زیارت آل یٰسین:
درس 4
داعی الی اللہ کون ہے؟
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
﷽
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ
زیارت آل یاسین کے اندر دوسرا سلام ہے
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ
یعنی سلام ہو آپ پر اے اللہ کی جانب دعوت دینے والے۔ اللہ کی جانب دعوت دینا یعنی اسلام کی جانب دعوت دینا۔ اور خدا کی اطاعت کی جانب دعوت دینا۔
اب یہاں ایک سوال ہے؟
کسے یہ حق ہے کہ وہ خدا کے دین کی جانب دعوت دے؟
ہمارے ہاں مکتب حقہ ، مکتب اہلبیتؑ میں محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ نے فرمایا کہ خدا کہ دین کی جانب وہی دعوت دیتے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ خود اس منصب پر فائز کرتا ہے۔ یعنی پیغمبرؐﷺ اور ان کے بعد اللہ کی جانب سے منصوب شدہ اس کے اوصیاءؑ ہیں اور وہ دین حق کی جانب دعوت دیں گے۔ جیسا کہ ہمارے آئمہؑ ہیں اور موجودہ دور میں امام زمانؑ عج حقیقت میں داعی اللہ ہیں۔ یعنی اللہ، اس کے دین اور اس کی اطاعت کی جانب دعوت دینے والے ہیں۔
اب امام چونکہ خود پردہ غیبت میں ہیں تو ان کی نیابت میں فقہاء اورمجتہدین کہ جن کے بارے میں امام ؑ عج نے اپنے آخری خط میں انہیں حجت قرار دیا ہے، یہ ہستیاں خدا کے دین کی جانب دعوت دیتی ہیں۔
پس، ہر شخص دین خدا کی جانب دعوت نہیں دے سکتا۔ دین خدا کی وہ دعوت دے جو دین خدا کا عالم ہو اور دین خدا کو سمجھتا ہو۔
اس طرح تو ممکن ہے کوئی بھی شخص اپنے ذہن میں جو کچھ بھی دین خدا کے بارے میں تصور رکھتا ہے اس کو سامنے رکھ کر دعوت دینا شروع کر دے تو وہ الٹا لوگوں کو دین خدا کے خلاف کر دے گا۔ آج یہ جو ہم دین میں مختلف مکتب اور فرقے دیکھ رہے ہیں ۔
یہ اسی وجہ سے ہے کہ ہر شخص خود اہل پانے لگا کہ اپنی فہم کے مطابق دین کی طرف دعوت دے اور نتیجہ یہ تفرقہ اور اختلاف نکلا
یہ تفرقہ اور اختلاف ہے حتیٰ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین تو ایک تھا لیکن ! یہ جو مختلف فرقے بن گئے اور ہر کوئی خود کو صحیح اسلام سمجھتا ہے۔
تو پھر ، صحیح اسلام کہاں ہے؟ اور پھر اللہ نے کیوں نہیں بتایا کہ کس کی دعوت پر لبیک کہیں۔
جواب :
مکتب اہلبیتؑ اس کا جواب دیتا ہے کہ اللہ نے ایک ہستی ہر دور میں معین کی ہے جو دین خدا کی طرف دعوت دیتی ہے جو داعی اللہ ہے۔ اسی کی بات اور بتائے ہوئے دین پر عمل کریں پھر صراط مستقیم پر ہیں اور ہم پھر دین حق پر ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص اٹھے، اور کہے میں آپ کو دین حق کی جانب دعوت دے رہا ہوں تو اس کی بات پر عمل کرنے جائز نہیں۔
سورہ الاحزاب آیہ مبارکہ 45 اور 46 میں پروردگار ہمارے پیغمبرؐﷺ کو سب سے پہلے فرما رہا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْـرًا (45)
اے نبی ہم نے آپ کو بلاشبہ گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
وَدَاعِيًا اِلَى اللّـٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْـرًا (46)
اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چراغ روشن بنایا ہے۔
تو یہاں اللہ تعالیٰ نے رسمی طور پر اللہ کی جانب دعوت دینے والا عہدہ سب سے پہلے رسولؐ خداﷺ کو عطا کیا۔
لیکن! اب سوال تو یہ ہے کہ اس پر تو سارے مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ اسلام ﷺ داعی اللہ ہیں۔ لیکن! اب ان کے بعد کون داعی اللہ ہیں؟
مکتب تشیع سے ہٹ کر اگر ہم دیگر مکاتب کو دیکھیں جیسے اہلسنت، اہل حدیث ، دیوبندی، واہابی، بریلوی وغیرہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب مسلمانوں کا حق ہے اور کوئی بھی شخص جو دین کی سوجھ بوجھ رکھتا ہو وہ خود یا باقی فقہا کی مدد سے جو دین کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں تو وہ رہبر اسلام بن سکتا ہے۔ اور لوگوں کو دین کی دعوت دے سکتا ہے۔ اور اس کی دعوت پر لبیک کہنا واجب ہے اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پوری تاریخ کے اندر کتنے ہی لوگوں نے جھوٹی خلافتوں اور امامتوں کے دعوے کیے اور امت کو کتنے ہی مکتبوں، مذہبوں اور فرقوں میں تقسیم کیا ہے۔
لیکن !
سوال یہ ہے کہ آیا اللہ نے کوئی ایسا انتظام نہیں کیا تھا؟
یقیناً کیا تھا۔
یہی سوال ہمارے معصومینؑ سے بھی ہوا تھا اور انہوں نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ ہر مسلمان کو حق نہیں ہے بلکہ یہ پیغمبرؐﷺ اور ان کے جانشین کہ جو بعنوان امامؑ بتائے گئے ہیں یہ ان کا حق ہے۔
اصول کافی میں ایک مفصل حدیث ہے کہ جس میں ابو عامر زبیری امام صادقؑ سے پوچھتا ہے کہ:
آقا : مجھے بتائیے کہ اللہ اور اس کے جہاد کی جانب دعوت دینا یہ مخصوص افراد کا کام ہے اور باقیوں کو یہ حق نہیں ہے؟ یا جو بھی ہو اور اللہ کی توحید اور اس کے پیغمبرؐﷺ کی نبوت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے مباح ہے کہ وہ یہ اجازت رکھتا ہے کہ لوگوں کو اللہ کی اطاعت کی جانب اور اس کی راہ میں جہاد کی دعوت کرے؟
مولاؑ امام صادقؑ نے فرمایا:
یہ فقط اللہ کی جانب سے مخصوص گروہ کو حق ہے اور ہر کسی پر یہ جائز نہیں ہے۔ اور کوئی یہ کام نہ کرے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر اس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔
یہ مخصوص گروہ ہے۔
اب ابو عامر زبیری اس حوالے سے مولاؑ سے مذید وضاحت چاہتا کہ کہ مجھے بتائیں کہ وہ کون لوگ ہیں؟
معصومؑ نےفرمایا کہ:
آپ کے سامنے قرآن مجید ہے اور آپ دیکھیں کہ اللہ نے یہ حق کس کس کو دیا ہے۔ سب سے پہلے تو اللہ نے یہ حق اپنے آپ کو دیا ہے۔
سورہ یونس 25
پروردگار فرما رہا ہے کہ:
وَاللّـٰهُ يَدْعُوٓا اِلٰى دَارِ السَّلَامِۖ وَيَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (25)
اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے، اور جسے چاہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
دار السلام وہی جنت والی راہ، دین حق ہے۔
پھر یہ حق اللہ نے ہمارے پیغمبؐرﷺ کو دیا ہے۔
سورہ الاحزاب 45 اور 46 (درج بالا)
سورہ النحل 125
پروردگار فرما رہا ہے کہ
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ
اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلا، اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر،
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ نے یہ حق قرآن مجید کو بھی دیا
پروردگار سورہ الاسراء میں آیہ 9 میں فرما رہا ہے کہ:
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَـهْدِىْ لِلَّتِىْ هِىَ
بے شک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے
اس کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک گروہ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
