عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

امام زمان (عج) میں شہود غیبت کی تجلی _مصنف: آیت اللہ علی کریمی – مترجم: حجت الإسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

-1
مہدی مضامین و مقالات

امام زمان (عج) میں شہود غیبت کی تجلی _مصنف: آیت اللہ علی کریمی – مترجم: حجت الإسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

دنیا کے تمام تر کلمات یا دائرہ شہود یا دائرہ غیب میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعدد بار شہود و غیب کے عنوان کا ذکر آیا ہے اور اللہ تعالی کو عالم الغیب والشھادۃ کے عنوان سے پکارا گیا ہے ۔

شہود سے مراد وہ اشیاء ہیں کہ جنہیں حواس ظاھریہ سے درک کیا جاسکتا ہو جبکہ غیب سے مراد وہ اشیا کہ جو انسانی آنکھ سے دور ہیں گویا حواس ظاھریہ اسے درک کرنے سے عاجز ہیں ۔

عالم شہود میں غیب کی کثرت

پروردگار عالم کے مظاھر قدرت میں سے بہت سی غیب چیزیں بھی ہیں کہ جو اس عالم شہود کے ظاھر و باطن میں موجود ہیں یہ بات ان لوگوں کے نظریہ کی رد میں ہے کہ جو کائنات کو محض مادی اور چند عناصر کا مجموعہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو انہیں محسوس اور نظر آنے والی چیزوں میں سے بہت سی غیب اشیاء بھی پوشیدہ ہیں مثلا بدن انسان کو ہی لیجئے جو کہ عالم مادہ و شہود سے تشکیل پایا ہے لیکن اس میں پائی جانے والی روح یقینا عالم غیب میں سے ہے، اس طرح انسان درد محسوس کرتا ہے لیکن مرکز اور میزان درد عالم غیب میں سے ہے انسان جتنا بھی درد محسوس کرے کبھی بھی کسی کو اپنا درد نہیں دکھا سکتا، علم طب جس قدر بھی ترقی کرجائے درد کی صورت جو کہ عالم غیب میں سے ہے اسے کبھی بھی عالم شہود میں نہیں لاسکتے۔

سلسلہ امامت میں غیب و شہود کے مظاھر

امامت کے مقدس سلسلہ میں بھی ہم انہیں دو چیزوں کو دیکھتے ہیں ،امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے لیکر امام حسن عسکری علیہ السلام تک سب کے سب عالم شہود کے مظاھر تھے ،یعنی لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تھے اور لوگ ان کے نورانی چہروں کی زیارت کرتے تھے اور ان کے با برکت وجود سے خوب فیض یاب ہوتے تھے ۔

جبکہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ، ولی عصر امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف عالم غیب کے مظہر ہیں کہ لوگ ان کے دیدار اور فیض سے محروم ہیں، اگرچہ بعض خاص لوگوں کے لئے خاص حالات میں آپ کا وجود بھی عالم شہود میں سے ہے لیکن عام طور پر ہم جیسے لوگوں کے لئے آپ عالم غیب میں سے ہیں۔

جیسا کہ اس آیۃ مبارکہ ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب 1 ترجمہ: (قرآن) وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں متقین کے لئے (یہ) ہدایت ہے (اور متقین) وہ لوگ ہیں کہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔

اس آیہ میں وہ غیب کہ جسے اللہ تعالی نے متقین کی نشانی کے طور پر ذکر کیا ہے اس کی حضرت ولی عصر امام زمان(عج) کے وجود مبارک کے ساتھ بھی تفسیر ہوئی ہے یا یہ کہ آپ کو اس غیب کا اہم مصداق اور فرد شمار کیا گیا ہے ،جیسا کہ عظیم مفسر قرآن مرحوم علامہ طبرسی اسی آیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: وہ جو ہمارے علماء کرام امام زمانہ کی غیبت اور ان کے ظہور کے بارے میں روایت کرتے ہیں وہ غیب شمار ہوگا 2

اور داوود رقی روایت کرتے  ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی اس کلام: الذین یومنون بالغیب  کے بارے میں فرماتے ہیں من اقر بقیام القائم انہ حق 3 یعنی وہ غیب پر ایمان رکھتا ہے کہ جو حضرت قائم کے قیام اور ظہور کا اقرار کرے اور اسے حق سمجھے، اسی لئے تو امام زمانہ(عج) کو تمام آئمہ معصومین(ع) میں سے غائب کا لقب ملا، البتہ یہ تو توجہ رہے کہ امام زمانہ(عج) کا غائب ہونا فقط ہماری نگاہوں کے اعتبار سے ہے وگرنہ آپ اذن الھی سے ذرہ ذرہ کائنات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لوگوں کے احوال سے خوب واقف ہیں، بعض اوقات لوگوں کی محفلوں اور مجالس میں بھی شریک ہوتے ہیں، ان سے بات بھی کرتے ہیں اگرچہ لوگ متوجہ نہیں ہوتے ،جیسا کہ ہم دعائے ندبہ کے ایک جملہ میں پڑھتے ہیں: بنفسی انت من مغیب لم یخل منا ،اس پس پردہ پر میری جان فدا ہو جو ہم سے دور نہیں ہیں ۔

عالم غیب میں امام زمانہ(عج) کے رفقاء

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام زمان (عج ) عالم غیب میں ہیں اور ہم لوگوں کی ظاھری نگاہوں سے اوجھل ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہوگا کہ اس عالم غیب میں آپ کے اصحاب اور رفقاء بھی ہیں یا آپ تنہا ہیں؟ آپ کی زیارت کے بعض جملات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اس عالم غیب میں کچھ اصحاب اور خدام ہیں کہ جو آپ کے وجود مقدس کے جوار میں رہتے ہیں (اللھم صلی علیہ و علی خدامہ و اعوانہ علی غیبتہ و نایہ، مفاتیح الجنان تیسری زیارت) اور بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کہ جو خود بھی عالم غیب میں سے ہیں یعنی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں لیکن زندہ ہیں وہ امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ مربوط ہیں حضرت خضر علیہ السلام اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے درمیان تعلق ، انس اور دوستی ثابت شدہ چیز ہے۔

احمد بن اسحاق قمی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ آپ سے آپ کی وفات کے بعد آپ کے جانشین کے بارے میں آگاہ ہو تو امام قبل اس کے کہ وہ اپنا سوال  پیش کرے خود ہی بات شروع فرماتے ہیں کہ: اس کی مثال خضر کی سی مثال ہے وہی خضر کہ جس نے آب حیات نوش کیا اور اسی لئے وہ زندہ ہے ان پر موت نہیں آئے گی جب تک صور نہ پھونکا جائے و انہ لیحضر الموسم کل سنۃ و یقف بعرفۃ فیومن علی دعاء المومنین و سیونس اللہ بہ وحشتہ قائمنا فی غیبتہ و یصل بہ وحدتہ 4 بے شک خضر ہر سال حج کے دنوں میں آتے ہیں مقام عرفات پر ٹھہرتے ہیں اور مومنین کی دعاؤں پر آمین کہتے ہیں اور عنقریب اللہ تعالی اس کی ہمارے قائم کےساتھ انسیت برقرار کرنے سے ان کے زمانہ غیبت میں ان کی تنہائی دور کرے گا قائم کو خضر کے ساتھ ہمنشینی کی وجہ سے تنہائی نہیں رہے گی۔

امام زمانہ(عج) کی زندگی میں غیب کا واضح ترین نقطہ

امام زمانہ (عج) کے حوالے سے ایک اہم گفتگو ان کے وقت ظہور و قیام کے بارے میں ہے یہ بھی عالم غیب کا مصداق ہے کیونکہ کوئی بھی اس وقت کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا، بعض روایات میں تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے یہ چیز مصلحت پروردگار کی بنا پر خود حضرت بقیۃ اللہ علیہ السلام سے بھی پنھاں ہے اور جب زمانہ ظہور آپہنچے گا تو اس وقت فورا اس حجت الھی کو آگاہ کیا جائے گا اور آپ کے قیام کا اعلان ہوگا ۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت ہوئی ہے آپ نے امام زمانہ (عج) کے بارے میں یہ فرمایا: لہ علم اذا حان وقت خروجہ انتشر ذلک العلم بنفسہ فناداہ العلم اخرج یا ولی اللہ واقتل اعداء اللہ ولہ سیف اذا حان وقت خروجہ اقتلح من غمدہ فنادہ السیف اخرج یا ولی اللہ فلا یحل لک ان تقعد عن اعداء اللہ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں کہ: حضرت مہدی(عج) کے پاس ا یک پرچم ہوگا کہ آپ کے ظہور کا زمانہ آپہنچے گا تو وہ پرچم کھل جائے گا اور آپ کو آواز دے گا اور کہے گا اے اللہ کے ولی خروج کریں اور اللہ کے دشمنوں کو ہلاک کریں اور ان کی ایک تلوار ہوگی جب زمانہ ظہور آپہنچے گا تو وہ غلاف سے خودبخود باہر آجائے گی اور آواز دے گی اے اللہ کے ولی (پردہ غیبت سے) باہر آئیں کیونکہ اب آپ کے لئے صحیح نہیں ہے کہ آپ اللہ کے دشمنوں کو چھوڑ دیں…….

جی ہاں حضرت حجۃ ابن الحسن علیہ السلام کے زمانہ ظہور کا اعلان اللہ کے اذن سے پرچم کے کھلنے سے اور اس کا انسانی آواز میں کلام کرنے سے ہوگا اور یہ آپ کی فتح اور دشمنوں پر غلبہ کا پرچم ہے اسی طرح الھی تلوار کے غلاف سے باہر آنے اور کلام کرنے کی صورت میں آپ کے زمانہ ظہور کا اعلان ہوگا اور یہ دونوں چیزیں بذات خود آپ کی  معجزانہ زندگی کے معجزات میں سے شمار ہوتی ہے۔ 5

غیب و شہود دونوں کے رنگ

اگرچہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ (عج) کائنات کی بدستور غیب اشیا میں سے ہیں لیکن مخلص مومنین کا آپ پر عمیق عقیدہ اور راسخ ایمان اس قدر زیادہ ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے آپ غیب نہیں ہیں بلکہ عالم شہود و حضور میں سے ہیں دوسرے لفظوں میں مومنین کے ایمان و یقین کی قدرت  عالم غیب کے اس عظیم فرد کو عالم شہود و حضور میں کھینچ لائی ہے حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: کانی  بالقائم علیہ السلام یوم عاشورا یوم السبت قائما بین الرکن والمقام ید جبرائیل علی یدہ ینادی بالبیعۃ اللہ فیملا ھا عدلا  6

میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ قائم علیہ السلام عاشورہ کے دن جو کہ ہفتہ کا دن بھی ہے رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہیں جبرائیل کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے اور جبرائیل اللہ کی بیعت کے لئے آواز دے رہا ہے پس حضرت ولی عصر جہان کو عدل سے پر کردیں گے۔

اب ہمیں چاہیئے کہ اس آیت کریمہ الذین بالغیب کے تقاضا پر عمل کریں اور اپنی تمام تر کوششوں اور وسائل کے ساتھ غیب پر ایمان یعنی اللہ تعالی پر ، آخرت پر، انبیاء پر، معصوم ائمہ(ع) پر اور حضرت بقیۃ اللہ(عج) کے وجود مبارک پر ایمان کو اپنی سرزمین قلب پر مسلط کریں اور اس عظیم ہستی کو شاھد اور اپنے اعمال پر ناظر سمجھیں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑیں ۔

آخر میں حضرت بقیۃ اللہ فی الارضین کے حضور مبارک میں عرض کرتا ہوں:

اے آنکھوں سے پنہاں اور اے عاشقوں اور عارفوں کےدلوں میں خانہ نشیں، ہم بے بس ہوچکے ہیں ، تجھے تیری جدہ زھرا طاھرہ سلام اللہ علیھا کی قسم اپنا دروازہ الطاف کھول دے ہماری مدد فرما اور ہمیں جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال دے ، اپنے نورانی الھی چہرہ کے ابدی فیض سے اس جہان ظلمت کو نور سے بھردے، اے محبوب عالم اے ہمارے دلوں کی دھڑکن کا مرکز، کب ان پیاسے عاشقوں کے وجود کو اپنی زیارت کے مقدس چشمہ سے سیراب کرے گا کہ جو سیکنڑوں سالوں سے مشتاقانہ تیرے منتظر ہیں اے امام زمان۔….

امام زمانه(عج) کي سيرت پيش کرنے ميں افراط و تفريط

قيام امام زمانه(عج) کے آغاز ميں جو جنگيں اور قتل و غارت هوگي وهاں کچھ لوگ افراط و تفريط کرتے هوۓ منحرف نظريات پيش کرتے هيں:

حضرت کي محبت اور مهرباني سے معمور شخصيت

بعض لوگ حضرت کي شخصيت سے هر قسم کي جنگ و جهاد کو مٹا ديتے هيں يه که اس دور ميں معجزازنه انداز سے سب کام هوجاﺋيں گے اور حضرت اسقدر مهربان هيں که کسي ظالم کو اس کے عمل کي سزا بھي نه ديں گے ايسا منحرف خيال خود اهلبيت(ع) کے زمانه کے لوگوں ميں بھي موجود تھا:معمر بن خالد روایت کرتے ہیں که امام رضا علیہ السلام سے حضرت قاﺋم (عج)کے حوالے سے گفتگو هوئ تو آپۜ نے فرمايا:

لو قد خرج قاﺋمنا لم يکن الا العلق و العرق والنوم علي السروج  7

گويا تم اس زمانه والوں سے سهل پسند هو جب قاﺋم قيام کريں گے تو (سواريوں)زينوں پر (مسلسل کوشش اور جنگ کي تھکاوٹ سے)  خون، پيسه بهانے اور نيند کو ترک کے علاوه کوئ کام نه هوگا-

اس منحرف نظريه کے نتاﺋج

۱) ظهور کے اسباب فراهم کرنے کےليے، تياري اور کوشش نه کرنا

۲) جھوٹي اميد که جس کي بنا پر بهت سے لوگ شرعي ذمه دارياں ادا کرنے ميں سست هوجاتے هيں-

ايسے منحرف نظريات کے اسباب

۱) تمام امور کو معجزه سے حل کرنے کي سوچ

۲) حضرت کي بے پناه حکيمانه محبت و مهرباني کے بارے دقيق فهم و فکر نه هوگا

۳) دين (آيات اور سيرت اهلبيت (ع)) پر جامع نگاه کا نه هوگا-

علاج

دين ميں علم وبصيرت رکھنا، آيات و روايات اور سيره اهلبيت(ع) کا تجزيه کرنا اور بالخصوص مندرجه ذيل مطالب کو درک کرنا:

۱) غيبي امداد سے کيا مراد هے اور قيام کے دوران اس کي وضعيت کيا هے ؟

۲)حکمت اور محبت ميں رابطه کا تجزيہ کرنا که حکيم کي محبت ومهرباني اس کي حکمت سے پيدا هوتي هے اور حکمت کا تقاصا نهيں هے که ايسے ظالم لوگ جنهوں نےظلم وجنايات کے علاوه کوئ کام نهيں کيا، نه ان پر وعظ و نصيحت کا اثر هوتا هے اور نه وه صراط مستقيم پر چلتے هيں ان پر رحم کيا جاۓ۔ ۔ ۔

حضرت کا قهر

کچھ لوگ آپ کي شخصيت کو غيض و غضب سے معمور بنا کر پيش کرتے هيں که جو سواۓ قتل اور خون بهانے کے اور کچھ نهيں کريں گے يه بات بھي  قرآني آيات اور پيغمبروں اور اوصيا کي رسالت و وظاﺋف سے مطابقت نهيں رکھتي اس نظريه کے نتاﺋج:

