کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
( آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس ششم
نکات :انسان کی چار آنکھیں اگر قلب کی دو آنکھیں نہ کھلیں تو کیا ہوگا، معرفت نفس سے ہی معرفت رب اور سیر وسلوک کا اغاز،انسان کی انسانیت اصل میں کس چیز سے ہے؟ انسان کے قلب میں اللہ نے کیا خزانے رکھے ہیں؟ محسوسات اور خواھشات کو عقل کے تابع کریں تاکہ سیر وسلوک کا آغاز ہو ورنہ۔۔
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ :
گذشتہ درس میں روایت بیان ہوئی۔
حضرت امام سید سجاد ؑ فرماتے ہیں کہ اصل میں انسان کی چار آنکھیں ہیں۔ دو آنکھیں ظاہری ہیں جن سے وہ دین و دنیا کے امور دیکھتا ہے ۔ اور دو آنکھیں ایسی ہیں کہ جو اللہ نے اس کے وجود میں اخروی امور دیکھنے کے لیے رکھی ہیں اور جب اللہ کسی اپنے عبد کے حق میں ارادہ خیر کرتا ہے (اس کے تقوٰی عبادتوں، ریاضتوں کو دیکھتا ہے) تو اللہ وہ دو قلبی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ تو پھران آنکھوں سے وہ ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے جو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھی جا سکتیں۔
اور اگر خدا یہ فیض نہ کرے تو قلبی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں اور پھر ساری عمر انسان تاریکیوں اور ظلمات میں رہتا ہے اور مرنے کے بعد بھی اندھا ہے۔
یہاں سے پھر مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی فرماتے ہیں کہ میرے بھائی اگر ہمت ہے تو سیر و سلوک کی طرف آؤ اہل معرفت میں سے قرار پاؤ۔ اللہ نے تمھیں انسان بنایا تو اپنے سلوک ، عقل و باطن و روح کے ساتھ ملائکہ کا شریک ہے انبیاءؑ کا رفیق ہے ، اولیاءؑ کا ہم رزم ہے۔
اپنی کمر ہمت کو باندھو، شریعت کی راہ پر چلتے چلتے تھوڑا سا آگے آؤ اپنے اندر کی حیوانی صفتوں اور خصلتوں کو کم کرو اور روحانی اخلاق کو بڑھاؤ۔ انہی حیوانی صفتوں اور نباتاتی صفتوں پر قانع نہ ہو۔ بلکہ اللہ نے تمھیں جو وجود بخشا ہے اس وجود سے جوتمھارا اصلی وطن ہے یعنی عوالم علیین و محل مقربین کا قصد کر۔ طریقہ یہی ہے کہ اپنے نفس کو پہچان لو کیونکہ جب تک تو اپنے نفس کو نہیں پہچانے گا تو تجھے سیر و سلوک کی سمجھ نہیں آئے گی۔
پھر اس روایت کی طرف اشارہ فرماتےہیں۔
یہ مشہور فرمان ہے اور نبیؐ کریم کی سے بھی نقل ہوا ہے اور
امیر کائنات سے بھی نقل ہوا:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
جو اپنے نفس کی معرفت حاصل کرتا ہے وہی اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ اسے سمجھتے ہیں کہ یہ محال ہے کہ انسان کیسے اپنے نفس سے کیسے اپنے رب تک پہنچ سکتا ہے۔ یعنی میں کہاں اور رب کہاں لیکن نہیں اس پر بہت ساری روایات ہیں۔
مصباح الشریعہ میں ایک روایت ہے کہ کسی نے معصومؑ سے سوال کیا۔ :
وہ جو علم ہے کہ جس کے بارے میں نبیؐ کریم نے کہا کہ اسے حاصل کرو چاہے تمھیں چین تک جانا پڑے۔ وہ کونسا علم ہے۔
فرمایا : اس سے مراد معرفت نفس ہے کیونکہ معرفت نفس میں معرفت رب ہے۔
اسی طرح روایت ہے کہ نبیؐ کریم سے پوچھا گیا کہ :
رب تک جانے کا راستہ کون سا ہے۔
فرمایا : معرفت نفس
جب تک انسان اپنے نفس کو نہیں سمجھے گا تو اپنے رب کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔
پھر مرحوم ملکی تبریزی ایک سوال کرتے ہیں کہ:
اصل میں انسان کی انسانیت کیا ہے کیا شکل و چہرہ آدمؑ ہے۔ تصویر تو کہیں بھی بنائی جاتی ہے باھر بازاروں میں لیٹرین کے دروازے پر مرد و زن کی اشکال ہوتی ہیں۔ یہ تو پھر انسان نہ ہوا۔ اگر جسم کو کہیں کہ یہ انسان ہے تو حیوانات خبیثہ بھی جسم رکھتے ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ ہمارے غریزے شہوت انسان ہیں تو یہ غریزے جانوروں میں بھی ہیں یعنی مرغ سے خنزیر تک میں بھی ہیں۔ ۔ اگر ہم کہیں کہ انتقام کی قوت انسان ہے تو یہ تو کتے میں بھی ہے اور بھیڑیے میں بھی ہے۔
آخر وہ کونسی چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم انسان ہیں اور باقی مخلوقات میں وہ چیز نہیں۔ ؟
فرماتے ہیں۔
علم و معرفت و اخلاق حسنہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہم باقیوں سے ممتاز ہیں۔ یہ چیزیں باقی مخلوق میں نہیں ملتی۔
پھر فرماتے ہیں کہ:
علم و معرفت بھی تب تک حاصل نہیں ہوتی جب تک انسان اپنے اخلاق کو بہتر نہ کرے۔
پھر امیر المومنینؑ کے فرمان کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
علم جو ہے وہ آسمانوں میں نہیں تھا کہ خدا اسے نازل کرتا اور نہ ہی زمینوں میں تھا کہ اسے نکالتا۔ بلکہ تمھارے قلوب میں ہے کہ جس سے تم اپنے روحانی اخلاق سے ظاہر کر سکتے ہیں۔
اللہ نے انسان کو ایک معجون ایک مخلوط وجود کی طرح بنایا ہے اور اس کے اندر اللہ کے جتنے عوالم ہیں ان سب کا ایک ایک نمونہ اس کے اندر ہے حتی کہ الہیٰ صفات و اسماء کی بھی تاثیر ہے۔ انسان کا وجود ایک ایسی کتاب ہے جسے احسن الخالقین نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ اور یہ لوح محفوظ کی شبیہہ ہے۔ اس کے اندر ایسی ایسی چیزیں ہیں کہ خدا نے زمین و آسمان کو دینی چاہیں تو وہ بھی اسے نہیں اٹھا سکے اس میں عالم محسوسات ہے عالم مثال ہے عالم معقول ہے۔
سبحان اللہ!
اگر انسان اپنی محسوسات کو اور اپنے اندر جو غریزے ہیں ان کو عقل کے تابع کرے اوراس میں زحمت کرے یعنی پاکیزگی کو اختیار کرے تو اس کے باقی جو عالم ہیں جیسے عالم شہادت اور عالم مثال کو بھی خدا اسے جیتے جاگتے دکھا دیتا ہے۔ یعنی انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ جیسے آئمہ ؑ اور اولیاء اللہ جیسے امیر المومنینؑ کے شاگرد حضرت ابوذر غفاریؒ🌹 اور حضرت سلمان ؒ 🌹کن کن مقامات پر پہنچے اور دونوں میں اتنا فرق تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے مقام پر تعجب کرتے تھے۔ اللہ نے انسان کے لیے کتنی راہیں رکھیں ہیں ۔ لیکن طریقہ یہی ہے کہ پہلے اپنے جسم کو اپنی عقل کے تابع کرو پھر آغاز سفر ہو گا۔ لیکن اگر کوئ اپنی عقل کو اپنے غریزوں اور اپنے محسوسات کے تابع کر دے تو پھر وہ زمین کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے اس کا باطن سیاہ ہو جاتاہے۔ اور اس کی روح جب بدن سے جدا ہوگی تو تاریکیوں میں ہوگی اور قیامت تک تاریکیوں میں رہے گی۔ اور پناہ اس دن سے جس دن انسان کی اصلی شکل نکلنی ہے۔
بس آغاز یہ ہے کہ انسان پاکیزگی کی راہ کو اختیار کرے اور اپنے وجدان اپنے ضمیر کی بات کو سنے اور اپنے محسوسات کو اور اپنی خواہشات کو اس کے تابع کرے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔ ▪️▪️▪️
بارگاہ پروردگار میں دعا ہے کہ اس ماہ رمضان میں ہمیں اس طرح کی طاقت عطا فرمائے اور سیر و سلوک کا سفر اسی ماہ میں ہم شروع کریں۔ ہمارے خواہشات اور محسوسات ہماری عقل کی تابع ہوں تاکہ اپنے مولا ؑ کے خدمت گذار بنیں اور اپنے رب کے شائستہ عبد بنیں۔
آمین۔
والسلام
عالمی مرکز مھدویت قم