تازہ ترین پوسٹس

سلسلۂ دروسِ امامت_درسِ 4_فلسفۂ وجوبِ عصمت اور اہل سنت کے نظریے کا رد

درسِ امامت:4

 فلسفۂ وجوبِ عصمت اور اہل سنت کے نظریے کا رد

استاد محترم: آغا علی اصغر سیفی صاحب

موضوع: امام کے لیے عصمت کا وجوب اور اہل سنت کے نظریے کا رد

اہم نکات:امام کے لیے عصمت کا وجوب،عصمت کی تعریف اور اس کا فلسفہ،عصمت پر اہل تشیع اور اہل سنت کے نظریات،امام کے لیے عصمت کی عقلی اور نقلی دلیل،اہل سنت کے دلائل اور ان کا رد،امام، محافظِ شریعت ہوتا ہے ،قیاس، اجماع اور اصولِ عملیہ کے مسائل۔

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آج کا موضوع “امام کے لیے عصمت کا وجوب” ہے۔ پچھلے دروس میں ہم نے امامت کے فلسفے، اس کے وجوب اور امام کے لطفِ الٰہی ہونے پر تفصیل سے گفتگو کی۔ آج ہم اس اہم ترین شرط پر گفتگو کریں گے، جو امام کے لیے ضروری ہے، یعنی عصمت۔

اہل تشیع کا موقف: امام کے لیے عصمت شرط ہے۔

اہل سنت کا موقف: امام معصوم نہیں ہوتا، بلکہ عادل اور دیندار ہونا کافی ہے۔

ہم دیکھیں گے کہ عصمت کیوں ضروری ہے، اس کی کیا دلیل ہے، اور اہل سنت کے نظریے میں کیا کمزوریاں ہیں۔

1۔امام کے لیے عصمت کی لغوی و اصطلاحی تعریف:

لغوی معنی: عصمت کا مطلب محفوظ رہنا، بچاؤ یا حفاظت ہے۔

اصطلاحی معنی: “عصمت وہ) ملکہ (صفتِ راسخ ہے، جو واجبات کو ترک کرنے، گناہ، خطاء اور) نسیان (بھول سے بچاتی ہے۔”

عصمت کا فلسفہ:عصمت دو بنیادی چیزوں پر مشتمل ہے:

علم: امام کو تمام حقائق، حلال و حرام اور دینی احکام کا علم ہوتا ہے۔

ارادہ: امام کا پختہ عزم ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور گناہ سے بچے گا۔

 

یہی دو چیزیں مل کر عصمت کو تشکیل دیتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ امام نہ صرف گناہ نہیں کرتا بلکہ اس کا ارادہ بھی گناہ کی طرف نہیں جاتا۔

عصمت پر اہل تشیع اور اہل سنت کے نظریات

اہل تشیع (اثنا عشریہ( کا نظریہ:امام ہر طرح کے  گناہ، غلطی اور) نسیان (بھول سے محفوظ ہوتا ہے۔امام اللہ کی طرف سے منتخب کیا جاتا ہے، کیونکہ وہی جانتا ہے کہ کون معصوم ہے۔

اہل سنت کے مکاتب فکر کا نظریہ:

اہل سنت کے تمام مکاتب) اشاعرہ، ماتریدیہ، معتزلہ، اہل حدیث ، وہابی( امام کے لیے عصمت کے قائل نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ امام صرف عادل، متقی اور دیندار ہونا چاہیے، معصوم ہونا ضروری نہیں۔

اہل سنت کے اس نظریے پر کئی عقلی اور نقلی سوالات ہیں، جن پر ہم آگے تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

عصمت کے وجوب پر عقلی دلیل

برہانِ تسلسل (Infinite Regress Argument)

خواجہ نصیر الدین طوسیؒ اور علامہ حلیؒ نے عصمت پر عقلی دلیل پیش کی ہے:

“اگر امام معصوم نہ ہو، تو تسلسل لازم آئے گا، جو عقلاً باطل ہے۔”

وضاحت:1۔امت احتمالِ خطا رکھتی ہے، اس لیے انہیں ہدایت کے لیے ایک امام چاہیے۔

2۔اگر امام بھی احتمالِ خطا رکھتا ہو، تو پھر اس کی اصلاح کے لیے ایک اور امام چاہیے۔

3۔ اگر وہ دوسرا امام بھی غیر معصوم ہو، تو پھر اس کی بھی اصلاح کے لیے ایک اور امام درکار ہوگا۔

4۔یہ لامحدود سلسلہ بن جائے گا، جو عقلاً محال ہے۔

نتیجہ:   “چونکہ یہ تسلسل باطل ہے، لہٰذا کسی ایک مقام پر ایک ایسا امام ہونا ضروری ہے جو معصوم ہو، تاکہ ہدایت کا سلسلہ برقرار رہے۔”

یہ دلیل عقلی طور پر ثابت کرتی ہے کہ امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔

امام کے لیے عصمت کی نقلی (منقول)دلیل

کتاب کمال الدین  میں نقل ہوا کہ قم کے ایک فقیہ جناب سعد بن عبداللہ اشعری نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی موجودگی

میں امام مہدیؑ سے بچپن میں ایک سوال کیا:

“پروردگار خود امام مقرر کیوں کرتا ہے؟ ہم خود امام کیوں نہیں بنا سکتے؟”

امام زمانہؑ نے فرمایا:

“اگر تم خود امام بناؤ گے، تو ممکن ہے وہ ظاہری طور پر نیک ہو، مگر باطنی طور پر نیک نہ ہو، اس لیے کیا یہ امکان نہیں کہ وہ خطا ءکرے اور گمراہی کا باعث بنے؟”

اس نے جواب دیا : جی مولا یہ امکان ہے ۔

تو   فرمایا :  ” اللہ چونکہ ظاہر و باطن کو جانتا ہے، اس لیے وہی امام مقرر کرتا ہے۔”(کمال الدین ، شٰخ صدوق، جلد 2،صفحہ 454)

یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ امام کا انتخاب انسانوں کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔

5۔امام، محافظِ شریعت ہوتا ہے

اہل سنت کا اعتراض:امام شریعت کا محافظ نہیں، بلکہ قرآن، سنتِ نبویؐ، اجماع اور قیاس شریعت کے محافظ ہیں۔”

جواب: (1)قرآن محافظِ شریعت نہیں:قرآن کلی اصول دیتا ہے، تفصیلات بیان نہیں کرتا۔

اگر قرآن کافی ہوتا، تو  چار فقہی مکاتب )حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی (کیوں بنتے؟

(2) سنتِ نبویؐ کافی نہیں   :  نقل شدہ سنتِ نبویؐ رسولؐ کے دور تک محدود تھی۔زمانے کے بدلتے حالات کے مطابق سنت کی رو سے  احکام کی وضاحت امام کرتا ہے۔

(3) اجماع محافظِ شریعت نہیں:    اجماع معصوم نہیں ہوتا، اس میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے۔اجماع کی بنیاد غیر معصوم افراد پر ہے، جو خطا کر سکتے ہیں۔

(4) قیاس، شریعت کو بگاڑتا ہے: فقہاء نے جب قیاس شروع کیا، تو چار الگ الگ فقہی مکاتب وجود میں آ گئے۔

مثال: نماز میں ہاتھ کھولنے یا باندھنے کا مسئلہ چاروں مکاتب میں مختلف ہے۔

نتیجہ:  “صرف امام ہی محافظِ شریعت ہوتا ہے، کیونکہ وہ معصوم ہوتا ہے۔”

6۔ قیاس اور اصولِ عملیہ کے مسائل

اہل سنت کہتے ہیں کہ اگر کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہ ملے، تو فقہاء قیاس سے فیصلہ کریں گے۔

شیعہ عقیدہ :  قیاس باطل ہے، کیونکہ پہلا قیاس ابلیس نے کیا تھا۔اللہ کے احکام لوحِ محفوظ میں مکمل ہیں، کسی فقیہ

کے قیاس سے نہیں بدل سکتے۔

اہل سنت کا اعتراض 260: ہجری کے بعد شیعہ بھی اہل سنت جیسے ہو گئے؟

اعتراض:  260  )ہجری (غیبتِ کے بعد تمہارے پاس بھی فقہاء آ گئے، اب تم میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟”

جواب:1 ۔اہل تشیع کے پاس 260 ہجری تک معصومینؑ کی مکمل احادیث کا ذخیرہ موجود ہے، جبکہ اہل سنت کے پاس صرف 23 سال کی حدیثیں ہیں۔

2۔ اہل تشیع کے فقہاء قیاس نہیں کرتے، بلکہ معصومینؑ کی روایات سے استنباط کرتے ہیں۔

3۔غیبتِ امام مہدیؑ کے باوجود، امامؑ موجود ہیں، اور وہ وقتاً فوقتاً ہدایت فراہم کرتے ہیں۔

نتیجہ:  “ہمارے پاس اصل دین موجود ہے، قیامت تک فقہی مسائل کے حل کے لیے معصومینؑ کے فرامین محفوظ ہیں، جبکہ اہل سنت کے ہاں قیاس اور اجماع کی بنیاد پر اختلافات پیدا ہو گئے۔”

نتیجہ:عصمت امام کے لیے ضروری ہے، کیونکہ بغیر عصمت کے ہدایت مکمل نہیں ہو سکتی۔

اہل سنت کا نظریہ خود اختلافات کا شکار ہے، کیونکہ ان کے پاس دین کے مسائل کا کوئی متفقہ حل موجود نہیں۔

شیعہ عقیدہ قیامت تک مستحکم رہے گا، کیونکہ ہمارے پاس معصومینؑ کے احادیث کا مکمل ذخیرہ موجود ہے۔

والسلام علیکم

عالمی مرکز مهدویت

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *