سورہ کی تلاوت کے فوائد اور خاصیتیں، اس طرح کی روایات کہاں سے اور کیوں آئیں ، ہم اہل انتظار کا موقف
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
موضوع سخن سورہ الحجرات:
سورہ کی تلاوت کے فوائد اور خاصیتیں:
بہت ساری روایات ہیں۔ اور سب سے پہلے امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے کہ:
” جو بھی سورہ الحجرات کو ہر رات یا ہر دن اس کی تلاوت کرے وہ ان لوگوں میں سے شمار ہوگا کہ جنہوں نے رسولؐ اللہ کی زیارت کی”۔
سبحان اللہ!
اسی طرح ہم اہل تسسن کے اندر ابی بن کعب کی ایک روایت دیکھتے ہیں کہ:
رسولؐ اللہ سے جناب ابی بن کعب نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا:
اگر کوئی شخص سورہ الحجرات کی تلاوت کرے تو جتنے ہی لوگ خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور نافرمانی نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اس کو ان کی نیکیوں کے برابر ثواب عطا کرےگا۔
ایک اور تفسیر میں اسی روایت میں ایک جملے کا اضافہ ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سورہ کو لکھے اور جنگ کے وقت اس کو اپنےبدن پر تعویذ کی شکل میں باندھ لے تو وہ ہر جانب سے امان میں ہوگا اور اللہ اس پر خیر کا دروازہ کھولے گا۔
اسی طرح تفسیر برھان میں امام صادقؑ سے ایک روایت نقل ہوتی ہے کہ: البتہ اس کی سند مکمل نہیں ہے اس کے درمیان میں کچھ راوی نہیں ہیں۔
روایت:
اگر کوئی شخص سورہ الحجرات کو لکھے اور جس شخص پر جن آیا ہو ۔ اگر اس کی گردن میں تعویذ کی شکل میں ڈال دے تو وہ محفوظ ہو جائے گا۔ یا یہ سورہ لکھا جائے اور اسے دھو کر پانی کی شکل میں ایک ایسی عورت کہ جسے دودھ نہیں آتا اسے پلایا جائے تو اللہ تعالیٰ دودھ پیدا فرمائے گا اور اس کا بچہ جب ماں کا دودھ پیے گا تو ہر طرح کے شر سے محفوظ رہے گا۔
اس روایت کی سند کا مسئلہ ہے اس لیے اس روایت کو عام طور پر ضعیف سمجھا جاتا ہے۔
اس طرح کی روایات کہاں سے اور کیوں آئیں :
ایک نکتہ یہاں واضح کرنا ضروری ہے۔ ایسی روایات جن میں قرآنی سورتوں کے فوائد اور ان کی خاصیتوں کو بیان کیا جائے لوگوں میں جس سے شوق پیدا ہو۔ ہمارے علماء ان میں اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ یہ روایات سند کے اعتبار سے یا تو ضعیف ہیں یا سند کامل نہیں ہوتی۔ اور ایک اعتراض جو علماء اس طرح کی روایات پر کرتے ہیں کہ لوگوں نے قرآن کو تعویذ، حرز یا چلہ بنا دیا ہے۔ حالانکہ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ اور پھر ایسی روایتیں کیسے آئیں ہیں تو نیک لوگوں نے جب دیکھا کہ لوگ قرآن سے دور ہو رہے ہیں تو انہوں نے یہ روایتیں بنائیں۔
یہ واقعاً ایک عجیب بات ہے کہ آیا یہ ساری روایات بنائی گئی ہیں ۔ جیسے *ابو عصمت* نامی ایک شخص کہ جن کا نام نوح بن ابی مریم ہے۔ کہتے ہیں وہ امام صادقؑ کے شاگردوں میں سے تھے اور قاضی بھی رہے ہیں اور بہت بڑی علمی شخصیت ہیں۔ لیکن جب انہوں نے قرآنی سورتوں کی فضائل پر احادیث بیان کیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ احادیث جعل شدہ ہیں یعنی بنائی گئی ہیں۔
وہ بیان کرتے تو *ابن عباس* کی جانب نسبت دیتے تھے۔ تو پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو کہنے لگے کہ میں نے اس لیے ایسا کیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن کی قرآت سے دور ہو رہے ہیں اس لیے میں نے ایسی حدیث بنائی۔
ایسا کرنا ہرگز درست نہیں کسی کو حق نہیں کہ جھوٹی حدیث بنا کر رسولؐ کریم یا پھر ان کے اصحاب کی جانب نسبت دے۔
جیسے کہتے ہیں کہ ایک اور شخص میسرا ابن عبد ربہ اس سے پوچھا کہ تم یہ ساری حدیثیں کہاں سے لیں تو کہا کہ میں نے یہ ساری حدیثیں خود بنائی ہیں تاکہ لوگوں کو قرآن کی جانب رغبت دلاؤں۔
ابی بن کعب کی روایت پر بھی اشکالات ہیں کہ یہ حدیث بھی گھڑی ہوئی ہے اور ابی بن کعب بھی اپنی طرف سے حدیثیں گھڑتے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہم اس طرح کی احادیث پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر بعض مرتبہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے سورہ الجرات کو لکھ کر ایک جن زدہ کے گلے میں تو ڈالا اور ایک خاتون کو پلایا گیا، لیکن فرق نہیں پڑا۔
اس طریقے سے قرآن کی عظمت پر سوال اٹھتا ہے اور لوگ دین اور قرآن کا مذاق اڑائیں۔
اسی لیے آئمہ ؑ فرماتے تھے کہ قرآن کو خود پڑھیں اور اس سے درس زندگی حاصل کریں۔ قرآن تعویذوں یا جسمانی بیماریوں کو دور کرنے والی کتاب نہیں بلکہ کتاب ہدایت ہے۔ کتاب زندگی ہے ہاں ہو سکتا ہے کہ کبھی فائدہ حاصل ہو جائے جیسے آیتہ الکرسی اور سورہ یاسین کے بارے میں فرمان ہے۔ اگر روایت معتبر ہو اور سند کامل ہو اور کسی نے جعل نہ کیا ہو تو وہ ٹھیک ہے۔ اور ایسی سورتیں بہت کم ہیں۔ اور جیسے ہر ہر سورۃ کے بارے میں اتنی اتنی روایات ہیں تو اس طرح انسان شک کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ درمیان میں ایسے ایسے راویوں کا نام آ جاتا ہے کہ جن کے بارے میں معلوم ہے کہ انہوں نے یہ روایات خود بنائی ہیں۔
ہم اہل انتظار کا موقف:
ہم جو درس لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن بیشک شفا ہے ہمارے روحانی ، فکری امراض کے لیے شفا ہے اور کفر و منافقت جیسی روحانی آلودگیوں سے بچانے کے لیے قرآن شفا ہے۔
قرآن ہمیں بانظم زندگی گذارنے کا درس دیتا ہے ایسی زندگی کہ جس میں انسان سب کے لیے مفید بنتا ہے اور اس کے زبان اور ہاتھ سے سب محفوظ رہتے ہیں ۔ قرآن ہمیں درس اخلاق اورایک بہترین اجتماعی زندگی کا درس دیتا ہے کہ جس میں ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت ہے نہ ایک دوسرے کے لیے باعث شر ہے۔
قرآن ہمیں درس دیتا ہے کہ اللہ کے حقوق پورے کرو اور اپنے اردگرد لوگوں کے حقوق پورے کرو اور اپنے عزیزوں کے حقوق پورے کرو۔ اپنے ہمسائیوں کے، اولاد، والدین اور اپنے جسم کے حقوق ادا کرو۔ نعمتوں کے حقوق ادا کرو۔
قرآن سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں بنتی ہیں۔ قرآن کو کتاب زندگی سمجھ کر پڑھنا چاہیے ۔ اس لیے قرآن نے ہر سورہ کا آغاز رحمت سے کیا ہے۔
بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم۔
سوائے سورہ توبہ کہ جس میں مشرکین اور کفار پر برائت ہونی تھی اس لیے وہاں بسم اللہ نہیں ہے لیکن باقی سورتیں بسم اللہ سے آغاز ہوتی ہیں۔
بسم اللہ یعنی :
نعرہ رحمت ہے
پرچم اسلام
اسلام دین رحمت ہے
قرآن کتاب رحمت ہے۔
اور ہماری اسلامی زندگی ، زندگیِ رحمت ہے کیونکہ جس میں ہر فراز اور درس کا آغاز بسم اللہ سے ہو رہا ہے۔
پروردگار ہم سب کو حقیقی معنوں میں قرآنی زندگی گذارنے کی توفیق دے ہم جتنے زیادہ قرآنی ہونگے اتنے ہی اپنے امامؑ کے لیے اور اپنے اردگرد لوگوں کے لیے بہترین مسلمان ، مومن اور منتظر ثابت ہونگے۔
والسلام ۔
عالمی مرکز مہدویت قم