مقبول ترین
درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_گوھر شاہی سے آشنائی- درس10
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_درس 8_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
دروس لقاءاللہ_ اللہ کے خالص بندوں کے مقامات
کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچہ 14 _ موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچه 11

گیارھواں کتابچہ ” عصر ظہور” – چھٹا درس – شیعہ اثنا عشری رو سے عصر ظہور

گیارھواں کتابچہ ” عصر ظہور”
 چھٹا درس
 شیعہ اثنا عشری رو سے عصر ظہور
 نکتہ: امام عج کی دعوت اور قیام

استاد مہدویت آغا محترم علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ :
ہماری گفتگو عصر ظہور میں ہے۔ اور اس حوالے سےشیعہ اثنا عشری کا موقف بیان ہو رہا ہے کہ دنیا کا جو مستقبل ہے اور آنے والے دور کا جو نقشہ ہے کہ کس طرح لوگوں نے سعادت اور کمال تک پہنچنا ہے۔ اور کس طرح یہ دنیا جنت کا اعلیٰ ترین نمونہ بنے گی یہ سب مکتب شیعہ اثنا عشری میں بیان ہوا ہے۔ خود امام مہدیؑ کا ظہور اور ان کے قیام کی کیفیات کو محمدؐوآل محمدؑ نے اپنی روایات میں بیان کیا۔

اس حوالے سے پچھلی گفتگو میں مولاؑ عج کے ظہور، قیام اور دنیا کے آغاز اور انجام پر کچھ نکات بیان ہوئے۔

آج کا موضوع گفتگو ہے کہ امام زماں عج الشریف کس انداز سے لوگوں کو دعوت دیں گے اور پھر جنگ کیوں اور کن لوگوں سے ہوگی۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جب امام ؑ عج کا ظہور ہوگا تو امامؑ کہ جن کی سیرت انبیاؑ کی سیرت ہے امامؑ عج لوگوں کو حق کی جانب دعوت دیں گے اور لوگوں کو حق کی جانب ارشاد فرمائیں گے۔ اور لوگوں کو عدل اور روحانیت ، تذکیہ نفس اور الہیٰ تقویٰ کی جانب دعوت دیں گے اور ظاہرہے کہ جہاں مولاؑ عج کا یہ پیغام اور دعوت بہت سارے لوگوں کی بھلائی اور ہدایت کا باعث بنے گی اور بہت سارے نیک لوگوں کے لیے راحت اور شادمانی کا باعث بنے گی۔ اور بہت سارے لوگ جو برائیوں اور آلودگیوں میں گھرے ہوئے تھے وہ بھی اس فرصت کو غنیمت سمجھیں گے اور مولاؑ عج کی جانب کھنچے چلے آئیں گے۔ اور راہِ توبہ اور باب توبہ جو ہمیشہ کھلا ہے تو لوگ صدقِ دل سے برائیوں کو ترک کریں گے اور نیکیوں کی جانب بڑھیں گے۔ اور ایک الہی انسان والی زندگی کو اختیار کریں گے اور مولا ؑ کے سرباز اور ناصر بنیں گے۔

وہاں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ظالم اور باطل پسند ہیں۔ جو ظلم اور فساد ڈالتے ہیں اور باعث گمراہی ہوتے ہیں وہ یقیناً مولاؑ کی اس حجت اور دعوتِ حق کا ان ظالمین پر کوئی اثر نہ ہوگا اور نتیجۃً یہ لوگ امام ؑ عج کے مدمقابل آئیں گے اور خود امام زماں عج سے جنگ شروع کریں گے۔ چونکہ یہ امامؑ عج کو اپنی باطل خواہشات اور دنیاوی آرزؤں اور حرام فائدوں کے لیے رکاوٹ اور امام ؑ عج اور ان کے ناصرین اور جن لوگوں نے توبہ کی ہوگی ان سب کو یہ لوگ اپنے مخالف سمجھیں گے اور نتیجتاً دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔

ایک اہل باطل جو دشمن دین ہیں ، دشمن حق ہیں دشمن اہلبیتؑ ہیں یہ سارے ایک طرف ہو جائیں گے۔

