مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات دوسری قسط
مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات دوسری قسط
مہدوی بچے
مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات دوسری قسط
حجت الاسلام والمسلمین استاد علی اصغر سیفی
ب : بچے کی عمرکا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہرعمر کے بچے کے لئے تربیت کی ایک خاص روش ہے اور دیگر جدید تربیتی نکات سے پہلے مکتب اہل بیت نے درجہ بدرجہ والی روش اپنانے کا حکم دیا ہے اور آج جدید تربیتی طریقے بھی اسی روش کو اپنائے ہوئے ہیں اور اس کے عملی تجربات سے اس کے فوائد ثابت ہوگئے ہیں اور اس کے شواہد ہیں بچہ جب تین سال کا ہو جائے تو دینی تربیت کے لئے اسے ذکر خدا سکھانا چاہئے
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اذا بلغ الغلام ثلاث سنین فقل لہ سیع مرات : قل : لاالہ الااللہ ثم یترک“ ”جب تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ ”لاالہ الااللہ“ کہلواؤ پھراسےچھوڑ دو“
حوالہ:(بحار الانوار جلد 95 صفحہ 104
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
ادب صغار اھل بیتک بلسانک علی الصلاة والطھور، فاذا بلغوا عشرسنین فاضرب ولاتجاوز ثلاثا“۔
”اپنے بچوں کو اپنی زبان کے ساتھ نماز اور طہارت کے آداب سکھاؤ اور جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو اسے مار کر بھی سکھاؤ لیکن مارنا تین دفعہ سے تجاوز نہ کرے“
حوالہ: (تنبیہ الخواطر،صفحہ 390)
”پھر پندرہ سے سولہ سال کے بچے کو روزہ رکھنے کاپابند بنایا جائے“۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے
حوالہ: (بحار الانوار جلد 102 صفحہ 162)
اور درمیان والے وقفے میں اسے دوسرے ایسے آداب سکھائے جائیں گے کہ جن کے لئے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی ہے جیسے دوسروں کے ساتھ احسان کرنا اور مساکین سے محبت کرنا۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
مرالصبی فلیتصدق بیدہ بالکسرة والقبضة والشیٴ وان قل، فان کل شیٴ یرادبہ اللہ وان قل بعد ان تصدق النیة فیہ عظیم۔
”اپنے بچوں کوحکم دوکہ وہ اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں اگر چہ معمولی چیزہی کیوں نہ ہوسچی نیت کے ساتھ جوچیزاللہ کے لئے دی جائے وہ عظیم ہے چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو،
حوالہ:(وسائل ۶:۲۶۱/۱باب من ابواب الصدقة۔)
قابل ذکرہے کہ آئمہ بچے کی عمرکے لئے تین مراحل بناتے ہیں اورہرمرحلہ میں یہ والدین کی خاص توجہ اورخاص تعلیم وتربیت کاضرورتمند ہوتاہے بطور نمونہ اس بارے میں تین احادیث پیش کرتے ہیں۔
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ :
الولد سید سبع سنین،وعبد سبع سنین، ووزیرسبع سنین فان رضیت خلائقہ لاحدی وعشرین سنة والاضرف علی جنبیہ، فقداعذرت الی اللہ“
حوالہ: (وسائل ۱۵:۱۹۵/۷باب ۸۳ازابواب احکام اولاد)
”بچہ سات سال تک سردار سات سال تک غلام اورسات سال تک وزیرہوتاہے اگران اکیس سال تک اس کی عادتیں بہترہوجائیں توٹھیک ورنہ اسے خوب مارواورمیں نے اللہ کی طرف عذرپیش کردیاہے“۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : دع ابنک یلعب سبع سنین ویؤدب سبع سنین، والزامہ نفسک سبع سنین، فان افلح، والافانہ لاخیرفیہ ۔
حوالہ:(بحار ۱۰۴:۹۵۔)
سات سال تک بچے کوکھیلنے کودنے دو، سات سال تک اسے آداب سکھاؤ اورسات سال تک اس کی خوب نگرانی کرو اگرفلاح پاجائے توٹھیک ورنہ اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے“۔
توان دو روایتوں میں بچے کی عمرکے مراحل کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیاہے اورہرمرحلہ سات سال پرمشتمل ہے پہلامرحلہ کھیل کودکاہے دوسرا آداب سکھاے کا اورتیسرا اسے سائے کی طرح اپنے ساتھ چمٹائے رکھنے کا۔اورتیسری روایت میں یہ تھوڑی سی مختلف ہے اس میں پہلااوردوسرا مرحلہ چھ چھ سال پرمشتمل ہے اورتیسرا مرحلہ سات سال کاہے۔
حسن طبرسی اپنی کتاب ”مکارم اخلاق“ میں کتاب المحاسن سے امام صادق علیہ السلام کایہ فرمان نقل کرتے ہیں:
احمل صبیک حتی یاتی علیہ ست سنین، ثم ادبہ فی الکتاب ست سنین، ثم ضمہ الیک سبع سنین فادبہ بادبک، فان قبل وصلح والافخل عنہ۔
”چھہ سال تک بچے کواٹھاؤ،چھ سال تکہ اسے قرآن کی تعلیم دو، اورسات سال تک اسے اپنے ساتھ چمٹاکرآداب سکھاؤاگرقبول کرکے صالح بن جائے توٹھیک ورنہ اسے چھوڑدو“
حوالہ:(وسائل ۱۵:۱۹۵/۶ باب ۸۳از ابواب احکام الاولاد)
جاری ہے