سلسلہ اخلاق منتظرین
سلسلہ اخلاق منتظرین
سلسلہ اخلاق منتظرین
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
کورس ٹو
نکات : سلام احادیث معصومین علیہم السلام کی روشنی میں،سلام کی حکمتیں ، کن کو سلام نہیں کرنا چاہئیے.
اس حوالے سے کچھ روایات جو آئمہ معصومین علیہم السلام کے حوالے سے نقل ھوئی ھیں آپکی خدمت میں بیان کریں گے۔
سلام کی اھمیت اور فضیلت
دیکھنے میں سلام ایک چھوٹی سی عبادت ھے بعض لوگ اسکی پروا ھی نہیں کرتے نظر انداز کرتے ھیں. لیکن یہ عبادت اتنی حکمتیں رکھتی ھےاتنی برکات ھیں ۔اور اس پر اتنی تاکید ھے کہ انسان تعجب کرتا ہے ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں کہ
قبل از کلام اپنی گفتگو میں سب سے پہلے سلام کو مقدم کرو۔
ایک مسلمان اور مومن کی نشانی یہ ھے کہ جب بھی کسی سے کوئی گفتگو کرنا چاھے گھر میں ھو یا باھر ھو تو سلام سے اپنی گفتگو کا آغاز کرے ۔اس کے بعد فرماتے ھیں کہ
ترجمہ:چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور جو راہ چل رھا ھے وہ راستے میں بیٹھے ھوئے کو سلام کرے
مثلاً کوئی گلی سے گزر رھا ھے تو سامنے کسی گھر کے باھر یا گلی میں کوئی شخص بیٹھا ھوا ھے تو اسکو سلام کرے یا گھر میں صحن سے گزر رھے ھیں تو سامنے کوئی بیٹھا ھو اسکو سلام کریں۔ بعض لوگ سلام کرنے میں تھوڑا فرق ڈالتے ھیں یہ ھمارے کلچر میں ایک نامناسب چیز ھے مثلاً کسی کا دنیاوی مقام چھوٹا ھو تو اسکو سلام بھی چھوٹا کرتے ھیں اور اگر کسی کا بڑا ھواسکو بڑا سلام کرتے ھیں۔ یعنی غریب مسکین کو لوگ بس بے پرواھی سے السلام علیکم یا سر کے اشارے سے سلام ۔اور کوئی بڑا آدمی ھو تو ان کو بڑے اخلاق سے لمبے سلام ھوتے ھیں۔ گلے ملا جاتا ھے اور مصافحے اور بہت کچھ ھوتے ھیں ۔
یہ دنیا داری جو ھے ھم اپنے ماحول میں دیکھتے ھیں اس کے بارے میں مولا رضا علیہ السلام فرماتے ھیں کہ
سلام کرنے میں فرق
“اگر کوئی شخص کسی مسلمان، غریب اور فقیر کو اس طرح سلام کرے جیسے وہ امیر کو سلام نہیں کرتا ھے یا جیسا سلام امیر آدمی کو کرتا ھے ویسا سلام غریب کو نہ کرے، ھیں تو دونوں مسلمان لیکن یہ اپنے سلام کرنے میں فرق ڈال لے ۔ مثلاً فقیر اور غریب آدمی کو دیکھتا ھے تو ایک خاص سرد انداز سے کہتے ھیں کہ السلام علیکم لیکن اگر امیر کو دیکھے تو چہرے پر بڑی مسکراہٹ ھے اخلاص ھے اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اور پھر مصافحہ ھوتا ھے ۔اور گلے ملا جاتا ھے ۔تو یہ سلام میں فرق ھے مولا ع فرماتے ھیں
“جب کوئی اس طرح کا فرق ڈال لے جب یہ شخص قیامت کے دن خدا سے ملاقات کرے گا تو خدا کو اپنے اوپر غضبناک پائے گا”۔
اور خدا سے پوچھے گا کہ خدایا تو کیوں مجھ پر غضبناک ھے تو خدا کہے گا کہ تو سلام کرنے میں میرے نیک بندوں میں فرق ڈالتا تھا۔تجھے کس نے حق دیا ھے کہ دنیاوی معیار کی بنا پر میرے بندوں میں فرق ڈال دے ۔یہ چیز خدا کو غضبناک کرتی ھے ۔کیونکہ اللہ کے نزدیک تو فقیر اور امیر ھونا معیار نہیں وہاں تو تقوی معیار ھے۔جو متقی ھے اسکا معیار اللّٰہ کے نزدیک اتنا بڑا ھے ۔یہ ھمارے دنیاوی معیار ھیں کہ امیر آدمی کے ساتھ لوگ زیادہ گرم جوشی سے پیش آتے ھیں اور غریب کے ساتھ غفلت برتتے ھیں۔
تو امام رضا علیہ السلام فرماتے ھیں کہ
“ایک جیسا انداز رکھو اگر آپکی روٹین السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ ھے تو سب کو اس انداز سے سلام کرو اگر آپ کی روٹین السلام علیکم ھے تو سب کو اسی انداز سے کرو اگر آپکی روٹین مصافحہ کرنا ھے تو سب سے ملو۔ آپ کے اپنے رویے اور طرز عمل میں کوئی فرق نا آئے یہ وہ چیز ھے جو خدا کو خوشحال کرتی ھے” ۔
سلام کرنے سے ممانعت
کچھ لوگ ایسے ھیں کہ جنکو سلام نہیں کرنا چاھییے منع کیا گیا ھے۔یہ ایک اھم نکتہ ھے ھماری گفتگو کا اختتام بھی اسی پر ھوگا ۔امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل ھوئی ھے
“یہودیوں کو سلام نہ کرو اور نہ عیسائیوں کو
یہودی وہ قوم ھے جو دشمن اسلام اور ایمان ھے تاریخ میں دیکھیں تو یہ انبیاء کی قاتل تھی اور آج اسلام اور اھل ایمان کی قاتل ھے ۔کسی پر رحم نہیں کرتی یہ قوم ۔فلسطین میں ان کا کردار اور اقتصادی طور پر دیکھ لیں۔ پوری دنیا کو جکڑا ھے کسی پر رحم نہیں کررھے ۔
یہودی اور عیسائی اکٹھے ھیں۔اسرائیل کو فلسطین میں کھڑا کرنے والے عیسائی ممالک ھیں اور بھرپور حمایت کرتے ھیں انکی ۔چندہ دیتے ھیں انکو امداد دیتے ھیں کس لیے؟ تاکہ مسلمانوں کوقتل عام کریں ۔اور دنیا میں جتنی بھی سازشیں اسلام کے خلاف ھور ھی ھیں اس میں عیسائی اور یہودی اکٹھے ھیں کوئی فرق نہیں ان میں ۔مسلمان ممالک کااستحصال ھورھا ھے کلچر میں دیکھ لیں اقتصاد میں دیکھ لیں ،سیاست میں دیکھ لیں دنیا کو بے پناہ نقصان پہنچا رھے ہیں ۔اور پرانے زمانے میں بھی ایسا ھی تھا یہ مسلمانوں کے قاتل ھیں ۔البتہ اچھے برے لوگ موجود ھیں۔یہاں ھماری روایات میں وھی لوگ ھیں کہ جو حکومتیں ھیں جنکے ھاتھ میں طاقت ھے اور وہ اسلام کو نقصان دے رہے ہیں اور انکے خلاف ھیں۔تو ایسے لوگ اس طرح کا طرز تفکر رکھتے ھیں یا ایسی حکومتیں یاوہ جو ان حکومتوں کے موافق میں ھیں ۔ اس کا مطلب ھے ھمارے ملک میں بھی عیسائیت ھو لیکن ھوسکتا ھے وہ ان عیسائی ممالک کی موافق میں نہ ھوں، یا ھوسکتا ھے وہ اچھے لوگ ھوں۔انہیں اپنے دین کا بس اس انداز میں پتہ ھے کہ وہ عیسائی گھروں میں پیدا ھوئے۔ یہاں مراد اس نکتہء نظر سے ھے جو اس میں ان کی خدا اور اھل ایمان سے دشمنی واضح رکھے۔
تو خلاصہ یہ ھے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یہ دعائے سلامتی نا ھو ۔رحمت کی دعا ان پر نہ ھو ۔
اسی طرح فرماتے ھیں۔
“جو آتش پرست ھیں انکو بھی سلام نہ کرو”
جتنے بھی بت پرست ھیں ھندو کافر ۔کیونکہ ان لوگو نے خدا کے مدمقابل شریک کھڑا کیا ھے انہوں نے کہ جو خدا کو چھوڑ کر اور لوگو کی عبادت کرتے ھیں ۔ اللّٰہ سے ان کے لیے کیوں سلامتی کی دعا مانگیں۔
“یہ جو شراب خور ھیں ان پر پر سلام نہیں بھیجنا چاھییے
چونکہ یہ نحوستوں میں مبتلا ھوچکے ھیں شراب کی وجہ سے ۔
“یہ جو شطرنج اور ایسی کھیلیں جس میں شرط لگتی ھے”۔
جن میں سٹہ بازی ھے جس میں مال دوسرے کا کیھنچا جاتا ھے ایسی کھیلیں جو وقت کا ضیاع بھی ھو اور جس میں نہ لوگو کی اخلاقیات رھتی ھیں نہ لوگو کا مال رھتا ھے۔اگر کسی نے حلال طریقے سے مال کمایا تو وہ ضائع ھورھا ھے ۔ایسی کھیل کھیلنے والو پر بھی فرماتے ھیں کہ سلام نہ کیا جائے۔
اگرچہ بعض کہتے ھیں شطرنج مباح ھے اور ذھنی قوت کو بڑھاتی ھے تو وہ کبھی کبھی ہو تو صحیح ھوگا لیکن بغیر شرطوں کے ۔ فقہا ٹھیک ھے کچھ اجازت دیتے ھیں لیکن اگر روز یہی کام ھو چوکوں میں راستوں میں گھروں میں اور دنیا کے باقی کام چھوڑ دیں یا اس میں شرط بازی آجائے تو پھر تو یہ حرام ھے اور اس کے برے آثار زیادہ ھیں اور ھم دیکھ رھے ھیں گھر کے گھر تباہ ھوچکے ھیں اس طرح کے کھیلوں میں ۔اس کے بعد فرماتے ھیں ۔
“وہ جو اپنے آپ کو عورت کی مانند قرار دیتا ھے”
ھےمرد لیکن عورتوں جیسا بنا ھوا ھے ۔اپنے سٹائل کپڑوں اور چال چلن میں ۔کہتے ھیں کہ انکو سلام کے پابند نہیں کیونکہ یہ خلاف فطرت ھیں ۔خلاف تخلیق پروردگار چل رھا ھے ۔
“نہ ایسے شاعروں کو سلام کرو کہ جو اپنے شعروں سے پاکدامن عورتوں پر تہمتیں لگا رھا ھے”۔
شاعر شاعر میں بھی فرق ھے وہ جو حمد و ثنا کرتا ھے ۔محمد و آل محمد ع کی فضیلت بیان کرتا ھے یا معاشرے کے اندر اھم مسائل کی طرف توجہ دلاتے ھیں یہ تو عظمت والے شاعر ھیں ۔انکو تو ثواب ملتا ھے ۔لیکن کچھ شاعر ایسے ھیں جو عشقیہ شعر بالخصوص پاکدامن عورتوں کے نام یا انکی طرف اشارے کرتے ھیں اور لوگو کے اندر برائی پھیلاتے ھیں انکو بھی سلام نہیں کرنا۔پھر فرماتے ھیں ۔
“جو شخص نماز پڑھ رھا ھے اسکو بھی سلام نہ کرو”
کیونکہ جو شخص نماز کی حالت میں ھے وہ آپ کا جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ نماز میں اگر کوئی کلمہ نماز سے ھٹ کر کہے گا تو نماز باطل ھے۔نماز میں ھم صرف وھی کلمات پڑھتے ھیں جو نماز میں ھو۔ ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں کرسکتے حتیٰ کہ فقہاء کہتے ھیں کہ اگر آپ اس انداز سے کھانستے ھیں کہ اگر کوئی لفظ نکلے تو یہ بھی نماز کو باطل کرتا ھے ۔تو ایسے شخص کو سلام نہ کریں جو نماز کی حالت میں ھو ۔سلام کرنا مستحب اور جواب واجب ھے ۔نمازی پر جواب دینا واجب ھوجائے گا لیکن نماز میں کیا کرے گا ۔اگرچہ ھمارے فقہاء یہ کہتے ھیں کہ جس طرح سلام کیا گیا ھے نماز میں تو نمازی اسی طرح جواب دے۔ مثلاً اگر سلام کہا گیا ھے تو یہ بھی سلام کہے، اگر السلام علیکم کہا ھے تو یہ بھی السلام علیکم کہے۔ لیکن پھر بھی منع کیا گیا ھے کہ سلام کرنے والے کو کہ آپ سلام نہ کریں جب تک وہ نماز کی حالت میں ھے ۔
اسی طرح معصوم ع فرماتے ھیں کہ
“جو شخص سود خور ھو اسکو بھی سلام نہ کرو”
چونکہ یہ ناسور ھے گھروں کے گھر تباہ کررھا ھے ۔لوگو کا اقتصاد تباہ کررھا ھے ۔
“اور وہ جو واش روم (حمام )میں ھے اسکو بھی سلام نہ کرو”
البتہ یہاں سلام نہ کرنے کا حکم ایک خاص حالت میں ھے ۔یہاں جواب دینا اس کے لیے بھی مناسب نہیں ھے ۔وہاں کلام بھی اسی لیے کہتے ھیں کہ واش روم میں کلام نہ کریں ۔
اسی طرح فرماتے ھیں کہ
“وہ شخص جو اعلانیہ گناہ کرتا ھے اعلانیہ خدا کی نافرمانی کرتا ھو اسکو بھی سلام نہ کرو”
کیوں اسکی سلامتی کی دعا مانگیں کہ جو خدا کے غیض و غضب کو پکارتا ھے اللہ سے اسکی بھی سلامتی کی دعا نہ کرو۔لوگو کو گمراہ کررھا ھے ۔اور لوگو کو بھی اپنے اعلانیہ گناہ کی وجہ سے گناہ کے راستے پر لگا رھا ھے ۔تو اب آپ دیکھیں کہ یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ ھے سلام کا لیکن اسکے اندر کتنی حکمتیں ھیں ۔
اللّٰہ ھم سب کو توفیق دے کہ ھم حقیقی معنوں میں اھل ایمان اور اھل اسلام کو سلام کریں ۔اھل انتظار کو سلام کریں اور بالخصوص زمانہ کے امام ع کو سلام کریں۔کیونکہ جب امام کو سلام کریں گے تو امام بھی ھماری سلامتی کی دعا مانگیں گے تو وہ کتنی برکتیں رکھے گی اپنے اندر۔اور اللّٰہ ھم سب کو ایسی مھدوی زندگی گزارنے کی توفیق دے کہ جس کے اندر ھم اپنے اھل ایمان بہن بھائیوں کے لیے ھمیشہ سلامتی کی دعا مانگیں۔
التماس دعا نازش بنگش