دوسرے اہل حق ہونگے جو ناصرین امامؑ ہونگے، شیعہ اور وہ لوگ جو تائب ہونگے یعنی جنہوں نے گناہوں کی زندگی کو ترک کیا ہوگا اور مظلومین ہونگے اور اہل حق اور اہل باطل الگ ہو جائیں گے اور دنیا دو حالت میں تقسیم ہو جائے گی۔

اب یہاں امام مہدیؑ عج الشریف کی سیرت کیا ہے؟

اس حوالے سے قرآن مجید کی آیت:
سورہ الصف آیت 9
لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
اس کو سب ادیان پر غالب کرے، اگرچہ مشرک نا پسند کریں

اس آیت کے ذیل میں امام صادقؑ کا ایک فرمان ہے اور یہ فرمان تفسیر فراتِ کوفی میں بھی ہے اور علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں بھی لکھا ہے اور کتاب بصائر الدرجات میں بھی موجود ہے۔

امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:
یہ آیت جو بیان کر رہی ہے کہ اسلام باقی تمام جھوٹے ادیان پر غلبہ پا جائے گا۔ اور یہ سب مہدی کے ہاتھوں سے ہوگا۔ اور ہم سب اہلبیتؑ جتنے اوصیاءؑ ہیں ہم رسولؐ اللہ کے شیوہ پر ہیں۔ ویسے تو ہم لوگوں کو حق کی جانب ہدایت دیتے ہیں لیکن خدا نے ہمیں اجازت دی ہے کہ اس کے دین کے غلبہ کے لیے حق اور عدل کے غلبہ کے لیے تلوار نکالیں اور لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیں اور ہم نے آخر میں وہی کام کرنا ہے جو رسول ؐ اللہ نے کیا ہے۔

ہمارے پیغمبرؐ اسلام کا کردار اور شیوہ یہی تھا کہ پہلے انہوں نے اپنی گفتگو اور سیرت سے لوگوں کو دعوت حق کی دعوت دی۔ نتیجۃً لوگوں نے کفر و شرک اور گناہوں والی زندگی کو چھوڑ دیا اور نیک اور صالح بنے اور پیغمبر کے ناصر بنے۔ لیکن مدمقابل ظالمین نے پیغمبرؐ اور ان کے انصار کو تنگ کیا۔ اور جب پیغمبرؐ مدینہ پہنچے تو جو رسولؐ اللہ تیرہ سال تک اپنے کردار اور اپنی گفتگو سے لوگوں کو دعوت دیتے تھے اب پیغمبرؐ نے بلآخر دنیا کو ظلم سے نجات دلوانے کے لیے اور اہل باطل کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے تھے ان کو ان کا اصلی مقام دیکھانے کے لیے کہ جن پر پروردگار کہہ رہا ہے

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ
ان کے دلوں پر مہریں لگ گئی تھیں۔ تو پیغمبرؐ نے شمشیر کے ذریعے خدائی غضب کا اظہار کیا اور دشمنان حق کو بیان کیا کہ جسطرح آج تمھارے لیے ہلاکت ہے روز محشر بھی تمھارے لیے جہنم ہے۔ آخر انسان کب تک صبر کرے بلآخر مہلت کی ایک مدت اور حد ہے اور پھر ظالمین کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی عذاب ہے۔

امام مہدیؑ عج بھی یہی کریں گے۔ جو نیک ہیں اور جنہوں نے نیک ہونا ہے وہ مولاؑ کے اس لشکر حق میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور مدمقابل جو باطل محاذ ہے جس میں شرک و گمراہی، کفر و منافقت اور جس میں فتنہ و فساد ہے

نتیجتاً وہ جنگ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں اور جس طرح رحمت العالمین پیغمبرؐ نے تلوار نکالی اور باطل کو بتایا کہ خدا کا عذاب کیا ہے اور دنیا کو عرب و عجم کے اس چھوٹے سے خطے کو ظالموں اور جھوٹ کے بڑے بڑے ستونوں سے دنیا کو اس وقت پاک کی تاکہ لوگ باسعادت زندگی گذاریں ۔ تو یہی کام امام زماںؑ عج کریں گے۔

امام صادقؑ فرماتے ہیں۔
کہ بلآخر یہ دنیا ختم نہیں ہوگی اور ایک وقت آئے گا کہ آسمان سے ندا کرنے والا یہ ندا دے گا (علامات ظہور ندائے آسمانی)

” اے اہل حق ایک جگہ جمع ہوجائیں”
اور پھر سب نے مکہ کی جانب جانا ہے کہ مکہ ظہور مہدیؑ عج کی جگہ ہے۔ اور دوسری باطل ندا بھی ہو گی۔

“اے اہل باطل تم بھی ایک جگہ اکھٹے ہو جاؤ۔” اور پھر اہل باطل بھی اکٹھے ہو جائیں گے یہ روایت الغیبۃ نعمانی میں بھی ہے اور علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں بھی لکھا ہے۔

اس کے بعد کیا ہوگا کہ اس کے بارے میں امام موسیٰ کاظم ؑ فرماتے ہیں کہ:
یہ فرمان کمال الدین میں شیخ الصدوق نے نقل کیا ہے۔

فرماتے ہیں کہ:
پھر امام مہدیؑ اور ان کے ناصر اس قدر دشمنان خدا کو قتل کریں گے کہ اللہ راضی ہو جائے گا۔

یعنی یہ جو کسی صورت ہدایت پانے والے نہیں ہیں ان کو اتنی دیر تک قتل کیا جائے گا کہ جب تک خدا خود راضی ہو نہ جائے اور کہے کہ بس اب ختم کردیں کیونکہ ان کو سبق مل چکا ہے اب باقی لوگوں پر آپؑ رحم فرمائیں کیونکہ ان کی قوت کا کس بل نکل گیا ہے اور ان کا شیرازہ منتشر ہو گیا ہے۔ اب یہ اس قابل نہیں رہے کہ حق کے مدمقابل کھڑے ہوں اور اب دنیا مکمل طور پر امام مہدیؑ کے ہاتھوں اور ان کے انصار کے ہاتھوں قرار پائے گی ۔ اب طاقت کا منبع امام مہدی ؑ اور ان کے انصار ہیں۔
انشاءاللہ !

یہ جنگ کتنی مدت تک ہوگی اس کے حوالے سے امام صادقؑ کتاب غیبۃ نعمانی میں فرماتے ہیں کہ: 

“مہدیؑ زہرا آٹھ مہینوں تک تلوار اپنے کندھوں پر رکھیں گے اور دشمنان خدا کو قتل کریں گے۔

البتہ یہاں تلوار سے مراد اس زمانے کا جدید اسلحہ ہے۔ کیونکہ جس زمانے میں امام صادقؑ تلوار کہہ رہے تھے اس زمانے میں تلوار بہترین اور سب سے بڑا اسلحہ تھا۔ تلوار نشان غضب تھا نشان شجاعت تھا۔

امام مہدؑی کے دور میں بھی جو اسلحہ سب جدید اسلحوں کا سردار ہوگا وہ امام ؑ کے پاس ہوگا۔ کہ جس سے دشمنان خدا کو امامؑ عج شکست دیں گے۔

یہ نہیں کہ امام ؑ دشمنان خدا کو معجزے سے شکست دیں گے ایسا نہیں ہے بلکہ خود امامؑ اور ان کے ناصرین دشمنوں سے لڑیں گے اور امام کے ناصرین شہید بھی ہونگے لیکن شکست دشمنان حق کو ہوگی اور فتح حق کی ہوگی جسطرح رسولؐ اللہ کے اصحاب زخمی بھی ہوتے تھے اور شہید بھی لیکن فتح ان کو نصیب ہوتی تھی۔

اس لڑائی کی خبریں ہماری بہت ساری کتابوں میں ہیں آئمہؑ نے اس پر بہت ساری گفتگو کیں۔ خود امیر المومنینؑ کا فرمان ہے :
فرمایا:

میرا باپ فدا ہو سب سے بہترین کنیز کے بیٹے پر۔ 

امام مہدیؑ کی والدہ کو تمام کنیزوں کی سردار کنیز کہا گیا ہے۔

چونکہ جتنی بھی خواتین خاندان اہلبیتؑ سے باہر سے آئیں ہیں اور وہ کنیز نہ تھیں بلکہ اچھے اچھے خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں لیکن وہ فخر کرتیں تھیں کہ ہم خاندان اہلبیتؑ میں آل محمدؑ کی کنیزیں ہیں۔ تو لہذا بی بی نرجس خاتون جو ہیں وہ باہر سے آنےوالی تمام خواتین جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ آئمہؑ کی ازواج بنیں ان سب کی سردار بی بی نرجس ؑ ہیں۔

مولاؑ فرما رہے ہیں کہ:
میرا باپ فدا ہو سب سے بہترین کنیز کے بیٹے پر کہ جو ظالمین پر غلبہ پائے گا۔

یہ ظالم جو آل محمدؑ پر آج غلبہ پائے ہوئے ہیں ان کو ہمارا فرزند مہدی ؑ ہلاک کرے گا اور ان کے حلق میں زہر ڈالے گا۔ (یعنی شکست کا زہر)

یعنی وہاں فقط خطبہ نہیں بلکہ جنگ کریں گے۔

مولا ایسے ہی کریں گے جیسے ایک ڈاکٹر پہلے دوائی کے ذریعے علاج کرتا ہے اور بعد میں آپریشن کے ذریعے پورے جسم کو اس اذیت سے نجات دیتا ہے۔

اسی طرح باقی پوری دنیا کو بچانے کے لیے امام ؑ عج مصلح جنگ کے ذریعے دنیا کو باطل سے نجات دیں گے۔ اور اس جنگ کا ذکر ہماری روایات اور کتابوں میں ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ :
سورہ السجدہ 21
لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
اس کے بارے میں جب امام صادق سے پوچھا گیا تو فرمایا:
کہ یہاں جو عذاب نزدیک ترین ہے وہ مہنگائی ہے کہ جس سے لوگوں کی زندگی سخت ہوتی ہے۔

البتہ یہ ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے کیونکہ جب ہم ظلم کرتے ہیں تو ہم پر بھی ظالمین مسلط ہو جاتے ہیں۔ یعنی جب لوگ ایک دوسرے پر رحم نہیں کرتے تو پھر کوئی ان پر بھی رحم نہیں کرتا ۔

جب ہم ایسے لوگوں کو اپنا حاکم قرار دیتے ہیں تو پھر یہی حالات ہونگے۔

بڑا عذاب کیا ہے:
فرماتے ہیں کہ وہ مہدیؑ عج کا شمشیر کے ساتھ قیام ہے۔
امام مہدیؑ عج کی یہ آٹھ مہینے کی خونی جنگ عام خطاکار لوگوں کے ساتھ نہیں ہے
کیونکہ بعض مرتبہ ہمارے ممبروں سے ایسی گفتگو ہوتی ہے کہ لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیںَ ایسا ہرگز نہیں بلکہ عام لوگ جو توبہ کرنا چاہیں گے امامؑ عج ان کو بھرپور موقع دیں گے جو گناہ کی زندگی چھوڑ کر حق کی زندگی میں آنا چاہتے ہیں یہ جنگ ان کے ساتھ نہیں بلکہ یہ جنگ کفار، ظالمین، باطل، گمراہ اور فتنہ پسند لوگوں کے ساتھ ہے کہ جو اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آرہے اور مولاؑ عج سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر کوئی جنگ کے دوران بھی توبہ کر لیتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے تو وہ تو امامؑ کے حلقہ میں داخل ہوگا۔

جنگ کا مقصد ہدایت کی طرف لانا ہے اور اگر کوئی ہدایت نہیں چاہتا اور مولاؑ سے جنگ کا آغاز کرے گا تو امامؑ اس کے نجس وجود سے باقی دنیا کو پاک کریں گے۔

اور ظالمین پر جو یہ عذاب اکبر ہو گا وہ امام مہدیؑ عج اور ان کے ناصر ہیں۔ جس کا نتیجہ پوری دنیا پر حق کی فتح اور باطل کی نابودی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

پروردگار عالم ہمیں توفیق دے کہ ہم ان دو محاذوں میں اُس محاذ میں قرار پائیں جو امام مہدیؑ عج اور ان کے ناصرین کا محاذ ہے۔

پروردگار ہمیں اپنے گناہوں اور خطاؤں سے توبہ کرنے کی توفیق دے۔ ہمیں نیک بنائے اور ہمیں اپنے امام ؑ کی معرفت اور عمل صالح والی زندگی حاصل ہو اور اس کا آغاز ابھی اپنے اردگرد لوگوں کے ساتھ اپنے رویے سے کریں۔

والسلام۔ 

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید