عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

درس عقائد (عدل) – درس 3

درس عقائد
مہدی مضامین و مقالات

درس عقائد (عدل) – درس 3

عدالت کے منکرین اشاعرہ (دیوبندی و بریلوی،وھابی وغیرہ) کے دلائل ،دو دلائل اور انکا رد

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ : 
موضوع سخن : بحث عدل ہے۔ 
گذشتہ درس میں عدلیہ مکتب کہ جس میں شیعہ بھی ہیں اور اہل سنت کا مکتب معتزلہ ہے ان کے دلائل پیش کئے گئے۔ آج اہلسنت مکتب عدالت کے منکرین اشاعرہ مسلمان بھائی (دیوبندی و بریلوی،وھابی وغیرہ اور ایک فرقہ ماتریدیہ وہ بھی اشاعرہ سے ملتا جلتا ہے ) کے دلائل پیش کریں گے۔

مکتب اشاعرہ کے دلائل اس مکتب نے چار دلائل پیش کیئے

آج پہلی دو دلیلیں جو علامہ حلی ؒ کی عقائد کی کتاب کشف المراد سے پیش ہوں گی۔

پہلی دلیل:

سب سے پہلے دلیل جو ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں عقلی ہیں کسی چیز کو اچھا قرار دینا یا برا قرار دینا تو پھر جس جگہ پر بھی حکم عقلی باقی ہے یعنی ہماری زندگی کے مسائل ہیں تو ان میں اور ان میں فرق نہیں ھونا چاہیے۔
ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ کُل جز سے بڑا ہے یا نہیں ایک پورا جو مجموعہ مکان ہے یہ کل ہے اور اس کا کمرہ ھآل باورچی خانہ، صحن یہ سب جز حصہ ہے۔ جیسے نماز کُل ہے اور رکوع سجود اس کا جز ہیں ۔
کہتے ہیں کہ حکم عقل یہ ہے کہ : کل جز سے بڑا ہے ۔ بس یہ جو عقل کا حکم ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے اور آپ جس چیز کو کہتے ہیں عقلی ہے ۔ مثلاً عدل اچھا ہے ظلم برا ہے۔
بس ہم اس میں ساتھ اختلاف کر رہے ہیں تو حکم عقل میں اختلاف نہیں ہے۔ حکمِ عقل سب کے لیے واضح ہے تو بس اس کا مطلب یہ ہے کہ:
عدل و ظلم کی بات عقلی ہی نہیں ہے وہ شرعی ہے۔ اختلاف والی چیزیں وہاں ہم شریعت کے محتاج ہیں وہاں شریعت آئے اور حکم بیان کرے۔ اگر عقلی ہوتا تو پوری دنیا میں کسی کو اختلاف نہ ہوتا۔

جواب :
اس کا جواب ہمارے علما جو دیتے ہیں کہ احکام عقلیہ میں فرق ہے بعض احکام عقلیہ کو سمجھنا آسان ہے اور بعض میں تھوڑی سی دقت کرنی پڑتی ہے مثلاً ریاضی کے مسائل عقلی ہے ،مثلاً
یعنی دو اور دو چار ہے۔ اس کو سارے سمجھتے ہیں یا کل جز سے بڑا ہے۔

لیکن! جیسے ہی آپ ریاضی میں آگے بڑھتے جائیں گے اب ضرب جو ہے اس سے بڑی ہے۔
مثلاً ۔آٹھ کو آٹھ سے ضرب دیں تو تھوڑا سا مشکل ہو جائے گا جیسے ضرب بڑھاتے جاٸیں گے تقسیم آجائے گی اور جو ریاضی کے قوانین ہے وہ جیسے جیسے ریاضی کے مسائل یہ ساری عقلی ہیں اور ان کے لیے کلاس لینی پڑے گی۔ تو ھمارے علما یہ کہتے ہیں کہ احکام عقلیہ ساری واضح نہیں ہیں جب آپ سمجھ جاتے ہیں تو پھر واضح ہوتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے سمجهنے کے لیے پڑھنا پڑے اور کلاسزز لینی پڑیں۔

تو یہ جو عدل اچھا ہے اور پوری دنیا میں ظلم برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو اس کا معنیٰ سمجھ نہ آئے تو ضروری ہے کہ پہلے ان کو عدل اور ظلم کا معنیٰ سمجھائیں اور بتائیں۔ اور جب اس پر معنی واضح ہو جائے گا تو پھر وہ سمجھ جائے گا کہ عدل اچھا ہے اور ظلم برا۔

پس اگر اختلاف ہے تو وہ سمجھنے میں دقت کی وجہ سے ہے۔ نہ کہ بہت واضح ہے کیونکہ واضح چیزوں میں اختلاف نہیں ہوتا۔ تو ہمارے علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی حکم عقلی ہی ہے۔

دوسری دلیل :
دوسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ؛
اگر عدل اور ظلم حکمِ عقلی ہے تو ہر لحاظ سے عقل اسے اچھا اور اُسے برا کہے۔ کیوں عقل ایک ہی چیز کو ایک مقام پر تو اچھا کہتی ہے اور ایک مقام پر برا کہہ دیتی ہے۔
مثال کے طور پر :
اگر سچ اچھا ہے اور جھوٹ برا ہے۔ تو اگر جھوٹ سے ایک مومن کی جان جا رہی ہے تو یہ برا ہے لیکن اگر اسی جھوٹ سے ایک نبیؑ کی جان بچ رہی ہے تو جھوٹ اچھا ہے۔

پس اس حساب سے سچ یہاں برا ہوگیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ کبھی تو جھوٹ اور سچ اچھے ہوتے ہیں اور کبھی برے تو عقل تو یہاں حیران ہو جائے گی اور اسے سمجھ نہیں آئے گی ۔ تو یہاں ہم شریعت سے پوچھیں گے اور شریعت کہے گی کہ یہاں سچ بولو اور یہاں جھوٹ۔ تو بس یہ احکام شریعہ ہیں نہ کہ احکام عدلیہ۔

جواب: 
اس کا جواب ہمارے علماء یوں دیتے ہیں کہ جھوٹ ہمیشہ برا ہی ہے اور سچ ہمیشہ ہی اچھا ہے۔ لیکن کسی وقت دو چیزیں آپس میں ٹکراتی ہیں۔ ایک مہم ہے اور ایک اہم ہے۔ مثلاً فرض کریں۔ جھوٹ بولنا برا ہے اور اس سے بچنا مہم ہے لیکن ایک مومن یا پیغمبرؐ کی جان بچنا اہم ہے۔ تو نتیجہ یہ ہے کہ جو اہم ہے جس کی ضرورت زیادہ ہے ہم اس کو دوسروں پر ترجیح دیں گے۔ یعنی جھوٹ بولنا بھی قبیح ہے لیکن نبی کی جان جانا زیادہ قبیح ہے تو ہم نبیؑ کی جان بچانے کے لیے تھوڑا سا قبیح اختیار کریں گے تو یہ یقیناً عقلی ہے۔

جیسے ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ جیسے ہم اپنی زندگی کے اندر مختلف مسائل میں قدم رکھتے ہیں کہ ایک کام کرنے سے تھوڑا مالی نقصان ہو رہا ہے دوسرے میں زیادہ ہو رہا ہے اور دونوں میں سے ایک کرنا ضروری ہے اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ تو پھر ہم اس میں سے تھوڑے نقصان کو برداشت کرتے ہیں اور سارے لوگ کہتے ہیں یہ ٹھیک کیا ہے اور عقل بھی کہتی ہے کہ ٹھیک کیا ہے۔

خدا نہ کرے کوئی انسان ایسی بیماری میں مبتلا ہو تو اسکا علاج کروانا ہے تو علاج میں دو صورتیں ہیں۔ یعنی ایک صورت ایسی ہے جس میں جان جانے کا خطرہ ہے ایک صورت ایسی ہے کہ جس میں تھوڑا سا درد ہوگا اور تھوڑی تکلیف ہو گی لیکن بالآخر ٹھیک ہوجائیں گے اور دوسری صورت ایسی ہے کہ جس میں انسان ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن جان لیوا ہے جیسے کہتے ہیں کہ آپریشن کرانے سے جان کا خطرہ ہے لیکن اگر یہ ادویات کھائیں گے تو تھوڑا سا وقت علاج طویل تو ہوگا لیکن آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ تو لوگ کس کو ترجیع دیں گے۔ یعنی علاج میں دونوں صورتوں میں تکلیف ہے تو انسان کم تکلیف والے علاج کو ترجیح دے گا۔
یا :
اگر دو راستے ہیں دونوں میں بہت زیادہ خطرہ ہے ایک میں خطرہ کم ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے انسان اس راستے کو ترجیح دے گا جس میں کم خطرہ ہے۔ تو ہمارے علماء یہ کہتے ہیں کہ:
جھوٹ ہمیشہ سے ہی برا ہے لیکن اگر نبیؑ یا مومن کی جان بچانے کے لیے بولا جائے تو پھر اچھا ہے۔ اور سب اسے ترجیح دیتے ہیں۔ اور دونوں میں ٹکراؤ ہو تو شریعت کے حکم پر چلیں تو جھوٹ بولنا اچها ہے۔ اور تھوڑے سے برے پہلو کو برداشت کر لیا جاتا ہے بڑے نقصان سے بچنے کے لیے تو بس  یہاں بھی حکم عقل ہے کہ جب ٹکراؤ پیدا ہو یعنی دونوں چیزیں واجب ہیں ۔ جھوٹ سے بچنا اور نبیؑ کی جان بچانا دونوں واجب ہیں تو جب دونوں میں ٹکراؤ ہو۔ یا دو حرام میں ٹکراو ہو تو پھر اس کو حل کریں گے کے جو اہم ہو۔

دو واجب میں سے ایک بجا لانا ہے اور دو حرام میں سے ایک سے پرہیز کرنی ہے تو پھر اس میں جہاں فائدہ ہو اس بجا لائیں اور جہاں نقصان زیادہ ہے اس سے بچیں تو یہ کاملاً ایک عقلی روش ہے ۔ بس ہم حُسن و قبح میں عقل کے تابع ہے نہ کہ شریعت کے۔

نتیجہ :
اچھائی اور برائی جیسے عدل اور ظلم عقلی ہیں اور شریعیت عقل کی تائید میں آتی ہے۔ نہ کہ یہاں عقل حیران و پریشان ہے کہ ہم شریعت سے لیں۔
جاری ہے

والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید