عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

گیارھواں کتابچہ ” عصر ظہور” – نواں درس – شیعہ اثنا عشری رو سے عصر ظہور

کتابچه 11
مہدی مضامین و مقالات

گیارھواں کتابچہ ” عصر ظہور” – نواں درس – شیعہ اثنا عشری رو سے عصر ظہور

گیارھواں کتابچہ ” عصر ظہور”
نواں درس
شیعہ اثنا عشری رو سے عصر ظہور
نکتہ: امام عج کا انتقام ،ظالموں کا قتل عام ،ساری دنیا کا تسلیم ہونا، مدت قیام

استاد مہدویت علامہ علی اصغر سیفی صاحب 

خلاصہ:
ہماری گفتگو عصر ظہور کے بارے میں ہے ۔ عصر ظہور کی ابحاث کافی طولانی بھی ہیں اور اہم بھی ہیں کیونکہ یہ ہمارا اور دنیا کا مستقبل ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جس کا انتظار ہزاروں سال سے ہو رہا ہے۔

امامؑ عج کا انتقام:
ایک اہم موضوع جو عصر ظہور کے حوالے سے عام طور پر بعض لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے اوراس حوالے سے ہمارے اہل منبر کا بھی کردار ہے کہ امامؑ عج کے ظہور کے حوالے سے انتقام اور قتل و غارت بہت زیادہ بیان کی گئیں ہیں۔

اس بات میں تو شک نہیں کہ امامؑ عج کے ظہور کے بعد جنگ ہوگی لیکن وہ عام لوگوں سے نہیں ہوگی اور نہ ہی عام لوگ قتل ہونگے بلکہ امامؑ عج کی جنگ ظالمین سے ہوگی۔ جیسے رسولؐ اللہ کے سامنے ظالم لوگ قتل ہوتے تھے۔ امیرالمومنینؑ کے سامنے بھی آتے تھے۔ یعنی وہ ظالم لوگ جو خود حجت خدا سے لڑنا چاہتے تھے اور جہنم رسید ہونا چاہتے تھے۔

الہیٰ حجتوں کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت کی جانب دعوت دیتے ہیں حتی کہ ظالمین کو بھی دعوت حق دیتے ہیں۔ لیکن اگر مدمقابل لڑنا چاہے اور بعض نہ آئے تو پھر اس صورت میں یہی حل ہے۔ جیسے ڈاکٹر کی دوائی سے فرق نہ پڑے تو پھر چارہ یہی ہے کہ اس فاسد عضو کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جائے تاکہ باقی جسم بچ جائے۔ اسی طرح بعد از ظہور یہی ہوگا۔
لیکن اہل منبر جو کچھ بیان کرتے ہیں البتہ ہماری کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں کچھ صحیح ہیں اور کچھ ضعیف۔ صحیح روایات کو سمجھا نہیں گیا اور ضعیف روایتیں تو ہیں ہی جھوٹ۔

تجزیہ:
اس طرح کی باتوں کی روایات کی رو سے حقیقیت:
عصر ظہور کے حوالے سے روایت بیان ہوئی ہے کہ امام مہدیؑ عج سید الشہداءؑ کا انتقام لیں گے۔ اور امام مہدیؑ کے انصار کا نعرہ ہوگا
یا لثارات الحسینؑ

ظالموں کا قتل عام :

اب ہماری مختلف کتابوں میں بالخصوص بحار الانوار اور تفسیر عیاشی میں ایسی بہت ساری روایات موجود ہیں اور کچھ روایات ہم اصول کافی اور علل الشرائع میں بھی دیکھتے ہیں۔

ایک روایت جو معصومینؑ کی طرف سے آئی ہے۔

ہمارے قائمؑ عج جب قیام کریں گے تو امام حسین ؑ کے خون کا انتقام لیں گے۔

امام محمد باقرؑ کا فرمان ہے کہ
یہ جو آیت ہے : سورہ الاسراء 33
وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا

فرماتے ہیں کہ یہاں قُتِلَ مَظْلُوْمًا سے مراد حسینؑ ابن علیؑ ہیں کہ جو مظلومانہ شہید ہوئے اور ہم ان کے خون کے وارث ہیں اور جب ہمارے قائمؑ قیام کریں گے تو وہ خون حسینؑ کا انتقام لیں گے۔

یہاں آیت میں مقتول سید الشہداءؑ ہیں اور انتقام لینے والے وارث امام زماں عج ہیں۔ اب یہ روایت تفسیر عیاشی میں بھی ہے اور علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں بھی نقل کی ہے۔

اسی طرح ایک روایت علل الشرائع اور اصول کافی میں بھی ہے اس میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:

جب امام حسینؑ شہید ہوئے تو فرشتوں نے گریہ کیا اور کہا پروردگارا حسینؑ کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ تیرا برگزیدہ ہے اور تیرے پیغمبرؐ کا فرزند ہے۔
یعنی فرشتوں کے کہنے کا مقصد ہے کہ اے پروردگارا تو نے مدد نہیں کی۔
تو پروردگار نے قائمؑ عج کے نور کی زیارت کروائی کہ اس کے ذریعے میں ان سے انتقام لوں گا۔

اسی طرح اور بھی روایت ہے کہ جس میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ جب ہمارے قائمؑ عج قیام کریں گے تو جو ہمارے مخالفین ہیں تو ان کا خون حلال ہوگا یعنی امام قائمؑ انتقام لیں گے۔ بعض روایات میں تو نام بھی آیا ہے کہ بنو امیہ اور جو ناصبی ہیں ان سے امام قائم انتقام لیں گے۔

بعض روایت کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ امام قائمؑ عج کا قریش اور بنو امیہ دونوں سے انتقام لینے کا ذکر ملتا ہے۔

اس طرح ایک روایت بحار الانوار میں ہے کہ:
امام صادقؑ سے نقل ہوتا ہے کہ

جب ہمارے قائمؑ قیام کریں گے تو ان کے اور عرب اور قریش کے درمیان سوائے تلوار کے کوئی چیز نہیں۔

ساری دنیا کا تسلیم ہونا:

یہ روایات تو انتقام کے حوالے سے تھیں۔ اسی طرح کچھ روایات ایسی ہیں جو قتل عام کی ہیں۔

مثلاً یحییٰ بن الہ نقل کرتے ہیں اور یہ روایت اثبات الھدٰی میں بھی ہے اور شیخ طوسی کی غیبت میں بھی ہے۔

پیغمبرؐ فرماتے ہیں
اللہ اس امت میں سے ایک شخص کو اٹھائے گا اور وہ شخص مجھ سے ہیں اور میں اس سے ہوں۔ اور پروردگار عالم اس کے ذریعے آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دے گا اور وہ شخص اتنا قتل کرے گا کہ ایک جاہل کہے گا کہ اگر یہ ذریہ محمدؐ ہوتا تو رحم کرتا۔
اس طرح کی روایات میں بےپناہ قتل کی بات ہوئی۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک روایت جو اصول کافی میں اور علامہ مجلسی نے بھی نقل کی:

معصومؑ نے روایت میں فرمایا۔
کہ اگرتم میں سے کوئی قائمؑ کے ظہور کی آرزو کرتا ہے تو اسے عافیت کے ساتھ آرزو کرے۔ پیغمبرؐ کو تو اللہ نے رحمت العالمین بنا کر بھیجا لیکن قائمؑ عج تو انتقام کے لیے آئیں گے۔

اب بعض روایت کے اندر یہ ہے کہ جیسے امام محمد باقرؑ سے منسوب ہے کہ جب ہمارے مہدیؑ قیام کریں گے تو ان ظالموں کے ساتھ کیا کریں گے کہ یہ ظالم یہ چاہیں گے کہ کاش ہم انہیں نہ دیکھتے اور وہ اس کا فیصلہ قریش سے تلوار کے ساتھ شروع کریں گے۔ اور اتنا ان ظالموں کو قتل کریں گے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ مہدیؑ آل محمدؐ میں سے نہیں کیونکہ اگر آل محمدؐ میں سے ہوتے تو رحم کرتے۔

اب یہ روایت ہم دیکھتے ہیں کہ الغیبت نعمانی، اثبات الھدیٰ میں ہے۔

اسی طرح ایک اور فرمان آغا نعمانی نے الغیبہ میں اور اثبات الھدیٰ میں نقل ہوا اور یہ بھی زرارہ سے ہے کہ جو امام محمد باقرؑ سے پوچھتے ہیں کہ آیا مہدیؑ پیغمبرؐ کی سیرت پر عمل کریں گے۔
تو فرمایا:
ہرگز ہرگز نہیں وہ رسولؐ اللہ کی سیرت پر عمل نہیں کریں گے رسولؐ اللہ کی سیرت لوگوں کے درمیان رحمت تھی۔ وہ ان کے دلوں کو مائل کرتے تھے لیکن قائمؑ عج جو ہیں وہ قتل عام کریں گے اور ان کو یہی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ان لوگوں کو قتل کریں وہ لوگوں کو توبہ کی دعوت نہ دیں گے اور ہلاکت ہے اس شخص کے لیے کہ جو قائم سے دشمنی کرے۔

اب اس قسم کی روایات ہے کہ جو کچھ اور ہی نقشہ بیان کرتی ہیں۔ البتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ کچھ روایات تو ہیں ہی ضعیف اور کچھ ظالموں کا نقشہ بیان کرتی ہیں۔ وہ روایات عام لوگوں کے حوالے سے نہیں کہ سبھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہوگا۔

اسی طرح ایک اور موضوع اس کے اندر یہ ہے کہ دنیا کے جتنے بھی ظالم ہیں وہ مولاؑ عج اور ان کے انصار کے مدمقابل تسلیم ہونگے جیسے مولا محمد باقرؑ فرمان احتجاج طبرسی میں بھی اور بحار الانوار میں بھی ہے ۔

فرماتے ہیں کہ :
سارے شہر تسلیم ہوجائیں گے کوئی کافر نہیں بچے گا مگر یہ کہ امام ؑ عج رہیں گے اور کوئی ایسا فاسد ظالم باقی نہیں بچے گا مگر یہ کہ راہ حق صراط مستقیم پر آ جائے اور مہدیؑ مشرق و مغرب پہ مالک ہو جائیں۔

شیخ صدوقؒ نے کمال الدین میں نقل کیا ہے کہ: 
فرماتے ہیں کہ:
میں قائمؑ عج کے اصحاب کو دیکھ رہا ہوں کہ جو مشرق سے مغرب تک تمام علاقوں کو تسلط میں لے لیا ہے اور کوئی چیز باقی نہی رہی سب کچھ ان کے تحتِ فرمان ہے اور اتنا ان کا تسلط اور قوت ہے کہ جنگلوں اور صحراؤں کے درندے اور آسمان کے پرندے بھی مولاؑ کی رضائیت کے طالب ہیں۔ اور جب مولاؑ کا کوئی ناصر کسی زمین پر قدم رکھے گا تو وہ زمین کا ٹکڑا فخر کرے گا کہ آج قائم ؑ عج کے ناصر نے مجھ پر قدم رکھا ہے۔ یعنی اتنا تسلط ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام رضاؑ کا فرمان ہے کہ کوئی بھی اسلام کو قبول نہیں کرے گا تو اس کی گردن اتار دی جائے گی ۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں کوئی باقی نہ رہے گا یہاں تک کہ وہ توحید پرست ہوجائے۔

بلآخر اس طرح کی روایات ہیں کہ جن میں آیا ہے کہ امام قائمؑ عج اور ان کے ناصرین کا وسیع پیمانے پر تسلط ہے اور یہ تسلط طاقت کے زور پر ظاہر ہوا۔

جیسے امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ
اللہ ان کے وسیلے سے اسلام کو ذلت کے بعد عزت بخشے گا اور وہ ساری چیزیں جو افسردہ ہوچکی تھی وہ زندہ ہونگی اور مہدیؑ تلوار کے ساتھ (اسلحے کے ساتھ) لوگوں خدا کے گھر دعوت کریں گے اور ان کا مدمقابل ذلیل ہوگا۔ سوائے دین خالص کے کوئی دین نہیں بچے گا

مدت قیام:
اب یہ جو جنگ ہے یہ کتنا عرصہ رہے گی تو روایات کہتی ہیں کہ یہ آٹھ مہینے ہوگی۔ جیسے امام صادقؑ فرماتے ہیں۔

امام مہدیؑ جو ہیں وہ پروردگار کا اپنے بندوں پر غضب کی علامت بن کر لوگوں پر ظہور کریں گے اور رسولؐ اللہ کا وہ پیراھن جو جنگ احد میں انہوں پہنا تھا وہ زیب تن کریں گے اور رسولؐ اللہ کی شمشیر ذوالفقار ان کے ہاتھ میں ہوگی اور اس کو بے نیام کریں گے اور آٹھ مہینے تک جنگ کریں گے۔

یہ آٹھ مہینے کی روایت مولا علیؑ سے بھی ہے اور امام محمد باقرؑ سے بھی نقل ہے کہ فرمایا۔
کہ آٹھ مہینے کے بعد جب خدا راضی ہوگا تو امامؑ عج چھوڑیں گے۔
راوی نے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ خدا راضی ہوگیا ہے تو فرمایا کہ :
خدا ان کے دل میں رحم ڈالے گا۔

اسی طرح امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں کہ :
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ
یہ آیت قیام امام قائمؑ کے بارے میں ہے کہ جب وہ قیام کریں گے تو دنیا میں ساری دنیا پر حق غالب ہوگا اور باطل مٹ جائے گا۔

اب یہ جو کچھ آپ کی خدمت میں بیان کیا ہے یہ وہ عام روایات ہیں جو بیان ہوتی ہیں اور سننے والے اس سے یہ تاثر لیتے ہیں کہ مولاؑ کے قیام میں کوئی توبہ اور مصالحت نہیں ہے صرف ایک ہی کام ہوگا کہ قتل و غارت ہوگی اور خون کی نہریں بہیں گی۔ جیسے بعض روایات کہتی ہیں کہ دنیا کے دو حصے مارے جائیں گے یا یہ جو مذکورہ بالا روایات بیان کی گئیں ہیں۔

آنے والے دروس میں ہم ان روایات کا تجزیہ کریں گے کہ یہ کس حد تک درست ہیں اور کس حد تک غلط ہیں۔ بلآخر امام مہدیؑ حجت خدا ہیں اور شانِ امامؑ یہ ہے کہ امامؑ معصوم ؑ ہیں ہر گناہ اور خطا سے پاک ہیں تو کسطرح یہ امام ؑ عج کے حق میں سازگار ہے۔

جاری ہے۔

پروردگار عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں امام زماں ؑ کا ناصر بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید