عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی سے گفتگو – مترجم:حجت الإسلام و المسلمین علی اصغر سیفی

آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی سے گفتگو .- مترجم حجت الإسلام و المسلمین علی اصغر سیفی
مہدی ماہرین کا تعارف

آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی سے گفتگو – مترجم:حجت الإسلام و المسلمین علی اصغر سیفی

بہت سے دانشور، اہل فن و ادب، مصنفین اور شاعر حضرات ہیں کہ اگرچہ بظاھر خاموش اور گمنام ہیں لیکن ایسے کامل عاشق مہدی ہیں کہ اپنی ساری عمر کو غیبت کے شبستان میں چراغ انتظار کو روشن رکھنے میں وقف کیا ہوا ہے۔

اگرچہ یہ لوگ اپنے مولی اور امام عصر کے نزدیک جانے پہچانے ہیں ،لیکن یہ افسوس ہے کہ ہمارا مہدی کے شیعوں کا معاشرہ ان لوگوں کو جنہوں نے سالہاسال عشق مہدی میں قدم بڑھائے اور اس راہ میں بہت نفیس آثار چھوڑے ان کو نہ پہچانے۔

اس مقالہ میں ہم فقیہ عالی قدر آیت اللہ لطف اللہ صافی گلپایگانی کے بارے میں کہ جو واقعا ہی حضرت بقیۃ اللہ الاعظم کے عاشق و ارادت مند ہیں اور مہدویت و انتظار کے موضوع  پر انتہائی مخلص اور قابل قدر مصنف ہیں، ان سے گفتگو کریں گے اس سے پہلے کہ ان سے گفتگو کا آغاز کریں ضروری ہے کہ ان کی پربرکت زندگی اور ان کے نفیس آثار پر مختصر سا اشارہ کیا جائے :

قبلہ محترم ۱۹جمادی الاول ۱۳۳۷ھ میں گلپایگان میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم جناب آیت اللہ محمد جواد صافی مرحوم اپنے زمانہ کے بزرگ علماء میں سے تھے اور ان کی فقہ ، اصول، کلام، اخلاق ، حدیث اور تفسیر کے موضوعات پر بہت سی تصانیف تھیں، ان کی والدہ محترمہ بھی ایک عالمہ خاتون ہونے کے ساتھ شاعرہ اہلبیت تھیں ، قبلہ محترم نے ادبیات، کلام، تفسیر، حدیث، فقہ اور اصول میں سب سے پہلے گلپایگان میں ہی عالم جلیل القدر ابوالقاسم کہ جو قطب کے لقب سے مشہور ہیں ، ان کے محضر سے کسب فیض کیا پھر اپنے والد محترم کے پاس تعلیم و تحصیل میں مشغول رہے ۱۳۶۰ھ میں قم مقدس میں اعلی تعلیم کے لئے تشریف لائے، اس زمانہ کے بڑے علماء مراجع کرام سے کسب فیض کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علمی تحقیقات میں بھی مشغول رہے اور کچھ عرصہ نجف اشرف میں بھی رہے، قبلہ محترم کے اہم ترین اساتذہ مندرجہ ذیل تھے : حضرت آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری ، سید محمد حجت کوہ کمری، سید صدر الدین صدر عاملی، سید محمد حسین بروجردی، سید محمد رضا گلپایگانی، محمد کاظم شیرازی ، سید جمال الدین گلپایگانی اور شیخ محمد علی کاظمی قدس اللہ اسرارھم۔

قبلہ محترم کی فقہ ، اصول، کلام، تفسیر، اخلاق، حدیث، تاریخ اسلام وغیرہ میں فراوان تصنیفات ہیں اور اشعار کا دیوان بھی چھپ چکا ہے لیکن ان کے اہم ترین اور قابل توجہ آثار وہ کتابیں ہیں کہ جو آپ نے فرھنگ مہدویت اور انتظار کی تفسیر و تشریح میں لکھیں اور بہت سے شبھات کا تحقیقی جواب دیا ، اگر دیکھا جائے تو یہ کتابیں قبلہ محترم کے امام وقت حضرت ولی العصر ارواحنا لہ الفداء سے خالص عشق و ارادت کی ترجمان ہیں اس حوالے سے آپ کی طرف سے جو اہم ترین کتابیں سامنے آئی ہیں وہ یہ ہیں : منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر، امامت و مہدویت، العقیدہ ، ا لمہدویت، نوید امن و امان، اصالت مہدویت، ، انتظارعامل مقاومت و حرکت ، فروغ ولایت دردعای ندبہ، وابستگی جہان بہ امام زمان، معرفت حجت خدا اور شرح دعای اللھم عرفنی نفسک ۔ ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے آثار اور تصنیفات میں سب سے زیادہ امام زمان (عج) کی طرف توجہ دی گئی ہے مہربانی فرما کر بتائیں کہ آپ کس زمانے سے اس موضوع کی طرف متوجہ ہوئے ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمد و آلہ الطاھرین آپ کے سوال کا جواب اس شعر سے شروع کرتا ہوں۔

لاعذب اللہ امی انھا شربت

حب الوصی و غذنسہ باللبن

و کان لہ والد یھوی اباحسن

قصرت من ذی وذا اھوی اباحسن

ہماری فیملی میں امام مہدی (عج) کے موضوع پر بہت زیادہ توجہ ہے اور ہمیشہ ان کے حوالے سے گفتگو رہی ہے، جب سے میں نے اپنے آپ کو پہچانا اسی وقت سے میں نے حضرت کے نام مبارک اور ان کے حالات اور ان کی معرفت کے بارے میں اہم مطالب کو بھی جانا ،میں شروع سے ان سے مانوس تھا میرے والد بزرگوار جو کہ اپنے زمانہ کے بلند پایہ فقیہ تھے امام کے ساتھ خصوصی چاہت رکھتے تھے، یوں سمجھ لیں کہ ان کی زندگی امام کی یاد کے ساتھ گزر رہی تھی، انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کی  مدح اور ان کی زیارت کے شوق میں چند ہزار اشعار بھی کہے، اور وہ ساری زندگی ہر سال ۱۵شعبان کو گلپایگان میں جشن ولادت امام مہدی علیہ السلام برپا کرتے تھے۔

ادھر میری والدہ جو کہ خود ایک عالمہ فاضلہ خاتون تھیں ولایت ائمہ بالخصوص حضرت صاحب الامر (عج) کے لئے بہت اہتمام کیا کرتی تھیں، میرزا نوری کی کتاب نجم الثاقب کہ جس میں امام زمان سے  ملاقاتیں تحریر ہیں، سے بہت مانوس تھیں اسی لئے میں بھی بچپن سے ہی اس کتاب سے سیکنڑوں حکایتیں بار بار پڑھ چکا تھا۔

دوسری وجہ۔ ۔ ۔ کہ میں نوجوانی میں ہی امام مہدی علیہ السلام کے متعلق مختلف موضوعات اور مسائل سے آشنا ہوا۔ یہ تھی کہ مذہب باطل و فاسد بہائیت کا ایک مبلغ شہر گلپایگان میں تھا رضا خان (سابق بادشاہ ایران) کے زمانے میں اس کی گمراہ کن فعالیت اور تبلیغ کے حالات بہت تفصیلی ہیں کہ ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، میرے والد محترم اپنے وظیفہ کی بنا پر کہ جو علماء کے کندھوں پر ہے کہ لوگوں کے عقائد محفوظ رہیں اور امام ھادی علیہ السلام کی اس حدیث کے مصداق بن کر انہوں نے فرمایا : لولا من یبیق بعد غیبۃ قائمکم (ع) من العلماء الداعین الیہ والد الین علیہ والذا بین عن دینہ بحجج اللہ ۔۔۔ لما بقی أ الا ارتد عن دین اللہ ۔ ۔ ۔  اس کے گمراہ کن تبلیغ کے مدمقابل آئے اور بہت بڑے جہاد کے ساتھ بہت سے لوگوں کو ارتداد سے نجات دی اور اس کے شر کو بھی ختم کیا ،تو اس  مسئلہ کی بنا پر اس زمانہ میں بندہ حقیر نے بھی ان بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا کہ جو بہائیت کی رد میں لکھی گئی تھیں مثلا کشف الحیل آیتی کی جلدیں ، فلسفہ نیکو، ایقاظ ۔ ۔ اسی طرح وہ کتابیں بھی مطالعہ کیں کہ جو والد محترم امام مہدی علیہ السلام کے موضوع پر مختلف آیات و روایات پر تحقیق کرکے لکھیں، اس طرح امام زمان (عج) کے حوالے سے بہت سی معلومات کا ذخیرہ میرے ذہن میں جمع ہوا ، والد محترم امام علیہ السلام کے موضوع اور جھوٹے مہدیوں کی رد میں کتابیں لکھنے کے ساتھ ۔ ۔ کہ جن میں انفاس العرفان معروف ہے۔ ۔ اسی موضوع پر اور مذہب فاسد بہائیت کی رد میں اشعار بھی کہے کہ ان اشعار میں علمی انداز سے بہائیت کے بے بنیاد شبہات کا جواب دیا گیا ، بندہ حقیر نے انہی اشعار کی تشریح بھی لکھی ہے کہ جو ان کےاشعار کے ساتھ چھپ چکی ہے ، بہرحال بندہ حقیر کو فخر ہے کہ امام زمان ارواح العالمین لہ الفداء کی نوکری ساری زندگی جاری رکھی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں والد محترم کی طرف سے ۱۵شعبان کی مناسبت سے جو بیان لکھا جاتا تھا ،میں اسے یاد کرلیتا تھا اور مختلف مواقع پر  پڑھا کرتا تھا اور یہ بیان بہت لطیف خوبصورت اور ادبی انداز میں ہوتا تھا کہ اس میں فارسی ادب کی خوبصورت عبارتوں کے علاوہ عربی اشعار بھی ہوتے کہ جو والد محترم نے خود کہے ہوتے تھے۔

کتاب منتخب الاثر جیسی عظیم کتاب لکھنے میں آپ کا کتنا وقت لگا؟

درست یاد نہیں ہے میرا خیال ہے دو تین سال  لگے ہوں گے میں نے اس وقت کے علاوہ کہ جو آیت اللہ بروجردی کے درس میں صرف ہوتا ہے ،باقی تمام وقت یہاں تک کہ غذا کھاتے وقت بھی اسی کتاب کی فکر میں ہوتا ،کیونکہ میں نے اس کتاب میں روش کے حوالے سے جدت پیدا کی کہ اس سے پہلے جو کتابیں لکھی گئی تھیں ان میں ایسی روش نہ تھی ،اگر میں اسے پچھلی کتابوں کی روش کی مانند لکھتا تو یہ دس جلدیں ہوجاتیں، تو اس کام کے لئے بہت وقت اور غور و فکر کی ضرورت تھی ہر حدیث کی دلالت کو دیکھنا ہوتا تھا کہ کس موضوع کی طرف اشارہ کررہی ہے، ممکن ہے کہ ایک روایت دس موضوعات پر اشارہ کررہی ہو اور اسے دس ابواب میں لکھا جاسکتا ہے لیکن میں نے اسے ایک باب میں لکھا اور دوسرے ابواب میں تکرار سے بچنے کے لئے اس کی طرف اشارہ کیا مثلا واضح کیا کہ یملأ الارض قسطا و عدلا دو سو یا تین سو روایات ہیں البتہ پہلے ایسا کام نہ ہوا تھا۔عرض خدمت ہے کہ  کتاب منتخب الاثر کی مکمل شناخت اور اس کے تمام تر فوائد اور نتائج کو جاننے کے لئے بہرحال اپنی جگہ تحقیق اور دقیق بحث کی ضرورت ہے۔

آپ کا اس تصنیف سے کیا قصد تھا؟

مکتب تشیع و مہدویت کی خدمت اور ثواب اخروی کے حصول سے بڑھ کر اور کیا قصد ہوسکتا ہے ،امید ہے کہ بندہ حقیر کی اس سعی کو قبولیت کا شرف حاصل ہوگا البتہ استاد مرحوم آیت اللہ بروجردی کا اشارہ کتاب منتخب الاثر کی تحریر کا سبب بنا سب سے پہلے اس کتاب کو ۲۴ یا ۲۸ ابواب میں منتخب کیا اور انہیں منظم کرکے ان کو دکھایا انہوں نے تائید کی پھر بعد میں یہ سو ابواب تک پہنچ گئی۔

اس کتاب کو لکھنے میں کونسی مشکلات پیش آئیں؟

اس وقت بنیادی مشکل جو مجھے درپیش تھی وہ یہ تھی کہ ضرورت کے مطابق ماخذات ومصادر موجود نہ تھے، اب میرے کتابخانہ میں امام مہدی علیہ السلام کے موضوع پر اہم ماخذات کا ذخیرہ موجود ہے، لیکن آدھی صدی پہلے بہت کم کتابیں تھیں بالخصوص اہل سنت کی امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے کتابیں بہت مشکل سے ملتی تھیں اس زمانے سے لیکر اب تک مہدویت کے موضوع پر جتنی اہم اور معتبر کتابیں تحریر کی گئی ہیں ان سب نے منتخب الاثر سے الہام لیا ہے، اگرچہ بعض نے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا لیکن بہت سے بزرگان علماء مثلا شہید محمد صدر اور جناب نجم الدین عسکری نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے کہ انہیں اس کتاب سے فائدہ پہنچا ہے، میں نے منتخب الاثر کو لکھنے کے لئے بہت سی کتابوں کا مطالعہ اور تحقیق کی ہے، مثلا تاریخ بغداد جو کہ چودہ جلدوں پر مشتمل ہے اس کا مطالعہ کیا اس میں دو یا تین روایات اس موضوع پر ملی ہیں، اس طرح مسند احمد ، صحیح مسلم اور دیگر بڑی بڑی کتب کا مطالعہ کیا اور کتابیں بھی بہت مشکل سے ملتی تھیں مثلا میں چاہتا تھا الیواقیت والجواھر شعرانی کو دیکھوں کیونکہ مشہور تھا کہ اس نے نقل کیا ہے کہ محی الدین عربی نے کتاب فتوحات المکیۃ میں تمام آئمہ کے نام لکھے ہیں اور انہیں قبول کیا ہے، اسی طرح حضرت مہدی علیہ السلام کا تعارف امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند کے طور پر کروایا، لیکن یہ بات خود فتوحات المکیۃ جو بازار میں تھیں اس میں نہیں تھی۔

اس حوالے سے میں چاہتا تھا کہ یہ بات نقل کروں میں نے الیوقیت والجواھر کی تلاش شروع کردی اسے ڈھونڈتے ہوئے تہران جاپہنچا، وہاں بھی بہت سی لائبریریوں اور کتابوں کی دوکانوں میں ڈھونڈا ، آخر کار وہ کتاب باب ہمایوں کے بازار میں کتاب فروشی کی دوکان پر ملی اس کتاب میں وہ مطلب بھی مجھے مل گیا وہ شخص کتاب بہت مہنگی بیچ رہا تھا اس زمانہ میں ۴۵تومان مانگ رہا تھا جو کہ بہت بڑی رقم تھی میں خرید نہیں سکتا تھا لہذا اس کی اجازت سے یہ بات اس سے وہیں نوٹ کرلی۔

آپ نے کتاب منتخب الاثر جیسی اہم کتاب لکھنے میں کتنے ماخذات کی طرف رجوع کیا؟

میں نے اس سلسلے میں اھل سنت اور مکتب تشیع کے بہت سے اہم ماخذات اور مصادر کی طرف رجوع کیا اور ہر ایک کو جدا جدا کرکے لکھا اور تمام مطالب کو بغیر کسی واسطہ سے یعنی خود اس ماخذ سے لکھا ، لیکن اگر ایک روایت کسی کتاب سے نقل کی اور پھر دوسری کتاب سے نقل نہیں کیا اس کتاب کے صفحہ ۵ سے ۲۱ تک ان تمام ماخذات اور مصادر کی فہرست ہے کہ جن سے میں نے مطالب نقل کئے ہیں ، کلی طور پر عرض کرتا ہوں کہ اس کتاب میں تقریبا ۶۵ اھل سنت کے ماخذات اور ۹۵ اھل تشیع کے ماخذات سے مطالب نقل کئے ہیں ۔

آپ نے کتاب منتخب الاثر کو لکھتے وقت روایات کی سند اور متن کی جانچ پڑتال کی طرف بھی توجہ کی ہے؟

میں نے روایات متواترہ کی طرف خاص توجہ رکھی ہے البتہ اگر کسی خبر واحد سے مطلب نقل کیا ہے تو اس کی سند میرے نزدیک ثابت تھی لیکن خبر متواتر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں (چاہے تواتر لفظی، معنوی یا اجمالی ہو) چانچ پڑتال کی ضرورت نہیں وہ خود یقین کا موجب ہوتی ہے ،مثلا یہ روایت المھدی من ولد فاطمۃ، کہ امام مہدی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہیں یہ ایک متواتر روایت ہے اس کی سند کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہ تھی ، امام مہدی کے حوالے سے وہ بہت سے مطالب جو خبر واحد کی شکل میں تھے میں نے نہیں لکھے، بلکہ میرے زیادہ تر مطالب وہی ہیں کہ جو روایات متواترہ سے ہیں ،اس کتاب میں اور بھی بہت سی علمی اور فنی خصوصیات ہیں اسی لئے یہ بہت سے شبھات کا جواب دینے پر قادر ہے۔

میں نے ان سب روایات کو تین واسطوں سے نقل کیا ہے بعض مطالب کی سند تو ایسی ہے کہ اسے طویل لکھنے کی ضرورت نہیں ہے مثلا یہ بات کہ امام مہدی من اھل البیت۳۸۹روایات میں آتی ہے لھذا یہاں خودبخود انسان کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ ان سب روایات میں حد اقل ایک روایت تو یقینا درست ہے، لھذا یہاں ضرورت نہ تھی کہ ان سب کی سند کو دیکھا جائے، لہذا اس کتاب میں روایات کی مکمل سند کی جانچ پڑتال میری مورد نظر نہ تھی بلکہ میں نے زیادہ تر روایات کی کثرت پر توجہ کی۔

بہرحال اس زمانے میں آج کی طرح جدید وسائل مثلا کمپیوٹر نہ تھا اور اتنی ساری روایات کی مکمل سند دیکھنا بھی کوئی معمولی کام نہ تھا ،ہم تو اس کتاب میں اس ھدف پر تھے کہ واضح کریں کہ حضرت ولی عصر (عج) کی خصوصیات، علائم اور ان کی صفات پر ہمارے پاس کثرت سے روایات ہیں، مثلا یہ موضوع کہ انہ یملأ الارض قسطا و عدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا (یعنی وہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کریں گے کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے پرتھی) تقریبا ۱۲۳ روایات میں آیا اور ان کی غیبت کا موضوع ۹۱ روایات میں آیا۔

شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ ، نعمانی کی کتاب الغیبۃ اور شیخ صدوق کی کمال الدین میں ان کتابوں سے مطالب نقل ہوئے کہ جو ائمہ کے زمانے میں بلکہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت سے پہلے لکھی گئی تھیں، میں نے شبہ کو دور کرنے کے لئے جب کتاب منتخب الاثر میں تجدید نظر کی تو ان روایات کو خود ان کتابوں سے شیخ طوسی اور ان کی مانند دوسرے بزرگ علماء کے واسطہ سے نقل کیا ،مثلا شیخ فرماتے ہیں کہ فلاں شخص جو کہ امام صادق علیہ السلام کے زمانہ میں تھا اس کی یہ کتابیں تھیں اور اخبر بجمیع کتبہ اب ہم چاہیں تو بغیر کسی واسطہ کے شیخ سے مطلب نقل کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی کتاب موجود ہے، اگرکہیں سند ذکر ہو تو یہ اعزازی کام ہے ورنہ ضرورت نہیں ۔

میں نے اپنے درسوں میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ جب ہم کوئی مطلب مرحوم کلینی کی کتاب اصول کافی سے نقل کرتے ہیں تو اس کی مثال یہ ہے کہ ہم وہ مطلب تین واسطوں سے امام معصوم سے نقل کررہے ہیں لہذا زیادہ یہاں سندوں کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں ہے، اب مرحوم کلینی سے روایات لینے کی چند صورتیں ہیں ایک یہ کہ خود ان سے سنیں یا ان کے سامنے پڑھیں (وہ تائید کریں) تیسرا یہ کہ ان کی کتاب ہمارے پاس موجود ہو اب جب کہ آپ اس کتاب سے نقل کرتے ہیں تو سند زیادہ اہم نہیں ہے، البتہ اس بات کے شواھد میں نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں ، تو اسی اساس پر جب کوئی روایت کہ جو بیان کررہی ہے کہ امام مہدی (عج) حضرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی نسل سے ہیں دو یا تین واسطہ سے ہم پہلے راوی سے نقل کررہے ہیں یہاں کوئی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔

مہدویت کے موضوع پر شبہات وارد ہوتے ہیں ان کے جواب کے لئے آپ نے کونسی کتاب تصنیف فرمائی ہے؟

اسی کتاب منتخب الاثر کے تمام ابواب در حقیقت تمام شبہات کا جواب ہیں یہاں تک کہ تمام شیعہ فرقے مثلا زیدیہ کو بھی یہ کتاب جواب دیتی ہے اب تو بعض سنی مسلمان بھی اس کتاب کے مطالعے کے بعد شیعہ ہوگئے ہیں البتہ ہم اس کتاب میں براہ راست کسی کے جواب میں نہ تھے، میرا نہیں خیال ہے کہ منتخب الاثر میں بہائی فرقہ کا نام لیا گیا ہو اگرچہ میں ان کے عقائد سے خوب واقف ہوں لیکن اس کے باوجود یہ کتاب ان کے لئے بھی جواب ہے، اسی طرح وہ جو دعوی مہدویت رکھتے ہیں ان کے لئے بھی جواب ہے، مجھے امید ہے کہ جہاں تک جواب کا تعلق ہے اس میں جواب کے حوالے سے تمام جہات کا لحاط رکھا گیا ہے۔

آجکل بعض مجالس اور سیمناروں میں امام زمانہ (عج) کے ظہور کے نزدیک ہونے کی بات کرتے ہیں تو آپ کا اس حوالے سے کیاخیال ہے؟

کوئی مجھ سے پوچھے کہ حضرت کا ظہور نزدیک ہے تو میں کہوں گا ہاں نزدیک ہے اگر پوچھے کیسے؟ تو جواب دونگا اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے اقتربت الساعۃ وانشق القمر، ادھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل ہوا ہے کہ انا والساعۃ کھاتین تو آنحضرت دنیا کی عمر کے مطابق حساب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیامت اور میری بعثت ایک دوسرے کے نزدیک ہیں یعنی دنیا کی اتنی عمر گذر چکی ہے کہ اس کو دیکھا جائے تو بعثت اور قیامت میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا اس حوالے سے ہم ہر روز ظہور کے زمانہ کے نزدیک ہوتے جارہے ہیں اس حوالے سے ایک عربی شاعر کا بھی قصیدہ ہے کہ کہتا ہے۔

لقد ظھرت الانام علائم

و ھذا امام العصر بالنصر قادم

یعنی ظہور کی علامات آشکار ہونے والی ہیں تو اس معنی کے حوالے سے ظہور نزدیک ہے لیکن اگر کوئی ظہور کا زمانہ معین کرنا چاہے یا یہ کہے کہ اب جو علامات ظاھر ہوئی ہیں یہ وہی علامات ظہور ہیں تو یہ بات بہت مشکل ہے، بہرحال جو منتظر ہو وہ ہر واقعہ اور حادثہ کو نیک فال کے طور پر لے گا ہر چیز کو اس کے آنے کی نشانی کے طور پر لے گا البتہ جہان کی وضعیت یوں ہے کہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر روز ظہور کے زمانہ کے نزدیک ہورہے ہیں، یعنی ہر روز دنیا میں جو مسائل پیدا پورہےہیں معلوم ہوتا ہے انشاء اللہ زمانہ ظہور نزدیک ہے۔

جہان میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور ہم انہیں محسوس کررہے ہیں اگرچہ لوگوں کے ارادے کا اس میں کوئی دخل نہیں مثلا موج کی مانند ایک چیز معاشرہ میں رواں دواں ہے کہ دشمن ایک خاص انداز میں الجھ رہے ہیں دوست ایک اور انداز سے۔ ۔ ۔

جی ہاں اسی طرح ہے الحمد للہ میں سمجھتا ہوں کہ امام زمانہ کی توجہ ہمارے معاشرے پر زیادہ ہورہی ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ بدھ کی رات قم میں کتنی رونق ہوتی ہے، قم سے اور مختلف شہروں سے لوگوں کی کتنی بڑی تعداد مسجد جمکران کی طرف رواں دواں ہوتی ہےیہ بھی ایک غیبی راز ہے کہ لوگ یوں امام زمان (عج) کی طرف توجہ پیدا کررہے ہیں، میں اس کو طبعی صورت نہیں سمجھتا بلکہ سمجھتا ہوں کہ حضرت نے ان لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کیا ہے کہ یہ ہر ہفتہ پابندی سے جمکران جاتے ہیں یہ بات بہت ہی قابل توجہ ہے ورنہ مسجد جمکران تو پہلے بھی تھی۔

اس مجلہ کے قارئین کے لئے کہ سب امام مہدی (عج) کے عاشق ہیں آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

آج غیبت و امتحان کا زمانہ ہے ہہت ساری روایات آئی ہیں کہ جن میں آیا ہے کہ زمانہ غیبت میں لوگوں پر بہت سی سختیاں آئیں گی جیسے یہ روایت:

ذلک الذی یغیب عن شیعتہ و اولیائہ غیبۃ لایثبت علی القول بامامتہ الا من امتحن اللہ قلبہ بالایمان

البتہ اب وہ زمانہ نہیں ہے لیکن مومنین کو چاہیے کہ اس زمانہ غیبت میں تزکیہ نفس کریں، تقوی اختیار کریں اور تیار رہیں تاکہ زمانہ ظہور میں وہ اپنے آپ کو ظہور والوں کو ساتھی کے طور پر شناخت کروا سکیں اور کہیں کہ یہ ظہور ہم نے چاہا تھا وہ جو متدین نہیں ہیں وہ کیسے زمانہ ظہور میں مسرت کا اظہار کریں گے خوشحال تو وہ ہوں گے جو واقعی طور پر ظہور کا انتظار کررہے ہیں۔

طوبی للمتقین فی غیبۃ طوبی للصابرین فی محبتہ

اسی لئے زمانہ غیبت میں ظہور کے منتظر لوگ متقی اور حقیقی حزب اللہ ہوں فرمان ہے: اولئک حزب اللہ علی ان حزب اللہ ھم المفلحون

یعنی وہ جو عصر غیبت میں ہیں اس طرح ہوں کہ ان پر حزب اللہ کا اطلاق کیا جاسکے وہ جو احکام خدا کے ساتھ معتقد نہ ہو اور دین خدا پر عمل نہ کرے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ کرے، دینی مسائل سے لاتعلق ہے وہ حزب اللہ نہیں ہے۔

یہ جو بعض کہتے ہیں کہ زمانہ غیبت میں حقیقی مومن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے صرف انتظار کریں گے کہ جہان ظلم و ستم سے پر ہوجائے اور ہماری زمانہ غیبت میں کوئی دینی ذمہ داری نہیں ہے یہ بات غلط ہے، بلکہ زمانہ غیبت میں بہت سخت دینی ذمہ داری ہے انسان کو چاہیے اپنے دین کی حفاظت، اسلام کی حفاظت اور مذہب اہل بیت کی حفاظت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، بہت زیادہ دین سے وابستگی کی ضرورت ہے اس لئے بعض روایات میں آیا ہے کہ جو زمانہ غیبت میں منتظر ہیں ان میں سے ہرایک ثواب ۵۰ صدیق کے برابر ہے

منتظرین امام زمانہ کو اس زمانہ میں یوں اپنے دین پر پابند ہونا چاہیے گویا زمانہ ظہور میں ہیں اور امام زمان (عج)کو دیکھ رہے ہیں ،ہمیں زمانہ غیبت میں ہر حوالے سے زندہ ہونا ہوگا زندہ انسان کیسا ہے؟ وہ ہے جو اپنا دفاع کرتا ہے اپنے مذہب کا اور اپنے مکتب کا دفاع کرتا ہے لیکن مردہ انسان ایسا نہیں ہے، جو کچھ اس پر یا اس کے دین پر آئے اسے اثر نہیں ہوتا اور نہ وہ رد عمل کا اظہار کرتا ہے پس انتظار کا معنی یہی زندہ ہونا ہے۔

نوٹ: یہ گفتگو ایرانی مجلہ موعود سے ترجمہ کی گئی ہے

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید