کتاب لقاء اللہ* (سیر و سلوک) – درس سوم
کتاب لقاء اللہ* (سیر و سلوک) – درس سوم
کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
( آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس سوم
نکات :لقاءسے مراد،مناجات شعبانیہ، دعائے کمیل میں عارفانہ جملے ، آئمہ علیھم السلام کے وجہ اللہ ہونے سے مراد، محمد و آل محمد علیہم السلام اسماء حسنی ہیں تو اسے مراد ، اللہ کے اسماء اسکی مخلوق ہیں
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی ؒ بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ہرگز لقاء اللہ سے مراد موت نہیں ہے بلکہ ہم اس سے وہی اخذ کریں گے جو محمدؐ و آل محمدؑ کی احادیث اور ان سے منقول دعاؤں میں ذکر ہوا ہے۔
مناجات شعبانیہ:
معصوم فرماتے ہیں۔
وَأَلْحِقْنِی بِنُورِ عِزِّکَ الْاَ بْھَجِ فَأَکُونَ لَکَ عارِفاً
پروردگارا ! مجھے اپنی روشن تر عزت کے نور تک پہنچادے تا کہ میں تجھے پہچان لوں،
اور ایک اور مقام پر معصومؐ فرماتے ہیں۔
وَأَنِرْ أَبْصارَ قُلُوبِنا بِضِیاءِ نَظَرِہا إِلَیْکَ، حَتَّی تَخْرِقَ أَبْصارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلی مَعْدِنِ الْعَظَمَةِ، وَتَصِیرَ أَرْواحُنا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِکَ
پروردگارا ! ہمارے دلوں کی آنکھیں جب تیری طرف نظر کریں تو انہیں نورانی بنادے تا کہ یہ دیدہ ہائے دل حجابات نور کو پار کرکے تیری عظمت و بزرگی کے مرکز سے جاملیں۔ور ہماری روحیں تیری پاکیزہ بلندیوں پر آویزاں ہوجائیں۔
دعائے کمیل
امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں۔:
صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ اٴَصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،
میں تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر کیسے کروں۔
اب انسان اپنے ذہن میں جو کچھ بھی سوچے اور اپنے ذہن کو خالی کرے تو آئمہؑ معصومینؑ کی تعبیروں اور فرامین سے وہ کبھی بھی لقائے پروردگار سے مراد یہاں ثواب نہیں لے گا۔
نہ ہی موت و جنت اور نعمات جنت نہیں لے گا۔ بلکہ اگر کوئی یہ چیز مراد لیتا ہے تو وہ لقائے پروردگار مراد نہیں لیتا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ جب میں کہوں:
وَأَلْحِقْنِی بِنُورِ عِزِّکَ الْاَ بْھَجِ فَأَکُونَ لَکَ عارِفاً
تو آیا یہاں جنت کی چیزیں مراد ہیں۔
یا میں کہوں:
پروردگارا! میرے دل کی نگاہوں کو منور فرما تاکہ میں تجھے دیکھوں تو آیا یہاں مراد جنت کی چیزیں کھاناہے۔ یہاں ہرگز یہ مراد نہیں بلکہ وہ چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں ۔ وہی سیر و سلوک کا راستہ ہے۔ وہی مقام عرفان و معرفت ہے۔
سوال:
ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں۔ کہ لقاء اللہ سے مراد یہ چیزیں نہیں بلکہ محمدؐ و آل محمدؑ کی لقاء ہے کیونکہ یہ ہستیاں خود وجہ اللہ ہیں ۔ ان کی بارگاہ میں پہنچنا ایسا ہی ہے جیسے اللہ کی بارگاہ میں پہنچنا ہے۔ کیونکہ یہ نظام ولایت در اصل نظامِ خدا ہے۔
مثال کے طور پر جب کوئی وزیر کے دفتر میں اپنی شکایت پہنچا دیتا ہے گویا اس نے وزیر تک رسائی حاصل کر لی۔ ان ہستیوں کی طرف رجوع ایسے ہی ہے گویا خدا کی طرف رجوع۔ اور ہم ان ہستیوں کی جب زیارت پڑھتے ہیں اور جب امیر المومنینؑ کی زیارت میں انہیں وجہ اللہ خطاب کرتے ہیں یا دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں کہ:
أَیْنَ وَجْہُ اللہِ الَّذِی إلَیْہِ یَتَوَجَّہُ الْاَوْلِیاء
جواب:
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی اس کا بھی جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دعائیں ٹھیک ہیں اور یہ زیارات بھی ٹھیک ہیں۔ لیکن مجھے یہ بتائیں کہ جب محمدؐ و آل محمؑد ان دعاؤں کو پڑھتے ہیں تو کیا وجہ اللہ سے مراد خود کو لیتے ہیں۔
جب وہ اللہ کی بارگاہ میں درج بالا دعائیں مانگتے ہیں تو اسوقت کیا وہ اپنے لیے مانگ رہے ہوتے ہیں ۔ اور اُسوقت ان کا ہدف اپنا آپ ہوتا ہے یا پروردگار ہوتا ہے۔وہ کس کی نیت و قصد کرتے ہیں۔
دعائے شب ہفتہ :
میں ہم اللہ سے مانگتے ہیں کہ
پروردگار نبیؐ کریم کو رزق دے کہ وہ تیرے چہرے کی طرف اپنی نظر دوڑائیں اس دن جس دن تیرا چہرہ گناہگاروں سے پوشیدہ ہو۔
دعائے جمعہ
سیدہ ؑ فاطمہ زہراؑ کے حوالے سے دعا میں ہم پڑھتے ہیں کہ:
‘ فرماتی ہیں کہ:
مجھے ایسا قرار دے کہ میں تجھے روز قیامت تک دیکھو اور روز قیامت تجھ سے ملاقات کروں۔
اب یہاں بی بیؑ کس سے ملاقات کر رہی ہیں۔ اپنے آپ کو دیکھنے کی دعا مانگ رہی ہیں۔
واقعہ معراج:
جب پروردگار عالم نے فرمایا:
میرے عرش کی طرف نگاہ اٹھاؤ۔
رسول اللہ نے فرمایا :
کہ جب میں نے عرش کی عظمت کی جانب نگاہ اٹھائی تو اس عظمت کو دیکھنے کے بعد گویا میرا نفس ، میرا اندرکا وجود چلا گیا اور مجھ پر غشی طاری ہوگئی۔
الله اکبر !
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی ؒ یہ آئمہؑ و معصومینؑ اور انبیاء کے لیے جو لفظ وجہ اللہ کا اطلاق ہوا ہے یہ ان کا وہ درجہ معرفت ہے۔ کہ وہ فنا فی اللہ ہو چکے ہیں۔ اللہ کی ذات میں غرق ہو چکے ہیں اور اس حد تک خود کو خدا کا مطیع کر دیا ہے کہ ان کی صفات خدا کی صفات سے متصل ہوچکی ہیں۔ یعنی وہ اللہ کی منشاء کے بغیر حرکت ہی نہیں کرتے وہ دیکھتے ہیں تو خدا کی مرضی سے۔ وہ سنتے ہیں تو خدا کی مرضی سے گویا خدا کی آنکھ دیکھ رہی ہے ۔ خدا کا کان سن رہا ہے۔
روایات :
ہم روایات میں دیکھتے ہیں کہ معصومؑ فرماتے ہیں۔
نحن والله الاسماء الحسنى
ہم ہی اللہ کے اسمائے حسنی ہیں۔
یہ اسماء خود اللہ کی مخلوقات ہیں کہ جن کے ذریعے کائنات کا نظام اللہ چلا رہا ہے۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں ۔
” اللہ نے ایک اسم کو خلق کیا کہ جس میں حرف جیسی آواز نہیں ہے اور وہ لفظ کی طرح بولا نہیں جاتا اور اس کا قالب جسمی قالب نہیں ہے اور وہ تشبیہہ میں قابل توصیف نہیں ہے اور رنگ میں اس کا کوئی رنگ نہیں ہے ۔ اسم لا محدود ہے اور ہمارا وہم و خیال اس کی حدوں کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اور اس کو بغیر نقاب کے اللہ نے پوشیدہ کیا ہوا ہے۔۔۔ ۔
مذید فرماتے ہیں۔
اس اسم کے چار جز ہیں اور ایک جز چھپا ہوا ہے اور تین ظاہر ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے لیے چار رکن ہیں اور پھر آخر میں امام صادقؑ ان کو بیان فرماتے ہیں۔
الرحمان، الرحیم، المالک، القدوس۔۔۔۔۔۔۔
یہ سارے وہ اسما ہیں جنہیں ہم اسمائے حسنی کہتے ہیں اوراگر قرآن و احادیث میں یہ سارے ملائے جائیں تو ان کی کل تعداد 360 ہے۔
360 اسماء کیا ہیں ؟
سورہ الاسراء 110 آیت میں ارشاد پروردگار ہو رہا ہے کہ:
قُلِ ادْعُوا اللّـٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْـمٰنَ ۖ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَـهُ الْاَسْـمَآءُ الْحُسْنٰى ۚ
کہہ دو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس نام سے پکارو سب اسی کے عمدہ نام ہیں۔
یہ اسماء لفظ نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ یہ وجود رکھتے ہیں۔ اب جب امامؑ کہتے ہیں کہ ہم اسماء ہیں یا اسم اعظم ہیں تو یہ بذات خود مخلوق الہیٰ ہیں۔
کبھی اپنے لیے یہ بھی دعا میں تعبیر ہوتی ہے کہ یہ خود حجاب ہیں یعنی ان کا وجود حجاب ہے۔ اور معرفت کی اسقدر بلندی پر ہیں کہ خدا کے اسما ئے اعظم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور بلخصوص ہمارے پیغمبرؐ اسلام کی جو شخصیت ہے کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان اوصاف میں سب سے بڑا مقام نبیؐ کریم کا ہے۔
نبی اکرم ص سب بڑا اسم اعظم ہیں۔
دعائے کمیل میں ہے کہ :
وَبِأَسْمَائِكَ الَّتِي مَلأَتْ أَرْكَانَ كُلِّ شَيٍْء
تیرے ناموں کے ذریعے جنہوں نے ہر چیز کے اجزاء کو پر کر رکھا ہے۔
تمام کائنات اللہ کے اسمائے الحسنی سے بھری ہوئی ہے
دعائے سمات میں ہے کہ :
و باسمک الذی خلقت السماوات ولارض
میں اس نام سے پکارتا ہوں کہ جس سے تو نے آسمانوں و زمین کو خلق کیا۔
یہاں بھی اسم ایک واسطہ ہے ، ایک مخلوق ہے کہ جس کے ذریعے خدا خلق کر رہا ہے۔ یہ سب مخلوق ہیں چاہے ہم اس کی تعبیر آئمہؑ کی جانب کریں۔
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں توجہ فرمائیں کہ:
یہ وہ ہستیاں ہیں کہ یہ بھی اللہ کی مکمل معرفت رکھنے سے عاجز ہیں اور یہ ہمارے نبیؐ کریم نے اپنی لسان مبارک سے اس کا اعتراف بھی کیا:
فرمایا:
میں عاجز ہوں تیری حقیقت ِمعرفت سے۔
اور ہمارے آئمہؑ نے بھی اس کا اعتراف کیا۔
بس اس سے پتہ چلتا ہے کہ معرفت اور چیز ہے اور معرفت حاصل ہونے والی چیز ہے جو کچھ نہ کچھ حاصل ہو سکتی ہے۔
یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس سے مراد موت یا ثواب و عقاب یا آئمہؑ کی ملاقات ہے۔
معرفت حاصل ہونے والی ہے۔ اسی لیے ہمارے انبیاءؑ معصومین اور بزرگان دین نے اس کو اپنا ہدف قرار دیا تھا۔ درست ہے کہ مکمل نہیں پہنچ سکے لیکن اپنے مقام کے ساتھ جتنی بھی حاصل کی انہوں نے کی ہے اور باقیوں کے لیے بھی راہ کھلی ہوئی ہے ۔ اور ہر ممکن الوجود کے لیے بھی یہی راہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے۔
ہمارے تمام نیک اعمال کا ہدف بھی معرفت پروردگار ہے یہاں تک کہ کائنات بنانے کا ہدف بھی یہی ہے کہ معرفت پروردگار تک پہنچیں۔
اور یہ جو کہنا ہے کہ یہ بس مقام تنزیہ ہے اور اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی تو اگر ان چیزوں کو مانیں تو پھر توحید نہیں رہے گی اور پھر کیسے لوگ پروردگار کو واحد مانیں گے کہ جب اس کی معرفت کو حاصل نہیں کر سکتے۔
ہمارے آئمہؑ نے سختی سے منع فرمایا ہے کہ تنزیہ خالص پر یقین پیدا نہ کرو اور نہ اس کو بیان کرو۔ کیونکہ اس سے لوگ خدا سے دور ہو جائیں گے۔
جاری ہے۔۔۔۔
مرحوم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزیؒ بہت اچھے انداز میں بحث کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے لیے پہلے علمی اور فکری لحاظ سے معرفت کی راہیں کھول رہے ہیں ۔ اور مختلف اعتراضات کے جوابات بھی دے رہے ہیں۔ انشاءاللہ ہم آہستہ آہستہ عملی ابحاث اور سیر و سلوک کی ابحاث کی جاب بڑھیں گے۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم۔