سورہ آل عمران:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْـرِ
کہ تم میں سے ایک ایسی امت ہونی چاہیے کہ جو لوگوں کو بھلائی کی جانب دعوت دے۔
(یہ تمام آیات حدیث کا حصہ ہیں۔)
معصومؐ فرماتے ہیں کہ :
یہ گروہ کون ہے؟
یہ گروہ حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کی ذریت ہے کہ جو حرم الہیٰ کے ساکن ہیں اور جہنوں نے اللہ کے سوا کسی اور معبود کی دعوت نہیں دی اور یہ وہی ہیں کہ جنہوں نے ہمیشہ اللہ کی جانب ہی دعوت دی اور جن پر واجب تھا کہ خدا کی جانب دعوت دیں کہ جس طرح ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ نے دعوت دی اور یہ وہ ہیں کہ جن سے اللہ نے ناپاکی کو دور کیا۔ اور انہیں پاک و پاکیزہ کیا۔ اور یہ وہ ہیں کہ جن کا ذکر سورہ الحج کی آیت 39 اور 40 میں ہوا۔
اُذِنَ لِلَّـذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّـهُـمْ ظُلِمُوْا ۚ وَاِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى نَصْرِهِـمْ لَقَدِيْرٌ (39)
جن سے کافر لڑتے ہیں انہیں بھی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔
اَلَّـذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِـمْ بِغَيْـرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّـٰهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْـعُ اللّـٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُـمْ بِبَعْضٍ لَّـهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَـعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيْـهَا اسْمُ اللّـٰهِ كَثِيْـرًا ۗ وَلَيَنْصُرَنَّ اللّـٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٝ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيْزٌ (40)
وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے صرف یہ کہنے پر کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو تکیئے اور مدرسے اورعبادت خانے اور مسجدیں ڈھا دی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے، اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا، بے شک اللہ زبردست غالب ہے۔
وَاِنَّ اللّـٰهَ عَلٰى نَصْرِهِـمْ لَقَدِيْرٌ
یہ کون ہیں؟
یہ وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐﷺ کے سچے پیروکار ہیں اور جو کچھ بھی دنیا میں کفار، مشرکین اور ظالمین کے پاس ہے وہ ان کا حق تھا کہ جسے زبردستی لیا گیا ہے۔ ان ظالمین کو رہبری کا حق نہیں حق ان معصومینؑ کا ہے اور اللہ ان کو ان کا حق واپس لوٹائے گا۔
انشاءاللہ
معصومؑ فرماتے ہیں کہ:
کوئی فرد کہ جس کا ایمان کامل نہ ہو اور وہ اللہ کے دین کی جانب دعوت دے تو وہ ظالم ہے۔ اس سے لڑنا چاہیے تاکہ وہ توبہ کرے۔ اس طرح کے لوگوں کو حق نہیں کہ وہ اللہ کی جانب دعوت دیں اور نہ ہی ان کو جہاد کی اجازت ہے۔ کیونکہ یہ مظلوم مومن نہیں کہ جن کا یہ حق ہے۔
وہ اور لوگ ہیں۔ وہ اوصیاءؑ پیغمبرؐ ﷺ ہیں کہ جن کو قرآن اللہ کے دین کی طرف دعوت اور جہاد کی جانب دعوت دینے کا حکم دے رہا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
دعا ہے کہ پروردگار ہمیں توفیق دے اور ہمارے دلوں میں حقیقی داعی اللہ کی معرفت ڈالے اور ہم ان کی اطاعت کریں اور صراط مستقیم تک پہنچیں انشاءاللہ۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران۔