عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

اخلاق منتظرین شیطان کے حملے

سلسلہ اخلاق منتظرین
مہدی ماہرین کا تعارف

اخلاق منتظرین شیطان کے حملے

اخلاق منتظرین شیطان کے حملے

استاد مہدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ

شیطان مختلف انداز سے ایک مومن اور منتظر پر حملہ کرتا ہے ایک منتظر کو چاہیے کہ شیطان کے حملوں سے بچے۔

شیطان کا سب سے خطرناک حملہ یہ ہے کہ وہ اسے خدا سے غافل کر دیتا ہے عبادتوں ، وظائف اور عزیزوں سے غافل کر دیتا ہے۔ اور یہ سخت ترین حملہ ہے۔ شیطان یہ چاہتا ہے کہ اگر انسان کے اندر جو گناہ اور خطائیں ہیں ان کو بنیاد بنا کر انسان کے اندر کا سارا نورانی ماحول کو خراب کرتا ہے۔ ان سب کو تاریک کر کے غلیظ بناتا ہے۔
اسلیے ہمیں توجہ کرنی چاہیے کہ کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے ساری نیکیاں ختم ہو جائیں۔
جیسے حسد انسان کی تمام نیکیوں کو کھا جاتا ہے اور غیبت انسان کی نیکیوں کو منتقل کر دیتا ہے اور اس کا اندر تاریک اور غلیظ ہو جاتا ہے۔ ضروری نہیں شیطان ہم سے قتل یا زنا جیسے گناہ کروائے بلکہ وہ فقط حسد اور غیبت کے ذریعے ہی ہمارے باطن کو غلیظ اور تاریک کروا دیتا ہے۔ اور ایک مومن کے پیچھے شیطان سب سے زیادہ پڑا ہوتا ہے اور مختلف انداز سے اپنا شر اس پر ڈالتا ہے اور وسوسہ کرتا ہے۔ اس لیےشیطان سے بچنے کے لیے بہت زیادہ دعا کرنی چاہیے۔
_صحیفہ سجادیہ میں سید سجادؑ پروردگار عالم سے دعا فرماتے ہیں کہ پروردگارا ہمیں ہمارے والدین اور عزیزوں کو شر شیطان سے محفوظ فرما اور ہمیں اس کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ فراہم فرما۔
معصومینؑ کے کلام اور قرآنی آیات سے اگر ہم استفادہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسان کو غافل کرنے کے لیے اسے مختلف ایسے کاموں میں مصروف کر دیتا ہے کہ اس کا وقت ضائع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

وہ انسان کہ جس کے پاس دنیا میں مدت کم ہے۔ اور وہ فضول وقت برباد کرتا ہے۔ میڈیا ، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم غافل ہوجاتے ہیں ۔ اول وقت کی نماز اور عبادات سے غافل کر دیتا ہے۔
دوسرا حملہ:
انسان کے برے اعمال کو زینت دیتا ہے۔
سورہ نمل 24 آیات
ارشاد پروردگار ہو رہا ہے۔

وَجَدْتُّهَا وَقَوۡمَهَا يَسۡجُدُوۡنَ لِلشَّمۡسِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ فَصَدَّهُمۡ عَنِ السَّبِيۡلِ فَهُمۡ لَا يَهۡتَدُوۡنَۙ‏﴿۲۴﴾

_میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آئے﴿۲۴﴾
جب انسان اپنے برے اعمال کو اچھا سمجھنے لگتا ہے تو وہ صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے۔
وہ مغرور ہو جاتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں شرمندہ نہیں ہوتا ۔
سورہ محمد 25 نمبر آیت میں رب العزت اسی جانب اشارہ فرما رہا ہے۔
الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَـهُـمْ وَاَمْلٰى لَـهُمْ
_شیطان نے ان کے سامنے برے کاموں کو بھلا کر دکھایا اور انہیں آرزو دلائی

یعنی شیطان نے انہیں لمبی آرزوؤں میں ڈال دیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔
اور انہیں کی وجہ سے بخشے بھی جائیں گے۔
_مثال کے طور پر ہمارے کچھ لوگ خرافات میں پڑے ہوئے ہیں__بدعتوں میں پڑے ہوئے ہیں_ _عبادات کو چھوڑ چکے ہیں اور پھر شفاعت کی امید بھی رکھتے ہیں۔_

