عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ اخلاق منتظرین – اخلاقی تربیت کی ضرورت اور اس کے ثمرات

سلسلہ اخلاق منتظرین
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ اخلاق منتظرین – اخلاقی تربیت کی ضرورت اور اس کے ثمرات

استاد محترم علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ

ہم سب امام زمانہؑ عج الشریف کی امت ہیں اور ان کے منتظر ہیں اور بہترین منتظر وہ ہے جو اپنی اخلاقی تربیت کرے۔ اور اپنے عمل فکر اور اپنے باطن کی اخلاقی تربیت کرے۔ جو کہ نہ صرف اس کے لیے مفید ہے معاشرے کے لیے بھی مفید ہے اور ایک بلخصوص وہ امام زمانہؑ کا ایک مفید منتظر ثابت ہو گا اور دین کے لیے سرمایا بنے گا اور آخرت میں کامیاب ہو گا۔

درس اخلاق ہر انسان کا وظیفہ ہے۔

امام موسیٰ کاظم ؑ فرماتے ہیں

"سب سے لازم ترین علم ہے جو تیری پاکیزگی نفس کی جانب رہنمائی کرے اور جس جگہ دل فاسد ہو رہاہے۔ وہ جگہ تجھ پر آشکار کرے۔ ”

انسا ن کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پاکیزگی و رشد جانب بڑھ رہا ہے یا اس کا باطن تباہ ہو رہا ہے۔
فرماتے ہیں۔
یہ علم حاصل کرنا ضروری ہے۔

علم اخلاق کی ضرورت کیا ہے؟

کسی بھی انسان کے لیے علم اخلاق کی ضرورت تین طرح سے ہے۔

1۔  ہر انسان کی ضرورت ہے کہ وہ روحانی اور باطنی اعتبار سے پرسکون ہو۔

2۔ میرے ارد گرد کے ماحول کے اندر سکون ہو

3 ۔  میں اپنے ہدف رضائے پروردگار اور رضائے امامؑ کو پاؤں۔

اندر کا سکون
علم اخلاق بتاتا ہے کہ وہ کون سی صفات ہیں جو ہمیں پرسکون کرتی ہیں اور کون سی صفات بے سکونی اور اضطراب کا باعث ہیں اور ہمیں ان سے کیسے پرہیز کرنا چاہیے۔

علم اخلاق ہماری اس میں رہنمائی کرتا ہے۔ کہ وہ کون سے اعمال، کام اور عادات ہیں جن کو اپنا کر ہم بے سکونی سے بچ سکتے ہیں۔ احساس گناہ، ندامت و پریشانی نہ ہو۔ ایک حلال روزی کھانے والے اور ایک سود کھانے والے کے ذہن میں بڑا فرق ہے۔ بالاآخر وہ مسلمان ہے اور اگر وہ سود خور ہے۔ اور سود کھانے کی وجہ سے مالدار ہے تو یہ اس کی ظاہری خوشحالی ہے۔ اس کا باطن پرسکون نہیں وہ جانتا ہے کہ وہ لوگوں پر ظلم کرکے اپنے رب کو ناراض کر رہا ہے اور وہ کبھی بھی پر سکون نہیں رہتا۔

سب سے پہلی چیز جو ایک گناہگار انسان کے اندر سے ختم ہوتی ہے وہ سکون ہے اور باطنی سکون فقط اور فقط اپنے اندر اخلاقی کمالات پیدا کرنے آتا ہے مثلاً ۔ سچ بولنا۔ غیبت اور چغلی سے پرہیز کرنا۔ حلال کھانا۔ حسن ظن رکھنا۔ گالی گلوچ سے پرہیز کرنا۔ بری عادات کو چھوڑ کر اچھی عادات کو اپنانے سے زندگی پرسکون ہوجاتی ہے۔
اور وہ محسوس کرے گا کہ اس کی زندگی پرسکون ہے اور وہ اللہ کی راہ پر چل رہا ہے۔

معاشرے کے اندر رہن سہن
علم اخلاق ہمیں معاشرے کے اندر رہنے اور دوسروں کے ساتھ پیش آنے کے طریقے بتاتا ہے۔ جس سے معاشرے کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے۔ اس کا خاندان اسے اہل عیال اور احباب و ہمسائے اس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ اور اس کے اچھے کردار کو سراہیں گے۔ ایک با اخلاق شخص کی خصوصیت یہ ہے کہ نہ وہ خود کو کوئی نقصان دیتا ہے اور نہ کسی کو کوئی نقصان دیتا ہے۔

اگر انسان حسد کی بیماری میں مبتلا ہو تو وہ اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسرے کو بھی تکلیف پہنچاتا ہے۔

علم اخلاق ہمیں بتاتا ہے کہ حسد کو کیسے چھوڑا جائے اور اس سے بچنے کے طریقے بھی یہی علم سیکھاتا ہے۔

3 ۔ باکمال اور باہدف زندگی۔
انسان کی بالا ترین عبادت یہی ہے کہ انسان کا عبد ہو اور اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ رہیں۔ علم اخلاق حاصل کرنے سے پہلے اور بعد کی عبادات میں فرق ہے نماز و حج ادا کرنے میں فرق ہے۔

با اخلاق انسان رشد اور کمال کی راہوں پر چلتا ہے۔ وہ ہر چیز کا پورا پورا ثواب حاصل کرتا ہے۔ با اخلاق لوگ ایمان کے بالاترین درجے پر پہنچتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اولیاء اللہ کی محفل میں پہنچتے ہیں اور ان پر حجت خدا کی نگاہ کرم ہوتی ہے۔ اور یہ وہی لوگ ہیں کہ جن پر پروردگار ناز کرتا ہے۔
اخلاق ہمیں سیکھاتا ہے کہ جب ہمارے اندر حق و باطل کی جنگ ہو تو اگر ہم نے علم اخلاق حاصل کیا ہوا ہو تو ہم باطل کو شکست دے دیں گے۔ ورنہ باطل جیت جائے گا۔ مثلاً ایک نامحرم سے رابطہ اور حرام غذا کی رغبت ہو رہی ہے اور اگر یہاں علم اخلاق نہ ہوا تو ایک انسان جلد ان مادی خواہشات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اور اگر علم ہو تو پھر ان کو شکست دے دیتا ہے۔

جسمانی جنگ میں خون و جان کا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن نفسانی جنگ میں پوری دنیا تباہ ہو جاتی ہے۔ دیکٹیٹرز نفس کے اسیر ہوتے ہیں جیسے صدام ۔ ایسے لوگ اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کر دیتے ہیں۔

ایک شخص جس کے پاس علم اور ٹیکنالوجی ہے اگر اس کے پاس علم اخلاق نہ ہو تو وہ اپنی ٹیکنالوجی سے بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

بااخلاق انسان ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے۔ لیکن وہ اشخاص جن کے پاس علم اخلاق نہیں وہ اسی ٹیکنالوجی سے بیماریاں اور اسلحہ بنا کر پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن چکے ہیںَ اور تباہی کا باعث ہیں۔

علم اخلاق ہے جو ہمیں نفس کی جنگ میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔

والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم

اپنا تبصرہ لکھیں