۱. لوگوں کے دلوں ميں امام کي نسبت نفرت اور اضطراب ڈالنا

۲. حضرت سے ڈر اور خوفزده رهنا اور امام کو مهربان باپ کي حيثيت سے قبول نه کرنا

۳. يه خوف کے شايد امام همارے اعمال صالحه قبول نه کريں مايوس هوجانا چونکه اکثر لوگ قتل هوجاﺋيں گے  شايد وه بھي ان ميں سے هو اسکے اعمال بھي قبول نه هوں –

خلاصه يه که امام کي نسبت هميشه خوف، مايوسي، اور نفرت باعث بنے گي که انسان کبھي حضرت اور انکي سيرت اور ادهداف کے بارے ميں فکر وتامل نهيں کرے گا-

ايسے منحرف نظريات کے اسباب

1.بصيرت کا نه هونا اور دين کي طرف جامع نگاه رکھنا

۲.روايات کي سند اور متن پر تحقيق اور تجزيه نه کرنا

علاج

۱ روايات کے تجزيه سے معلوم هوتا هے که بهت سارے ايسے مطالب ٫٫خون کي نهريں، آدھي سے زياده دنيا کا قتل ۔ ۔ ۔  وغيره،،  ثابت نهيں هيں ايسي روايات جو ان مطالب کو نقل کرتي هيں سند اور متن کے حوالے سے قابل اعتراض هيں-

۲ محققين کے ذريعے تشريح کريں:

الف) جنگ صرف ان لوگوں سے هے که جو جنگ کے علاوه کوئ زبان نهيں سمجھتے نه عام لوگ بلکه عام لوگ تو دل و جان سے حضرت کي طرف بڑھيں گے-

ب) حضرت لوگوں کے ساتھ انتهائ مهرباني سے پيش آﺋيں گے بلکه ساري دنيا سے زياده آپ  مهربان هونگے جيسا که روايت ميں هے ٫٫جواد المال، رحيم بالمساکين ،شديد علي العمال 8 يعني آپ مال کے حوالے سے سخاوت کرنے والے هونگے،  مسکينوں سے مهربان اور لوگوں کے امور کے ذمه دار افراد سے سختي کرنے والے هونگے-

ايک روايت ميں امام رضا علیہ السلام امام معصوم کي صفات يوں بيان فرماتے هيں:

يکون اعلم الناس و احکم الناس و اتقي الناس و احلم الناس و اشجع الناس و اسخي الناس ۔ ۔ ۔  و يکون اولي بالناس منھم بانفسھم و اشفق عليھم من آباﺋھم و امھاتھم  و  ۔ ۔ ۔ ۔ 9

ينعي امام سب لوگوں سے بڑھ کر عالم اور سب سے بڑھ کر صاحب حکمت سب سے بڑھ کر پرهيز گار، سب سے بڑھ کر حليم، سب سے بڑھ کر شجاع، سب سےبڑھ کر سخي ۔ ۔ ۔  وه لوگوں سے انکي جانوں سے بڑھ کر اولويت رکھنے والا اور لوگوں سے انکے والدين سے زياده درد دل رکھنے والا هے اور ۔ ۔ ۔ ۔

۳ آخر ميں يهي کها جاسکتا  هے که روايات کے مطابق ايک عالم کي ذمه داري يه هے که وه خوف و اميد کے درميان ميانه روي برقرار کرے تاکه نه خود افراط و تفريط کا شکار هو  اور نه اپنے مخاطبين کو افراط و تفريط کے گھڑے ميں ڈالے-

امام مهدي (عج ) کے ظهور کا وقت معين کرنا

مهدويت کی متعلقه ابحاث ميں ايک اور غلط نکته انکے ظهور کے وقت کو معين کرنا هے کيونکه الله کي حکمت يهي هے که امام زمانه(ع) کے ظهور کا وقت لوگوں پر مخفي رهے لهذا کوئ بھي آپ کے ظهور کے وقت کو معين نهيں کرسکتا-

مفضل بن عمر کهتے هيں که ميں نے اپنے مولا امام صادق (ع)سے پوچھا:

ھل للمأمور المنتظر  المهدي من وقت موقت يعلمه الناس؟ فقال حاش لله ان يوقت ظهوره بوقت يعلمه شيعتنا ۔ ۔ ۔  فقال: يا مفضل لا اوقت له وقتا و لا يوقت له وقت ان من وقت  لمهدينا وقتا فقد شارک الله تعالي في علمه و ادعي انه ظهر علي سره10

آيا امام مهدي(عج) کے ظهور کےليے کوئ معين وقت هے که لوگ اسے جان ليں؟فرمايا ايسا هر گز نهيں هے که الله تعالي نے اس کے ليے وقت معين کيا  هو اور همارے شيعه اسے جان ليں –

اے مفضل ميں اس امر کےليے وقت معين نهيں کرونگا اور نه وقت معين هوسکتا هے جس نے بھي همارے ظهور کےليے وقت معين کيا خودکو الله تعالي کے علم ميں شريک سمجھا اور يه دعوي کيا که الله کے اسرار سے آگاه هے –

فضيل نے امام باقر(ع) سے پوچھا:

هل لهذا الامر وقت؟ فقال: کذب الوقاتون کذب الوقاتون٬ کذب الوقاتون 11

آيا اس امر کيلئے وقت معين سے آپ نے تین مرتبه فرمايا: جو بهي اس امر کيلئے وقت معين کرکے هيں جهوٹ بولتے هيں۔ ابي بصير کهتے هيں ميں نے امام صادق عليه السلام سےامام مہدي(عج) کے بارے ميں پوچها تو انهوں نے فرمايا:

کذب الوقاتون٬ انا اهل بيت لا نوقت٬ ثم قال: ابي الله الا ان يخلف وقت الموقتين 12

جو بهي اس امر کيلئے وقت معين کرتے هيں جهوٹ بولتے هيں هم اھل بيت(ع) اس امر کيلئے وقت معين نهيں کريں گے پھر فرمایا: الله نے يه اراده فرمايا هے که جو بھي کوئ وقت معين کرے  اس کي مخالفت کي جاۓ اور ظهور کو اس وقت ميں قرار نه ديا جاۓ

ايک اور روايت ميں فرمايا: کذب الموقتون، ما وقتنا فيما مضي و لا نوقت فيما يستقبل 13

وه جو اس امر کےليے وقت معين کريں جھوٹ بولتے هيں هم نے پهلے بھي کوئ وقت معين نهيں کيا اور آﺋنده بھي اس امر کے ليے کبھي وقت معين نهيں کريں گے

بعض روايات ميں وقت تعين نه کرنے  کي علت يه بيان هوئ هے امام جواد(ع) فرماتے هيں:

لو تعين لھذا الامر وقت لقست القلوب ولرجع عامۃ الناس عن الاسلام و لکن قالوا: ما اسرعه: ما اقربه !تألفا لقلوب الناس و تقريبا للفرج 14

اگر اس امر کےليے وقت معين هوتا تو دل سخت  هوجاتے عام لوگ اسلام سے دور هوجاتے کها جاتا کتنا نزديک هے اور کتنا نزديک هے که لوگوں کے  دلوں کو سکون هو اور فرج کا زمانه نزديک هو-

نتائج

يه عمل ايک جھوٹا دعوي بھي هے کيونکه  اهل بيت(ع) نے فرمايا کوئ بھي اس زمانه سے آگاه نهيں هے اس کے ساتھ ساتھ اس عمل کے منفي نتاﺋج بھي هيں کہ جو مندرجہ ذيل ہيں:

۱: معين وقت ميں ظهور نه هونے کي بنا مايوسي اور نااميد کا پيدا هونا

۲: ظهور کے حوالے سے بدگماني

۳: ظهور کے نه هونےکي بنا  پر امام کي شخصيت کے حوالے سے بدگماني

۴: دلوں کي شقاوت و سختي

۵: کمزور عقيدے والے لوگوں کا دين سے پلٹنا

اسباب

۱: امر ظهور ميں عجلت سے کام لينا

۲: خواهشات نفساني کي بنا پر لوگوں کو فريب دينا

۳: توهمات اور فضول خيالات لانا

۴: رياضتوں اور چلوں سے جو اثرات پيدا هوتے هيں انکي درست تطبيق نه کرنا وه سمجھتے هيں که ظهور کا وقت آچکا هے حالانکه ايسا نهيں هوتا-

علاج

1.جھٹلانا:

محمد بن مسلم کهتے هيں: امام صادق (ع)نے فرمايا:

يا محمد من اخبرک عنا توقيتا فلا تھا بن ان تکذبہ فانا نوقت لاحد وقتا 15

اے محمد جو بھي هماري طرف سے تمهيں خبر دے که هم نے ظهور کےليے کوئ وقت معين کيا هے بغير کسي ڈر کے اسے جھٹلا دو کيونکه هم  کسي کےليے (حتي که خواص کو بھي) وقت تعيين نهيں کريں گے

قابل توجه نکته يه هے که روايت ميں آيا هے که بغير کسي ڈر کے اسے جھٹلا دو اس تفسير سے بخوبي سمجھا جاتا هے که کسي شخصيت سے متاثر نهيں هونا چاهيے ايسے امور ميں انکي بطاهر بزرگي کو نظر انداز کرکے قاطع انداز سے جھٹلا دينا چاهيے جو بھي کسي مقام پر هو اگر ظهور کےليے وقت معين کرے اسے جھٹلا دينا چاهيے

۲. ظهور کے زمانه کو تسليم کے ساتھ نزديک جاننا چاهيے-چاره کار يه هے که انسان ظهور کو نزديک سمجھے اور هر لحظه ظهور کے منتظر رهے ساتھ ساتھ الهي امر اور اراده کے مد مقابل تسليم  بھي رهے

۳. ديني علماء اور دانشوروں کا ان حقائق کو روشن اور واضح کرنا-

امر ظهور کے حوالے سے جلد بازي

امام مهدي(عج) کے حوالے سے ابحاث ميں ايک مشکل انکے ظهور کے بارے ميں  جلد بازي سے کام لينا  هے، اس مسأله ميں جلد بازي کي هماری روايات ميں بهت زياده مذمت هوئ هے:

مرحوم صدوق( رح) نے کمال الدين ميں نقل کيا هے که امام جواد(ع) فرماتے هيں: يھلک فيھا المستعجلون، 16 غيبت کے زمانه ميں امر ظهور کے حوالے سے جلد بازي کرنے والے ھلاک هوجاﺋيں گے-

امام صادق(ع) فرماتے هيں: انما ھلک الناس من استعجالھم لهذا الامر ان الله لا يعجل لعجلۃ العباد ان لهذا الامر غايۃ ينتھي اليھا فلو قد بلغو ھا لم یستقدموا ساعۃ و لم يستأخروا  17

جنهوں نے اس کام کے ليے جلد بازي وه هلاک هوئے الله تعالي لوگوں کي جلد بازي کي وجه سے جلد بازي نهيں کرتا اس کام کيلئے ايک مدت هے ضروري کرده مدت گزر جائے اگر مدت تمام هو جائے تو اسے ايک لحضه اگے بيچهے نهيں کرے گا ۔

جلد بازي کے نتائج

1۔ الهي مصلحت پر نا شکري، اعتراض اور ناراضگي کا اظهارکرنا

2۔ عقيده مهدويت سے منحرف اور جهوٹے دعوا کرنے والوںکي طرف مائل هونا

3۔ ظہور نه هونے کي صورت ميں مايوسي اور ناميدي

4۔ شک و ترديد

5۔ غلط قدم اٹهانا

6۔ عقيده غيب کے حوالے سے آيات و روايات اور معتقدين کا مذاق اڑانا

جلد بازي کے اسباب

۱. الهي حکمت اور مصلحت کے مقام کو درک نه کرنا

۲. الهي ارادے کے آگے سر تسليم خم نه کرنا

۳. سختيوں، مشکلات اور دشمنوں کے مد مقابل حوصله اور صبر کا دامن چھوڑ بيٹھنا

۴. صرف خود کو معيار سمجھنا اسي ليے اپني عمر کے اختتام کو معيار قرار ديا نه که تاريخي مراحل کو-

علاج

۱. الهي اراده اور حکمت کے آگے تسليم هونا اور ساتھ امام کے ظهور کي آرزو رکھنا اور خود کو ان کے ليے تيار رکھنا-

امام جواد (ع)فرماتے هيں ۔ ۔ ۔ يھلک فيھا المستعجلون و ينجو فيھا المسلمون 18 غيبت کے زمانه ميں ظهور کےليے جلد بازي کرنے والے هلاک هوجاﺋيں اور اهل تسلیم نجات پا جاﺋيں گے

غيبت پر ايمان اور الهي حکمت پر ايمان عجلت اور جلد بازي کي بجاۓ صبر وتسليم کا سبب بن جاۓ گا –طوبي للصابرين في غيبۃ، طوب للمقيمين علي محبتہ الذين وصفھم الله في کتابه و قال: ٫٫ھدي للمتقين الذين يومنون بالغيب٬٬ 19

غيبت کے زمانه ميں صابرين کےليے مبارک هو اس کي محبت پر قاﺋم رهنے والوں کےليے مبارک هو يه وه لوگ هيں که جن کي الله تعالي نے يوں توصيف فرمائ هے:يه قرآن متقين کے ليے هدايت هے اور متقين وه لوگ هيں که جو غيب پر ايمان لاتے هيں

ايک اور روايت ميں آيا هے:

…… و متي علمنا انه عزو جل حکيم و صدقنا بان افعاله کلھا حکمۃ و ان کان وجھھا غير منکشف لنا 20

جب الله تعالي کو حکيم جان ليں تو اس کے تمام افعال کو مصلحت و حکمت کے مطابق جانيں گے اگرچه انکا سبب همارے ليے روشن نه هو

ايک اور روايت ميں امام سجاد(ع) فرماتے هيں

و ان للقاﺋم منا غيبتين ۔ ۔ ۔  و اما الاخري فيطول امدھا حتي يرجع عن ھذا الامر اکثر من يقول به فلا يثبت عليه اله  من قوي يقينه و صحت معرفته و لم يجد في نفسه حرجا مما قضينا و سلم لنا اهل البيت 21

همارے قاﺋم کےليے دو غيبتيں هيں ۔ ۔ ۔  دوسري غيبت اسقدر طولاني هوگي که قرآن پر ايمان رکھنے والوں کي اکثريت اپنے عقيده سے پھر جاﺋيں گے فقط وه اپنے عقيده پر ثابت قدم رهيں گے که جو محکم يقين اور صحيح شناخت کے حامل هونگے اور هم اهل بيت کے مد مقابل سر تسليم خم کريں گے اور هماري باتيں ان پر بھاري نه هونگي

۲. دين ميں علم و بصيرت بهت سي روايات ميں غيبت کے زمانے ميں جلد بازي اور صبر کے اثرات پر بحث هوئ هے بعض کي طرف اشاره کيا جاتا هے

الف) جلد بازي کا انجام پشيماني هے –

لا تعاجلوا الامر قبل بلوغه فتندموا 22

اس امر تک پهنچنے سے پهلے جلدي نه کرو که پشيمان هوجاو گے

ب) صبر کي فضيلت

۱. رسول خدا کي همراهي ميں جهاد: اما ان الصابر في غيبۃ علي الاذي و التکذيب بمنزلته المجاهد بالسيف  بين يدي رسول الله 23

وه جو انکي غيبت کے زمانه ميں دشمنوں کي اذيتوں، جھٹلانے اور طعنوں پر صبر کرتے هيں ان لوگوں کي مانند هيں جنهوں نے رسول خدا کے همراه تلوار چلائ

۲. اهل بيت(ع) کے زمره ميں اور مقام علين پر فاﺋز هونا:

روايت هے که ٫٫ان من انتظر امرنا و صبر علي ما یري من الاذي و الخوف ھو غدا في زمرتنا 24

جو کوئي ہمارے امر کا منتظر ہو اور اس راہ ميں اذيت ، خوف اور وحشت پر صبر کرے روز قيامت ہماري محفل ميں ہوگا۔

امام حسن عسکري(ع)فرماتے هيں:

يا احمد بن اسحاق: ھذا امر من امر الله وسر من سر الله  و غيب من غيب الله فخد ما اتيتک واکتمه و کن من الشاکرين تکن معنا غدا في عليين 25

اے احمد بن اسحاق يه امر، راز اور غيب الله کي طرف سے هے جو کچھ هم نے عطا کيا اسے لو  اور نا اهل سے مخفي رکھو اور شکر ادا کرو تاکه کل روز قيامت همارے عليين کے مقامات ميں همارے ساتھ رهو

۳: علماء اور دانشور حضرات کو چاهيے که تعجيل کے نتاﺋج اور صبر و تسليم و رضا کے مفيد اثرات سے لوگوں کو آگاه کريں اور بتايں که اهم کام يه هے که هم اپنا وظيفه  انجام ديں جب هميں امام کي معرفت حاصل هو اور انکے راه اور هدف پر قدم بڑھاﺋيں تو خواه ظهور مقدم هو يا موخر هميں کوئ ضرر نهيں هوا هم پھر بھي اهل بيت(ع) کي رکاب اور زمره ميں هيں-

امام باقر(ع)اس آيت شريفه: ٫٫يا ايھا الذين آمنو اصبروا و صابروا و رابطوا، ٬ کي تفسير ميں فرماتے هيں: اے مومنين اپنے واجب امور کو بجا لانے  ميں صبر و تحمل رکھيں اور اپنے دشمنوں کے مد مقابل پايدار رهيں اور ايک دوسرے کو صبر کي تلقين کريں اور اپنے امام منتظر(عج) سے محکم رابطه برقرا رکھيں-

اسي طرح آپ(ع) نے فرمايا: من مات و ھو عارف لامامه، لا يضره تقدم ھذا الامر او تاخر و من مات و ھو عارف لامامه کان کمن ھو مع القاﺋم في فسطاطہ 26

جو بھي اپنے امام کي شناخت کے ساتھ فوت هو تو امر ظهور کے پهلے هونے يا موخر هونے سے اسے کوئ ضرر نه هوگا جو بھي اپنے امام کي معرفت کے ساتھ فوت هو وه اس کي مانند هے که جو حضرت قاﺋم کے ساتھ انکے خيمه ميں هو.

نکته: ايک تو خود عجلت کرنے ميں آفت اور گمراهي اور دوسرا اس کے مد مقابل اور ظهور کو بهت دور سمجھنے ميں بھي گمراهي هے که جس کا نتيجه لا ابالي اور دل کي قساوت کي صورت ميں نکلتا هے –

ايک روايت ميں معصوم (ع)فرماتے هيں که:

لا تعاجلوا الامر قبل بلوغه فتندموا و لا يطولن عليکم الامد فتقتسو قلوبکم 27

امر ظهور کے مقرره وقت سے پهلے جلدي نه کرو که پشيمان هوجاو گے اور اسے بعيد بھي نہ سمجھو که تمهارے دل سخت هوجاﺋيں گے

بعض ديگر روايات ميں شرعي تکليف معين هے که: عجلت والے ھلاک هيں٬اهل نجات وه هيں که جو الهي اراده کے مد مقابل تسليم هوں 28

بے فاﺋده آرزو

بعض لوگ یه گمان رکھتے هیں که فقط اهل بیت(ع) پر عقیده اور امام زمانه(عج) کی محبت کافی هے ان لوگوں کے خیال کے مطابق انهیں اپنے گناهوں کے مد مقابل عذاب نہ ہوگا،اس قسم غلط خیال اور گمان کو قرآن اور روایات میں رد کیا گیا هے اور ایسے گمان کو تمنی کاذب یا امید کاذب کا نام دیا گیا هے –

یه لوگ اهل کتاب کی مانند هیں جو یه سمجھتے هیں که یهی که وه بظاهر اس دین و مذهب پر هیں پس اهل سعادت هیں اور انهیں بد عملیوں پر عذاب نه هوگا-

قرآن میں هے :

٫٫و قالوالن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا او نصاری تلک امانیھم قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین (بقره ۱۱۱)

اور وه کهتے هیں که کوئ بھی جنت میں نهیں جاۓ گا مگر یه که وه یهودی یا عیسائ هو یه ان کی آرزوﺋیں هیں آپ کهیے اگر تم سچے هو تو اپنی دلیلیں لیکر آو

روایات میں بھی اس گروه کو جھٹلایا گیا هے اور انهیں کذب المتمنون (غیبت نعمانی باب ۱۱ص۱۹۷) کا عنوان دیا گیا هے که جس کا مطلب هے که(خیالی باتوں میں پڑے آرزومند جھوٹے هیں)

امام صادق (ع)کے فرزند حضرت اسماعیل کهتے هیں که میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا:همارے  گناه گاروں اور همارے غیر کےگنہاروں کے بارے میں آپ کی کیا فرماتے هیں ؟تو امام نے یه آی تلاوت فرمائ ٫٫لیس بامانیکم و لا امانی اھل الکتاب من یعمل سوءا یجز به ۔ ۔ ۔(سوره نسا ۱۲۳)

تمهاری آرزوں کو اهل کتاب کی آرزوں پر فضیلت حاصل نهیں هے جو بھی برا عمل کرے گا اس کی سزا پاۓ گا ۔ ۔ ۔ تو اسماعیل کهتے هیں که میں نے امام صادق (ع)کی خدمت میں عرض کی :

ایک گروه گناه کرتے هیں اور کهتے هیں که همیں امید و رجا هے اور وه اسی طرح رهتے هیں یهانتک که مر جاتے هیں امام (ع)نے فرمایا:یه وه هیں جو اپنی آرزوں میں غرق رهے اور انکی آرزوں نے انهیں راه حق سے منحرف کردیا وه جھوٹ بولتے هیں وه اهل رجاء اور امید نهیں هیں-

یقینا جو کسی چیز کی امید میں هوں اسکی طلب میں رہتا ہےاور جو کسی چیز سے رتا ہے اس سے پرھیز کرتا ہے (اصول کافی جلد۲ص۶۸)

حقیقی امید اور رجا ایک اور چیز هے مفضل کهتے هیں امام صادق(ع) نےفرمایا:

ایاک و السفلۃ فانما شیعۃ علی من عف بطنہ و فرجه و اشتد جهاده و عمل لخالقه و رجا ثوابہ و خاف عقابه فاذ ارأیت اولئک فاولئک شیعۃ جعفر (وساﺋل الشیعه ج۱ باب۲۰ ص۸۶)

پست لوگوں سے پرهیز کرو فقط وه علی(ع) کے شیعه هیں که جو شکم و شهوت کے مسائل میں عفت رکھتے هیں کو شش و زحمت کرتے هیں٬الله کیلئےعمل کرتے هیں اسی کے ثواب کی امید رکھتے هیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے هیں جب تم ایسے افراد کو دیکھو تو جان لو یه لوگ جعفر بن محمد صادق(ع) کے شیعه هیں۔

لیکن افسوس کی بات هے که بعض لوگ اھل بیت(ع) کی طرف توسل اور انکی شفاعت کے موضوع کی طرف توجه و دقت کیے بغیر یه غلط فکر خطابت یا شعر کے ذریعے لوگوں کے ذهن میں منتقل کر رهے هیں۔

ایسی طرز فکر کے نتائج

۱۔اپنے فردی اور اجتماعی وظائف اور تکالیف(واجبات و محرمات) پر عمل نه کرنا

۲۔منفی قسم کا انتظار کرنا که جس میں امام کےحوالے سےنہ کوئی علمی قدم اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی وظیفہ انجام دیا گیا ہے۔

۳۔فضول وهم(که جس میں انسان اپنے طرز عمل سے خواه مخواه ناراض رهتاهے اور حقیقت سے آنکھیں بند رکھتا هے)

ایسی فکر کے اسباب

۱۔همیشه خیالات اور آرزوں میں رهتے هوئے حقیقی امید و رجا اور توهمات میں فرق نه سمجھنا

۲نفسانی خواھشات جیسا کہ سورہ قیامت کی آیہ ۵ میں ہے (بل یرید الانسان لیفجر امامه) انسان معاد میں شک نهیں رکھتا بلکه وه چاھتا هے که آزاد رهے اور بغیر کسی حساب و کتاب کے ڈر کے ساری عمر گناه کرے

۴۔الله تعالی کی صحیح معرفت نه هونا اگر چه وه مھربان هے لیکن حکیم اور عادل بهی هے

۵۔آئمه علیھم السلام کی نسبت جذباتی اور غیر منطقی نگاه رکھنا۔

 

فهرست منایع:

1-سورہ بقرہ، آیت ۱و۲

2- تفسیر مجمع البیان طبرسی، ج۱، ص ۳۸

3-کمال الدین شیخ صدوق،  ص ۳۴۰

4-خرائج و خرائج قطب راوندی، ج۳ ص ۱۱۷۴

5- مترجم: شاید یہ چیز آپکے معجزات کے حوالے سے کنایہ ہو ورنہ بعید ہے کہ امام جو خود واسطہ فیض الہی ہیں انہیں ان چیزوں سے اپنے ظہور کا علم ہو

6-بحار الانوار، ج۵۲ ، ص ۲۹۰

7-الغيبة نعماني، باب ۱۵، ص۲۸۵

8-بشارۃ المصطفي، ص۲۰۷

9-من لا يحضره الفقيه، ج۴، ص۴۱۸

10-بحار الانوار، ج۵۳ ، ص۲۸

11-الغيبة طوسي، ص 25

12-الغیبة نعمانی، ص293

13-الغيبة طوسي، ص۴۲۶

14-الکافي ج۱ ص۳۸۹

15-الغيبة نعماني، ص۲۸۹

16-کمال الدين، ج۲ ، باب ۳۶ ، ص۳۷۸

17-اصول کافي، ج۱، ص ۳۶۹

18-کمال الدين، ج۲ ، ص ۳۷۸

19-کفايۃ الاثر، ص۵۶

20-علل الشرايع، ج۱، ص ۲۴۵

21-کمال الدين، ج۱، باب ۳۱ ، ص۳۲۳

22-الخصال، ج۲ ، ص۶۲۲

23-کمال الدين، ج۱، باب ۳۰ ، ص۳۱۷

24-الکافي، ج۸ ، ص۳۶

25-کمال الدين، ج۲ ، ص۳۸۴

26-الغيبۃ نعماني،  ص۱۵و ص۳۳۰

27-خصال صدوق، ج۲ ص۶۲۲

28-الغيبة نعماني، ص۱۹۷

 

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید