اخلاق منتظرین
اخلاق منتظرین
اخلاق منتظرین
نکات : سلام احادیث معصومین علیہم السلام کی روشنی میں،سلام کی حکمتیں ، کن کو سلام نہیں کرنا چاہئیے
استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی صاحب
اہم نکات
اگرچہ دیکھنے میں سلام ایک چھوٹی سی عبادت ہے ۔ لیکن یہ عبادت اپنے اندر بے شمار حکمتیں اور برکات رکھتی ہے اور اس پر اتنی تاکید ہے کہ انسان تعجب کرتا ہے۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ اپنی گفتگو پہ پہلے سلام کو مقدم کریں ۔ ایک مسلمان اور مومن کی نشانی یہ ہے کہ جب بھی گفتگو کرنا چاہے تو سلام سے آغاز کرے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور راہگذر راستے میں بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔
بعض لوگ سلام کرنے میں فرق ڈالتے ہیں سلام دنیاوی مقام کے مطابق سلام کرتے ہیں جیسا رتبہ ہو ویسا سلام کرتے ہیںَ ۔ غریب کے لیے سرد انداز میں سلام ہوتا ہے لیکن امیر کے لیے گرم جوشی سے سلام کرتا ہے۔
امام رضا ؑ فرماتے ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی مسلمان غریب کو اس طرح سلام کرے جس طرح وہ امیر آدمی کو نہیں کرتا۔تو جب یہ شخص قیامت میں اللہ سے ملاقات کرے گا تو خدا کو غضب ناک پائے گا۔
یہ پوچھے گا پروردگارا تو کیوں مجھ پر غضب ناک ہے تو ندا آئے گی تو میرے بندوں میں فرق ڈالتا تھا۔
امام ؑ فرماتے ہیں کہ ایک جیسا انداز رکھو۔
اگر آپ کا طرز عمل سلام،مصافہ کرتے ہیں تو سب سے کریں۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں سلام نہیں کرنا چاہیے۔
امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں۔
” یہودیوں کو سلام نہ کرو ۔ اور نہ عیسائیوں کو سلام کرو۔ (آج بھی دیکھیں یہ قاتل ہیں مسلمانوں کے ۔ اسرائیل اور عیسائی حکومتیں جو یہودیوں کو فنڈنگ دیتے ہیں)
مجوس پر بھی سلام نہ کرو۔ اور جتنے بھی بت پرست ہیں ان کو بھی سلام نہ کرو۔
شراب خور پر بھی سلام نہ ہو۔
شطرنج باز اور سٹا باز کو سلام نہ کرو۔( یہ لوگ حلال روزی کو حرام میں بدل دیتے ہیں)
وہ مرد جو عورت کے روپ میں رہتا ہے۔ اسے سلام نہ کرو۔
ایسے شاعر کو سلام نہ کرو جو پاک دامن عورتوں پر اشارے یا نام لیتے ہیں اور لوگوں کے اندر غلط رجحانات پیدا کرتے ہیں۔
جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اسے سلام نہ کرو کیوں وہ نماز کی حالت میں جواب سلام نہیں دے سکتا۔
کیونکہ سلام مستحب ہے اور جواب واجب ہے۔
معصوم فرماتے ہیںَ سود خور کو سلام نہ کریں۔
جو کہ بیت الخلاء اور حمام میں ہے اسے بھی سلام نہ کریں۔
اور وہ شخص جو اعلانیہ گناہ کرتا ہے۔ فاسق ہے اسے بھی سلام نہ کریں۔