عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

امام زمان عج کی غیبت کےاسباب قسط 14

اسد
مہدی مضامین و مقالات

امام زمان عج کی غیبت کےاسباب قسط 14

امام زمان عج کی غیبت کےاسباب
درس 14: احادیث و روایات کی رو سے اسباب غیبت، امام زمان عج ، ظالم حاکم کی بیعت نہیں چاھتے، اللہ کی طرف سے لوگوں کو تنبیہ اور لوگوں کا امتحان

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

ہماری گفتگو کا موضوع امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے اسباب ہیں، اس حوالے سے تین سبب بیان ہو چکے ہیں ۔۔۔
آج مزید کچھ اسباب بیان ہونگے، ایک فلسفہ یا سبب جو مولا ؑ کی غیبت کے حوالے سے روایات میں بیان ہوا ہے وہ یہ کہ امام ؑ اس لیے غائب ہیں وہ نہیں چاہتے کسی ظالم کی بیعت یا اس کا عہد و پیمان میرے کندھوں پر ہو۔ چونکہ تاریخ میں یہی ہے کہ ہمارے گیارہ آئمہ ع کے زمانے میں ہمیشہ ایسے لوگ حاکم تھے بادشاہ تھے جو ظالم، غاصب، ستم گر اور وہ کسی صورت میں نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے آئمہ ؑ زندہ رہیں اور دینِ حق کی تبلیغ و ترویج کریں۔ جب بھی انہیں خطرہ محسوس ہوتا تھا وہ آئمہ ؑ کو شہید کرتے تھے۔
اب یہاں امام ؑ بعنوانِ وصی پیغمبر بعنوانِ حجتِ خدا ان کی یہ کاوش رہتی تھی کہ لوگوں تک دین پہنچایا جائے احکام پہنچائے جائیں اس لیے وہ چاہتے تھے کہ زندگی کو محفوظ رکھیں تاکہ پیغامِ حق اگلی نسلوں تک پہنچتا رہے۔ اور بظاہر تقیہ کی حالت سمجھ لیں یا مصلحت سمجھ لیں وہ ان ظالم حکومتوں کے خلاف قیام نہیں کرتے تھے، سوائے مولا امام حسین ؑ کے وہ اس لیے قیام کیا کہ اصلِ اسلام کا انکار ہوگیا۔ اب یہ جو باقی حاکم تھے وہ اصلِ اسلام کا انکار تو نہیں کرتے تھے لیکن بظاہر مسلمان اور ظاہر دینی مراکز بنانا ،دین کا کام کرنا لیکن اندر سے چونکہ یہ لوگ اصل دین پر ضرب لگا رہے تھے ۔ ہمارے آئمہ ؑ بھی ان کے حوالے سے سعی کرتے تھے کہ اصلِ دین بیان کرنا، ہدایت دینا اور لوگوں کو حقائق بیان کرنا، امام ؑ بھی یہی کام کرتے تھے تاکہ انحرافات کا مقابلہ ہو۔ تو اب یہ لوگ جو ہیں یہ حاکم بسا اوقات ہمارے آئمہ کو مجبور کرتے تھے کہ ان کی بیعت کریں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ آپ نے ہمارے خلاف قیام نہیں کرنا تلوار نہیں اٹھانی، تو بظاہر یہ بیعت ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے آئمہ ؑ کی بعض اوقات یہ ہدایت اور یہ تعلیم دینا حقائق بیان کرنا بھی ان سے برداشت نہیں ہوتا تھا اور وہ آئمہ ؑ کو شہید کردیتے تھے۔

لیکن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے آنے کا فلسفہ یہی تھا کہ ان ظالم لوگوں کو ختم کریں۔ اب اگر امام ؑ بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح بظاہر یا تقیہ کے طور پر ایسی بیعت یا ایسا عہد و پیمان قبول کرلیتے تو اس سے ظاہر ہے ایک تو ان کے آنے کا یعنی مولا ؑ کے دنیا میں بھیجنے کے فلسفے سے ناسازگار ہے اور دوسرا خود لوگوں کے مایوس ہونے کا سبب چونکہ وہ سارے تو قائم ؑ کے منتظر تھے۔ باقی آئمہ ؑ کے زمانوں میں بھی قائم کا اس لیے انتظار تھا کہ وہ آئے اور ظلم و ستم کو ختم کرے۔اب اگر وہ آکر کسی ظالم کی بیعت کو یا تقیتا ، یا خاموشی،یا بظاہر مصلحتاً کچھ عرصے کے لیے قبول کرلیں تو اس سے مہدویت سے لوگ مایوس ہوجاتے۔

مولا ؑ کی غیبت کا اہم ترین فلسفہ
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آئمہ ؑ نے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک اہم ترین جو فلسفہ تھا مولا ؑ کی غیبت کا وہ یہی تھا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گردن پر کسی ظالم کا عہد و پیمان یا اس کی بیعت کا بوجھ ہو۔

امام صادق ؑ کی روایت
ابو بصیر نے امام صادق ؑ سے نقل کیا ہے فرماتے ہیں
صَاحِبُ هَذَا الْاَمْر تَعمِی وِلَادَتُهُ عَلَی (هَذَا) الْخَلقِ لِئَلَّا یَکُونَ لِاَحَدٍ فِی عُنُقِهٖ بَیعَةٌ اِذَا خَرَجَ

ترجمہ: صاحب الامر امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی ولادت لوگوں پر مخفی ہوگی تاکہ جب ظہور کریں کسی کی بیعت ان کی گردن پر نہ ہو۔

امام رضا ؑ کی روایت
امام رضا ع علت غیبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ
چونکہ انہوں نے تلوار کے ساتھ قیام کرنا ہے وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ذمہ کسی کی بیعت ہو

ایک اور فلسفہ لوگوں کو تنبیہ

ایک اور چیز جو ہم دیکھتے ہیں روایات میں وہ لوگوں کو تنبیہ ۔۔۔۔۔چونکہ لوگوں نے بالآخر ناشکری کی اللہ نے آئمہ ؑ حق بھیجے ,بجائے کہ ان کی نصرت کرتے ان کی حمایت کرتے ان کو حاکم بناتے ان کی ناقدری ہوئی انہیں شہید کیا گیا۔ اور اب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے آئمہ ؑپر بیشتر رنج جو تھا وہ تنہائی تھی۔اپنے لوگوں کی ناشکری اور اپنے لوگوں کا عمل نہ کرنا حمایت نہ کرنا۔
خدا نے گیارہ ع تو بھیجے اور بارہویں کو پھر غائب کردیا تاکہ وہ قوم بالآخر پیدا ہو جن کو
احساس ہو قدر و قیمت کا، ان کے وجود کا ان کے ظہور کا اور وہ اس کے لیے کوشش کریں۔

امام باقر ؑ کی روایت
امام باقر ؑ فرماتے ہیں کہ اِنَّ اللّٰهَ إِذَا كَرِهَ لَنَا جِوَارَ قَومِ نَزَعَنَا مِنْ بَينِ أَظهُرِهِمْ
ترجمہ: *اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم میں ہماری ہمنشینی سے خوش نہ ہو تو پھر ہمیں ان سے لے لیتا ہے
یعنی پھر ہمارا ظہور ان سے لے لیتا ہے،یعنی ہمارا بظاہر وجود پھر ان کے اندر نہیں رہتا۔ خدا ہمیں غائب کردیتا ہے تاکہ ایسی قوم ایسی ملت سامنے آئے جنہیں مولا ؑ کے حضور ظہور کی قدر و قیمت کا احساس ہو اور وہ ان کے لیے پھر کوشش کریں۔

فلسفہ غیبت امتحان

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ روایات کے اندر ایک اہم فلسفہ یا حکمت جو بیان ہوئی ہے وہ لوگوں کا امتحان ہے اور لوگوں میں سے خالص کا ناخالص سے جدا ہونا ۔۔۔۔ اب اگر آپ تاریخ کو دیکھیں ہمارے گزشتہ آئمہ نے بالخصوص مولا علی ؑ کے زمانے میں اب جنگ صفین کو دیکھیں، جنگ نہروان، جنگ جمل تو یا کربلا کے واقعات میں دیکھیں بہت سارے لوگ شروع میں ہمراہ ہوتے تھے لیکن درمیان میں ساتھ چھوڑ دیتے تھے یا عین موقع پر ساتھ چھوڑ دیتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگ دنیا دار ہیں بظاہر مسلمان،مومن یا شیعہ ہیں لیکن اصل میں ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ تو یہ لوگ قیام کو یا جہاد کو نقصان پہنچاتے تھے اس لیے بعض اوقات ناکامی بھی بظاہر ہوتی تھی۔ اس بنا پر کیونکہ قائم نے جب قیام کرنا ہے تو ان کو خالص شیعہ چاہیئے اور یہ قیام ہمیشہ کامیاب ہونگے پوری دنیا پر بالآخر ان کی حکومت قائم ہوگی۔ تو اس لیے تاکہ لوگ آزمائے جائیں ان کا دین ان کا ایمان کہ جو غیبت میں ایک طرح کا امتحان بھی ہے اس میں اہل شک دین سے خارج ہوجائیں گے۔ ناخالص،فسق و فجور ، منافقین دنیا چاہنے والے اس راہ سے جدا ہوجائیں گے اور خالص ہی بچیں گے جو اپنی اور اپنی نسل کی تربیت کریں گے تاکہ قائم ؑ کی سپاہ بنیں۔

نبی اکرم ﷺ کی حدیث
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ *سَيَأتِي قَوْمٌ مِنْ بَعْدِكُمْ، اَلرَّجُلُ الوَاحِدُ منْهُمْ لَهُ أجرُ خَمْسِيْنَ مِنْكُمْ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰه، نَحْنُ كُنَّا مَعَكَ بِبَدْرٍ وَأُحُدٍ وَحُنَيْنٍ ونَزَلَ فِينَا القُرآن، فَقالَ: إنَّكُمْ لَوْ تَحَمَّلُوا لِمَا حُمِّلُوا لَمْ تَصْبِرُوا صَبْرَهُمْ*
ترجمہ:
میرے بعد ایک ملت آئے گی جن میں سے ایک شخص کا ثواب تم جیسے اصحاب کے پچاس اصحاب کے برابر ہے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! ہم وہ لوگ ہیں جو جنگ بدر میں جنگ احد جنگ حنین میں آپ کی رقاب میں تھے، قرآن ہم میں نازل ہوا۔ فرمایا کہ جو کچھ وہ تحمل کریں گے اگر تم اس چیز کو دیکھو تو تم کبھی ان کی مانند صبر نہیں کروگے یعنی غیبت کی مشکلات ۔یہاں غیبت کی مشکلات اور شیعان خالص کا جو صبر و تحمل ہے اس کی طرف اشارہ یے۔

امام صادق علیہ السلام کی روایت
ایک اور روایت جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے فرماتے ہیں کہ لِاَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ یَجِبُ اَنْ یَّمْتَحِنَ خَلْقَہُ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَرْتَابُ الْمُبطِلُون
اللّٰہ پر ایک قسم کا ضروری ہے کہ وہ اپنے بندوں کا امتحان لے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں اہل باطل شک و تردید کا شکار ہوتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔

امام کاظم ع کی روایت
اسی طرح امام کاظم ع سے نقل ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ *إِذا فُقِدَ الخَامِسَ مِنْ وُلْدِ السَّابِعِ فَاللّٰه اللّٰهَ فِي أَدْيانِكُمْ، لَايُزيلُكُمْ عَنْهَا أَحَدٌ، يا بَنِيَّ إِنَّهُ لَابُدَّ لِصَاحِبِ هَذَا الأَمْرِ مِنْ غَيْبَةٍ حَتَّى يَرْجِعَ عَنْ هَذَا الأَمْرِ مَنْ كَانَ يَقولُ بِهِ، إِنَّمَا هِيَ مِحْنَةٌ مِنَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ امْتَحَنَ بِِهَا خَلْقَهُ*
ترجمہ:جب میری اولاد میں سے پانچواں امام ع غائب ہو جائے تو اپنے دین کے مسئلے میں اللہ کی پناہ لینا کہ کوئی تمہیں دین سے نہ نکال دے۔پھر فرماتے ہیں کہ صاحب امر کی جو غیبت ہے یہ حتماً ہوگی.تاکہ اس کے اندر ان کی غیبت کی طولانی ہونے کی وجہ سے وہ لوگ جو حقیقی معنوں میں ان پر ایمان رکھتے ہیں وہ واضح ہوں، یعنی فرماتے ہیں کہ یہ غیبت جو ہے ایک قسم کا امتحان ہے وہ لوگ جو ان کی طرف ایمان رکھتے ہونگے ان میں سے کچھ اپنے عقیدے سے نکل جائیں گے اور کچھ باقی رہیں گے۔ اور یہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں کا امتحان ہے جس کے ذریعے وہ آزمائش ہونگے۔

تو غیبت کی جو مشکلات سختیاں جو آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں قتل و غارت ہے، تکذیب ہے، انحرافات ہیں مختلف فتنے ہیں یہ ایسے ہی جیسے سونے کو آگ میں ڈالا جائے وہ نرم ہوجاتا ہے اور اس سے ناخالصی اور وہ چیز کو سونا نہیں ہے وہ اس سے خارج ہوجاتا ہے، تو اس کے اندر بھی یہی ہوگا کہ غیبت کے اس دور میں بالآخر ایسے لوگ ایسی ملتیں جو ایمان میں بھی اہل حق ہیں اور واقعاً اہل فکر ہیں اور عمل میں بھی اہل تقویٰ ہے اور اپنے امام کے ساتھ ان کی نصرت اور حمایت میں ہم قدم ہیں وہی رہ جائیں گے وہی آگے سے اپنی نسلوں کی تربیت کریں گے، اور وہ عظیم ملت تیار ہوگی جو اپنے امام ع کے ظہور کا باعث بنیں گے۔اور اس درمیان جن کا ایمان کمزور ہے جنہوں نے اپنی معرفت پر کام نہیں کیا اپنے تقویٰ پر کام نہیں کیا یہ آہستہ آہستہ دین سے خارج ہوتے رہیں گے اور ان کا خارج ہونا ضروری ہے چونکہ بعد میں جن لوگوں نے مصیبت بننا تھا مولاع کے ہدف کے لیےعین ٹائم پر مولا ع کا ساتھ چھوڑنا تھا تو بہتر ہے یہ پہلے سے ہی دور ہو جائیں۔ جدا ہوجائیں اہل حق سے اور وہ خالص حقیقی اہل حق شیعہ باقی رہ جائیں اور وہی مولا ع کے ظہور کا باعث بنیں۔اور بھی بہت ساری چیزیں بیان ہوئی ہیں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

اللّٰہ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ اس غیبت کے پر آشوب دور میں پرودگار ہمیں دین حق پر امامِ حق پر اور امام حق کی ہمراہی پر ثابت قدم رکھے۔۔۔۔۔ الٰہی آمین ۔

ترتیب و پیشکش: نازش بنگش​

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید