کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) – درس 13
کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) – درس 13
موضوع درس: اللہ تعالیٰ کا اشتیاق اور اس سے عشق کی کیفیات
- حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اشتیاق کی کیفیت
- نماز میں تکبیر سے مراد
- عاشق الہی کیسا ہوتا ہے
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
موضوع سخن کتاب شریف لقاءاللہ ہے جو کہ بہت بڑی شخصیت آیت اللہ جواد میرزا ملکی تبریزیؒ نے لکھی۔
سلسلہ وار گفتگو یہاں تک پہنچی تھی کہ قبلہ مرحوم نے کتاب مصباح الشریعہ جو امام صادقؑ سے منسوب ہے اس کتاب سے ایک مضمون نقل کیا۔
استاد محترم علی اصغر سیفی صاحب خود اس کتاب کے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : اس کتاب مصباح الشریعہ کو امام صادقؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ اور ہمارے بعض ہمارے بزرگ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ واقعاً یہ کتاب امام جعفر صادقؑ کی ہی ہے۔ جیسے شہید ثانیؒ اکثر اپنی کتابوں میں جو کہ اخلاق اور عبادات سے متعلق ہیں جیسے منیۃ المرید ہے اس کتاب سے روایات نقل کرتے تھے۔ اور ابن طاوؤسؒ ، محسن کاشانیؒ اور بہت سے علماء نے اس کتاب سے روایات کو نقل کیا۔ اور واضح کیا کہ یہ کتاب واقعاً ہمارے امام صادقؑ کی ہی ہے۔ لیکن بعض علماء ہیں جیسے علامہ مجلسیؒ جو کہتے ہیں کہ بعض ایسے مطالب ہیں کہ ہمیں شک ہے کہ یہ کتاب ہمارے مولاؑ کی ہے۔
بہرحال اس کتاب میں بے انتہاء قیمتی نکات ہیں اور وہ لوگ جو عرفانیات اور اخلاقیات کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں اور اہل سیر و سلوک ہیں ان کے لیے یہ کتاب بہترین راہنما ہے۔
کتاب مصباح الشریعہ کی ایک مختصر سی عبارت جو علامہ مرحومؒ نے اپنے رسالہ لقاء اللہ میں بیان کی اس کا ترجمہ ہے:
کتاب مصباح الشریعہ:
امام صادقؑ فرماتے ہیں :
‘ وہ شخص جو پروردگار کا اشتیاق رکھتا ہے اور جس کے دل میں اپنے رب کی محبت پیدا ہو گئی ہے اور وہ اپنے رب کے دیدار اور اس کی کامل معرفت کا اشتیاق رکھتا ہے۔ پھر اس کے اندر غذا کی ہوس نہیں اور پھر اسے کسی چیز کے پینے سے لذت حاصل نہیں ہوگی۔
فرماتے ہیں کہ:
پھر اسے اچھی نیند بھی نہیں آئے گی۔ اور پھر اسے دنیا میں کوئی دوست بھی اچھا نہیں لگے گا کہ جس سے وہ مانوس ہو۔ پھر اس کا گھر آنے کو بھی دل نہیں کرے گا۔ اور آبادی والی جگہ پر بھی وہ رہنا پسند نہیں کرے گا۔ اور نرم کپڑوں کا شوق نہیں رکھے گا۔ اور اس کے اندر قرار بھی نہ ہوگا۔ وہ دن رات عبادت پروردگار کرے گا۔ اور مسلسل عبادت کرے گا تاکہ اس تک پہنچ سکے کہ جو اس کے اندر اشتیاق ہے۔ اور وہ اپنے اشتیاق کو اپنی زبان کے ساتھ بیان کرے گا ۔
فرماتے ہیں:
جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے بارے میں خبر دی ہے کہ موسیٰ ؑ اپنے اس مقام وعدہ گاہ پر اپنے اس معیاد پر اپنے رب سے فرمایا کہ:
میں تیری طرف تیزی سے بڑھا ہوں تاکہ تو مجھ سے راضی ہو جا۔
تو نبیؐ کریم حضرت موسیٰ ؑ کی اندرونی حالت کی تشریح کر رہے ہیں:
فرماتے ہیں کہ:
حضرت موسیٰ ؑ نے یہ اللہ کے اشتیاق میں مقام وعدہ گاہ پر جو چالیس دن آنا اور جانا کیا وہ کیسا تھا؟
فرمایا:
کہ حضرت موسیٰ ؑ کے اندر کھانے پینے اور سونے کی کوئی خواہش ہی نہیں تھی۔
فرماتے ہیں کہ: جب آپ میدان شوق عشق پروردگار میں آئیں تو جو آپ نے دنیا سےلینا ہے اور جو نفسیانی خواہشات ہیں ان سب پر تکبیر کہیں۔
ان دنیا کی ساری چیزوں سے وداع ہوجائیں اور اپنے محبوب یعنی پروردگار عالم کے علاوہ سب چیزوں سے پرہیز کریں اور اپنے رب کی جانب توجہ کریں اور اپنی زندگی اور موت کے درمیان فقط پکاریں لبیک اللھم لبیک۔
پروردگار آپ کو عظیم اجر دے گا۔
فرماتے ہیں کہ وہ جو اشتیاق اور شوق رکھتا ہے کہ اس کی مثال اس ڈوبنے والی کی ہے کہ جس کے ذہن میں بس ایک ہی فکر ہوتی ہے کہ میں بس بچ جاؤں اور وہ باقی دنیا کو بھول چکا ہوتا ہے۔ اور رب کا جو مشتاق ہے اسے صرف رب کی فکر ہوتی ہے کہ میں اپنے رب کے رحمت کامل تک پہنچ جاؤں اور اس کا دیدار کرلوں اور اپنے رب کو پا لوں ۔ باقی وہ دنیا کی ہر چیز کو فراموش کر دیتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار عالم ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنی حقیقی معنوں میں اپنی تربیت کریں اور ہمارے دلوں میں اپنے رب کی حقیقی محبت پیدا ہو۔ اور جب ہم اپنے رب کی عبادت کریں تو دل وجان سے کریں۔ جیسے ہمارے آئمہؑ بارگاہ خداوندی میں دنیا کو فراموش کرکے ہم سخن ہوتے تھے ۔ راز و نیاز کرتے تھے خصوع و خشوع کرتے تھے۔ پروردگار ہمارے اندر بھی وہ حالتیں پیدا کرے۔
الہیٰ آمین۔
والسلام،
عالمی مرکز مہدویت قم۔