بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
استاد محترم علامہ آغا علی اصغر سیفی صاحب
بمقام مدرسہ الامام المنتظر عج قم-ایران
قال امیر المومنین علیہ السلام
تعلموا العلم؛ فإن تعلمه حسنة، ومدارسته تسبيح، والبحث عنه جهاد، وتعليمه من لايعلمه صدقة
ترجمہ و تشریح:
اس روایت میں بیان کیا ہے کہ علم کو حاصل کریں کیونکہ حصول علم نیکی ہے ہم ہر روز جو علم حاصل کرتے ہیں جو کچھ سنتے اور پڑھتے ہیں سب کو ملائکہ بعنوان نیکی لکھتے ہیں اگرچہ دوسرے اعمال کو انجام نہ دے سکیں اور علم جو بھی ہو فرق نہیں کرتا اور علم کا مذاکرہ مباحثہ و دہرائی جہاد اور اس میں بحث کرنا تسبیح کے عنوان سے ثبت ہوتا ہے چاہے بحث اختلافی ہو
لیکن بحث برائے بحث نہ ہو علم نزاع و اختلاف اور ایک دوسرے کی توھین اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے نہ ہو۔ کیونکہ یہ شیطنت اور فتنہ ہے علم فقط وقت پاس کرنا نہ ہو بلکہ حق کو باطل پر غلبہ دینا مقصود ہو اور جب حق ثابت ہو جائے تو اس پر سکوت کیا جائے جیسے اگر کوئی تبلیغ پر جائے اور وہاں اس سے کوئی غلطی ہو جائے اور کوئی عام بندہ اس کو غلطی پر متوجہ کرے تو وہ ڈٹ جائے تو گناہکار ہوگا اور اس صورت میں قیامت کے دن جو بھی اس غلط مسئلہ پر عمل کرے گا تو اس غلطی کا گناہ بھی اس عالم کے سر ہوگا پس (لا ادری) کہنا نصف ایمان ہے جیسے میرے والد بزرگوار مرحوم حافظ سیف اللہ جعفری رح ایک جگہ مجلس پڑھنے گئے تو وہاں پر ایک مسئلہ غلط بیان کردیا تو بعد میں ایک مبتدی طالب علم نے تصحیح کروائی تو اس کو گلے لگایا اور اگلے دن اس کی مجلس میں تصحیح کی اسی طرح علماء حقہ میں استاد العلماء قبلہ گلاب شاہ صاحب، قبلہ یار شاہ صاحب، قبلہ محسن ملت علامہ صفدر حسین صاحب قبلہ باقر نقوی صاحب، قبلہ محبوب علی شاہ صاحب اسی پر عمل پیرا تھے درس کے دوران مجلس کے دوران اگر کوئی متوجہ کردے تو اس کو توہین نہ سمجھیں کیونکہ وہ شخص آپ کو عذاب سے بچا رہا ہے ہم پر اس کا احسان ہے یہ عرفیات ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
علم نور ہے لیکن یہ نور آداب سے نظر آتا ہے نہ الفاظ سے
اور نور شخصیت میں ہوتا ہے نہ کہ لفظوں میں۔
میں نے یہ سنا ہے کہ عالم بزرگوار باقر ھندی رح ایک بار زیارات کے لئے لکھنؤ سے نجف میں آئے تو وضو کے لئے جارہے تھے مقام درس سے گزرے تو ایک استاد درس پڑھا رہا تھا اور اس نے عبارت کے ترجمے و تحلیل میں غلطی کی تو انہوں نے وہیں پر اس کی تصحیح فرمادی تو اس استاد نے کہا کہ میری غلطی کی تصحیح فقط باقر ھندی کرسکتے ہیں کیونکہ وہ بہت بڑی علمی شخصیت تھے پس علم کسی جگہ کی میراث نہیں ہے
لیکن آج کل یہ تواضع والا کلچر ختم ہوگیا ہے جو عدم اخلاق کی نشانی ہے یہ نور اور علم نہیں ہے بلکہ شیطنت ہے اگر جواب معلوم نہ ہو تو کہہ دیں معلوم نہیں ہے ہماری ذمہ داری صحیح جواب دینا ہے نہ کہ غلط جواب دینا اور اگر توہین بھی ہو تو مسئلہ نہیں ہے کیونکہ انسان گناہ کار نہیں ہوگا مگر غلط جواب دینے میں دنیا میں ذلت اور دوسروں کا گناہ اپنے ذمہ ہو جائے گا ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے حسرت میں وہ عالم ہوگا کہ جسے دنیا بھی نہ ملی اور آخرت بھی نہ ملی۔
ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ جب میں آیت اللہ حسینی خراسانی کے پاس رسائل پڑھتا تو اس وقت آیت اللہ احدی مہدی خراسانی بھی رسائل کے مدرس تھے تو ان کے شاگرد کے ساتھ رسائل کا مباحثہ کرتا تھا تاکہ دو استادوں سے استفادہ ہو جائے تو اس شاگرد نے کہا کہ آج درس کے دوران عجیب واقعہ پیش آیا ہے وہ یہ کہ آج استاد کے درس پر ایک شاگرد نے اشکال وارد کیا اور استاد محترم نے ان کی مکمل بات سننے کے بعد کہا کہ آپ کی بات زیادہ مناسب ہے لہذا آپ میرے استاد موسوی تھرانی کے درس میں شرکت فرمائیں کیونکہ آپ کا درک اچھا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر آپ کا ٹائم ضائع ہو رہا ہے لیکن وہ احتراما نہیں گیا اور اسی استاد کے درس میں شریک رہا۔ یہاں استاد کا شاگرد سے تواضع معلوم ہوتا ہے ۔
پاک و ھند میں یہ کلچر نہیں ہے، جسکی وجہ سے دینی مراکز و مدراس کا زوال ہے
اگر انسان الہی ہو تو یہ خداوند متعال کی جانب سے مومن پر لطف ہے کہ اس کی شخصیت میں ہیبت ڈال دیتا ہے اور انسان ایسی شخصیت کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا پس یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو خراب نہیں کرتی بلکہ مزید اس میں نکھار اجاتا ہے اور عالم کو تبلیغ کے دوران عرفیات کا خیال رکھنا چاہیے
اس کے بعد امام فرماتے ہیں کہ جاہل کو تعلیم دینا صدقہ ہے اور علم کی زکات وہی نشر علم یعنی علم کو پھیلانا ہے اس سے وظیفہ تبلیغ کی اہمیت نظر آتی ہے
عرفیات کے حوالے سے کچھ نکات پہلے بھی بیان کئے تھے مزید کچھ عرض کیے جاتے ہیں:
پہلا نکتہ یہ تھا کہ عالم دین تبلیغ کے دوران ہر جگہ نہ جائے اور ہر جگہ نہ بیٹھے بلکہ صاحب تقوی کے پاس جائے اور بیٹھنے کا انداز بھی عالمانہ ہونا چاہیے اگر سب اوپر بیٹھیں تو وہ بھی اوپر بیٹھے اور اگر سب نیچے بیٹھیں تو وہ بھی نیچے بیٹھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی سیرت تھی اور جب کوئی باہر سے بدو عرب آتا تھا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان نہیں پاتا تھا اور پوچھتا تھا کہ آپ میں سے رسول کون ہے؟ عالم اس طرح بیٹھے کہ فخر کا اظہار نہ ہو دینی قیود کے ساتھ بیٹھے اور قہقہہ لگانے سے گریز کرے فقط مسکرائے کیونکہ یہ شان علماء نہیں ہے اور تبلیغ میں فضول نکات بیان کرنے سے بہتر ہے کہ نہج البلاغہ، قرآن کی آیات اور صحیفہ سجادیہ کو بیان کرے اور اس کو یاد کرنے پر زور دے اور اشعار حق کو پیش کیا جائے امیر المومنین علیہ السلام کے اشعار کو پیش کیا جائے بعض چیزیں حرام نہیں ہیں لیکن شان کے خلاف ہیں۔ کچھ چیزیں لوگ علماء سے توقع نہیں کرتے جیسے استاد العلماء قبلہ گلاب شاہ صاحب نے مجبوری کی حالت میں ہوٹل میں کھانا کھایا تو کسی مومن نے دیکھ لیا اور سب مخالف ہوگئے، اسی طرح عالم کا لباس سادہ اور صاف ستھرا اور منظم ہو، گندا اور بدبو دار نہ ہو عطر لگایا ہوا ہو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ عطر استعمال کیا کرتے تھے چونکہ ایک اجتماعی شخصیت تھے تاکہ لوگ بدبو کی وجہ سے دور نہ ہوں لباس بھی وہ جو عرف کے مطابق ہو۔
عالم کا زیادہ پڑھا لکھا ہونا مہم نہیں ہے بلکہ اس کی شخصیت اچھی ہونی چاہیے وہ لوگوں کے دلوں میں جذب ہوجائے گا اگر عرفیات کا خیال رکھتا ہو تو لوگ اس کی طرف خود مائل ہوجائیں گے لباس میں جبہ اور شلوار قمیص پہنے کیونکہ پاکستانی معاشرہ میں یہی رائج ہے پینٹ شرٹ نہ پہنے اور جوتا بھی سیاہ نہ ہو بلکہ کسی اور رنگ مثلا براؤن ہو اور فیشن والا نہ ہو بلکہ سادہ ہو اگر عالم دین ان چیزوں کی رعایت کرنا شروع کردے تو وہ دن دور نہیں کہ علماء کا احترام مزید بڑھ جائے اور لوگوں کے دل بھی اہل علم کی طرف کھنچے جائیں گے
جاری ہے۔
مدرسہ الامام المنتظر عج-قم
عالمی مرکز مہدویت قم