جیسے مجالس میں آذان کے دوران خیال نہ رکھا جانا اور ایسی رسومات ہوتی ہیں جن کا دین اور قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ہماری اپنی بنائی ہوئی چیزیں ہمیں اپنے واجبات سے غافل کر دیتی ہیں اور عبادات سے دور ہو کر ہم شفاعت کی امید رکھتے ہیں۔

_محمد و آل محمد ؐ سے محبت کا اظہار یہی ہے کہ انسان عبادات سے متمسک رہے ۔_ _عبادات سے ہٹ کر مودت اہلبیت ؑ نہیں ہے۔ آئمہؑ ہمیں معرفت پروردگار کا درس دیتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ ان کے تعلیمات سے ہٹ کر محبت اہلبیت نہیں۔_

مستحب کی خاطر واجبات کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔مجالس ، شادیاں یہ وہ تمام تقریبات ہیں جہاں واجبات سے ہم ہٹ جاتے ہیں .
نیز غیبت اور حسد اور تہمت کی بنیاد یہی ہماری غفلت ہے۔
شیطان ہمارے اعمال کو ہماری نگاہ میں زینت دیتا ہے ۔ کہ تم جو کر رہے ہو ٹھیک ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہم جنت میں جائیں۔

امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
_” ابلیس نے یہ کہا ہے کہ 5 ایسے افراد ہیں کہ ان پر میرا تسلط نہیں۔ باقی تمام افراد میرے ہاتھ میں ہیں میں جو چاہے ان کے ساتھ کروں ۔_
1۔ پہلا شخص:وہ ہے جو صحیح نیت کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں جاتا ہے ۔ یہ مخلص ہے میں اس پر حملہ نہیں کر سکتا ۔
2۔ دوسرا شخص:وہ ہے جو شب و روز تسبیح پروردگار عالم پڑھتا ہے وہ ملائکہ کی حفاظت میں ہے۔
3۔ تیسرا شخص :وہ ہے۔ جو اپنے مومن بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
4۔ چوتھا شخص :وہ ہے کہ اگر اس پر کوئی مصیبت یا آزمائش آجائے (رزق ، اولاد) تو وہ خدا کی آزمائش پر صابر ہوتا ہے۔
5 ۔ پانچواں شخص :وہ ہے جو اللہ کی رضا پر راضی ہے۔ حسرت نہیں کرتا بلکہ رزق حلال پر راضی ہے۔ اس کو فقط آخرت کا طمع ہے۔
یہ تمام نشانیاں ایک منتظ
آپکے سوال و جواب

سوال:- سلام۔۔۔ آغا صاحب آپ نے بتایا تھا کہ مولا ع کی معرفت میں اللہ کی معرفت ھے۔ تو مولا ع کی معرفت انتظار کرنے میں اور جو وظائف بتائے جاتے ھیں ان پر عمل کرکے ھی حاصل ھوتی ھے ۔ لیکن آج کے دور میں چھوٹے بچوں کو مولا ع کی معرفت کیسے بتائیں؟؟؟

جواب:- وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ
امام کی معرفت میں انکی اقتداء ضروری ہے ورنہ معرفت فقط الفاظ ہیں
اقتداء ہی در واقع منتظر کو خیمہ معرفت میں لیجاتی ہے
اسی لیے امام صادق علیہ السلام نے منتظر کی تعریف میں تقوی اور حسن اخلاق کو بنیادی عنصر قرار دیا
امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں من سرہ ان یکون من اصحاب القائم فلینتظر و یعمل بورع و محاسن الاخلاق۔۔۔

بچوں میں کام انکی عمر و فہم کے مطابق ہو
انہیں امام زمان عج کے موضوع پر کہانیاں، واقعات ملاقات اور مولا عج کی کرامات سے آگاہ کیا جائے یہ انکی معرفت کا آغاز ہے
اور مولا عج کے موضوع پر اشعار یاد کروائے جائیں
اسکی ایک مثال سلام فرماندہ نظم ہے عالمی سطح پر کتنا بچوں میں مقبول ہوئی اور مولا عج کے حوالے سے بچوں نے اپنے عشق و احساسات کو پیش کیا۔

 

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید