تازہ ترین پوسٹس

سلسلۂ دروسِ امامت_درس7_  آئمہؑ کی عصمت

درس امامت:7

 آئمہؑ کی عصمت

استاد محترم علامہ علی اصغر سیفی صاحب

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمہید:امامت کی بحث میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امام معصوم ہوتا ہے؟گذشتہ درس میں  بطور کلی شیعہ و سنی رو سے کچھ نکات بیان ہوئے ، یہاں  مکتب شیعہ کی رو سے مزید وضاحت پیش کریں گے۔  اس حوالے سے ہمارے علماء میں بھی تین نظریات پائے جاتے ہیں۔

1۔ نظریہ جبر (Imposed Infallibility)

یہ نظریہ کہتا ہے کہ آئمہؑ اور انبیاؑ مجبور ہوتے ہیں اور اللہ نے ان کے اندر ایسا نظام رکھا ہے کہ وہ نہ گناہ کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے انجام دے سکتے ہیں۔

یہ نظریہ کیوں غلط ہے؟

اگر امام یا نبی گناہ نہ کر سکنے پر مجبور ہو، تو یہ ان کی فضیلت نہیں بلکہ ایک جبر ہوگا اور پھر ان کے لیے اجر و ثواب کا کوئی مفہوم باقی نہیں بچے گا۔

ملائکہ کے بارے میں تو قرآن خود کہتا ہے کہ وہ “لَا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ)” سورہ تحریم آیت 6)یعنی وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، کیونکہ وہ اختیار نہیں رکھتے۔ لیکن انسان کا امتحان اسی اختیار میں ہے کہ وہ چاہے تو اطاعت کرے اور چاہے تو گناہ۔جیساکہ پروردگار کریم فرماتا ہے: إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا(سورہ انسان آیت 3) یعنی ہم نے انسان کو راہ دکھا دی اب اسکی مرضی شکرگزار بنے یا ناشکرا۔

دوسری بات ،اگر آئمہؑ اور انبیاؑ معصیت پر مجبور ہوں، تو پھر اللہ ہمیں بھی مجبور کر سکتا تھا، تاکہ سب گناہوں سے محفوظ ہو جاتے۔

2۔ نظریہ اختیار (Voluntary Infallibility)

یہ نظریہ کہتا ہے کہ امامؑ اور نبیؑ گناہ کر سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے گناہ سے بچتے ہیں۔

یہ نظریہ کیوں درست ہے؟

امام صاحبِ اختیار ہوتے ہیں، جیسے کہ باقی انسان، لیکن ان کا علم اور تقویٰ انہیں گناہ سے روکتا ہے۔جیسے ایک متقی

شخص زنا، شراب یا جھوٹ سے دور رہتا ہے، حالانکہ وہ چاہے تو یہ سب کچھ کر سکتا ہے، لیکن نہیں کرتا۔اسی طرح امامؑ بھی مکمل اختیار رکھتے ہیں، لیکن اپنے نفس پر ایسا قابو رکھتے ہیں کہ وہ کبھی بھی گناہ کی جانب مائل نہیں ہوتے۔

امیرالمومنینؑ علیؑ کا فرمان

روایت ہے کہ ایک دفعہ امیر امومنین (ع) اپنے اصحاب کے ساتھ باہر کسی جگہ تشریف فرما تھے، سامنے سے ایک حسین عورت کا گذر ہوا  لوگوں کی نگاہوں کو دیکھ کر آپ نے فرمایا:”میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں اس حسین و جمیل خاتون سے نکاح کروں، لیکن میں نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور خدا کے خوف کو اپنے اوپر طاری کر لیا۔”

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ امامؑ کے اندر بھی فطری جذبات ہوتے ہیں، لیکن وہ انہیں قابو میں رکھتے ہیں۔

3۔ نظریہ لطف خاص (Divine Grace of Infallibility)

یہ نظریہ کہتا ہے کہ اللہ نے امامؑ کے اندر ایسا الہام کیا ہے کہ وہ گناہ سے خودبخود دور رہتے ہیں۔

یہ نظریہ کیوں ناقص ہے؟

اگر امامؑ کسی خاص الہام کی وجہ سے گناہ سے بچے رہتے ہیں، تو پھربھی ان کے اختیار کا تصور ختم ہو جائے گا۔

حقیقت میں، امامؑ گناہ سے بچتے ہیں اپنے علم، تقویٰ اور مسلسل عبادت کی وجہ سے، نہ کہ کسی غیبی طاقت کے جبر سے۔

نتیجہ:صحیح نظریہ “اختیار” والا ہے، جس میں امام گناہ کر سکتے ہیں، لیکن اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے گناہ نہیں کرتے۔

آئمہؑ کی بشریت (Human Nature of Imams)

آئمہؑ اور انبیاؑ عام انسانوں کی طرح بشر ہیں، لیکن روحانی اور علمی لحاظ سے بلند مقام رکھتے ہیں۔

قرآن کی وضاحت:   “کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے)…” سورہ الکہف آیت 110 )

عام انسانی تقاضے:امامؑ کو بھوک لگتی تھی، پیاس لگتی تھی، وہ نکاح کرتے تھے، بیمار ہوتے تھے، اور ان پر بھی موسم اثر انداز ہوتا تھا۔ان کی عظمت اور برتری کا تعلق صرف جسم سے نہیں بلکہ ان کی روحانی اور علمی طاقت سے تھا۔

اہل بیتؑ کا نور ہونا، باطنی پاکیزگی، علم اور تقویٰ کی علامت ہے، نہ کہ کوئی مادی روشنی۔

 

نتیجہ:امامؑ بھی عام انسانوں کی طرح بشری تقاضے رکھتے ہیں، لیکن اپنی روحانی پاکیزگی اور علم کی وجہ سے سب سے بلند مقام پر ہوتے ہیں۔

بعض خرافات کی حقیقت

بعض لوگ آئمہؑ کے بارے میں غلو کرتے ہوئے ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو قرآن اور حدیث کے خلاف ہیں۔

مثلاً  :آئمہؑ کا سایہ نہیں تھا،آئمہؑ کو نیند نہیں آتی تھی،آئمہؑ کا وضو کبھی نہیں ٹوٹتا تھا،آئمہؑ کی غذا پر مکھیاں نہیں بیٹھتی تھیں وغیرہ۔

یہ سب خرافات ہیں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔قرآن میں واضح ہے:

“ہم نے تم سے پہلے بھی انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا، جو کھاتے پیتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے”۔( سورہ الفرقان آیت 20)

 نتیجہ:آئمہؑ اور انبیاؑ بشر تھے، لیکن روحانی پاکیزگی، علم اور تقویٰ میں سب سے بلند مقام رکھتے تھے۔

آئمہؑ کے معجزات کی حقیقت

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معجزات آئمہؑ کی ذاتی طاقت سے ہوتے تھے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معجزہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔

مثال:

اگر امام حسینؑ نے کسی کے کنویں کے پانی کو میٹھا کیا، تو یہ امامؑ کی ذاتی طاقت نہیں تھی، بلکہ اللہ کی طرف سے امام کے دست مبارک پر ظاہر ہونے والی  ایک کرامت تھی۔

اصل طاقت اللہ کی ہے، امامؑ صرف اللہ کے ذریعہ سے کرامت ظاہر کرتے ہیں۔

نتیجہ:معجزہ امامؑ یا نبیؑ کی اپنی طاقت نہیں، بلکہ اللہ کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔

حتمی نتیجہ:

1۔ آئمہؑ بشر ہیں، لیکن سب سے بلند مقام رکھتے ہیں۔

2۔ان کی عصمت جبر سے نہیں، بلکہ اختیار اور علم کی وجہ سے ہے۔

3۔وہ گناہ کر سکتے ہیں، لیکن نہیں کرتے کیونکہ وہ گناہ کے اثرات کو جانتے ہیں۔

4۔ان کا علم، تقویٰ اور روحانی طاقت انہیں عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہے۔

قرآن کہتا ہے  : “اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔” (سورہ بقرہ آیت 201)

ہمیں بھی آئمہؑ کی پیروی کرنی چاہیے، ان کے علم، تقویٰ اور زہد کو اپنانا چاہیے، اور غیر اسلامی خرافات سے بچنا چاہیے۔

 

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *