عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

تفسیر سورہ حجرات – درس 4 – دوسری آیت

سلسلہ درس تفسیر سورہ حجرات
مہدی مضامین و مقالات

تفسیر سورہ حجرات – درس 4 – دوسری آیت

رسول اللہ ص کی بارگاہ میں بلند آواز سے ممنوعیت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے احترامی ، تمام اعمال خیر کی نابودی کا باعث، آئمہ معصومین ع کی بارگاہوں کا احترام ، علماء عادل کے حضور احترام ، والدین کا احترام ، اہل انتظار باادب ہیں۔

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ :
موضوع سخن تفسیر سورہ الحجرات ہے۔

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (2)
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

۔ رسولؐ اللہ کی بارگاہ میں بلند آواز سے ممنوعیت :
اس سے پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ اور الہیٰ احکام پر سبقت کرنے سے منع فرمایا تھا کہ اس سے پہلے کہ رسولؐ اللہ کوئی عمل انجام دیں آپ کوئی عمل انجام دینے میں رسولؐ اللہ پہ سبقت نہ کریں۔ بلکہ رسول ؐ اللہ کے تابع رہیں اور ان کی اقتدا میں عمل انجام دیں۔

آیت 2 میں رسولؐ خدا کی بارگاہ میں بلند آواز میں گفتگو کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ۔

۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے احترامی :
اللہ نے اسی طرح کا حکم سورہ نور کی 63 نمبر آیت میں بھی دیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ:

لَّا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۚ 63)
اے مومنو! رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کے بلانے جیسا نہ سمجھو۔

یعنی پیغمبرؐ اسلام کا احترام اور ادب کا خیال رکھا جائے۔ اس آیہ مجیدہ میں ہمارے لیے اہم ترین نکات ہیں۔

۔ تمام اعمال خیر کی نابودی کا باعث:
آیہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ بسا اوقات تمھیں معلوم بھی نہیں ہوتا اور تمھارے اعمال تباہ ہو جاتے ہیں۔ خود عمل کی حفاظت عمل کرنے سے اہم ہے۔ ہمارے اعمال بسا اوقات تو آغاز سے ہی تباہ ہوتے ہیں کیونکہ یا تو ان کے اندر ریاء ہوتی ہے یا دکھاوا ہوتا ہے۔ اور بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ پہلے تو سب ٹھیک ہوتا ہے لیکن پھر انسان خودپسندی اور غرور کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر وہ عمل درمیان میں ہی نابود ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ انسان اپنا عمل مکمل کر لیتا ہے لیکن عمل کے آخر میں وہ ایسا کام کر بیٹھتا ہے کہ جیسے اسی آیہ میں بیان ہوا ہے کہ ایسا عمل انجام دیا کہ پچھلے اعمال ختم ہو گئے۔

اسلیے قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا کہ جو اپنے عمل کو قیامت والے دن لائے گا اور ہر اس چیز سے بچائے گا جو عمل کو تباہ کرتی ہے۔ اس دس برابر اجر ملے گا۔:

سورہ الانعام 160
وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَـةِ فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَـهَا

اللہ نے یہ نہیں کہا کہ اگر کوئی عمل انجام دے گا تو دس گنا اجر ہے۔ بلکہ یہاں مطلب یہ ہے کہ اگر قیامت والے دن تک عمل کو کامیابی سے لے آئے۔

اگر ہم نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہماری موت تک اپنی حالت پر باقی رہا اور ہم اس عمل کو لے کر اللہ کی بارگاہ میں محشور ہو گئے تو پھر دس برابر وہ اجر ملے گا ۔

دنیا میں عمل انجام دینے اور اسے قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے میں بڑا فاصلہ ہے۔

رسولؐ خدا سے ایک روایت بیان ہوئی ہے کہ: 
“جب تم ذکر خدا کرتے ہو تو آپ کی طرف سے جنت میں ایک درخت اگایا جاتا ہے۔ ”

تو اس شخص نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ اس اعتبار سے تو جنت میں ہمارے بہت سے درخت ہوں گے۔ فرمایا: ٹھیک ہے لیکن بعض مرتبہ ایسے عمل انجام دیتے ہو کہ وہ سارے درخت جل جاتے ہیں اور پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔:

اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

قرآن مجید میں کفار اور مشرکین کے نیک اعمال کا حبط بیان ہوا ہے کہ وہ جو نیک عمل بھی انجام دیں وہ تباہ ہو جاتے ہے۔ اور قرآن مجید میں پیغمبرؐ اکرم کی بے احترامی سے بھی اعمال حبط ہونا بیان ہوا ہے گویا رسولؐ اللہ کی بارگاہ میں بلند آواز اور بےاحترامی کفر و شرک کے برابر ہے۔ اسی لیے قرآن میں دو مرتبہ منع فرمایا گیا ہے۔

روایت : 
جب یہ آیہ نازل ہوئی تو ایک شخص نے رسولؐ اللہ کی بارگاہ میں بلند آواز سے گفتگو کی تھی تو وہ پریشان ہو گیا کہ میرے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ تو فرمایا: کہ نہیں تم تو تقریر کر رہے تھے اور تقریر ان چیزوں سے جدا ہے کہ جو بے احترامی کرتے ہیں۔

ایسے اعمال ہم اپنی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں۔ بلآخر ہر چیز کا ایک اثر ہوتا ہے چاہے مجھے پتہ ہو یا نہ ہو۔ اگر ایک آدمی زہر کو پانی سمجھ کر پی لے تو زہرنے تو اپنا اثر کرنا ہے اگرچہ اس کو نہیں پتہ تھا تو اسی طرح بسا اوقات ہم سے ایسے اعمال ہو جاتے ہیں جو ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا اور ہمارے گذشتہ اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے اعمال پر بصیرت رکھے۔

حتی کہ قرآن مجید کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ پروردگار عالم مومنینؑ کو ایک دوسرے کے حوالے سے بھی ادب کا حکم دیتا ہے۔ کہ ایک دوسرے کے مدمقابل بھی احترام اور ادب سے گفتگو کریں۔

جیسے حضرت لقمانؑ کی اپنے فرزند کو جو نصیحت و وصیت تھی اللہ تعالیٰ اسے اس انداز سے نقل کرتا ہے کہ :

سورہ لقمان 19
وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ
جب تو اپنے بھائی اہل ایمان سے گفتگو کرتا ہے تو اپنی آواز کو نیچے لا۔

جب کوئی بلند آواز سے گفتگو کرتا ہے تو قرآن مجید ان کی آواز کو گدھے کی آواز سے تشبیہہ دیتا ہے۔

سورہ لقمان 19 
إِنَّ أَنْكَرَ الأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ 
بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی ہے۔

بلند آواز سے گفتگو بری لگتی ہے اور گدھے کی آواز کی طرح لگے گی۔

آواز کی آلودگی:
سائنسی اعتبار سے بھی آواز کے حوالے سے گفتگو ہے کہ اس سے کافی بیماریاں اور اجتماعی طور پر کافی مشکلات سامنے آرہی ہیں۔ بسا اوقات لوگ مساجد ، عزاخانوں یا گلی کوچوں میں پروگرام رکھتے ہیں اور بڑے سپیکر لگا کر بہت ہی بلند آواز سے گفتگو ہوتی ہے اور اردگرد کے لوگوں کے آرام میں اور زندگی میں ایک خلل کا باعث ہوتی ہے۔ تو یہ بھی ایک گناہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اردگرد کے لوگوں اور ہمسایوں کا خیال رکھے کیونکہ یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے گھروں میں سکون پائیں۔ اور کسی مسجد اور امام بارگاہ کو یہ حق نہیں کہ وہ پروگرام رکھ کر دوسروں کا سکون سلب کرے۔ یہ ہم سب کا اجتماعی حق ہے۔

لیکن بسااوقات اس کی رعایت نہیں ہوتی اور دین کے نام پر پروگرام ہوتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ باعث اجر بنیں وہ پروگرام نابودی اعمال کا باعث بن جاتے ہیں۔

ہم تاریخ میں اس حوالے سے اور مثالیں بھی دیکھتے ہیں جیسے قلم دوات والا قصہ جو سنی شیعہ دونوں احادیث میں نقل ہوا ہے کہ:

نبیؐ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے آخری وقت میں کاغذ اور قلم مانگا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ایسی چیز آپ لوگوں کے لیے لکھوں کہ پھر آپ لوگ کبھی گمراہ نہ ہوں تو اس وقت ایک شور مچا اور ایک شخص نے کہا کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہمیں آپؐ کے لکھے ہوئے کی ضرورت نہیں تو اس وقت ایک شور بپا ہوا اور نبیؐ کریم نے فرمایا کہ اٹھو اور باہر نکل جاؤ۔ یعنی پیغمر ؐ کی بے ادبی ہوئی اور انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔

۔ آئمہؑ معصومین ع کی بارگاہوں کا احترام :
جب امام حسن ؑ مجتبیٰ شہید ہوئے اور بنی ہاشم یہ چاہتے تھے کہ انہیں روضہ رسولؐ میں دفن کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت رسولؐ اللہ کی ایک زوجہ نے آکے اس کو روکا کہ ہم دفن نہیں ہونے دیں گے ۔ تو ایک مرتبہ وہاں شور مچا تو امام حسینؑ نے اسی آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔

کہ اگرچہ پیغمبرؐ دنیا سے چلے گئے ہیں۔ تو بھی یہ حق نہیں ہے کہ یہاں شور بلند ہو اور خاموشی کا حکم دیا۔ اور امام حسنؑ مجتبیٰ کا جنازہ واپس لے آئے۔

اللہ نے رسولؐ کو عالم برزخ میں زندگی جاودانہ دی ہوئی ہے لیکن اس دنیا میں آپؐ بظاہر زندہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی آپؐ کی قبر مبارک پر آپؐ کا احترام واجب ہے۔

اور اسی طرح ہم پر واجب ہے کہ ہم پیغمرؐ کے تمام اوصیاء کا بھی اسی طرح احترام بجا لیں اور بلند آواز سے گفتگو اور آپس میں لڑنے جھگڑنے، غیبت اور معیوب گفتگو سے پرہیز کریں۔

۔ علماء عادل کے حضور احترام:
حتی کہ کہ حکم دیا گیا ہے کہ جو اوصیاء پیغمبرؐ کے نائبین جیسے فقہا ء اور علماء ہیں کہ ان کے حضور میں بھی احترام بجا لایا جائے۔ اور بلند آواز سے گفتگو نہ کرے اور اگر کوئی فقہی کی بات کو رد کرے تو اس نے بے احترامی کی۔
احادیث میں آیا ہے کہ:
“اگر کسی نے عادل فقہی کی بات کو رد کیا تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے اہلبیتؑ یا پیغمبرؐ کی بات کو رد کیا۔ اور جس نے ان کی بات کو رد کیا گویا اس نے خدا کی بات کو رد کیا۔”

۔ والدین کا احترام:
اسی طرح کا احترام والدین کے حوالے سے بھی قرآن و احادیث میں بیان ہوا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے کتنا احترام دیا کہ :

سورہ بنی اسرائیل 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)
تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

نتیجہ:
یہاں ہم ایک نتیجہ لیتے ہیں کہ مقدس ترین ہستیاں جو ہیں جیسے رسولؐ اللہ ، آئمہؑ معصومین ؑ کی بارگاہوں میں بھی ہم احترام کو بجا لائیں اور عادل فقہاء اور علماء اور اپنے والدین کے ہاں بھی اس احترام کو محفوظ رکھیں۔ اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلند نہ کریں اور بہت محبت سے گفتگو کریں۔ اگر ہم ان باتوں کا خیال نہیں کریں گے تو یہ ہمارے گذشتہ اعمال کو حبط کر دیں گے۔

۔ اہل انتظار باادب ہیں:
اہل انتظار کی نشانی ادب ہے ۔ ہم روایات میں دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ادب نہیں رکھتا تو وہ دین ہی نہیں رکھتا۔ تو دین کی بقا میں بھی ادب کا بہت بڑا مقام ہے۔

اہل انتظار اپنے پروردگار کی بارگاہ میں بھی مودب ہیں کہ ہر جگہ خدا ہے لہذا خطاؤں اور گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ وہ اپنی امام حیّ اپنے امام زمانہؑ عج کی بارگاہ میں بھی مودب ہیں اور اگر کہیں زیارت معصومؑ کی توفیق ہوتی ہے تو وہاں بھی مودب ہیں اور بارگاہ علما و فقہاء میں بھی مودب ہیں۔ اور اپنے والدین کی بارگاہ میں بھی مودب ہیں۔

پروردگار عالم ہم سب کو مودبانہ زندگی جو حقیقی معنوں میں منتظرانہ زندگی ہے اسے گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین 
والسلام۔

عالمی مرکز مہدویت قم۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید