اخلاق منتظرین قسط 1
اخلاق منتظرین قسط 1
اخلاق منتظرین
استاد مہدویت حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
سعدیہ شہباز
کورس 2
اہم نکات
آج کا موضوع گفتگو شخصیت اخلاقی ہے جسے ہم نے اپنے لیے اسوہ قرار دینا ہے اور اپنی زندگی میں اس عظیم شخصیت سے درس لینا ہے اور اس حوالے سے کائنات کی سب سے عظیم شخصیت پیغمبرؐ اکرمؔ حضرت محمدؐ کی صفات حسنہ کو موضوع بحث قرار دیا۔
ذات نبی اکرمؐ ہمارے لیے درس زندگی ہے۔ ہماری روحانی اور جسمانی تربیت کے لیے آپ کی ذات اقدس اسوہ ہے۔ بعنوان ھادی اور بعنوان مربی جس طرح سے حق ادا کرنا چاہیے تھا آپؐ نے کیا۔
قرآن آپؐ کی ذات اقدس کے بارے مختلف حوالے سے میں فرماتا ہے کہ آپؐ خلق عظیم ہیں سورہ قلم آیت نمبر 4۔
_وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ (4)_
_اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں۔_
خلق عظیم یعنی آپؐ کا مزاج کریمانہ ہے ۔ اور آپؐ کی ذات تمام اخلاقی صفات کے اندر درجہ اکمل و اتم تک موجود ہیں ۔ آپؐ دنیا والوں کے لیے ایثار و اکرام کرنے والے ہیں ۔ لوگوں کو احترام دیتے ہیں۔
یعنی وہ ذات اقدس کہ جسے پروردگار عالم قرآن میں اتنے خوبصورت القاب سے یاد کر رہا ہے۔
ہمارے لیے یہی ہستی ہے کہ جسے ہم نے اپنے لیے اسوہ قرار دینا ہے۔ اور نبی ؐ اکرم کی ذات وہ ذات اقدس ہے کہ جسے آئمہ ؑ نے بھی اپنے لیے اسوہ قرار دیا۔
ہم بھی اپنے آئمہؑ کے اتباع کرتے ہوئے نبی ؐ اکرم کو اپنے لیے اسوہ قرار دیں گے اور جس امامؑ معصوم کی ہم امت ہیں وہ رسولؐ اللہ کو اپنے لیے اسوہؔ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ” _میں اپنے جد نبیؐ اکرم کی سیرت پر چلوں گا_
خود پیغمبرؐ بھی فرماتے تھے کہ مہدیؑ کی سیرت میرے سیرت ہے۔
پس جب ہمارے امام ؑ کے لیے ذات کے لیے رسولؐ اللہ کی ذات اقدس اسوہ ہے تو ہم بھی اپنے امام کی اقتدا میں آپ ؐ کو اپنے لیے اسوہؔ قرار دیں۔
صفات رسول ؐ خدا قرآن کی رو سے:
وفاداری:
وفا داری ایسی صفت ہے جوکہ نہ صرف اسلامی تعلیمات میں بلکہ دنیا کے اندر جو اصول اخلاق ہیں اور دنیا کے انسان جس کے پابند ہیں وہ یہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ جو عہد و پیمان کیا ہے اس سے وفا کرے۔
سورہ رعد کی آیت نمبر 19 اور 20 اسی طرف توجہ دلا رہی ہے۔
اَفَمَنْ يَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰى ۚ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِ (19)
بھلا جو شخص جانتا ہے کہ تیرے رب سے تجھ پر جو کچھ اترا ہے حق ہے اس کے برابر ہو سکتا ہے جو اندھا ہے، سمجھتے تو عقل والے ہی ہیں۔
اَلَّـذِيْنَ يُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّـٰهِ وَلَا يَنْقُضُوْنَ الْمِيْثَاقَ (20)
_وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پوراکرتے ہیں اور اس عہد کو نہیں توڑتے۔_
روایت ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے پیغمبرؐ اکرم ؔ سے وعدہ لیا کہ کل آپ ؐ اس جگہ پر تشریف لائیے گا۔ تو آپ ؐ اپنے وعدہ پر وہاں پہنچ گئے لیکن وہ شخص وہاں نہیں آیا اور آپؐ بہت لمبی مدت تک وہاں رہے۔ کہ اصحاب نے بلآخر آپؐ کی خدمت میں عرض کی کہ اب تو بہت دیر ہو چکی اور نبیؐ اکرم بہت مدت تک تقریباً پورا دن اس کے انتظار میں رہے۔ یعنی نبیؐ اکرم نے ہمیں درس دیا کہ اگر وعدہ کیا ہے تو وفا کریں تاکہ ہماری روحانی تربیت بھی ہو اور اجر و ثواب بھی ہو۔
سورہ المائدہ کی آیت نمبر 2 بھی ہماری توجہ اسی جانب کرا رہی ہے کہ ہم نبی اکرم ؐ سے درس وفا لیں۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّـٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْـهَدْىَ وَلَا الْقَلَآئِدَ وَلَآ آمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّـهِـمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَاِذَا حَلَلْتُـمْ فَاصْطَادُوْا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (2)
_اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کو (بے حرمتی والے کاموں کے لیے) حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربان ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں، اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو، اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو، اور آپس میں نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرو، اور گناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے_
کریمانہ مزاج:
کسی بھی شخص کو نبی ؐ اکرم ؔ سے دکھ درد یا ناگواری پیش نہیں آئی۔ یہ کریمانہ مزاج پروردگار عالم سے حاصل ہوتا ہے۔ ہم کتنے ہی ایسے کام انجام دیتے ہیں کہ جس سے خدا کی ذات کو غضب ناک کرتے ہیں۔
ہم کسی کے حق میں ظلم و تجاوز کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود خدا کریم ہے وہ اپنا رزق بند نہیں کرتا۔
اور ہمیں نعمات عطا فرماتا ہے۔
یہ کریمانہ صفت رسول ؐ خدا اور آئمہؑ میں تھی اور ہمارے لیے اسوہ اور درس ہے۔ اگر چہ ہم انتقام لے سکتے ہیں لیکن ہمیں دکھ پہنچانے والوں کے ساتھ بزرگواری سے پیش آنا چاہیے۔
نبیؐ اکرم ؔ کے لیے سورہ القلم میں اسی لیے تو فرمایا:
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ (4)
_اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں۔_
آپ ؐ ان کےلیے بھی کریمانہ طبیعت کے مالک تھے جو آپؐ کے حق میں اچھے نہیں تھے۔
عام طور پر ہم اس کے ساتھ نیکی کرتے ہیں جو ہمارے حق میں نیکی کرتا ہے۔ بہت ہی بد بخت ہے وہ جو احسان فراموش ہو۔ لیکن رسولؐ خدا کی ذات اقدس دشمنوں کے لیے بھی کریم ہے۔
روایت ہے کہ ایک خاتون ہر روز نبیؐ پر گھر کا کوڑا پھیکتی تھی تو آپؐ اسے بڑے ہی تحمل سے برداشت کرتے تھے۔ اور جب ایک دن جب اس نے کوڑا نہیں پھینکا تو آپ ؐ کو پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہ عورت بیمار ہے تو آپؐ اس کے گھر میں اس کی خدمت و تیمارداری میں مشغول ہو گئے۔
یہ وہ صفت کریمانہ ہے کہ جس کی وجہ سے وہ خاتون مسلمان ہو گئی اور اہل حق میں آگئی
تو صفت کریمانہ دوسروں کی قلب و روح میں بھی تحمل پیدا کر دیتی ہے۔
سلام میں سبقت فرماتے تھے:
تحیت و السلام صفت رسولؐ خدا ہے کہ جب آپؐ کسی محفل میں جائیں تو اپنی گفتگو کا آغاز دوسروں کی سلامتی کے ساتھ کریں۔
لفظ سلام اپنے اندر بے پناہ نکات رکھتا ہے ۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ بہت بڑی دعاہے۔ یہ اتنی بڑی دعا ہے کہ رسولؐ اکرم فرماتے تھے کہ جب بھی کسی سے ملاقات کرو تو اس میں سبقت کرو۔
یہ ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے۔
یہ دعائے رحمت ہے۔
یہ دعائے ہدایت ہے۔
یہ دعائے زندگی ہے۔
یہ مصیبتوں ، بلاؤں سے بچانے کی دعاہے۔
اس حوالے سے سورہ انعام کی آیت نمبر 54 اور سورہ نمل کی آیت نمبر 59 کی اگر ہم تلاوت کریں تو ارشاد ہو رہاہے۔
سورہ انعام آیت نمبر 54
وَاِذَا جَآءَكَ الَّـذِيْنَ يُؤْمِنُـوْنَ بِاٰيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْـمَةَ ۖ اَنَّهٝ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوٓءًا بِجَهَالَـةٍ ثُـمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّهٝ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (54)
_اور ہماری آیتوں کو ماننے والے جب تیرے پاس آئیں تو کہہ دو کہ تم پر سلام ہے، تمہارے رب نے اپنے ذمہ رحمت لازم کی ہے، جو تم میں سے ناواقفیت سے برائی کرے پھر اس کے بعد توبہ کرے اور نیک ہو جائے تو بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔_
سورہ نمل آیت نمبر59
قُلِ الْحَـمْدُ لِلّـٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّـذِيْنَ اصْطَفٰى ۗ آللَّـهُ خَيْـرٌ اَمَّا يُشْرِكُـوْنَ (59)
_کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے، بھلا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک بناتے ہیں۔_
ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ لفظ سلام کے ساتھ سبقت کریں تاکہ ثواب پہلے خود حاصل کریں۔ہمیں کبھی بھی اس عظیم ثواب سے خود کو محروم نہیں کرنا چاہیے۔
بار بار سلام کرنے کے بے پناہ اجر و ثواب ہیں۔