عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سوالات و جوابات

سوالات و جوابات
مہدوی سوالات و جوابات

سوالات و جوابات

استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی

س: آغا صاحب اللّٰہ عین حق ھے اللہ عادل ھے اب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو لوگ تھے ان کا الگ معیار تھا جو ان کے صحابی تھے یعنی کہ انکی خوش قسمتی تھی کہ انکو رسول اللہ ﷺ کا دور ملا اور انہوں نے دین پر عمل کیا اور صحیح صحابی بنے ۔ اس کے بعد جب امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور ھوگا اس وقت جو مھدوی معاشرہ ھوگا اور حق اور عدل کی حکومت ھوگی اس وقت بھی لوگ بڑے خوشنصیب ھونگے تو آغا صاحب یہ جو درمیان میں ھم لوگ ھیں جو رسول ﷺ کے وقت سے لے کر ابھی تک جو لوگ ھیں جن کا امام غائب ع پر اعتماد اور بھروسہ ھے جس طرح ھمارے گزروں کو نہیں ملا امام مھدی ع کا وقت ھوسکتا ھے ھمیں بھی ملے یا نہیں تو آغا جی اللّٰہ کا یہاں عدل کی کیا حکمت ھوگی کہ الہی اسلامی معاشرہ کا مقصد یہ ھے کہ اسلامی قوانین وہاں پر لاگو ھوسکے اور اسکے مطابق لوگ اپنی زندگی گزار سکے۔ اب یہ درمیان میں جو ھم لوگ ھیں ھم لوگوں کو تو وہ زمانہ نا ملا تو اس میں پھر اللہ کے عدل کا معیار کیا ھوگا کہ امام زمان علیہ السلام کے وقت میں ھر طرف امن ھوگا عاقبت بخیر ھونا بہت آسان ھوگا اور آجکل کے زمانے بہت مشکل ھے۔

جواب : دیکھیں دنیا ھمیشہ رھنے والا جہان تو نہیں ھے اسکو ھماری احادیث کے اندر ایک پل یا گزرگاہ سے تعبیر کیا گیا ھے ۔ کہ جس میں ھم کچھ دیر کے لیے آئے اور پھر ھم نے چلے جانا ھے ۔ زندگی کی آسائشیں جہاں ساری نعمتیں ھوں وہ اس جہان میں ھے یہ جہان جو ھے یہ ھمیشہ آزمائشوں سے بھرا ھوا ھے ۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی حکومت تھی آیا اس وقت آزمائش نہیں تھی آیا اس وقت لوگ اپنی جان اور مال اللّٰہ کی راہ میں نہیں دے رھے تھے ۔ آیا اس وقت منافق معاشرے میں موجود نہیں تھے جو سازشیں کررھے تھے آیا اس وقت گناہ نہیں ھوتے تھے خود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے کیا کیا ۔ جب انہوں نے کہا میں وصیت لکھنا چاھتا ھوں تو لوگوں نے حتی کہ ھذیان تک کی نسبت دے دی ۔ غدیر کے اعلان کے وقت رسول اللہ ﷺ خود لوگوں سے خوفزدہ تھے کہ یہ بغاوت کردیں انسان چاھے ایک نبی کی حکومت میں بھی ھو پھر بھی بالآخر شیطان ھے ھوائے نفس ھے ۔ یہ ساری چیزیں ھیں خود امام مھدی علیہ السلام کی جب حکومت قائم ھوگی اگرچہ حالات بہت بہتر ھونگے آج کی دنیا کی نسبت لیکن اس وقت بھی عدالتیں ھونگی پولیس ھوگی لوگ جرم کریں گے ھوائے نفس تو ختم نہیں ھوگی۔ ھوسکتا ھے ابلیس ختم ھو جائے لیکن انسان کے اندر کا جو نفس امارہ ھے وہ انسان کو برائی پر ابھارے گا نتیجتاً جرم ھوگا عدالتیں کام کریں گی مجرموں کو سزا ھوگی ۔ ھاں سب کو عدالت کے ساتھ سزا ملے گی اور انصاف فراھم ھوگا ۔ برائیاں آھستہ آھستہ کم ھوتی جائیں گی اور لوگوں کی پریشانیاں ختم ھونگی لوگ طولانی عمر رکھیں گے یہ ساری خوبیاں ھیں ۔ اب یہ جو ھم درمیان میں لوگ ھیں اللہ نے جب ھمیں اس جہان میں بھیجا ھے اس کی اپنی حکمت ھے ھے وہ یہ ھے کہ ھم اس حکومت الٰہی کے لیے کوشش کریں راستہ ھموار کریں ۔ اور اس میں جب ھم کام کریں گے تو ھمارا یہی مقام ھے جو عصر رسالت میں اصحاب کا تھا یا امام زمان ع کے ظہور میں جو انصار کا تھا۔ اس کے بارے میں باقاعدہ احادیث ھیں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ھے کہ آخر الزمان میں جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے انحرافات کے خلاف جنگ کریں گے ان کا مقام میرے زمانے کے مسلمانوں جیسا ھے ۔ حتی کہ بعض احادیث کہتی ھیں کہ امام ع کے ظہور کا جو انتظار کرنے والے ھیں ان کا مقام ان مجاھدین جیسا ھے جو رسول اللہ ﷺ کے رکاب میں دشمنوں سے لڑتے شہید ھوگیے ۔ تو ثواب میں کوئی فرق نہیں اب یہ کہ بالآخر کچھ لوگوں نے یہ کام شروع میں کرنے تھے کہ ظہور کے لیے ناصر تیار ھونے تھے ھم اس سلسلے کا ایک حصہ ھیں کہ جن کے کاموں سے ھمارے درمیان ناصر پیدا ھونگے اور وہ ناصر مولا ع کے زمانہ ظہور میں مددگار ھونگے ۔ یعنی ھم ان ناصروں کی تیاری میں اپنے امام کے ساتھ شریک ھیں اور دوسری بات یہ کہ اگر ھم لوگ اللہ سے یہ دعا کریں کہ پروردگار ھمیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جو امام ع کے دور میں رجعت کریں گے ۔ تو یہ دعا بھی اللہ قبول کرے گا ان شاءاللہ ھوسکتا ھے ھمارے یہ کام باعث بنیں کہ خدا ھمیں رجعت کرنے والوں میں سے قرار دیں ۔ اس زمانے میں ھم لوٹے اور مولا ع کی حکومت اور اس زمانے کا دور دیکھنے کی سعادت ھمیں حاصل ھو ۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید