درس عقائد (توحید) تیسرا درس
معرفت پروردگار حاصل کرنے کی راہیں
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
ایک بہت ہی مشہور جملہ ہے کہ حکماء اور عرفاء اپنی گفتگو میں رسولؐ اللہ کی جانب نسبت دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث ہے لیکن یہ حدیث ہمارے شیعہ ماخذات میں نہیں ہے۔
وہ حدیث درج ذیل ہے
” اللہ کی جانب جانے کی جو راہیں وہ لوگوں کی سانسوں کی تعداد کے مطابق ہیں”۔
یعنی ہر شخص اپنی علم یا عقل کے مطابق معرفت الہیٰ کو حاصل کر سکتا ہے۔
ایک بہت بڑے عالم اللہ تعالیٰ کی توحید اور معرفت پر کتاب لکھ رہے تھے ۔ انہیں ایک سادہ سی دلیل چاہیے تھی کہ خدا ہے۔ لیکن ان کو وہ دلیل نہیں مل رہی تھی۔
وہ اسی خیال میں تھے کہ ان کی والدہ چرخہ کات رہی تھیں۔ تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کسی فکر میں پریشان ہیں تو انہوں نے کہا کہ والدہ مجھے ایک سادہ سی دلیل چاہیے کہ میں لوگوں کے لیے خدا کا وجود ثابت کر سکوں۔
والدہ نے کہا کہ اگر میں اپنی معرفت بتاؤں کہ میں نے کس طرح خدا کو پہچانا۔ دیکھو کہ میں جو چرخہ کات رہی ہوں یہ میری انگلی سے پورا نظام چلتا ہے اور دھاگا بنتا ہے اگر میں انگلی ہٹا لوں تو یہ دھاگا نہیں بنے گا۔
جب میری ایک انگلی کی حرکت کے بغیر یہ چھوٹا سا چرخہ نہیں چل سکتا ۔ تو اتنی بڑی کائنات کہ جس میں نظام تخلیق ہے نظام رزق ہے، نظام حیات و موت ہے سورج ،چاند ستاروں کا منظم ہونا۔ دن اور رات کا نظام، انسانی جسم کے اندر کا نظام، تو یہ تمام نظام کس طرح چلانے والے کے بغیر چل سکتے ہیں۔
ان بزرگوار نے اس دلیل کو اپنی کتاب میں لکھا اور یہ سادہ سی دلیل ہر کتاب کی زینت بنی۔
یہ معرفت پروردگار کی ایک اہم مگر سادہ اور فطری دلیل تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان چاہے کسی بھی مذہب ملت یا گروہ سے ہو وہ اپنے خالق کو پہچانتاہے۔
اور اپنی تھوڑی یا زیادہ معلومات کے پیش نظر ایک دلیل رکھتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی بنانے والا خالق ہے۔
اگر ہم بطور کلی پروردگار عالم کی جانب جانے والا جو معرفت کے راستے ہیں ان کا تجزیہ کریں تو وہ دو راستے ہیں۔
1 دلیل والا راستہ
اسے علم کلام یا عقائد کی رو سے استدلالی اور نظری راستہ بھی کہا جاتا ہے۔
اس میں انسان اپنی عقل سےمدد لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور نشانیوں پر غور و فکر کرتا ہے اور مختلف دلائل اکھٹے کرتا ہے۔ بہت سارے فلسفی چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے اور عقلی لحاظ سے ان کا قائل ہوتا ہے۔
اور وہ لوگ جن کے تجربات ہیں تو وہ جسم میں موجود اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرتا ہے۔
جو آسمانی راستوں پر کام کرتے ہیں جیسے ستارہ شناسی یا زمین کے اندر جو نبادات یا حیوانات شناسی پر کام کرتے ہیں ان سے معرفت پروردگار کے عقلی یا نظری دلائل حاصل کرتے ہیں۔
2. مکاشفہ
مکاشفے والے راستے کو شہودی اور عملی بھی کہا جاتا ہے۔
۔ یہ انسان اپنی پاکیزگی، عبادت اور تذکیہ نفس کے ذریعے اس مقام تک پہنچتا ہے۔ اس راستے کو دل کا راستہ کہتے ہیں جس میں انسان اپنے قلب سے اللہ کو دیکھتا ہے۔ اور اسکی عظمت اور قدرت کو سمجھتا ہے۔
امیرالمومنین ع اس حوالے سے فرماتے ہیں:” میں قلب کی راہ سے خدا کو دیکھتا ہوں”
کسی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے؟
فرمایا
” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس خدا کی عبادت کروں جسے میں نے دیکھا نہیں ” پھر واضح کیا کہ میں نے خدا کو قلب کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
مکاشفہ ہر ایک کے لیے نہیں کھلتا یہاں دل کی راہ ہے۔
اگر انسان قرآن مجید اور فرامین محمد و آل محمدؐ کے بتائے گئے معرفت الہیٰ کے راستوں پر چلیں تو گمراہ نہ ہوں گے۔
ترتیب و پیشکش:سعدیہ شہباز مھدوی