توحید افعالی، آیا ہم افعال میں مجبور یا مختار ، پروردگار کا نظام اسباب و مسببات
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
توحید افعالی:
یعنی خدا جسطرح اپنی ذات اور صفات میں واحد و احد ہے اسی طرح اپنے افعال میں بھی واحد ہے۔
کائنات کے اندر جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں ان کا منشاء کہاں ہے۔
اس حوالے سے مختلف نظریات ہیں :
مادی نظریات:
ادیان الہیٰ سے ہٹ کر جو دیگر مادی نظریات ہیں ان کے مطابق یہ درست ہے کہ جتنے بھی نظام ہیں ان کو کسی نے شروع میں نہیں بنایا ہے خودکار ہیں یعنی مادی چیزیں خود بخود چل رہی ہیں۔
یہ شب و روز کی گردش، جانور انسان پودے ہوا کا چلنا سب خود بخود ہے۔
جبکہ سادہ سی بات ہے کہ کوئی بھی چیز خود بخود حرکت نہیں کرتی اس کو چلانے والا کوئی ہوتا ہے۔
توحیدی نظریہ:
کائنات کے اندر فقط ایک ذات ہے جو براہ راست کائنات کو چلا رہی ہے۔ اور جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کا حقیقی فاعل پروردگار ہے۔
بچے کو بھی ماں باپ کے ذریعے خدا بنا رہا ہے۔ مٹی میں بیج سے پودا وہ پروردگار نکال رہا ہے۔ بعض دفعہ ماں باپ صحت کے لحاظ سے ٹھیک ہوتے ہیں لیکن اولاد نہیں ہوتی بعض مرتبہ مٹی ذرخیز ہوتی ہے لیکن پودا نہیں اگتا۔
خدا اپنے افعال میں یکتا ہے
، واحد و احد ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں۔ اور کائنات میں جو مستقل اپنے کام کر رہا ہے وہ اللہ ہے۔
لاحول ولاقوة الابالله العلي العظيم کا بھی یہی مطلب ہے کہ میں اللہ کی مدد کے بغیر کوئی کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں۔
جب ہم اس انداز سے کائنات کو دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے وجود پر ہماری رفتار و گفتار پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے جب ہم توحید افعالی کو دیکھتے ہیں۔
اور اس صورت میں انسان خود کو بارگاہ خداوندی میں حقیر سمجھتا ہے اور یہ چیز اس کو اللہ کی بارگاہ میں فرمابردار بناتی ہے۔
جسطرح ہماری روح اور نفس ہمیں کسی کام کے لیے کہتے ہیں تو وہ ہاتھ پاؤں کام کرتے ہیں تو وہ کام ہم کر رہے ہوتے ہیں۔ اعضاء ظاہری کام کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح کائنات کی ہر شئی بظاہر جو کام کر رہی ہے خود نہیں کرتی بلکہ درحقیقت اللہ کرتا ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ براہ راست کام کر سکتا ہے تو پھر اس سب چیزوں کی کیا ضرورت ہے ۔ ہم تو محتاج ہیں اس لیے اعضاء کا ہونا ضروری ہے۔ آیا اللہ محتاج ہے۔
جواب: یہاں احتیاج کی بات نہیں۔ خدا ماں باپ کے ذریعے بچے پیدا کرواتا ہے لیکن اگر خدا چاہے تو بنا ماں باپ کے تخلیق کر سکتا ہے۔ جیسے اللہ نے آدم و حوا کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ۔ حضرت مریمؑ کو بغیر شوہر کے بیٹا دیا۔ اللہ قادر ہے لیکن اس نے ایک نظام بنایا ہوا ہے۔
اللہ کے دو نظام چل رہے ہیں کچھ مادی دنیا کے اور کچھ روحانی دنیا کے ہیں جہاں ملائکہ اور ارواح ہیں جہاں خدا خود خلق کرتا ہے۔ لیکن مادی دنیا عالم خلق یا عالم امر ہے۔ اور عالم مادہ بھی تعبیر کرتے ہیں یہاں اللہ نے ایک نظام بنایا ہوا ہے جہاں اللہ ہی نظام بنانے والا ہے، ترتیب دینے والا ہے ، خلق کرنے والا ہے ، ان کو حکم دینے والا ہے اور ان کو طاقت دینے والا بھی خدا ہے۔
مٹی ، ہوا ، دانہ ، پانی بنانے والا خدا ہے اور طریقہ بھی اس نے بتایا کہ کیسے پانی دینا ہے۔ مٹی کو تیار کیسے کرنا ہے دانہ کیسے ڈالنا ہے۔ جب درخت اگے تو اس کے لیے مناسب روشنی اور ہوا اور سب کچھ دینے والا بھی خدا ہے۔
بارش کے نظام میں میں پانی سے اللہ نے بخارات بنائے، پھر بادل بنائے پھر بجلی کو بنایا پھر پانی برسایا۔
اب یہاں ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا انسان مجبور ہے کیونکہ سارے کام تو اللہ کر رہا ہے۔
ایسا ہرگز نہیں۔ یہ عقیدہ اہلسنت ہے۔ اشعری اور معتزلی دو فرقہ ہیں ۔۔معتزلی کے بقول انسان اپنے افعال میں مختار ہے یہ لوگ بہت کم ہیں اور اکثر اشعری ہیں جو کہتے ہیں کہ مجبور ہے۔
نظریہ اہل تشیع کہ ہمیں اپنے آئمہ ؑ سے علوم حاصل کرنے کی توفیق ملی ہے اور ان کی راہنمائی میں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ :
نہ کوئی جبر ہے نہ کوئی مکمل اختیار
بلکہ امر بین الامر ہے کچھ جگہ پر ہم مجبور ہیں مثلا کس گھر میں پیدا ہوں کس جگہ کس وقت وغیرہ اور کچھ معاملات میں اختیار رکھتے ہیں ۔ اللہ نے ہمیں طاقت دی اور ارادہ دیا اور وقت دیا کہ ہم اپنے اختیار سے جنت و جہنم لیں۔
سب کچھ اس نے عطا کیا۔ وہ جس وقت چاہے اس کو بند کر دے گا۔ جو آخری سانس اس نے ہمیں دیا اگر وہ بند کردے تو کوئی اور طاقت اسے چلا نہیں سکتی۔ لیکن اس نے ہمیں مجبور نہیں بلکہ با اختیار خلق کیا ہے۔
اہل انتظار:
اہل انتظار کے تمام کاموں کی حکمت اور کامیابی توحید افعالی سے ہے۔
والسلام۔