تازہ ترین پوسٹس

کونسی آگ ظہور سے پہلے بڑھکے گی؟۔ درس مہدویت، 17 جنوری 2025

درس مہدویت بروز جمعہ:3
پردیسان قم مقدس ، 17 جنوری 2025

کونسی آگ ظہور سے پہلے بڑھکے گی؟

آمریکا کی آگ کا ظہور سے کیا تعلق؟ آیا امام مہدی عج کے ظہور سے پہلے زمین ظلم سے بھرے گی ؟

امام مہدی عج کن کا انتظار کررہے ہیں؟

بہت سے اہم نکات پر مشتمل درس امام مہدی عج کا حضرت زینب سلام اللہ علیہا پر گریہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فقال رسول اللہ
یملأ اﷲ بہ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت جوراً و ظلماً
اللًّهُــمَ صَّــلِ عَــلَى مُحَمَّــدٍ وَ آلِ مُحَمَّــَد و عَجِّــلّ فَّرَجَهُــم

اب دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور لوگ اسے ظہور سے ربط دیتے ہیں۔ اور اس کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہیں۔

مہدوی احادیث کے حوالے سے ایک سب سےبڑا مسئلہ درپیش ہے اور بلخصوص خواص میں اور وہ غلط تطبیق ہے جو ہمیشہ ہر دور میں رہی ہے اور ہم اسے اشتباہ کہہ لیں یا خطا کہہ لیں۔ چونکہ عوام الناس کا اس میں قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے تو علماء سے پوچھنا ہے۔

امریکہ میں لگنے والی آگ؟
حال ہی میں کیلوفورنیا اور لاس ایجلس میں لگنے والی آگ کو بعض لوگوں نے قبل از ظہور لگنے والی آگ سے جوڑ دیا۔ چونکہ روایات میں قبل از ظہور ایک آگ کا ذکر ہے لیکن وہ آگ جو قبل از ظہور ہوگی وہ مشرق سے شروع ہوگی۔ اس میں تو شیعہ سنی دونوں طرف روایات موجود ہیں جس میں ایک عظیم آگ کا ذکر ہے کہ جسے روایات میں عمود الاحمر کہا گیا ہے۔

اذا رایتم عمودا احمر من قبل المشرق، فی شھر رمضان…

ایک آگ کا ستون کھڑا ہو گا لیکن مشرق کی جانب سے اور موجود لگنے والی آگ کا تعلق مغرب سے ہے۔ اس کے بعد معصومؑ فرماتے ہیں کہ ایک بہت بڑا قحط ہے اور پھر امام زمانہؑ عج کا ظہور ہے۔

یہ چیزیں ترتیب سے بیان ہوئیں لیکن ! وہ آگ مشرق سے ہے۔

اس حوالےسےروایات پر نظر ڈالنی چاہیے۔
یہ روایت 3 اسناد سے ہماری کتابوں میں موجود ہے اور صحیح السند ہیں۔ اور شیعہ اور سنی دونوں میں اس روایت کا ذکر ہے۔

امام صادقؑ سے جب راوی نے اس حوالے سےسوال کیا تو اس وقت مولاؑ حجاز میں تھے۔
آپؑ نے فرمایا : من قبل المشرق۔
چونکہ مولاؑ اسوقت مدینہ میں تھے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت حجاز کا مشرق کون سا ہے۔

مختلف علماء کے اس حوالے سے تجزیے ہیں ۔ علماء کے مطابق عرب کے اندر ایک آگ بھڑکے گی۔
بعض روایات کہ جن کی سند البتہ صحیح نہیں ہے وہ ذکر کرتی ہیں کہ معصومؑ فرماتے ہیں کہ تم عرب میں آگ کو دیکھو گے۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ یہاں تیل کے ذخائر کو آگ لگے گی۔ جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں قحط شروع ہوگا۔ چونکہ تیل منبع حیات ہے اور تیل کے بڑے بڑے ذخائر مشرق کے اندر ہیں۔

خدا نہ کرے کہ ان کو آگ لگے۔ اب یہ دشمن کی شرارت ہے یا خدائی راز ہے یہ خدائی ہونا بھی بعید نہیں ہے کیونکہ بعض روایات ایسی بھی دیکھیں ہیں کہ جو کہتی ہیں کہ یہ آگ آسمان میں ظاہر ہوگی۔ اور بعض ہمارے علماء شہاب ثاقب کی بات بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ بعض روایات میں معصومؑ کہتے ہیں کہ مشرق سے آسمان میں دیکھو گے۔ کیونکہ آسمان سے کوئی چیز زمین سے ٹکرائے گی۔ بعض علماء اسے اس لیے اللہ کے عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔
مگر!
بعض کہتے ہیں کہ یہ کسی جنگ کا نتیجہ ہے۔ عرب کے اندر آگ جنگ پر بھی اطلاق ہوتی ہے اور اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ عرب کے اندر تیل کے ذخائر کو آگ لگ سکتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کی معیشت پر اثر پڑے گا۔ اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت دنیا کا سارا نظام اقتصادی ہے اور جنگیں بھی اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔
وگرنہ جنگوں کا کوئی اور فلسفہ نہیں ہے۔ چونکہ عرب کے اندر تیل کے ذخائز سب سے زیادہ ہیں تو اس کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر پڑے گا۔
اس لیے بعض روایات میں کہا گیا کہ آگ کے بعد بھوک کا سال شروع ہوگا دنیا میں قحط اور بھوک بڑھے گی سنۃ الجوع سے تعبیر کیا گیا ہے
لیکن!
اگر اس میں مذید دقت کی جائے تو معصومؑ اس وقت مدینہ میں تشریف فرما تھے۔ تو اب دیکھتے ہیں کہ مدینہ کا مشرق کیا ہے؟

اس لیے بیشتر قوی ترین احتمال یہ ہے کہ:
حجاز کا مشرق ایران ، عراق اور کچھ ممالک بن رہے ہیں کہ ایک آگ ہے جو ایران و عراق سے اٹھے گی اور خود ایران کے بیشتر علماء ایران کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور اب یہ آگ کیسی ہے کہ علماء فرماتے ہیں کہ مشرق اس آگ کا آغاز کرنے والا ہے۔

اول تو مراد جنگ ہے کہ جس کا آغاز ایران سے ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ دشمن حملہ کرے گا اور بعض کہتے ہیں کہ ایران دشمن کا جواب دے گا اور اس کے بعد ایک بڑی جنگ کی خبر ہے اور اس کے بعد وہی دنیا پر قحط کا زمانہ آئے گا اور پھر معصومؑ عج نے فرمایا کہ:
پھر آپ سب امامؑ قائم عج کے مبارک قدموں کے منتظر رہیں اور اس کے بعد قائمؑ عج کا قیام ہے۔
انشاءاللہ!
اللًّهُــمَ صَّــلِ عَــلَى مُحَمَّــدٍ وَ آلِ مُحَمَّــَد و عَجِّــلّ فَّرَجَهُــم
جیسا کہ بتایا :
مولاؑ عج کے ظہور سے قبل کے سال کو بھوک اور خوف کا سال کہا گیا ہے۔

یہاں گفتگو ہے کہ ہم دنیا میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کو اس سے تطبیق نہ دیں اور یہ جو واقعہ رونما ہوا ہے اس کے پس پردہ محرکات آہستہ آہستہ معلوم ہوں گے کہ یہ خدائی عذاب تھا کہ غزہ کے مظلومین پر جو شر اور ظلم ڈھایا گیا تو خدا ہمیشہ ظالمین پر انہی کا شر ڈھاتا ہے اور انہیں نابود کرتا ہے۔ اور یہ سنت الہیٰ ہے کہ اللہ نے ظالموں پر ہی ظالمین کو مسلط کیا اور یہ ان کے اپنے ہی عمل کا نتیجہ ہے اور بعض اسے کچھ اور بتا رہے ہیںَ ہمیں چونکہ اس کے پیچھے کے محرکات کے بارے میں نہیں معلوم چنانچہ نہ تو ہمیں ان کو دینی مفاہیم کے ساتھ تطبیق دینی چاہیے اور نہ ہی اس پر مطمئن ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ہمارے جوان جو ایک پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ سرد ہوجاتا ہے کہ جب ان کو حقائق معلوم ہوتے ہیں۔
مثلاً بعض کہتے ہیں کہ یہ آگ خود جان بوجھ کر لگائی گئی ہے کیونکہ امریکنز نے وہاں پر ایک نیا اے۔آئی شہر بنانا تھا اور وہاں لوگوں کے بنے بنائے گھر خرید کے گرانا ایک اور مسئلہ تھا اسی لیے آگ لگا دی گئی تاکہ اب حکومت کے لیے آسان ہوجائے گا کہ جلی ہوئی زمین کو لوگوں سے خریدا جا سکے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کورونا بیماری بنائی گئی تاکہ اتنے عمر رسیدہ لوگ جو پینشن لے رہے تھے وہ دنیا سے چلے جائیں۔ یعنی یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن میں دینی مفاہیم کے ساتھ تطبیق نہیں دینی چاہیے اور بلخصوص مہدویت میں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔

مثلاً جو ہمارا سرنامہ کلام ہے ۔
امامؑ عج کے حوالے سے توجہ فرمائیں:
چونکہ اب بات تطبیق کی شروع ہو گئی ہے۔ تو ایک مشہور مسئلہ جو ہمارے ہاں غلط بیان ہوتا ہے ہم اس پر بحث کرتے ہیں۔

ہم سب نے اس کو سنا ہے اور بیان بھی کرتے ہوں گے۔ کہ امامؑ عج کے حوالے سے ایک جملہ ہے جو شیعہ اور سنی دونوں کتابوں میں مشترکہ اور مستند ہے کہ:
یملأ اﷲ بہ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت جوراً و ظلماً
اب اس کا ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ مولاؑ عج زمین کو عدل و انصاف سے بھریں گے کہ جیسے وہ پہلے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔

نتیجہ:
اور اس کا یہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مولاؑ عج کے آنے سے قبل زمین نے ظلم و جور سے بھرنا ہے پھر امام آئیں گے

اور اگلا نتیجہ:
اگلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پس زمین کو ظلم و جور سے بھریں پھر کئی فاسد گروہ فعال ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امامؑ عج کے ظہور کی تیاری کی ضرورت نہیں اب بس گناہ کرو تاکہ جلد ظہور ہو جائے۔ یعنی قول معصومؑ کا غلط ترجمہ ہوتا ہے اور پھر آگے انحرافات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

وَعَدَ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَـهُـمْ دِيْنَهُـمُ الَّـذِى ارْتَضٰى لَـهُـمْ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًا ۚ يَعْبُدُوْنَنِىْ لَا يُشْرِكُـوْنَ بِىْ شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ (55)
اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے۔

یعنی معنی زمین کو عدل و انصاف سے بھرے گا جیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہو۔ معصومؑ نے گویا ان ادوار سے تشبیہ دی ہے کہ جن میں لوگ کہتے تھے کہ پوری زمین ظلم سے بھر گئی ہے۔ زمانہ ظہور میں لوگوں کو اس طرح عدل نظر آئے گا۔
نہ کہ یہاں معصومؑ نے کہا ہے کہ ان کے آنے سے پہلے زمین ظلم سے بھرے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم یا ہلاکو اور چینگیز خان کے حملے اور ان جنگوں میں کڑوڑوں لوگ مارے گئے۔ اور زمین ظلم و ستم سے بھر چکی تھی۔ اس وقت بھی دنیا میں کئی مقام میں خون ریزی ہورہی ہے۔

اور جب الہیٰ حکومت دنیا میں شرق و غرب میں بپا ہوگی اور امام زمین کو علم و حکمت اور عدل سے بھریں گے۔ اور سورہ نور کی آیت 55 میں جو چار صفات بیان ہوئی ہیں۔ جن کا اللہ نے وعدہ کیا ہے۔

1۔ صالحین کی خلافت
2۔ دین اسلام کا پوری زمین پر نافذ ہونا
3۔ زمین سے خوف کا ہٹ جانا اور امن میں بدل جانا
4۔ پوری زمین کا اللہ کی عبادت کرنا

اور امامؑ عج کے زمانے میں جو لوگ آرام اور آرائش محسوس کریں گے اور ہر ظالم اور جابر کا خاتمہ ہوگا حتی کہ ابلیس کا خاتمہ ہوگا۔ اس وقت دنیا یہ محسوس کرے گی کہ عدل سے بھر چکی ہے۔
اب جو ناصرین نے تیاری کرنی ہے اور مولاؑ عج کے ظہور کے لیے قدم اٹھانے ہیں اور جنہوں نے منارہ ہدایت بنانا ہے اور امام ؑ عج کے آنے سے قبل اہل انحراف اور اہل بدعت سے جنگ کرنی ہے اور ظالمین کا مقابلہ کرنا ہے ان کا بھی ذکر کرنا چاھئیے۔

ہمیشہ خیر و شر کی جنگ رہی ہے جس میں شر غالب نظر آتا ہے لیکن خیر بڑا قوی ہے۔
زمین کا تقسیم ہونا:
امام کے آنے سے پہلے زمین دو حصوں میں تقسیم ہوگی۔ اہل ممبر اور میڈیا لوگوں کو سیاہ نمائی کر رہے ہیں۔ یعنی لوگوں کو مایوس کر رہے ہیں کہ دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی۔ کبھی حرام سے حلال ظاہر نہیں ہوتا اور یہ منبع خیر کو شر سے ظاہر کر رہے ہیں۔

میڈیا اور اہل ممبر کی اس غفلت کی وجہ سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ گناہ کریں ۔ جبکہ قرآن و احادیث و روایات گناہ سے منع کرتی ہیں۔ یہ ہمارے ہی لوگوں کا غلط ترجمہ تطبیق اور تجزیہ ہے جس کی وجہ سے غلط تاثر پیدا ہوتا ہے۔

ہمارے لیے ضروری ہے کہ جب بھی کسی موضوع پر بات کرنی ہو تو چاہیے کہ روایات کو اکھٹا کریں۔ جیسا کہ اساتذہ کہتے ہیں کہ خانوادہ روایت اکھٹا ہو پھر ہم تجزیہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں کبھی بھی ایک دو یا چار روایات سے تجزیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا پورا باب جس جس کتاب میں ہو اس سے روایات اکھٹی کریں اور پھر اس میں علم اصول کے مطابق نتیجہ لیں گے۔

جب ہم ساری روایات کو اکھٹا کریں گے تو نتیجہ سمجھ میں آجائے گا کہ یوسف زہراؑ عج کی تنہائی کی وجہ کیا ہے۔

مولاؑ عج کا ظہور دشمنوں اور باہر کے حوادث کی وجہ سے نہیں رکا ہوا۔ کسی میں اتنی طاقت نہیں کہ مہدیؑ عج کا مقابلہ کر سکیں۔

مولاؑ عج کے ظہور کو اپنوں نے روکا ہوا ہے اپنوں نے تیاری نہیں کی وہ ملت ظاہر نہیں ہو رہی کہ جس کا انتظار مہدیؑ زہرا کر رہے ہیں۔

والسلام
استاد محترم مهدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب
عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *