امام مهدی عج فورم پر کچھ جوانوں کے سوالات – (تیسری قسط)
تحریر: استاد محترم مهدویت آغا علی اصغر سیفی
9- امام مہدی(عج) کے جانثار اصحاب کی کیا خصوصیات ہونگیں ؟
جواب: احادیث میں اصحاب امام(عج) کی صفات اور خصوصیات کو اس طرح بیان کیا گیاہے:
۱۔ خدا اور اپنے امام کے بارے میں عمیق معرفت رکھنا:
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہواہے : ’’ امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب کے دلوں میں ذات خدا کے بارے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔( بحار،ج۵۲، ص۳۰۷، ح۸۲.)
امام سجاد علیہ السلام سے نقل ہونے والی ایک روایت میں غیبت کے دور میں انتظار کرنے والے مؤمنین کی صفات کو اس طرح بیان کیا گیاہے:’’ وہ امام زمانہ علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ رکھنے والے ہوں گے۔‘‘( کمال الدین، ج۱، ب۳۱، ح۲.)
اور اس اعتقاد کا سرچشمہ عقل اور فہم ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے مزید فرمایا: اللہ تعالی نے انہیں عقل فہم اور ایسی معرفت عطا کی ہے کہ ان کے نزدیک غیبت مشاہدہ کے قائم مقام ہے۔
۲۔ مکمل اطاعت:
صحیح معرفت کا نتیجہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام کی ہر لحاظ سے اطاعت کی جائے۔
امام صادق علیہ السلام سے نقل ہواہے کہ ’’ ان کی اپنے امام کی اطاعت، کنیز کی اپنے مولا کی فرمانبرداری سے زیادہ ہے۔‘‘( بحار،ج۵۲، ص۳۰۷، ح۸۲.)
۳۔ عبادت اور اُستواری (صلابت):
وہ اپنے پیشوا اور امام کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہوئے دن رات کو اپنے معبود کے ساتھ دعا اور مناجات میں گزار دیں گے۔
امام صادق علیہ السلام نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: وہ راتوں کو عبادت کریں گے اور دن کو روزہ سے ہوں گے۔( یوم الخلاص،۲۲۴.)
اور ہرحال میں خدا کی یاد ان کے دلوں میں تجلی کرے گی۔
خدا کی ہمیشہ یاد ہی انہیں طاقتور مرد بنائے گی کہ کوئی چیز ان کی صلابت اوراستواری کو ختم نہیں کرسکے گی۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’ وہ ایسے مرد کہ گویا ان کے دل لوہے کے ٹکڑے ہیں۔‘‘( بحار،ج۵۲، ص۳۰۷، ح۸۲.)
۴۔ جانثار اورشہادت کو چاہنے والے:
خدا اور امام کی صحیح معرفت نے انسانیت کی حقیقت اور زندگی کے بارے میں ان کی نظر کو عمیق کردیاہے اور زندگی کے مقصد اور ہدف کے بارے میں ایک صحیح معرفت پیدا کرتے ہوئے، وہ اس چیز کو سمجھ جائیں گے کہ زندگی کا مقصد کمال کو حاصل کرنا ہے اور کمال کے حصول کا واحد راستہ اپنے آپ کو خدا اور دین خدا کے لئے وقف کرنا ہے۔ لہذا وہ ہر قسم کی جانثاری اور ایثار کے لئے حاضر ہوں گے ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب، میدان جنگ میں ان کے اردگرد چکر لگائیں گے اور اپنی جان سے ان کی حفاظت کریں گے۔( بحارالانوار،ج۵۲، ص۳۰۷، ح۸۲.)
خدا اور امام کی معرفت رکھنے والے ان لوگوں کی آخری آرزو یہ ہوگی کہ وہ راہ خدا اور امام کی رکاب میں جام شہادت نوش کریں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:راہ خدا میں شہادت ان کی آرزو ہوگی۔( بحارالانوار،ج۵۲، ص۳۰۷، ح۸۲.)
۵۔ شجاعت اور دلیری:
امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب اپنے مولا کی طرح شجاع اور دلیر مرد ہوں گے کہ جو خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ۔
امام علی علیہ السلام نے ان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا: وہ سب جنگل سے نکلنے والے شیروں کی طرح ہیں کہ اگر ارادہ کریں تو پہاڑ کو اپنی جگہ سے اُکھاڑ دیں گے۔‘‘( یوم الاخلاص،ص۲۲۴.)
۶۔ صبر و حلم:
عالمی ظلم کے خلاف جنگ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے بہت ساری مشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امام علیہ السلام کے اصحاب، امام مہدی علیہ السلام کے عالمی مقاصد کے حصول کے لئے ہر قسم کی مشکلات اور مصیبتوں کو تحمل کریں گے ، لیکن اخلاص اور انکساری کی وجہ اسے حقیر شمارکریں گے۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جو راہ خدا میں صبر اور حلم اختیار کرنے کی بناپر اللہ تعالی پر احسان نہیں جتلائیں گے اور اپنے جان کو راہ خدا میں پیش کرنے پر فخر و مباہات نہیں کریں گے اور انہیں بڑا شمار نہیں کریں گے۔‘‘( منتخب الاثر، فصل،۶، ب۱۱، ح۴.)
۷۔ اتحاد و یگانگت:
وہ اپنے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ہر چیز کو ایک مقصد اور ہدف کے لئے انتخاب کریں گے اور ایک جھنڈے تلے جمع ہوکر قیام کریں گے۔
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’ وہ سب متحد اور ہم آہنگ ہیں۔‘‘( یوم الاخلاص، ص۲۲۳.)
۸۔ زہد و تقویٰ:
امام علی علیہ السلام ، امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ اپنے اصحاب سے بیعت لیں گے کہ سونا اورچاندی ، گندم اورجو کو ذخیرہ نہ کریں ۔‘‘( یوم الاخلاص، ص۲۲۳.)
اُن کا مقصد اعلی اور بلند ہے اور وہ ایک عظیم مقصد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،لہذا دنیا اور مادی اشیاء ان کے سامنے رکاوٹیں نہیں ہونی چاہئیں۔ لہذادنیا کے زرق و برق اور شان و شوکت کو دیکھ کر جن کے دل دھل جاتے ہیں ان کی امام کے اصحاب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
البتہ اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہ صفات اور خصوصیات ایک مرتبہ بنی انسان میں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ ان کے حصول کے لئے سالہا سال کوشش کرنی چاہئے ۔
لہذا غیبت کے دور میں امام مہد ی علیہ السلام کے اصحاب، اپنی تربیت اور خودسازی میں مشغول ہوتے ہیں۔
10-امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے تحقق میں ہمارا کیا کردار ہونا چاہئے ؟
جواب: مختصر طور پر مذکورہ سوال کا جواب یہ ہے :
۱۔ صحیح معنوں میں امام کی معرفت اور شناخت کی بنیادوں کو مظبوط اور مستحکم کرنا ۔
۲۔ اللہ کی عبادت و بندگی کے ساتھ ساتھ اپنے دینی وظایف پر عمل پیراں ہونا ۔
۳۔ امام علیہ السلام کے ظہور کے لئے راستہ تیار کرنا ، یعنی دوسرے لوگوں کو اپنے ملک اور دنیا کے حالات اور وضعیت سے آشنا کرتے ہوئے ، ان کو یہ یاد دلانا کہ یہ صورت حال ایک انسانی معاشرہ کی شان کے مطابق نہیں ہے .
اسی طرح لوگوں کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حقیقت اور ان کے قیام کے اغراض و اہداف سے آگاہ کرنے کے ساتھ، ساتھ اس راہ میں قیام کرنے کی طرف رغبت دلانا ۔
11-غیبت کے زمانے میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مکان اور مسکن کہاں ہے؟کیا جزیرۃ خضراء اور برمودا کی مثلث حقیقت رکھتی ہے؟
جواب :۱۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مسکن اور مکان کے بارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں ہے اور فقط حدس و گمان کی بنیاد پر ہے.
خود حضرت امام مہدی(عج) کے پردۂ غیبت میں چلانا جانا اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ غیبت کے زمانے میں زندگی گزارنے کے لئے کو ئی خاص جگہ اور مکان معین نہیں ہے ، بلکہ زمانۂ غیبت میں آپ مختلف مکانوں اور شہروں میں ناشناس طور پر زندگی گزارتے ہیں ۔
۲۔ جہاں تک “خضراء نامی جزیرہ”کا تعلق ہے تو ، اس داستان کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں نقل کیا ہے ، لیکن شیعہ علما اور دانشوروں نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور مذکورہ داستان کی معتبر نہ ہونے پر دلایل پیش کئے ہیں:(اس سلسلہ میں تفصیل کے شاثقین حضرات کے لئے بہترین کتاب علامہ ابراہیم امینی کی کتاب “داد گستر جہان ” جو “آفتاب عدالت”کے نام سے اردو میں بھی چھپ چکی ہے).
ہم یہاں پر اس داستان کے معتبر نہ ہونے کی وجوہات میں سے کچھ وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ اس داستان کے راوی نے دعوی کیا ہے کہ حضرت امام مہدی عج اپنی اولاد کے ساتھ اس سر سبز و شاداب جزیرہ میں بہت ہی آرام اور خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں! اور یہ بات اہل بیت اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی سیرت کے خلاف ہے ، جو ہمیشہ معاشرہ کے عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے تھے اور سختی اور مشکلات میں لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے ، اور یہ کیسا ممکن ہے کہ ان کے ماننے والے اور شیعہ تو اتنی سختی کے ساتھ زندگی گزاریں اور آپ اپنی اولاد اور خاندان کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزاریں؟
۲۔ دوسرا یہ کہ مذکورہ داستان میں بہت ہی متناقض باتیں پائی جاتی ہے ۔
۳۔ تیسرا یہ کہ اس داستان میں”تحریف قرآن” یعنی قرآن میں کمی بیشی ہونے پر تصریح کی گئی ہے جو کسی بھی صورت میں شیعہ عقیدہ سے سازگار نہیں ہے ، اور اسی طرح یہ بات نصّ قرآنی کے خلاف ہے ، لہٰذا قابل اعتبار نہیں ہے ۔
۴۔ مذکورہ داستان کا راوی مجہول الحال ہیں اور اس کی حقیقت معلوم نہیں ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں کے رہنے والا ہے و … کیونکہ رجال اور حدیث کی کتابوں میں مذکورہ شخص ذکر نہیں ہوا ہے ۔
۵۔ اور سب سے اہم یہ کہ خود علامہ مجلسی (رہ) مذکورہ داستان کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے اس داستان کو ایک خطی نسخے سے نقل کر رہا ہوں ، لیکن کسی معتبر کتاب میں یہ داستان نقل نہیں ہویی ہے (اس لئے میرے نزدیک یہ داستان قابل اعتبار نہیں ہے )۔
۶۔ جہاں تک مثلث برمودا کا تعلق ہے ، امریکا کے نزدیک سمندر میں تقریباً ۳۶۰ سو ساٹھ چھوٹے جزیرے پائے جاتے ہیں ، کہ ان میں سے ۲۰ جزیروں پر لوگ زندگی گزار رہے ہیں ، اور ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کے مجموعہ کو “جزیرۃ برمودا “کہتے ہیں ۔
۷۔ جب ہم جزیرۃ خضرا کے قائلین سے پوچھتے ہیں، اگر ایسا کوئی جزیرہ اس روی زمین پر موجود ہے تو ابھی تک کسی نے اس کو کیوں نہیں دیکھا ہے ؟ تو جواب دیتے ہیں کہ خدا قادر ہے لہٰذا ممکن ہے کہ معجزانہ طور پر اس جزیرے کو لوگوں کی نظروں سے غائب رکھے اور کوئی اس کو نہ دیکھ سکیں ! ان لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ اگر خداوند متعال معجزہ کے ذریعہ اس جزیرہ کی حفاظت فرما رہا ہے تو پھر وہی خدا ، اس جزیرہ سے قریب ہونے والی کشتیوں اور جہازوں کو نابود کرکے بے گناہ لوگوں کو قتل کرتا ہے؟جیسا کہ مذکورہ داستان اس بات پر تصریح کی گئی ہے کہ کیا اس جزیرہ سے گذرنے والے سب کے سب خدا اور امام زمانہ عج کے دشمن ہیں؟ اور جو بھی وہاں سے گذرے کیا ان سب کو خدا یا امام زمانہ(عج) خدا کے حکم اور معجزہ سے نیست و نابود کردیتا ہے؟
یہ بات نہ دین اسلام کے اصولوں سے ساز ہے اور نہ خداوند متعال اور امام زمانہ عج کی محبت و عطوفت سے ، بلکہ یہ داستان اسلام کے قوانین اور امام زمانہ علیہ السلام کی شخصیت کو خدشہ دار بنا دیتی ہے ۔
مختصر یہ کہ ، جزیرہ برمودا کے نام سے ایک مجموعہ پایا جاتاہے لیکن یہ جزیرہ ، جزیرہ خضرا نہیں ہے ، حقیقت میں جزیرہ خضرا ایک خیالی داستان ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ شیعہ علما اور دانشور حضرات اس داستان کو قبول نہیں کرتے ، یہاں تک کہ خودعلامہ مجلسی نے اس داستان کے معتبر نہ ہونے کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے (جزیرہ خضراء) کے بارے میں ،شاثقین حضرات علّامہ سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی کتاب “جزیرہ خضراء افسانہ یا واقعیت ؟ کا مطالعہ کرسکتے ہیں)
(جاری ہے… )