عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

آج کل ایک کیس کی بازگشت ہے تو کیا اس دور میں شیعہ لڑکیاں محفوظ نہیں رہیں گی اور کیا ایسا معصومین علیہم السّلام کی روایات میں موجود ہے؟

سوالات و جوابات
مہدوی سوالات و جوابات

آج کل ایک کیس کی بازگشت ہے تو کیا اس دور میں شیعہ لڑکیاں محفوظ نہیں رہیں گی اور کیا ایسا معصومین علیہم السّلام کی روایات میں موجود ہے؟

سوالات وجوابات
استاد حجت الاسلام و المسلمین علی اصغر سیفی​
سوال: آج کل ایک کیس کی بازگشت ہے تو کیا اس دور میں شیعہ لڑکیاں محفوظ نہیں رہیں گی اور کیا ایسا معصومین علیہم السّلام کی روایات میں موجود ہے؟

جواب: اگر آپ ہر دور کے لوگوں کا تجزیہ کریں تو وہ یہی کہتے تھے کہ آج کے دور میں حالات بہت سخت ہیں ہر دور میں برائیاں موجود تھیں، گناہ تھے، ظلم تھے، ہر دور میں لوگ دوسروں کے حقوق کا استحصال کرتے تھے۔
لیکن ہر دور میں اچھے لوگ بھی تھے جو نیکیاں کرتے تھے، لوگوں کو دین کی طرف لاتے تھے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے تھے، بدعتوں اور انحرافات کے خلاف قیام کرتے تھے جس کی وجہ سے دین اگلی نسلوں میں منتقل ہوا انسانیت، اخلاقی اقدار،عدالت، اچھے احساسات سب اگلی نسلوں تک منتقل ہوئے۔

آج کے دور میں جس طرح جدید ٹیکنالوجی آنے سے جس طرح گناہ بڑھے ہیں اسی طرح اچھائیوں اور نیکیوں کو رواج دینے کا بھی جذبہ اور ماحول بھی بڑھا ہے۔
جس موبائل سے لوگ خراب ہو رہے ہیں اس موبائل سے لوگ ہدایت بھی پا رہے ہیں۔
حق و باطل کی جنگ ہمیشہ ہے اگرچہ مورچے بدل جاتے ہیں، طریقہ کار بدل جاتے ہیں لیکن جنگ جاری ہے۔

جس کیس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اس میں بہت سارے مسائل ہیں۔
پہلا مسئلہ تو خود گھروں کے اندر والدین کی تربیت کا ہے کہ بچوں کی تربیت کر بھی رہے ہیں یا نہیں ہم بچوں کو اسکول ،کالج، اکیڈمی میں اتنا پیسہ لگا کر پڑھاتے ہیں آیا ان کو اخلاق سکھانے، قرآن سکھانے، دین سکھانے، فقہی مسائل سکھانے، حلال و حرام کی تمیز دینے پر بھی پیسہ لگا رہے ہیں یا نہیں اس حوالے سے بھی ہم کام کر رہے ہیں یا نہیں ایک تو یہ بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو جدید آلات بچوں کو دے دیئے گئے ہیں وہ اسے کس طرح استعمال کر رہے ہیں آیا ان کو اس کے اندر خوب و بد کی تمیز دی ہے آیا ان پر نگرانی ہو رہی ہے، کنٹرول ہو رہا ہے ۔؟
کیوں بچیاں گھر چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں ۔؟
کیوں گھروں کی دیواریں تو بڑی اونچی اور سخت ہیں لیکن یہ دیواری مکڑی کے جال سے بھی کمزور کیوں ہیں کیونکہ آپ نے بچوں کو موبائل دے دیے ہیں جس نے برائی بدکاری حلال و حرام کی تمیز بھلا دی ہے وہ اجنبی جس کو روکنے کے لیے دیواریں بنائی گئی تھی وہ موبائل کی صورت میں بچی بچے کے پاس پہنچ جاتا ہے اور وہ سب باتیں کہہ دیتا ہے اور وہ سارے کام ہوتے ہیں جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔
لوگ اپنے بچوں کو موبائل دے کر خواہ مخواہ اعتماد کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں کہ جی ہمارے بچے تو بہت اچھے ہیں وہ تو ایسے غلط استعمال نہیں کرتے اور بعد میں جب بچے بھاگتے ہیں اور گھروں کو چھوڑتے ہیں یا گھروں میں بے احترامیاں ہوتی ہیں پھر سماج کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے، حکومتوں کو قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

اس کیس کے اندر بھی یہی ہوا نا والدین نے صحیح تربیت کی بچی کی اور نا بچی نے اپنے والدین کا احترام کیا اور اس نے بھی سہولتوں سے غلط استفادہ کیا اور دوسری طرف مختلف ادارے اور گروپس جو ہیں اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے ہر کوئی اس کیس کے اندر جو ہے وہ اسے خراب کر رہا ہے اور اسے مثبت پہلو کی طرف نہیں لا رہا ہے ،ہر کوئی اپنا نام، اپنی نمائش کے لیے کچھ نہ کچھ اس سے استفادہ کر رہا ہے اور اس طرح کے ہزاروں کیس اور بھی ہیں یہ تو اب شروع ہوگیا لیکن اس طرح کی اور بھی ہیں۔

ایک عجیب پہلو جو اس میں ہے وہ یہ ہے کہ جب بچے بچیوں کی مناسب وقت پر شادی نہ کی جائے اور پھر وہ خود بھاگتے ہیں اور اپنی شادی کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک والدین کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ آپ نے کیوں اپنی بچیاں بٹھائی ہوئی ہیں بچوں کو اور بالخصوص بچیوں کو بٹھایا جاتا ہے کہ یہ پڑھ لیں، پڑھ لیں مزید پڑھیں، مزید پڑھیں جیسے اس بچی کی ماں کہہ رہی تھی کہ میں اپنی بیٹی کو بینک کی نوکری دلوانا چاہتی تھی جب ہمارے بچوں کے حوالے سے یہ پروگرام ہوں اور بچی جو ہے وہ شادی کرنا چاہتی ہے اور ماں جو ہے وہ اسے کہتی ہے کہ وہ مزید پڑھے اور بینک کی نوکری کرے آیا اسلام نے یہ ہمیں بتایا ہے کہ ہم اپنی بچیوں سے یہ کام لینے ہیں۔؟
کاش ہم دین پر عمل کرتے ، شریعت پر عمل کرتے ، شریعت تو یہ کہتی ہے کہ بچی بالغ ہوتے ہی شادی کی جائے حتٰی کہ شریعت یہ بھی کہتی ہے کہ وہ پیلا خون اپنے شوہر کے گھر دیکھے اور یہاں کیا ہو رہا ہے بچیوں کے مناسب رشتے آتے ہیں والدین انکار کر رہے ہوتے ہیں وہاں اپنا اسٹیٹس دیکھا جاتا ہے ،وہاں جھوٹا مقام دیکھا جاتا ہے ، وہاں پیسے دیکھے جاتے ہیں ، وہاں خاندان دیکھا جاتا ہے ۔
نہیں دیکھا جاتا تو تقویٰ نہیں دیکھا جاتا۔
نہیں دیکھا جاتا تو کسی کا علم نہیں دیکھا جاتا اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ بچی کے کیا احساسات ہیں ، ان کی کیا ضرورت ہے ۔
شادی درست ہے سنت ہے لیکن جب بچہ ، بچی شادی کی ضرورت محسوس کرے تو واجب ہے۔
اب بچوں کو بالخصوص بچیوں کو پڑھاتے ہیں اتنا پڑھاتے ہیں آخر میں انہوں نے کرنا کیا ہوتا ہے بعض اوقات 30 سال کی ہو جاتی ہیں یا تیس سال سے اوپر کی ہو جاتی ہیں پھر جہاں بھی شادی ہوتی ہے تو یہی کام کرنے ہوتے ہیں نا انہیں آگے جاکے خانہ داری کرنی ہے، آگے جاکے انہوں نے اولاد پیدا کرنی ہیں بہت کام ہوتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ چلو یہ پڑھی لکھی ہے اب یہ نوکری کرے اور پیسے کمائے اور وہاں بھی یہی رونا ہوتا ہے کہ گھر کا کام بھی کر رہی ہے نوکری بھی کر رہی ہے بچی پہ ظلم ہو رہا ہے ۔

بچی کو مصروف رکھیں پڑھائی میں لیکن دینی تعلیم بھی دیں اور دنیاوی تعلیم بھی دیں۔

لیکن جب بھی اس کہ عمر کے کسی حصے میں چاہے وہ سولہ سال کی ہو ، اٹھارہ سال کی ہو ، بیس سال کی ہو، بائیس سال کی ہو جب بھی اس کا مناسب رشتہ آئے اور رشتہ میں آپ یہ دیکھیں کے وہ لوگ اچھے ہیں، نیک ہیں بچہ ان کا خوف خدا رکھنے والا ہے، متقی ہے ٹھیک ہے اتنا زیادہ پیسہ والے لوگ نہیں ہیں لیکن اگر اچھے ہیں یہ نہیں کہ ہر رشتہ آئے تو ہاں کر دیں، تحقیق کریں اگر اچھے لوگ ہیں اچھا خاندان ہے، بچہ بھی کچھ نہ کچھ کمانے والا ہے، اخلاق کا اچھا ہے، ٹھیک ہے الحمدللہ شادی کر دیں۔

ہمارے آئمہ علیہم السلام سے پوچھا گیا کہ جب بچی کا رشتہ آئے تو ہم کس چیز کو دیکھیں ۔۔؟
انہوں نے فرمایا "صرف تقویٰ کو دیکھیں کیونکہ جو اللہ کا خوف رکھتا ہے جو صاحب تقویٰ ہے وہ آپ کی بچی کو خوش رکھے گا”
بے شک اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں لیکن جو پیسوں کو دیکھتے ہیں، باقی چیزوں کو دیکھتے ہیں پھر وہ روتے بھی ہیں پھر کہتے ہیں کہ باقی ساری چیزیں تو ہیں لیکن بچی کو ازدواجی خوشیاں نہیں ہیں، بچی کو شوہر کی طرف سے خوشی نہیں ہے، وہاں گھر میں مار پیٹ ہے، گھر کے اندر گالی گلوچ ہے،گھر کے اندر بے احترامی ہے۔

بعض دفعہ میں نے خود مناسب رشتے دیکھے اور کئی لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ انہوں نے کہا جی ہماری بچیاں تو ابھی پڑھ رہی ہیں،میری بچی نے تو وکیل بننا ہے، میری بچی نے تو ڈاکٹر بننا ہے پھر جب یہ وکیل یا ڈاکٹر بن جاتی ہیں پھر رشتے نہیں ہوتے کیونکہ اب عمر کے اس حصے تک پہنچ چکی ہیں کہ اب رشتے نہیں مل رہے رشتہ لانے والے کم عمر بچی پسند کرتے ہیں اب یہ کیا کرتی ہیں پھر چلیں دوسری شادی کے لیے بھی ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔

کیوں اس حد تک ہم جو ہے پہنچ جاتے ہیں کہ پھر یا بچیاں گھروں میں بیٹھی رہ جاتی ہیں یا پھر دوسری شادی کے لئے یعنی ایک شوہر کے دوسری بیوی بننے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں یا پھر کئی اور گھر کو تباہ کرتی ہیں بیٹھ کر ۔

خدا کے لئے محمد و آل محمد کے سیرت کو سامنے رکھیں سماج کے اندر بہت سارے مسائل ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں،ہماری اپنی غلط سوچیں ہیں، دین سے دوری ہے، محمد و آل محمد کی تعلیمات سے دوری ہے، امام زمانہ عج کی منشا سے دوری ہے۔​

اپنا تبصرہ لکھیں