کلمات کی طاقت اور امام زمان عج کے لیے دعائے سلامتی کا فائدہ
استاد محترم : قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللھم صلی اللہ محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ
دعائے ندبہ استغاثہ ہے۔ یہ تشیع کی تاریخ ہے اور ہمارے آئمہ کی مظلومیت کی اور ایک بہت بڑا استغاثہ ہے کہ جس میں اتنے دکھ اور درد جو اس مکتب نے دیکھے اس میں سب سے بڑی وجہ ناصرین کا نہ ہونا ہے۔
دعائے ندبہ:
مولا امام زمان عج کا استغاثہ بھی اسی عنوان سے ہے کہ جس طرح کربلا میں سید الشہداء کا استغاثہ تھا۔
انسانوں کی دنیا امام زمانؑ عج کی حکومت سے شروع ہوگی:
ناصر آئیں گے تو زمانہ غیبت ختم ہوگا۔ اور ناصر آئیں گے تو ہم وہ دنیا دیکھیں گے کہ جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا کہ اصل میں تو انسانوں کا دور عصرِ ظہور سے شروع ہوگا۔ اور لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قیامت آجائے گی۔ نہیں: بلکہ اتفاق سے انسانوں کی دنیا امام زمان عج کی حکومت سے شروع ہوگی۔ اور پروردگار ہم سب کو وہ حکومت دکھائے۔ آمین۔
روز جمعہ کی دعائیں اور اذکار :
روز جمعہ دعائے ندبہ پڑھی جاتی ہے اور خود روز جمعہ دِنوں کا سردار ہے۔ اور اس دن جو بھی کلام پڑھی جاے اس کے اپنے اثرات ہیں۔ جیسے عام دنوں میں درود پاک پڑھنے کے اپنے اثرات ہیں۔ لیکن! روز جمعہ درود شریف پڑھنے کے اپنے اثرات ہیں۔
روایت: جامع الاخبار:
جو شب جمعہ، روز جمعہ سو مرتبہ درود پڑھے تو اللہ ایک فرشتے کو خلق کرے گا جو دنیا حتی قبر میں بھی اس کے ہمراہ ہوگا اور اس کی راہنمائی کرے گا۔ یعنی ! قبروں کی تاریکیوں اور تنہائیوں میں ہمراہی کرے گا۔ اور یہ وہ الہٰی قوت ہے جو انسان کو حاصل ہوتی ہے۔
روز جمعہ دعاؤں کا بہت ثواب ہے بالخصوص روز جمعہ کے اذکار اور اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کا بہت ثواب ہے۔ گذشتہ درس میں بھی میں نے قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر کیا تھا کہ عام لوگوں کے لیے درست ہے کہ وہ قرآن مجید کی کم از کم پچاس آیات کی تلاوت کریں یعنی! غفلت کی زندگی سے بچ جائیں گے۔ لیکن ! ہمارے رب اور محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ کی جو علماء سے توقع ہے وہ یہ ہے کہ علماء تامل اور تفکر کے ساتھ تلاوت کریں۔ یعنی! علماء فقط سادہ تلاوت پر اکتفا نہ کریں ۔ اگرچہ وہ سادی تلاوت بھی ہمارے بہت سارے روحانی امراض کو ختم کرتی ہے۔ جیسے انسان دوائی کھاتا ہے تو امراض ختم ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن! ہمیں دوائی کی سمجھ نہیں آرہی ہوتی ۔ ویسے ہی ہم جب سادی تلاوت کریں یا یہی دعا اور اذکار پڑھیں اور اگر ہمیں سمجھ بھی نہ آئے تو یہ ہماری بہت سی اندرونی بیماریوں بالخصوص وہ بیماریاں جو انسان کے باطن کو آلودہ کرتیں ہیں اور انسان کے ایمان کو کھاتی ہیں، ان کے لیے تو بغیر فہم اور تفکر کے سادی تلاوت کرنے کا بہت بڑا مقام ہے۔
کہتے ہیں کہ اگر انسان کو ترجمے اور دیگر چیزوں کے لیے فرصت نہ ہو تو بھی تلاوت قرآن کو ترک نہ کرے۔ لیکن ایک عالم سے یہ توقع ہے کہ وہ ترجمے کے ساتھ پڑھے اور اس کے اندر کیا نکات ہیں اس کی جانب توجہ کرتے ہوئے پڑھے کیونکہ اس سے ہزار گنا زیادہ فائدہ ہے۔ اور علماء کا کام ہی یہی ہے کہ معرفت پیدا کرے اور آگے اسے نشر کرے۔
امام علی ابن موسیٰ رضاؑ فرمایا کرتے تھے کہ میں قرآن کو تین دن میں تفکر اور تدبر کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔سبحان اللہ۔ یعنی امام معصومؑ روزانہ دس سپارے با تامل و تفکر پڑھا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ اگر میں ہر ہر آیت پر نہ ٹھہروں تو پھر تو میں جلدی ختم کر دیا کروں۔ اب امام معصومؑ دس سپارے ہر روز پڑھتے تھے۔ وہ مقامِ امامت پر فائز ہیں۔ عام طور پر مجتہدین اور مراجع کے بارے میں ہے کہ یہ حدِ اقل تین سے پانچ سپارے ہر روز غور و فکر کے ساتھ پڑھتے ہیں، اب ہم جو طالب علم ہیں اگر چند سپارے نہیں تو حد اقل چند صفحے یا وہی پچاس آیات ترجمے کے ساتھ اور تفکر و تدبر کے ساتھ پڑھیں کہ خدا کیا کہہ رہا ہے۔ اور اس کے اثرات سادہ پڑھنے کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اور خود انسان کے اندر کی آلودگیاں بھی ختم ہونگی اور انسان مقام یقین تک بھی پہنچے گا۔ چونکہ ایک عالم کا فریضہ فقط اپنی اصلاح نہیں بلکہ اس نے خود آگے لوگوں کی اصلاح بھی کرنی ہے۔ اور وہ خود جتنا معرفت اور یقین کے مرحلے تک پہنچا ہوگا اتنا وہ لوگوں کو بہتر طریقے سے راہِ حق پر اور صراط مستقیم راہِ محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ تک پہنچا سکتا ہے۔
کلمات کی طاقت:
آپ سے آج عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو کلمات ہم پڑھتے ہیں ان کی کتنی طاقت ہے۔
سورہ البقرہ آیت نمبر 37 میں ارشاد پروردگار ہو رہا ہے کہ:
فَتَلَقَّىٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ اِنَّهٝ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْـمُ (37)
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کیے پھر اس کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
میں نے آیت کے ذیل میں جو مطلب بیان کرنا ہے وہ کلمات کی طاقت ہے، یہ کلمات کی طاقت کہ بیشک آپ کو ان کا مطلب نہ پتہ ہو لیکن کلمات طاقت رکھتے ہیں۔ جیسے آپ سب احباب جانتے ہیں کہ جب ایک مرد و زن میں نکاح پڑھا جاتا ہے تو وہاں بھی کلمات پڑھے جاتے ہیں اور ان کلمات میں اتنی طاقت ہے کہ ان دونوں کی ازدواجی زندگی کو قائم کر دیتی ہے۔ اور کلمات میں اتنی طاقت ہے کہ جب صیغے پڑھے جاتے ہیں تو دونوں کو آپس میں جدا کر دیتے ہیں۔ کلمات میں بہت طاقت ہے اور بعض مرتبہ یہی کلمات باعث بنتے ہیں کہ قوموں اور ملتوں میں جنگیں چِھڑ جاتی ہیں، کلمے کی طاقت ہر پاور سے زیادہ ہے جیسے ہماری احادیث میں ہے کہ:
“زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ سخت ہے”۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ روز محشر جہنم کے اندر وہ لوگ زیادہ جائیں گے کہ جن کے مال اور زبان کے جرائم زیادہ ہونگے کہ جنہوں نے دوسروں کے اندر زبان اور مال سے زیادتیاں کی ہونگی۔
یہ کلمات بے پناہ طاقت رکھتے ہیں۔ لہذا ان کی طاقت کی جانب توجہ رکھنی چاہیے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ: وہ جو عالم ہے، وہ جو حکیم ہے، وہ جو خدا والا ہے وہ بہت احتیاط سے بولتا ہے۔ وہ سکوت کو کلام سے بہتر سمجھتا ہے۔ جہاں ضرورت ہے وہاں کلام کرے گا اور اتنی کلام کرے گا کہ جتنی ضرورت ہے اور کوشش کرے گا کہ اس کی کلام باعث رحمت اور اصلاح کرنے والی ہو۔ نا کہ کسی کے دل کو زخم اور آگ لگانے والی ہو۔ بلکہ مرہم رکھنے والی ہو۔
آپ دیکھیں کہ جتنے بھی اذکار، تلاوت اور دعائیں ہیں جیسا کہ آج دعائے ندبہ پڑھی گئی تو یہ تمام ہمارے اپنے دلوں کے مرہم ہیں اور یہ سارے ہمارے اندر کی آلودگیاں ختم کرنے کے لیے ہیں۔ ہم بعض مرتبہ اپنے اندر کو گناہوں سے بہت زخمی کئے بیٹھے ہوتے ہیں تو یہ اذکار، دعائیں اور تلاوت مرہم ہے۔سبحان اللہ۔
مجھے بتائیے کہ ابلیس جس نے ہزار سال عبادتیں اور سجدے کئے، تو ایک تکبر کی وجہ سے ذلتوں میں گر گیا، حضرت آدمؑ کو ایک چھوٹا سا طمع ہوا اس درخت سے کھانے کا تو انہیں آسمانوں سے زمین پر آنا پڑ گیا۔ یعنی! ایک چھوٹا چھوٹا گناہ ہے اگر انسان غور کرے۔
حضرت یوسف نے غیر کی جانب ایک چھوٹی سی توجہ کی تو کتنے سال زندان میں رہنا پڑ گیا۔ حضرت یونس نے تھوڑی سی جلدی کی اور قوم کے لیے بددعا کر دی تو انہیں مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑ گیا۔ یعنی! اگر ہم دیکھیں تو یہ چھوٹے چھوٹے مسئلے ہیں لیکن ان کے اثرات بہت بڑے ہیں۔
ہم اس وقت اپنے اندر کتنے مسئلے رکھتے ہیں۔ یعنی! تکبر، حرص، حسد اور ناجانے کیا کچھ ہے تو اس کا حل یہی کلمات ہیں۔
حضرت آدمؑ نے ہلکا سا طمع کیا یہ ترک اولی ہے اور گناہ نہیں، کیونکہ نبیؑ معصوم ہے، یعنی اتنی سی بھی بے احتیاطی ہو، کیونکہ جتنا اونچا مقام ہے اس کی بے احتیاطی یا ہلکی سے خطاء کا بھی مقام اسی اعتبار سے زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی! وہ باعث بنی ھبوط اور سقوط کی اور ان کو زمین پر آنا پڑا حالانکہ انہوں نے ترک اولی کے بعد کتنا گریہ کیا۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ نے کتنا گریہ کیا۔ خدا نے یہی کلمات دیے اور وہ کلمات محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ کے نام ہیں یا پاکیزہ اسمائے اعظم ہیں اور یہی دعائیں ہیں۔ تو روزانہ کے اذکار اور دعاؤں کو چھوڑنا نہیں چاہیے اور انہیں پڑھنا چاہیے۔ درست ہے کہ بسا اوقات دل نہیں کرتا اور مشکل ہو جاتا ہے۔ ہاں مشکل ہے لیکن نجات اسی میں ہے۔ جیسے جسمانی بیماریاں دوائی کھانے سے ٹھیک ہوتی ہیں تو روحانی بیماریاں جو ایمان کو کھا رہی ہیں اور جو ہمارے اندر کے باطن کو زخمی کئے ہوئے ہیں اور جو قبور میں آگ، اور باعث عذاب ہونگی تو ان کا علاج یہی کلمات ہیں کہ انسان ان کو پڑھے تاکہ اس کا اندر شفاف ہو۔سبحان اللہ۔ ایک بہت خوبصورت مثال ہے کہ:
ایک شخص ایک گلاس کہ جس میں گندا پانی تھا اس میں صاف پانی ڈالتا رہا نتیجتاً پانی جو گلاس کے اندر تھا، صاف ہوگیا۔ اسی طرح اپنے اندر اچھے کلمات کو تلاوت کی شکل میں، دعاؤں اور اذکار کی شکل میں صلواۃ محمد(ص) و آل محمد(ع) کی شکل میں ڈالتے رہیں۔ نتیجتاً خود باطن اندر سے پاک ہو جائے گا۔
روز جمعہ کی مناسبت سے ذکر کرتا ہوں کہ ایک چیز جو ہمیں نہیں بھولنی چاہیے وہ اپنے وقت کے امام و آقا عج کا ذکر ہے۔ اور بالخصوص دعائے سلامتی امام زمان عج برائے رابطہ: اَللَّهُمَّ كُنْ لِوَلِيِّكَ الحُجَّةِ بنِ الحَسَن صَلَواتُکَ علَیهِ و عَلی آبائِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ وَ فِي كُلِّ سَاعَةٍ، وَلِيّاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِيلاً وَ عَيْناً حَتَّى تُسْكِنَهُ أَرْضَكَ طَوْعاً وَ تُمَتِّعَهُ فِيهَا طَوِيلاً۔
یہ دعا فقط نماز کے بعد ہمارا ورد نہ ہو بلکہ کوشش کریں کہ ہمیشہ اپنے مولا عج کی سلامتی کے لیے دعا کریں۔ یہ ہمارا بہت بڑا ہدیہ ہے۔ اگر امام زمان عج ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ان کے ظاہری ناصر بنتے چونکہ وہ غائب ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اس وقت دنیا کے کس خطے میں موجود ہیں جیسے ہمارے عزیز و اقارب دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں اور ہم ان سے رابطے میں مصروف ہیں اور انہیں مختلف ایپس کے ذریعے احوال پرسی کرتے ہیں۔ اور وہ دنیا میں پتہ نہیں کہاں کہاں ہیں تو امام زمان عج سے بہترین رابطہ دعا ہے۔
دعا ہمارا پیغام ہے کہ مولا عج مجھے آپ کی فکر اور تڑپ ہے اور میری توجہ آپ کی جانب ہے اور اس کا رد عمل بھی ہوگا۔ بعض مرتبہ لوگ پوچھتے ہیں کہ آیا امام عج کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اور ہم امام عج کے لیے دعا کیوں کریں جبکہ ہمیں ان کی دعا چاہیے،جی ہاں ہمیں ان کی دعا چاہیے اور اس میں کوئی شک نہیں لیکن امام کو بھی ہمارے اظہار محبت، اظہارِ نصرت اور توجہ کی ضرورت ہے چونکہ یہ توجہ درحقیقت ہماری ہدایت کا ذریعہ ہے جیسے اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں لیکن حکم دیا، چونکہ عبادتوں کی بازگشت ہماری طرف ہے۔
بسا اوقات یہی چیزیں ہیں جب ہم دعا مانگتے ہیں ہوسکتا ہے کہ امام عج کو ضرورت نہ ہو وہ ولی اللہ ہیں، خلیفتہ اللہ ہیں اور ان کے ساتھ الہٰی امداد موجود ہے اور پروردگار نے بے پناہ قوت دی ہے لیکن ان کاموں کی بازگشت ہماری طرف ہے۔ اور امام عج کے لیے بھی ہے کہ ان کو پتہ ہو کہ کتنے لوگ میری یاد میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ آخر انہوں نے ظہور کرنا ہے اور انہیں ناصرین کی ضرورت ہے اور دوسرے ہمارے یہ قدم خود ہماری اپنی اصلاح کے لیے بھی ضروری ہیں۔
واقعہ :
جناب قطب الدین راوندی، محقق اردبیلی نے اور ہمارے مختلف بزرگ علماء نے ذکر کیا ہے:
اصفہان کے ایک شخص عبدالرحمٰن جو اہلسنت سے تھے، مالی طور پر مشکلات میں گرفتار ایک جوان تھے اور یہ زمانہ ظالم عباسی حکمران متوکل کا تھا، اصفہان سے سامراء کی طرف ایک قافلہ جا رہا تھا تو یہ جوان اس قافلے کے ساتھ روانہ ہوا اس کے ذہن میں آیا کہ چلو میں سامرا جا کر متوکل سے امداد طلب کرتا ہوں۔ اس نے اس بارے میں کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔ یہ اصفہان کا مشہور واقعہ ہے اور اس شخص نے اپنے شیعہ ہونے کی روداد خود نقل کی: یہ کہتا ہے کہ میں اس قافلے کے ساتھ سامرا پہنچا تو دیکھا کہ سامرا شہر میں بہت رش ہے۔ جگہ جگہ لشکری کھڑے ہیں اور ہجوم کے ہجوم ایک دنیا کھڑی ہے۔ اب اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟
کہا کہ: متوکل نے (اس زمانے میں ہمیں علوی کہتے تھے)۔ علویوں کے امام علی نقی ھادی کو اپنے دربار میں طلب کیا ہے تو اس وجہ سے راستے بند ہیں۔ سب لوگ کھڑے تھے تو کہتا ہے کہ میں بھی ایک طرف کھڑا ہوگیا کہ ایک شور اٹھا رافضیوں کا علویوں کا امام آرہا ہے۔ کہتا ہے کہ: میں نے دیکھا کہ گھوڑے پر ایک بہت خوبصورت ہاشمی جوان جو فرزند زہرا ہے، فرزند رسول ہے ایک نورانی پیکر، نہایت جمال ظاہری و باطنی، مرکز نور تشریف لا رہے ہیں۔اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ۔
کہتا ہے کہ میں علویوں کے امام کی جانب متوجہ تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ متوکل بڑا ظالم ہے۔ تو میں نے دعا کی کہ پروردگارا اس ظالم شخص کے شر سے فرزند زہرا کو محفوظ رکھنا۔ یعنی! امام کی سلامتی کے لیے دعا کی۔ کہتا ہے جیسے ہی میں نے دعا کی تو ان کی نگاہ مجھ پر پڑی۔سبحان اللہ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جب آپ امام زمان کے لیے دعا کرتے ہیں تو فوراً امام عج کی نگاہوں میں آجاتے ہیں اور یہ کتنے بڑی بات ہے کہ اپنے آقا و مولا، اپنے امام وقت کی نگاہوں میں آجائے۔
کہتا ہے کہ ممکن نہیں کہ جو آدمی اتنے رش میں جارہا ہے اس کی نگاہ کسی پر ٹھہر جائے۔ جیسے ہی رش میں میں نے دعا کی تو مولا ھادی کی مجھ پر نگاہ پڑی۔ اللہ اکبر۔ اس سے پتہ چلا کہ اللہ کا کتنا دقیق نظام ہے دعائے سلامتی امام مانگیں تو فوراً خدا اس کو امام کی نگاہوں میں لاتا ہے۔ یعنی! یہ ایک پورا نظام ہے۔
آج کی دنیا میں میسج کا نظام موجود ہے جیسے ہی ہمیں کوئی میسج کرتا ہے تو وٹس ایپ کی ایک رنگ ہمیں متوجہ کرتی ہے۔ اور ہم اتنے ہزاروں لوگوں میں پیغام دیکھ لیتے ہیں کہ ہمیں کس نے بھیجا ہے۔ جب ہم اپنے ناقص علم سے ایسی ایسی چیزیں بنا چکے ہیں تو وہاں تو اللہ کا علم اور خدائی کارخانہ ہے۔ اللہ نے پتہ نہیں مولا عج تک لوگوں کی باتیں پہچانے کا کیا نظام رکھا ہوگا۔ سبحان اللہ!
عبدالرحمٰن کہتا ہے کہ جیسے ہی میں نے دعا کی امام ھادی کی نگاہ مجھ پر پڑی اور مولا کی سواری بلکل میرے سامنے آکر رک گئی۔ کہ امام نے اس کی جانب دیکھ کر کہا: عبدالرحمٰن! یعنی اسے اس کے نام سے پکارا اور پھر اشارہ کیا کہ تو جس قصد سے آیا ہے تو اب تجھے متوکل کے دربار میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میں نے تیری دعا کے مدمقابل تین دعائیں کئیں 1۔ خدا تجھے عمر طولانی دے۔
عزیزان یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ نظام ہے کہ اگر آپ امام عج کے لیے ایک دعا مانگیں گے تو امام عج آپ کے لیے تین دعائیں مانگیں گے۔اللہ اکبر۔
تو اس سے بھرپور استفادہ کریں۔ میں آپ سے سو بار کہتا ہوں کہ حیف نہیں ہے کہ اتنے اچھے اچھے پروگرام ہوں اور لوگ پاس ہوں اور شرکت نہ کریں۔ آج ہم نے دعائے ندبہ میں اپنے مولا عج سے استغاثہ کیا ہے۔
عبدالرحمٰن نے تو ایک چھوٹی سی دعا کی تھی اور جب یہ اپنا واقعہ نقل کر رہا ہے تو اس وقت یہ ستر سال کا ہو چکا تھا اور ہر بیماری سے پاک تھا۔ کہتا ہے کہ مجھے امام ھادی(ع) کی دعا ملی ہے۔سبحان اللہ۔
امام ھادی نے فرمایا:
اے عبدالرحمٰن تو نے میرے حق میں دعا کی اور اللہ نے تیری دعا کو قبول کیا مجھے آج متوکل سے کوئی شر نہیں پہنچے گا اور میں محفوظ رہوں گا۔
لیکن! ہم آل محمد(ع) ہیں، ہم کریم گھرانہ ہیں اور جو ہمارے حق میں نیکی کرے تو ہم اس کو جواب دیتے ہیں۔ آج ہم تمھارے حق میں تین دعائیں کریں گے:
1۔ خدا تجھے عمر طولانی دے۔
2۔ خدا تجھے بے پناہ مال و ثروت دے۔ ( عبدالرحمٰن بھی اسی وجہ سے متوکل کے دربار میں جا رہا تھا اور خود بتاتا ہے کہ اسے اتنا مال ملا کہ شمار نہیں ہوسکتا۔ کہ سامرا سے جب واپس آیا تو بند تالے کھلتے چلے گئے۔ اسی لیے چاہیے کہ اپنے زمانے کے امام(ع) کے لیے دعا کریں اور ان سے جو دعائیں ملیں گی وہ سارے تالے کھول دیں گی۔ اور سارے بند دروازے کھلیں گے۔
3۔ خدا تجھے اولاد کثیر عطا فرمائے۔
عبدالرحمٰن کہتا ہے کہ خدا نے مجھے دس بیٹے عطا کئے اور جناب عبدالرحمٰن کی بہت ہی بہترین زندگی گذری۔ اور وہ پکے شیعہ اور مومن تھے اور وہ کہتے تھے کہ یہ کرم نگاہ امام ھادی(ع) ہے کہ مجھ پر خدا نے لطف کیا اور مجھے دنیا بھی دی اور آخرت بھی دی۔
اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ
چونکہ بات دعاؤں کی چل پڑی ہے تو بہترین چیز یہ ہے کہ انسان اللہ سے دنیا اور آخرت مانگے۔ کسی نے معصوم(ع) سے پوچھا کہ کون سی دعا بہتر ہے؟؟ فرمایا؛ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی الآخرۃ حسنہ وقنا عذاب النار۔
اور آخری جملہ :
معصوم کا فرمان ہے کہ سورہ حشر کی آخری تین آیات ایک مرتبہ صبح اور ایک مرتبہ شام میں تلاوت کر لیا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر دن میں تلاوت کی اور مر گئے تو شہید کی موت ہے اور اگر رات میں تلاوت کی اور اس کی آنکھ نہ کھلی تو خدا اسے شہدا کی فہرست میں درج کرے گا۔
سورہ حشر کی آخری تین آیات:
هُوَ اللّـٰهُ الَّـذِىْ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْـمٰنُ الرَّحِـيْـمُ (22)
وہی اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب چھپی اور کھلی باتوں کا جاننے والا ہے، وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
هُوَ اللّـٰهُ الَّـذِىْ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَۚ الْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَـبِّـرُ ۚ سُبْحَانَ اللّـٰهِ عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ (23)
وہی اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ، پاک ذات، سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، غالب، زبردست، بڑی عظمت والا ہے، اللہ پاک ہے اس سے جو اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔
هُوَ اللّـٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَـهُ الْاَسْـمَآءُ الْحُسْنٰى ۚ يُسَبِّـحُ لَـه مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ (24)
وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا، ٹھیک ٹھیک بنانے والا، صورت دینے والا، اس کے اچھے اچھے نام ہیں، سب چیزیں اسی کی تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں، اور وہی زبردست حکمت والا ہے۔
یہ چند کلمات ہیں لیکن! اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ایک انسان کی معمولی موت کو شہادت کی موت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ تو ان کلمات اور اذکار اور دعاؤں سے غافل نہ ہوں۔ ان کے بہت اثرات ہیں۔ جس طرح ہم ظاہری زندگی کے لی بہت ساری چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اسی طرح روحانی اور قلب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی اور اپنے ایمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہم ان چیزوں کو ایک ضروری حد تک حاصل کریں۔
پروردگار ہم سب کو امام زمان عج کا انشاءاللہ بامعرفت اور باعمل اور خدمتگار ناصر بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم۔ایران