عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

امام عصر عج کے ظہور کی شرائط اور علامات(1)

مہدی مضامین و مقالات

امام عصر عج کے ظہور کی شرائط اور علامات(1)

سلسلہ بحث مہدویت(دسویں قسط)

موضوع:امام عصر عج کے ظہور کی شرائط اور علامات(1) 

مصنف: استاد مهدویت حجت الاسلام علی اصغر سیفی

دنیا ظہور کے وقت:

ہم نے گزشتہ بحثوں میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت اور اس کے فلسفہ کے بارے میں گفتگو کی ہے کہ اللہ تعالی کی آخری حجت غائب ہوئی تاکہ ان کے ظہور کا راستہ ہموارہو تو وہ ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو براہ راست اپنی ہدایت کے نور سے فیضیاب فرمائیں گے ۔
اگرچہ غیبت کے زمانہ میں بشریت اس طرح عمل کرسکتی تھی کہ جس سے امام عليہ السلام کے ظہور کا راستہ جلد از جلد ہموارہوجائے۔ لیکن شیطان اور ہوائے نفس کی پیروی اور قرآن کی صحیح تربیت سے دور رہنے، نیز معصومین عليھم السلام کی ولایت اور رہبری قبول نہ کرنے کی وجہ سے انسانیت غلط راستہ پر چل پڑی ہے اور ہر روز دنیا میں ظلم و ستم کی نئی بنیاد رکھی اور دنیا بھر میں ظلم و ستم کے سائے پھیلا دئیے۔
بشریت اس راستہ کے انتخاب کی وجہ سے سے ایک بہت بْرے انجام کو جاپہنچی ہے۔
آج کی دنیا ظلم و جور اور فساد و تباہی سے پرہے.
آج کا دور اخلاقی اور نفسیاتی امن و امان سے اور زندگی معنویت اور پاکیزگی سے خالی ہے اور معاشرہ ظلم و ستم سے لبریزہے کہ جس میں ماتحت لوگوں کے حقوق پامال ہیں.
یہ سب کچھ چیزیں غیبت کے زمانہ میں انسان کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں صدیوں پہلے معصومین عليھم السلام نے پیشین گوئی فرمائی تھی اور اس زمانہ کی سیاہ تصویر پیش کی تھی۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
”جب تم دیکھو کہ ظلم و ستم عام ہورہا ہے، قرآن کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اس کی تفسیرہوا و ہوس کی بنا پرکی جارہی ہے، اہل باطل ، حق پرستوں پر سبقت لے گئے ہیں.
ایماندار افراد خاموش ہیں، رشتہ داریاں ختم ہوگئی ہیں، چاپلوسی بڑھ گئی ہے، نیکیوں کا راستہ راہروں سے خالی ہے اور برائیوں کے راستہ پر بھیڑ دکھائی دے رہی ہے.
حلال کو حرام قرار دیا گیا ہے اور حرام کو حلال شمار کیا جا رہا ہے، بہت سا مال و دولت خدا کے غیظ و غضب (گناہوں اور برائیوں) کے راستے میں خرچ کیا جارہا ہے.
حکومتی اہلکاروں میں رشوت کا بازار گرم ہے، بیہودہ کھیل اس قدر رائج ہوچکے ہوں کہ کوئی ان کی روک تھام کی جرائت نہیں رکھتا .
قرآنی حقائق سننا لوگوں پرگراں گزرتا ہے لیکن باطل اور فضول باتیں سننا ان کے لئے آسان ہے .
وہ غیر خدا کے لئے خانہ خدا کا حج کرتے ہیں، جب لوگ سنگدل ہوجائیں اور احساسات و عواطف کا جنازہ اٹھ جائے، اگر کوئی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرے تو لوگ اس کویہ نصیحت کریں کہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ہے.
ہر سال ایک نیا فتنہ اور نئی بدعت پیدا ہوجائے، (توجب تم یہ دیکھ لو کہ لوگوں کے حالات اس طرح کے ہوگئے ہیں تو) خود کو محفوظ رکھنا اور اس خطرناک ماحول سے نجات کے لئے خدا کی پناہ طلب کرنا( کیونکہ ایسے حالات میں ظہور کا زمانہ نزدیک ہوگا۔)” (کافی،ج٧،ص٢٨.)
البتہ ظہور سے پہلے کی یہ سیاہ تصویر لوگوں کی اکثریت کے چہروں کی عکاسی کرتی ہے .
وگرنہ خود اس زمانہ میں بھی بعض مومنین ایسے ہوں گے جو خدا سے کئے ہوئے اپنے عہد و پیمان پر باقی رہیں گے اور اپنے دینی عقائد کی سرحدوں کی حفاظت کریں گے۔
وہ فاسد ماحول کے رنگ میں نہیں رنگے جائیں گے اور اپنی زندگی کا انجام دوسرے لوگوں کے برے انجام سے متصل نہیں کریں گے.
یہ افراد اللہ تعالی کے بہترین بندے اور آئمہ عليھم السلام کے سچے شیعہ ہوں گے جن کے بارے میں روایات میں مدح و تعریف واردہوئی ہے، یہ لوگ خود بھی نیک و پاکیزہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی نیکی و پاکیزگی کی دعوت دیتے ہوں گے، کیونکہ وہ اس بات میں بہتری سمجھتے ہیں کہ نیکیوں اور خوبیوں کو رائج کرنے اور ایمان کے عطر سے ماحول کو خوشگوار بنانے سے نیکیوں کے امام کا ظہور جلد ہوسکتا ہے اور ان کی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے، کیونکہ برائیوں کا مقابلہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب مصلح موعود کے ناصر و مددگار موجود ہوں۔
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا:
پيغمبراکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ايک لمبي حديث جوکہ ان کي وصيت بھي ہے٬ ميں فرمايا:
“ياعلي واعلم ان اعجب الناس ايمانا٬ اعظمھم يقيناً قوماً يکون في آخر الزمان لم يلحقوا النبي وحجب عنھم الحجۃ فآمنوا بسواد علي بياض”
(کمال الدين ج۱/ب۲۵/ح۸.)
اے علي جان لو کہ ايمان کے لحاظ سے عجيب ترين اور يقين کے لحاظ سے عظيم ترين وہ لوگ ہيں جو آخري زمانے ميں ہوں گے انہوں نے پيغمبر کو نہيں ديکھا اور امام بھي ان کي نظروں سے اوجھل ہيں ليکن وہ ايسي سياہي پر جس نے روشني کو گھيرا ہوا ہے ايمان رکھتے ہيں۔
ہمارا پیش کردہ یہ نظریہ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے جس میں برائیوں کا پھیلانا جلدی ظہور کا سبب قرار دیا گیا ہے، کیا واقعاً یہ بات قابل قبول ہے کہ مومنین برائیوں کے مقابلہ میں خاموشی اختیار کریں تاکہ معاشرے میں برائیاں پھلتی رہیں اور اس طرح امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور کا راستہ فراہم کیا جائے؟
کیا نیکیوں اور فضائل کا رائج کرنا امام عليہ السلام کے ظہور میں تعجیل(جلدی) کا سبب نہیں قرار پائے گا؟
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا فرض ہے جو ہر مسلمان پر یقینی طور پر واجب ہے جس کو کسی بھی زمانہ میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور میں تعجیل کیلئے برائیوں اور ظلم و ستم کی ترویج کس طرح کی جا سکتی ہے؟
جیسا کہ پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”اس (مسلمان) امت کے آخری زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جن کا اجر و ثواب صدر اسلام کے مسلمانوں کے برابر ہوگا، وہ لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دیں گے اور فتنہ و فساد اور برائیوں کا مقابلہ کریں گے”۔
(معجم احادیث الامام المہدی،ج١،ص٤٩.)
اس کے علاوہ متعدد روایات میں جس بات کی تصریح کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا ظلم و ستم سے بھرجائے گی اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان ظالم بن جائیں گے بلکہ خداکے راستہ پر چلنے والے بھی موجود ہوں گے اورہر ماحول میں اخلاقی فضائل کی خوشبوبھی دلوں کو معطر کرتی نظر آئے گی۔
بناء بر ایں، ظہور سے قبل کا زمانہ اگرچہ ایک تلخ زمانہ ہوگا لیکن ظہور کے شیریں زمانہ پر ختم ہوگااور اگرچہ یہ زمانہ ظلم و ستم اور برائیوں کا زمانہ ہوگا، لیکن اس زمانہ میں بھی پاک رہنا اور دوسروں کو نیکیوں کی دعوت دینا منتظرین کا لازمی فریضہ ہوگا اوران کا یہ کردار قائم آل محمد عليہ السلام کے ظہور پر براہ راست اثرانداز ہوگا۔
اس حصہ کو حضرت امام مہدی عج کے کلام پر ختم کرتے ہیں،کہ آپ نے فرمایا:
”ہمیں اپنے شیعوں سے کوئی چیز دور نہیں کرتی مگر ان کے (وہ برے)اعمال جو ہم تک پہنچتے ہیں اورہمیں پسند نہیں آتے اورہم ان سے ایسے اعمال کے ارتکاب کو جائز نہیں سمجھتے”۔
(احتجاج،ج٢،ش٣٦٠،ص٦٠٢.)

شرائط اور علامتيں(تعريف اور فرق):

جن امور پر مطلوب کا وجود ميں آنا موقوف ہو انہيں شرائط کہا جا تاہے اور جب تک شرائط نہ پائي جائيں مطلوب بھي وجود ميں نہيں آتا اور شرائط ظہور سے مراد ايسے امور ہيں جن پر ظہور کا وجود موقوف ہے ۔
جبکہ علامت نشاني کے معني ميں ہے اورعلامت سے مراد ايک ايسي نئي چيز کا وجود ميں آنا ہے کہ جو ہدف اور مقصد سے تعلق رکھتي ہو ا ور انسان کي اپنے مقصد کي طرف رہنمائي کرے اور اس کےصحيح راستے پر ہونے اور مقصد کے نزديک پہچنے پر دلالت کر ے۔
اس طرح علامات ظہور سے مراد ايسے حوادث ہيں اور واقعات جو معصومين عليہ السلام کے فرامين کے مطابق ظہور سے پہلے يا ظہور کے وقت وقوع پذير ہونگے اور ان ميں ہر ايک کاوجود ميں آنا ظہور کے نزديک ہونے کے خوشخبري ہے۔
بنابراين ان علامات ميں ہر ايک کا وجود ظہور کے نزديک ہونے کي خوشخبري کے علاوہ کچھ نہيں ہے۔
مندرجہ بالا بيان کي ہوئي تفصيل کي روشني ميں علامات کا مطلوب کے وجود ميں لانے ميں کوئي عمل دخل نہيں ليکن شرائط مطلوب کے وقوع ميں اثر انداز ہوتي ہيں.
علامات اور شرائط کے فرق کو کچھ اس طرح بھي بيان کيا جاسکتاہے:
(۱) : علامات صرف ظہور کي کاشف ہیں ليکن شرائط ظہور کو و جود ميں لانے والي ہيں۔
(۲) : علامات کا ايک زمانے ميں جمع ہونا ضروري نہيں بلکہ يکے بعد ديگرے بھي ہوسکتي ہے ليکن شرائط کا ايک زمانے ميں باہم ہونا ضروري ہے تاکہ ظہور يقيني طور پر وجود پاسکے۔
(۳) : ممکن ہے علامات ايک د وسرے کے ساتھ مربوط نہ ہوں ليکن شرائط ميں ربط کا ہونا ضروري ہے۔
(۴) : علامات کا مٹ جانا ممکن ہے ليکن شرائط ہميشہ باقي رہتي ہيں۔
(۵) : علامات قابل شناخت ہيں اور عام طور پر ان کا پتا چلايا جاسکتاہے، ليکن بعض شرائط کي شناخت ممکن نہيں ہے اور ان کے وجود کے بارے ميں بطور کامل اوريقيني طور پر جاننا ممکن نہيں ہے کہ آيا تمام شرائط وجود ميں آئي ہيں يا نہيں۔
(۶) : ممکن ہے بعض علامتيں وجود ميں نہ آئيں اور ظہور واقع ہوجائے ليکن تمام شرائط کا وجود ضروري ہے۔

شرائط وعلامات ظہور کي بحث کے فائدے:

اگر کسي انسان کو يہ معلوم ہو کہ منجي يا نجات دينے والے کے ظہور کي کچھ شرائط ہيں اور وہ بھي واقعي طور پر ظہور کا طلبگار ہو تو ايسا شخص ضرور کوشش کرے گا کہ اپني بساط کے مطابق ان شرائط کو فراھم کرے۔
کيونکہ وہ جانتاہے کہ مشروط (ظہور) کا وجود ان شرائط کے وجود پر موقوف ہے اور جب تک يہ شرائط نہ پائي جائيں ظہور ممکن نہيں اس ليے شرائط کے جاننے کا فائدہ يہ ہے کہ ان شرائط کا جاننا انسانوں کو ان شرائط کے مہيا کرنے پر آمادہ کرتاہے۔
اور اگر کوئي انسان يہ جان لے کہ امام زمانہ (عج) کے ظہور کي خاص علامات اور نشانياں ہيں تو اس کے درج ذيل فوائد ہيں:
(۱) : صحيح اور واضح طور پر ظہور موعود کو پہچان لے گا اور امام زمانہ عليہ السلام کي دعوت کو جھوٹے مدعيوں کي دعوت سے فرق دے سکے گا۔
(۲) : خود کو ظہور کيلئے بہتر طور پر تيار کرسکے گا۔
(۳) : منکران ظہور اور وہ افراد جنہيں ظہور کے بارے ميں شک ہے وہ اس کي حقيقت کو درک کرسکيں گے ،شايد اس طرح نجات پاليں۔
(۴) : مخالفين کيلئے وارننگ ہوگي تاکہ آيندہ مخالفت سے کام نہ ليں۔
(۵) : بعض علامات کے ظاہر ہونے سے لوگوں کے دلوں ميں اميد پيدا ہوگي اور مايوسي کا خاتمہ ہوگا۔
گذشتہ باتوں سے علامات کے مقابلے ميں شرائط کي اہميت نيز واضح ہوجائے گي کيونکہ ظہور کا وقوع پذير ہونا علامات کے ساتھ وابستہ نہيں بلکہ شرائط پر موقوف ہے۔اور ظہور کے واقع ہونے کے لئے شرائط کا مہيا ہونا نہايت ضروري ہے اور بعض شرائط کا تعلق لوگوں سے ہے, اس ليے بحث شرائط اس لحاظ سے بھي ا ہم ہے کيونکہ اس ميں لوگوں کا عمل دخل ہے۔

ہماری تحقيق کا طريقہ:

ہم اپنے اس مختصر نوشتہ ميں شرائط ظہور کي تحقيق کيلئے آيات،روايات ٬ دنيا ميں انقلابات کي پيدائش اور کائنات ميں اسباب کے نظام کي روشني ميں اپني رائے کو بيان کريں گے۔
اور علامات ظہورکے تجزيہ ميں آيات و روايات سے مدد ليں گے اور روايات ميں سے کوئي روايت اگر سند کے اعتبار سے معتبر ہو يا معتبر کتابوں ميں متعدد بار ذکر ہوئي ہو يا متن کے اعتبار سے قابل توجہ ہو تو ہم اسے قبول کريں گے۔
اگر کسي روايت کے بارے ميں ثابت ہوجائے کہ اس ميں تحريف ہوئي ہے تو اسے رد کرديں گے اور اگر تحريف کے بارے ميں دليل نہ ہو تو اسے بعنوان احتمال پيش کيا جائے گا۔

(جاری ہے….)

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید