عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

عقائد توحید – درس 17

درس عقائد توحید
مہدی مضامین و مقالات

عقائد توحید – درس 17

توحید تشریعی, اللہ کی حق حاکمیت پر عقلی و قرآنی دلائل ، امام کی حاکمیت خدا کی طرف سے ہے ، آج کون حاکم ہے؟
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ: 
پروردگار کی ربوبیت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تشریعی اور تکوین میں تنہا رب ہے۔
تشریعی سے مراد:
ہماری زندگی کےلیے جو قوانین بنتے ہیں۔ ہم نے کیسے زندگی گذارنی ہے اور ہمارا عمل اپنے رب کے ساتھ، اس کے بندوں کے ساتھ، کائنات کی اشیاء کے ساتھ اور اپنے وجود کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔

تکوین سے مراد:
یہ شب و روز کا منظم نظام جو کائنات میں چل رہا ہے اور موسموں کا نظام ، عالم رنگ و بو میں جو بھی حرکات و سکنات ہو رہی ہیں حتی کہ جو ہمارے جسم کے اندر نظام چل رہا ہے ان تمام نظاموں کا تنہا ترین حاکم اور جو رب ہے وہ پروردگار کریم ہے۔

ہمارے ضابطہ حیات میں توحید پروردگار عالم:

اللہ تعالی ٰ کو یہ حق ہے کہ وہ ہماری زندگی کا ضابطہ حیات بنائے یہ ہمارا اسلامی عقیدہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور ہستی یہ حق نہیں رکھتی جو ہمیں بتائے کہ ہم نے کیسے زندگی گذارنی ہے۔ کیونکہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ کائنات میں حقیقی مدبر کہ جس کے ہاتھ میں تمام انسانوں کے امور کی تدبیر ہے وہ فقط اور فقط اللہ کی ذات ہے اور اسی کو حق ہے کہ وہ ہماری زندگی کے لیے قانون بنائے کہ ہم نے زندگی کیسے گذارنی ہے۔ کیونکہ قانون وہ بناتا ہے جسے مکمل طور پر اختیار ہو۔ جو ہمارا مالک و حاکم ہے اسے حق حاکمیت حاصل ہے انسانوں کا تنہا ترین مالک کہ جس نے ان کے جسم و جان کو خلق کیا وہ پروردگار عالم ہے۔ اور جس نے انسانوں کے امور کی سرپرستی اپنے اوپر لی ہوئی ہے وہ مالک و مولا پروردگار ہے۔ اسے کے علاوہ کوئی مولا اور مالک نہیں۔

قانون بنانے کے لیے ضروری چیز انسان شناسی ہے یعنی انسان کے اندر جتنی بھی جہات ہیں معنوی،مادی، فکری ، علمی، عقلی ، یعنی وہ انسان کی مکمل شناخت رکھتا ہو پھر اسے معلوم ہو کہ انسان کی ضروریات کیا ہیں۔ اور ایک انسان کیسے شائستہ زندگی گذار سکتا ہے اور کہاں کہاں انسان گمراہ ہو سکتا ہے۔ اور کہاں انسان دوسروں کے لیے اور اپنے لیے خطرہ کا باعث بن سکتا ہے۔ کہاں انسان تکامل اور رشد کے درجات حاصل کر سکتا ہے ۔ یہ فقط ذات اقدس رب کریم ہی جانتا ہے اور اسی کو حق ہے کہ ہماری لیے قوانین بنائے۔

اللہ تعالیٰ کی حق حاکمیت پر عقلی و قرآنی دلائل:
قرآن مجید میں مختلف آیات یہ بات بیان ہوئی۔

سورہ شوریٰ 13:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّـٰى بِهٖ نُـوْحًا وَّالَّـذِىٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ
تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور اسی راستہ کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ۔

سورہ یوسف 40
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّـٰهِ ۚ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ
اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو

سورہ قصص 88
كُلُّ شَىْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٝ ۚ لَـهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔

ان تمام آیات میں اللہ نے حق حکم اپنے لیے رکھا ہے اور یہ وہی مقام توحید ہے کہ ہم اپنے تمام امور میں اللہ کو اپنا تنہا ترین مالک مانتے ہیں۔

سورہ المائدہ: 44
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ
اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

بعض یہاں اس سے یہودی مراد لیتے ہیں اور بعض یہاں مراد عیسائی لیتے ہیں لیکن بطور کلی پروردگار عالم فرماتا ہے کہ جو بھی حکم خدا کے مطابق عمل نہیں کرے گا وہ کافر ہے۔

توحید یہی ہے کہ اللہ کو تنہا ترین حاکم مانو۔

سورہ شوری آیت نمبر 9 میں پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ :

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَـآءَ ۖ فَاللّـٰهُ هُوَ الْوَلِـىُّ وَهُوَ يُحْىِ الْمَوْتٰىۖ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (9)
کیا انہوں نے اس کے سوا اور بھی مددگار بنا رکھے ہیں، پھر اللہ ہی مددگار ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ولایت فقط پروردگار عالم کا حق حاکمیت ہے تو اب اگر وہ خود کسی کو ولی بنائے تو یہ اس کو مکمل اختیار ہے۔ اصل میں مولا و حاکم اللہ ہے ہم نے اسی کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اسی کی ولایت پر چلنا ہے۔ اب اگر وہ اپنے اور ہمارے درمیان کسی ہستی کو ولی قرار دے تو اسے مکمل اختیار ہے اور ہم اس کے تابع ہیں۔

مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ قرآن میں حضرت داؤد کو زمین پر اپنا خلیفہ قرار دے رہا ہے اور انہیں حکم دے رہا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان حکومت کریں۔

سورہ ص 26:
یا دَاوُوْدُ اِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِــعِ الْـهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ
اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی

یہی توحید ہے کہ اللہ کو اپنا حاکم ماننا اور ان ہستیوں کو جنہیں اللہ نے ہم پر حاکم بنا کر بھیجا۔

عہدہ امامت اگر انبیا ؑ کو ملا ہے تو وہی حق حاکمیت ہے ۔ اور اگر امام کے علاوہ کوئی حاکم بنے تو وہ غاصب ہے چونکہ وہ اس چیز کا اہل نہیں ہے۔

امام کون ہوتا ہے: 
امام من اللہ ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کا منتخب شدہ ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ نے خود امام بنایا ( *سورہ البقرہ* )
یا جیسے پیغمبرؐ اسلام نے اپنے بعد امیرالمومنینؑ کو لوگوں کے امور میں ان کا مولاؑ اور حاکم بنایا۔ اور یہ وہی عہدہ امامت ہیں۔

ہمارا اپنے آئمہ کے بارے میں یہی عقیدہ ہے کہ وہ پیغمبرؐ کے وصی ہونے کے ساتھ ساتھ ولی اور مولاؑ بھی ہیں اور حق حاکمیت رکھتے ہیں یعنی آئمہ الھدیٰ۔

قرآن و حدیث کی رو سے آئمہ الطاہرین ؑ ہی وہ ہستیاں ہیں جو اللہ کی جانب سے منتخب شدہ ہیں اور جو ان کے علاوہ امام یا حاکم بنے گا تو وہ غاصب ہے ۔

امامت یعنی وہی حاکمیت ہے۔ جیسے آج ہم امام زمانہؑ عج کے دور میں ہیں تو قرآن و حدیث کے مطابق ہمارے مولاؑ و آقاؑ امام زمانہ عج ہیں اور انہیں ہی حق حاکمیت ہے۔ اور ہمارے تمھارے امور کا حقیقی مالک اللہ ہے۔

امام زمانہؑ عج حکم خدا پر ہماری جان و مال پر تسلط رکھتے ہیں۔ امام معصوم ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرے اور کاملاً اللہ کا مطیع ہو ۔ جیسے کہ آیت میں اللہ نے حضرت داؤد کو اللہ نے حکم دیا کہ ہرگز اپنی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کو معصوم ہونا چاہیے۔

شیعہ اس لیے کہتے ہیں کہ حقیقی مولاؑ و آقا و خالق پروردگار عالم ہے اس نے ہمیں خلق کیا ہے اور اسی کے پاس ہمارے اختیار ہیں اب اگر اللہ کسی کو یہ اختیارات سپرد کر دے تو پھر اس کا اعلان کرے۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ امامت کا اعلان قرآن و حدیث کی رو سے ہونا چاہیے ۔ پس اگر امام حاکم ہے تو اسے اللہ کی جانب سے یہ عہدہ ملا ہے کہ ہمارے امور سنبھالے۔ امام من اللہ ہے۔

اہم نکتہ :
حقیقی حاکم اللہ ہے اور اسکے بعد جن کو وہ یہ حق حاکمیت دے اور وہ انیباء اور آئمہ ؑ ہیں اور یہ توحید تشریعی ہے۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید