درسِ امامت:10 (حصہ دوم)
امام علیؑ کی خلافتِ بلافصل پر علامہ حلیؒ کے دلائل
استادِ محترم علامہ علی اصغر سیفی صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید:امامت کے موضوع پر اہلِ سنت میں بھی بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں امام علیؑ کی افضیلت پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ وہ انہیں صحابہ میں افضل بھی مانتے ہیں اور خلیفہ بھی تسلیم کرتے ہیں، مگر “بلافصل” نہیں مانتے۔ ان کے مطابق خلیفہ وہ ہے جسے لوگوں نے منتخب کیا ہو۔
علامہ حلیؒ نے کئی صدیوں قبل اس نظریے کا رد پیش کیا اور امام علیؑ کی خلافتِ بلافصل کے حق میں بہت سے دلائل دئیے کہ ان میں سے کچھ دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی دلیل: امام کا معصوم اور منصوص ہونا
ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ امام کے لیے عصمت اور نص (واضح الہی نامزدگی) ضروری ہے۔ اب ہم یہ واضح کریں گے کہ یہ صفات امام علیؑ کے ساتھ خاص ہیں۔اسلامی امت دو گروہوں میں تقسیم ہوئی:
- 1. اہلِ سنت اور زیدیہ → جو عصمت اور نص کو امام کے لیے شرط نہیں مانتے۔
- 2. شیعہ امامیہ اثنا عشریہ → جو عصمت اور نص کو امام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
اہلِ سنت خود تسلیم کرتے ہیں کہ خلفائے راشدین نہ معصوم تھے اور نہ ہی منصوص۔ جب یہ اصول ثابت ہو گیا کہ امام کے لیے عصمت اور نص ضروری ہے، تو لازمی طور پر امام علیؑ ہی خلافت کے اصل حقدار ہیں، کیونکہ ان کے علاوہ کسی اور کے پاس یہ شرائط موجود نہیں۔علامہ حلیؒ فرماتے ہیں:
“واحد امام، جس کےمعصوم اور منصوص ہونے پر قطعی دلائل موجود ہیں، وہ علیؑ ہیں۔”
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ “ہم نے عصمت کو مان لیا، مگر نص کے لیے دلیل چاہیے،” تو علامہ حلیؒ دوسری دلیل میں نصوص پر بحث کرتے ہیں۔
دوسری دلیل: امام علیؑ پر واضح نصوص
شیعہ کے نزدیک نصوص تواتر کی حد تک موجود ہیں، یعنی اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا انکار ممکن نہیں۔
1– آیتِ عشیرہ:
وَاَنْذِرْ عَشِيْـرَتَكَ الْاَقْـرَبِيْـنَ (الشعراء: 214)
“اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب سے) ڈرائیے۔”
یہاں تاریخ اور سیرت کی کتب ہماری مدد کرتی ہیں۔جب رسول اللہﷺ نے قریبی رشتہ داروں کو بلایا، کھانے کا اہتمام کیا اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت رکھی، تو آپؐ نے فرمایا:
“تم میں سے کون ہے جو میرا مددگار اور وزیر بنے، تاکہ میں اسے اپنے بعد خلیفہ اور وصی مقرر کروں؟”
اس موقع پر صرف علیؑ کھڑے ہوئے اور کہا:
“یا رسول اللہ! میں آپؐ کا مددگار ہوں۔”
رسول اللہﷺ نے اسی وقت فرمایا:
“بےشک یہی میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے، پس تم سب اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ ” (تاریخ طبری، ج ۲، ص ۳۱۹-۳۲۱)
2– حدیثِ ولایت:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ”
“جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علیؑ مولا ہیں۔” (فضائل الصحابہ، امام نسائی، ص ۱۵)
یہ اعلان غدیر خم میں ہزاروں صحابہ کے مجمع میں کیا گیا، جہاں رسول اللہﷺ نے امام علیؑ کا ہاتھ بلند کر کے ان کی ولایت کا اعلان کیا۔
3– حدیثِ منزلت:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَیٰ، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی”
“اے علیؑ! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، بس میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”(صحیح بخاری، ج ۵، ص ۲۴۷)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ جیسے ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے خلیفہ تھے، اسی طرح علیؑ بھی پیغمبرﷺ کے خلیفہ ہیں۔
4– حدیثِ اخوت:
جب مسلمانوں کے درمیان اخوت (بھائی چارہ) قائم کی گئی، تو علیؑ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ “میرا بھائی کون ہوگا؟”
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“یا علیؑ! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم میرے بھائی اور میرے بعد میرے خلیفہ ہو؟”
یہ جملہ رسول اللہﷺ نے واضح طور پر خلافت بلافصل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
نتیجہ:
علامہ حلیؒ فرماتے ہیں کہ اگر ہم ان تمام نصوص کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں، تو یہ تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔
نبیﷺ نے ایک بار نہیں بلکہ متعدد مواقع پر امام علیؑ کی خلافت کا اعلان کیا:
شب ہجرت میں اپنا بستر سونپ کر،غزوات میں علمبردار بنا کر،حدیثِ منزلت میں انہیں اپنا نائب قرار دے کر،مباہلہ کے موقع پر انہیں “نفسِ رسول” کہہ کراور آخر میں حجۃ الوداع کے بعد غدیرِ خم میں کھلے عام خلافت کا اعلان کر کے۔یہ تمام نصوص اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ امام علیؑ رسول اللہﷺ کے بلا فصل خلیفہ تھے۔
والسلام علیکم
عالمی مرکز مهدویت قم