہ جو رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ہمراہی میں سب سے آگے بڑھ کرشمشیر سے جہاد کرتے تھے اوروہ ہمارے حقیقی مخلص اور سچے شیعہ ہيں اور اللہ تعالی کے دین کے خفاء اور ظاہر میں دعوت دینے والے ہوں گے (کمال الدین، باب ٣١ ، ح٢)

امام باقر علیہ السلام: یَأتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَان یغیبُ عَنْھُمْ اِمَامُھُمْ فیَاطُوبي لِلثَّا بِتِیْنَ عَلیَ أَمْرِنَا فِیْ ذَلِکَ الزَّمَانِ …۔” ایک زمانہ لوگوں پر آئے گا کہ ان کا امام غائب ہوگا ٬خوشخبری ہو ان لوگوں کے لئے کہ جو اس زمانہ میں ہمارے امر پر ثابت قدم رہیں سب سے کم ترین ثواب کہ جو انہیں ملے گا وہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی انہیں آواز دے گا اورفرمائے گا : اے میرے بندے میري غیب پر ایمان لائے ہواور اس کی تم نے تصدیق کی پس میں تمہیں نيک ثواب کی بشارت دیتاہوں اور تم میرے حقیقی بندے ہو تم سے قبول کرتاہوں اور تم کو مغرفت عطا کرتا ہوں اور تمہارے لئے بخشش کروں گا اور تمہارے سبب اپنے بندوں پر باران رحمت نازل کروں گا اور ان سے مصیبتوں کو دور کروں گا اگر تم نہ ہوتے تو ان پر عذاب نازل کرتا۔ ( کمال الدین، باب ٣٢، ح١٥))

امام صادق علیہ السلام: طَوبیٰ لِمَنْ تَمّسّکَ بِاَمْرِنَا فِیْ غَیْبَة قَائِمَنَا فَلَمْ یَزِغُ قَلْبَہُ بعَدَ الھَدَایَةِ …۔ طوبی ہو اس کے لئے جو ہمارے قائم کی غیبت کے دوران اس کے امر ولایت سے تمسک رکھے اور ہدایت کے بعد اس کادل نہ پلٹے٬ ان کی خدمت میں عرض کی گئي: آپ پر قربان طوبی کیاہے؟فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے کہ جس کی جڑیں علی بن ابی طالب کے گھر میں ہیں کوئی مؤمن ایسانہ ہوگا کہ اس کی ایک شاخ کے اس کے گھر نہ ہو، یہ اللہ تعالی کا کلام ہے کہ ان کے لئے طوبی اور نیک انجام ہے (سور ہ رعد٢٩)( کمال الدین ،باب٣٣، ح٥٥))

امام کاظم علیہ السلام: اَلقََائِمُ الَّذِی یُطَھِّرُ الْأرْضَ مِنْ أَعْدَاءِ اللہِ عزّوجلّ وَیَمْلَؤُھَا عَدلاً کَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً ھُوَ الْخَامِسُ مِنْ وُلْدِ یْ لَہُ غَیْبَةِ یَطُولُ اَمَدُھَا”۔
… وہ قائم کہ جو زمین کو اللہ کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم وجور سے بھري ہوئی تھی٬ میری نسل سے پانچواں فرزند ہے ان کی غیبت طولانی ہوگی کیونکہ انہیں اپنی جان کا خوف ہوگا اس دوران کچھ قومیں مرتد ہو جائے اور کچھ دیگر اقوام ثابت قدم رہیں گی پھر فرمایا: خوشخبری ہو ہمارے شیعوں کو کہ جوہمارے قائم (عج) کی غیبت کے دوران ہمارے دامن سے تمسک رکھتے ہیں اور ہماری ولایت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری پر ثابت قدم ہیں٬ وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں٬ انہوں نے ہمیں امام کے طور پر ہم نے انہیں اپنے شیعوں کے طور پر قبول کرلیاہے٬ ان کے لئے بشارت ہو ٬ ان کے لئے بشار ت ہو٬ روز قیامت خدا کی قسم یہ ہمارے مرتبہ میں ہوں گے۔
امام رضا علیہ السلام: ”قِیْلَ لَہُ: یَاابْنَ رَسُولِ اللہِ وَمَنِ الْقَائِمُ مِنْکُمْ أَھْلَ الْبَیْت؟ قَالَ (سَلامُ اللہ عَلَيہ: الرَّابِعُ مِنْ وُلْدِیْ اِبنَ سَیّدَةَ الاِمَاءِ یُطَھِّرُ اللہُ بِہِ الأرْضَ مِنْ کُلِّ جُورٍ وَیُقَدّ سُھَا مِنْ کُلِّ ظُلْمٍ وَ ھُوَ الَّذِی یُشکُّ النَّاسُ فِی وِِلاَدِتِہِ وُ ھوَ صاَحِبُ الغَیْبَةِ قَبْلَ خُرُوْجِہِ فَاِذَا خَرَجَ أشْرَقتِ الاَرْضِ بِنُورِہِ.”۔
ان کی خدمت میں عرض کی گئی: اے فرزند رسول خدا ، آپ اھلبیت(ع) کا قائم کون ہے؟ فرمایا: میری نسل سے چوتھا فرزند، کنيزوں کی سردار کا فرزند ہے، اللہ تعالی اس کے ذریعے زمین کو ہرطرح کے ستم سے پاک کردے گا اور ہر طرح کے ظلم سے منزّہ کرے گا٬ وہ وہی ہے کہ لوگ اس کی ولادت میں شک کریں گے اور وہ وہی ہے کہ اپنے خروج سے پہلے غیبت اختیار کريں گے اور جب خروج کریں گے تو زمین ان کے نور سے روشن ہو جائے گي۔( کمال الدین ، باب ٣٥، ح٥))
امام تقی علیہ السلام: اَلُقََائِمُ الَّذِی یُطَھِّرُ اللہِ عَزّوجَلّ بِہِ الْاَرْضَ مِنْ اَھْلِ الْکُفْرِ وَ الجُحُودِ وَ یَمْلَؤُ ھَا عَدْلاً وَ قِسْطاً ھُوَ الَّذِی تُخْفَیْ عَلَی النَّاسِ وِلادَتُہُ وَ یَغِیْبُ عَنْھُمْ شَخْصُہُ…”۔
وہ قائم کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے زمین کوکفار اور منکرین سے پاک کرے گا اور اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا وہ وہی ہے کہ جس کی ولادت لوگوں پر پوشیدہ ہے اور اس کا وجود ان سے غائب ہے … اس کے اصحاب بدر کی مانند تین سو تیرہ اصحاب زمین کے دور دراز جگہوں سے اس کے اردگرد جمع ہوں گے اوریہ وہی فرمان پروردگار ہے کہ فرما رہاہے: أَیْنَ مَا تَکُونُوا یَأتِ بِکُمُ اللہُ جَمِيعاً اِنّ اللہَ عَلَی کُلِّ شَییءٍ قَدِیْر.(کمال الدین باب٣٦، ح٢))
امام نقی علیہ السلام: ”اَلْخَلَفُ مِنْ بَعْدِیْ ابنِیَ الحَسَنُ فَکَیْفَ لَکُمْ بِالْخَلَفِ مِنْ بَعْدِ الْخَلَفِ؟ فَقُلْتُ: وَلِمَ جَعَلَنِیَ اللہُ فِدَاکَ ؟ فََقََالَ لِاَنَّکُمْ لاَتَرَوْنَ شَخْصَہُ، قُلْتُ فَکَیْفَ نَذْکُرُہُ؟ قََالَ: قُوْلُوُا الْحُجّةُ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَی اللہُ عَلَیْہ وَآلہِ وَسَلَّم”.( کمال الدین باب ٣٧، ح٥))
داود بن قاسم کہتے ہیں کہ ميں نے امام نقی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرمارہے تھے میرے بعد میرا جانشین میرا بیٹا حسن ہے اور تم لوگ میرے جانشین کے بعد والے جانشین کے ساتھ کیا کروگے؟ میں نے کہا آپ پر قربان ہوجاؤں ٬کیا ہوگا؟ فرمایا: کیونکہ تم انہیں نہیں دیکھو گے … عرض کی تو کیسے انہیں یاد کریں گے فرمایا: ایسے کہو : حجة آل محمد صلوات اللہ علیہم۔
امام حسن عسکری علیہ السلام:”قِیْلَ لَہُ : یَاابنَ رُسُول ِ اللہِ فَمَنِ الحُجَّةُ وَالاِْمَامُ بَعْدَکَ؟ فَقَالَ : ابْنِی مُحَمَّدُ ھُوَ الْاِمَامُ وَالْحُجَّةُ بَعْدِی مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفَُہُ ماَتَ مَیْتةً جَاھِلِیَّةً أمَا إنَّ لَہُ غَیْبَةً یَحَارُ فِیْھَا الْجَاھِلُوْنَ وَ َیھْلِکَ فِیْھاَ الْمُبطِلُونَ وَيَکْذِبُ فِیْھَا الْوَقَّاتُون .”( کمال الدین باب ٣٨،ح٩))
عرض کی گئی: اے فرزند رسول خدا آپ کے بعد حجت اور امام کون ہیں؟ فرمایا: میرا بیٹا محمد وہ میرے بعد امام اور حجت ہیں٬ اگر کوئی مرجائے اور ان کی معرفت پیدا نہ کرے وہ جاہلیت کی موت مرگیا ۔ جان لو کہ ان کے لئے غیبت ہے کہ جس میں جاہل لوگ سرگرداں ہوں گے اور اہل باطل اس میں ہلاک ہوں گے اور جو ان کے لئے وقت معین کریں گے جھوٹ بولتے ہوں گے۔​

(٢): امام نقی علیہ السلام کے زمانہ سے لوگوں کا امام سے براہ راست رابطہ کم ہوگیا:
اس طرح کہ امام نے کئی دفعہ لوگوں سے پردہ کے پیچھے سے گفتگو کی تاکہ وہ امام کو نہ دیکھنے کی عادت ڈالیں۔
البتہ اس رابطہ کے کم ہونے کی اصلی وجہ ظالم عباسی حکومت کی سختی اور پابندیاں لگانا تھی ٬لیکن آئمہ(ع) نے ان پابندیوں سے لوگوں کو زمانہ غیبت کے لئے تیار کرنے کا فائدہ اٹھایا۔
مسعودی ”اثبات الوصیہ” میں تحریر کرتے ہیں : امام نقی علیہ السلام سوائے چند خواص کے اکثر اپنے محبين سے دور ی اختیار کرتے تھے اور جب امامت کی ذمہ داری امام حسن عسکری عليہ السلام کے پاس آئی تو آپ پشت پردہ خواص وغیرہ سے کلام فرماتے تھے مگر یہ کہ جب سلطان کے محل کی طرف جانے کیلئے سواری پر سوار ہوتے تھے (تو منظرعام پر آتے تھے ) (اثبات الوصیة ، ص٢٦٢ ، تاریخ الغیبة الصغریٰ ، ص٢٢٢)
(٣): انجمن وکالت: یہ بھی ان روشوں ميں سے تھی کہ جس پر آئمہ علیہ السلام نے توجہ فرمائی، امام باقر اور امام صادق علیھما السلام کے زمانہ سے کہ جب مملکت اسلامی دوردور تک پھیل چکی تھی تو اس وقت انجمن وکالت ایک ناگريز ضرورت تھی٬ کیونکہ ایک طرف تو لوگ مسائل دین اور مالي امور میں امام کی راہنمائی کے محتاج تھے اوردوسری طرف سب لوگوں کے لئے مدینہ میں حاضر ہونا اور براہ راست امام علیہ السلام کی خدمت سے شرفیاب ہونا ناممکن تھا۔
انجمن وکالت کی تشکیل سے امام کے وکلاء مملکت اسلامی کے مختلف علاقوں میں قرار پا گئے اور لوگوں کا اپنے آئمہ معصومین علیہ السلام سے رابطہ ممکن ہوگیا (البتہ حکومت کی سختیوں کی بناء پر یہ انجمن مخفی طورپر کام کرنے لگی ) امام نقی اور امام عسکری علیھم السلام کے زمانہ میں لوگ وکلاء کی طرف زیادہ رجوع کرنے لگے حتی کہ جب لوگ امام کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تو آپ انہیں اپنے وکیل کی طرف راہنمائی فرماتے ، آئمہ علیھم السلام نے اپنے اس طرز عمل سے لوگوں کو سکھایا کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے وکلاء پر اعتماد کرسکتے ہیں اور ان کی طرف جاسکتے ہیں۔
احمد بن اسحاق بن سعد قمی کہتے ہیں : ایک دن امام نقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی: میں کبھی یہاں ہوں اور کبھی دور دراز ہوں اور پھر آپ سے شرعی مسائل نہیں پوچھ سکتا اورجب یہاں بھی ہوں تو بھی ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا تو اس وقت کس کی بات کو قبول کروں اور کس سے حکم لوں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ ابو عمرو (عثمان بن سعید عمری) مؤثق اور امین شخص ہیں وہ میرے مورد اعتماد اور اطمینان ہيں: جو کچھ بھي تم سے کہيں ميري طرف سے کہتے ہيں اور جو کچھ پہنچاتے ہيں ميري طرف سے پہنچاتے ہيں اور جب امام نقي عليہ السلام شہيد ہوگئے تو ايک دن ميں ان کے فرزند امام حسن عسکري عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوا اور وہي سوال جو امام نقي عليہ السلام سے کيا تھا وہي ان کي خدمت ميں عرض کيا اور امام کے وصي نے امام نقي عليہ السلام والا جواب تکرارکيا اور فرمايا: يہ ابو عمر و (عثمان بن سعيد عمري) گزشتہ امام کے مورد اعتماد اور اطمينان تھے۔ نیز یہ میری زندگی میں اور میری موت کے بعد بھی میرے مورد اعتماد ہیں جو کچھ بھی کہیں گے میری جانب سے کہیں گے اور جو کچھ ان سے تم تک پہنچے وہ میری جانب سے پہنچے گا۔ (غیبت طوسی، ص٣٥٤))
یہ عثمان بن سعید بعد میں امام عصر عج کے پہلے خاص نائب بھی قرار پائے.

شیخ طوسی (رح) لکھتے ہیں: عثمان بن سعید عمری نے حضرت عسکری علیہ السلام کے حکم کی بناء پريمن کے شیعوں کے ایک گروہ کا لایا ہوا مال وصول کیا تو وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اس کام سے جناب عثمان بن سعید کی اہمیت اور احترام بڑھا ہے تو امام نے فرمایا: جی ہاں گواہ رہیں کہ عثمان بن سعید عمری میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا محمد بھی میرے بیٹے مہدی کے وکیل ہوں گے۔( غیبت طوسی ، ص٣٥٦))
(٤): نائب خاص کے ذریعے فیض: لوگوں کو غیبت کے زمانہ میں داخل ہونے کے لئے تیار اور آمادہ کرنے کے لئے یہ آخری راستہ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام ٢٦٠ھ قمری میں شھید ہوئے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا اور ساتھ بھی ان کی غیبت کا زمانہ شروع ہوا تو بزرگان شیعہ سے چارافراد کا ترتیب کے ساتھ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے خاص نائب کے عنوان سے تعارف کروايا گيا اور یہ لوگ تقریبا ٧٠ سال تک لوگوں اور امام کے درمیان رابطہ کاذریعہ رہے۔
یہ راستہ جو کہ انجمن وکالت کے دائمی طورپر برقرار رہنے سے امام کے مورد توجہ قرار پایا اس سے یہ فرصت ملی کہ شیعہ لوگ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے نائب سے مانوس ہوں اور اسے اپنے مسائل اور تعلیمات کے امور میں براہ راست تنہا مرجع سمجھیں اور اس پر اعتماد کریں اور امام کے ظاہری طورپر حضور نہ رکھنے کے اس دور کو گزار لیں۔ اس دور کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ لوگ اپنے امام کی طرف خط لکھتے تھے اور امام سے جواب حاصل کرتے تھے کہ جو توقيعات کے عنوان سے مشہور ہیں اور یہ خط و کتابت انہیں نائبین خاص کے ذریعے انجام پاتی تھی۔
لہذا امام زمان علیہ السلام کی غیبت دو مرحلوں پر قرار پائي ہے: (١)غیبت صغری کہ اس دور میں شیعہ بزرگان میں چار افراد بالترتیب امام کی طرف سے نائب خاص کے عنوان سے سامنے آئے اور شیعہ قوم کے امور کی سرپرستی کی (٢)غیبت کبریٰ کہ علماء دین نے ان شرائط کے ساتھ کہ جو امام علیہ السلام نے بیان فرمائیں بعنوان نائب عام شیعوں کے امور کی ذمہ داری سنبھالی۔
غيبت کبري ميں امام عصرعج  کا لوگوں سے رسمي رابطه نهيں ہے اب کوئی يه نہيں کہہ سکتا که ميں انکا خاص ناﺋب ہوں يا ميرا ان سے رابطه ہے اگر کوئی ايسا دعوي کرے تو خود امام کا فرمان ہے که وه جھوٹا ہے جيسا که آپ نے فرمايا ٫٫الا فمن ادعي المشاهده قبل خروج السفياني و- – – فھو کذاب مفتري٬٬ جو بھي سفياني کے خروج اور ديگر علامات سے قبل ميرے ساتھ رابطه کا دعوي کرتا هے وه جھوٹا اور بهتان باندھنے والا ہے –
البته غير رسمي طور نيک و صالح لوگوں –بزرگ علماء اور متقي پرهيز گار لوگوں کو آپکي زيارت کي توفيق حاصل ہوسکتي هے اگرچه ان تمام ملاقاتوں ميں ملاقات کے دوران وه لوگ امام کو پہچان نہيں پاتے امام کے جانے کے بعد انہيں احساس ہوتا ہے کہ انہيں کيا عظيم توفيق حاصل ہوئی تھي ليکن يه لوگ بھي اگر ملاقات کے بعد انکے ناﺋب ہونے يا انکي طرف سے کسي پيغام کے حامل ہونے کا دعوي کريں تو جھوٹے هيں

خلاصه يه که اس غيبت کے دور ميں ہم خود آپ سے رابطه نہيں کرسکتے ٬ہاں خود حضرت اگر مصلحت و حکمت ديکھيں تو ہم ميں سے کسي کو توفيق زيارت سے نواز سکتے ہيں-
( جاری ہے……..) اللھم عجل لولیک الفرج….
                                                                                          طالب دعا: علی اصغر سیفی

اپنا تبصرہ لکھیں