تازہ ترین پوسٹس

زیارت آل یاسین_ امام مہدیؑ عج بعنوان حجت الہی، حجت سے مراد؟

زیارت آل یاسین
درس 11
امام مہدیؑ عج بعنوان حجت الہی،
حجت سے مراد؟

 

استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب

سلسلہ درس آل یاسین ہے اور ہم یہاں پہنچے ہیں کہ:
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا حُجَّۃَ ﷲِ وَدَلِیْلَ اِرَادَتِہٖ
آپؑ پر سلام ہو اے خدا کی حجت اور اس کے ارادے کے مظہر

حجت خدا سے مراد:
حجت خدا سے مراد اللہ تعالیٰ کی جانب سے واضح دلیل اور برھان ہے۔
جس کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں پر حجت تمام کرتا ہے۔ یعنی کل اللہ سے اس کے بندے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تیری جانب سے کوئی راہنما نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر دور میں نبیؑ اور امامؑ کی شکل میں ایک راہنما بھیجتا ہے اور اس بِنا پر روز قیامت ان سے حساب لے گا۔

لفظ ‘ حجت ‘ قرآن مجید میں کئی مقام پر آیا ہے جیسے سورہ البقرہ میں آیت نمبر 150

لِئَلَّا يَكُـوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ ۖ
لوگ آپؑ پر کوئی دلیل یا حجت نہ رکھیں۔

سورہ الانعام 149
قُلْ فَلِلّـٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ
اللہ کی جانب سے حجت البالغہ ہے۔ یعنی واضح اور روشن حجت ہے۔

سورہ الاسراء 15

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّـٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
ہم کسی کو سزا نہیں دیتے جب تک رسولؐ کو نہیں بھیج لیتے

یعنی اللہ کسی قوم کو عذاب کرتا ہے تو پہلے پیغمبرؐ بھیجتا ہے اور وہ پیغمبرؐ دلیل ہوتا ہے ، حجت اور راہنما ہوتا ہے۔ وہ آئے اور اپنا کام کرے اور اگر لوگ سن کر عمل نہ کریں تو پھر اللہ عذاب کرے گا۔ تو یہ پیغمبرؐوں کا آنا یا آئمہؑ کا آنا یہ وہی حجت خدا ہے۔

 

کتاب شریف الکافی
مرحوم کلینیؒ

ہماری عظیم کتاب شریف الکافی میں مرحوم کلینیؒ نے اسی عنوان سے ایک باب تشکیل دیا کہ جس کا نام ہی باب حجت ہے۔ جس میں پھر کئی باب ہیں اور اس کے اندر پھر کافی احادیث ہیں۔ اور ان میں سے کچھ احادیث بیان کی جاتی ہیں:

امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:
لوگوں پر حجت خدا پیغمبرؐ اسلامﷺ کی ذات ہے اور لوگوں اور اللہ کے درمیان حجت عقل ہے۔
یعنی انسان اپنی عقل سے اپنے پروردگار کو پہچانے اور پھر جب اللہ کو پہچان لیا تو پھر اللہ کی طرف سے پیغمبرؐ آئے جو اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچائے۔

اسی طرح فرمایا کہ:

زمین اس وقت تک پائیدار ہے کہ جب تک اس کے اندر الہیٰ حجت ہے۔ یعنی لوگوں کو حلال اور حرام کی تعلیم دے رہی ہے اور لوگوں کو اللہ کی جانب دعوت دے رہی ہے۔

اسی طرح اصول کافی میں امام صادقؑ سے ایک زندیق نے سوال کیا کہ:

پیغمبرؑوں اور الہیٰ حجتوں کا وجود کیسے ثابت ہوگا

یعنی ہمارے پاس کیا دلیل ہے کہ یہ پیغمبرؐ سچے ہیں اور خدا کی جانب سے آئے ہیں

امام صادقؑ نے فرمایا کہ:
جب ہم یہ ثابت کریں گے کہ ہمارا ایک خالق ہے کہ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور وہ ہم سے اور اپنی تمام مخلوق سے بالا ہے اور یہ خالق حکیم بھی ہے اور بہت بلند مرتبہ ہے بس یہ شائستہ نہیں ہے کہ مخلوقات اسے دیکھیں ، اسے لمس کریں ، یا اس سے براہ راست بات کریں یا وہ ان سے براہ راست بات کرے۔

یعنی! مطلب یہ ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ اس رب العزت کی ذات اتنی بلند ہے کہ مخلوقات جو اتنی پست ہیں ان کا اس سے براہ راست رابطہ ہو۔ تو پس! نہ وہ لوگوں کے ساتھ براہ راست گفتگو کر سکتا ہے اور نہ لوگ اس سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔ تو پھر اِس حالت میں ضروری تھا کہ اللہ کی جانب سے کچھ ہستیاں بھیجی جاتیں جو اللہ کا کلام اور اس کا مقصود لوگوں کو بیان کرتیں اور تشریح کرتے اور لوگوں کو ان چیزوں کی جانب کہ جس میں ان کا فائدہ ، مصلحت اور ان کی بقا ہے دعوت کرتے اور جس میں وہ ہلاکت سے بچ جائیں اس میں وہ ان کی راہنمائی کرتے بس اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ جو حکیم اور عالم ہے اس کی جانب سے ایسے لوگ بھیجے گئے کہ جو اللہ کی جانب سے احکامات بیان کریں اور جن چیزوں سے اللہ نے منع کیا اس سے منع کریں اور یہ وہی ہستیاں ہیں کہ جو عام لوگوں کو خدا کی معرفت بتاتے ہیں اور یہ انبیاءؑ ہیں کہ جو اللہ کے منتخب شدہ ہیں کہ جن کو اللہ اپنے بندوں میں سے ہی منتخب کرتا ہے۔

یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کو اللہ نے بندوں میں سے ہی مبعوث کیا کہ جن کی تربیت پروردگار نے کی کیونکہ وہ اپنے خلقت میں اور اپنے جسم میں عام لوگوں جیسے ہیں لیکن ! ان کے پاس خدائے حکیم کی جانب سے علم و حکمت ہے اور ان کو اللہ کی تائید اور نصرت حاصل ہے اور ہر دور میں یہ پیغمبرؐ اور رسولؑ اللہ کی جانب سے آئے اور اس کی جانب سے واضح دلائل ، برھان اور معجزات لے کر آئے تاکہ ان کا وجود ثابت ہو۔ اور زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہ ہو۔ اور حجت وہی ہوتی ہے کہ جس کے پاس اپنی صداقت پر دلیل اور نشانی ہو کہ یہ خدا کی جانب سے ہے اور وہ نشانی ممکن ہے کہ معجزہ ہو۔

اسی طرح اصول کافی میں ایک روایت ہے ،امام رضاؑ سے ایک شخص نے پوچھا کہ :

آیا زمین حجت خدا کے بغیر رہ سکتی ہے
تو مولاؑ نے فرمایا کہ نہیں۔
اس نے پھر پوچھا کہ ہمارے پاس امام صادقؑ کی ایک روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ زمین امامؑ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ہاں! اس وقت اللہ زمین کو حجت خدا کے بغیر رکھے گا جب خدا زمین والوں پر یا اپنے بندوں پر غضبناک ہوگا۔

امام ؑ نے فرمایا:
اسطرح بات نہیں ہے۔
بلکہ بات یہ ہے کہ: اگر زمین امام کے بغیر ہو تو وہ اپنے اوپر رہنے والوں کو خود ہی اپنے اندر نگل لے۔ یعنی سب کو ہلاک کر دے۔

اس کے بعد امام محمد باقرؑ کی کی روایت اسی کتاب شریف میں ہے کہ فرماتے ہیں:

خدا کی قسم اللہ تعالیٰ نے جب سے حضرت آدمؑ کی روح کو قبض کیا اس وقت تک زمین کو کبھی بھی بغیر امامؑ کے نہیں چھوڑا اور یہ امام وہی ہیں جو لوگوں کو اللہ کی جانب راہنمائی کرتے ہیں اور یہ وہی حجت خدا ہیں۔ اور اللہ کے بندوں پر حجت الہیٰ ہیں اور زمین کبھی بھی حجت الہیٰ کے بغیر باقی نہیں رہے گی۔

جاری ہے۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ زمانے کی حجت کی معرفت حاصل کریں اور ہم حجت خدا سے راہنمائی اور فیض لیں تاکہ اپنے رب کو حقیقی معنوں میں پہچانے اور اپنے دین پر عمل پیرا ہوں۔

آمین!
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *